وقت کی اہمیت
محترمثناء الله شانگلوی
الله تعالیٰ کی ان گنت اور بے شمار نعمتوں میں سے وقت یقینا ایک بہت بڑی نعمت ہے ، یہ نعمت چھوٹے، بڑے، مرد، عورت، کافر اور مسلمان سب کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہر کوئی اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا، بلکہ اس نعمت سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے دلوں میں وقت کی قدر ہو ، جن کی کوشش کا یہ عالم ہو کہ جب لوگ کھیل کو دمیں لگے ہوئے ہوں تو وہ اپنے کام میں مشغول ہوں ، جب لوگ موسم سرما کی لمبی راتوں میں گھوڑے بیچ کر گہری نیند کے مزے لوٹ رہے ہوں تو وہ اپنے کام میں مگن ترقی کے مراحل طے کر رہے ہوں، وقت وہ پونجی ہے جس کے قدر دان ہر میدان کے فاتح بن جاتے ہیں او راس کو چند کوڑیوں کے بدلے لٹانے والے ہمیشہ افسوس وحسرت کا منھ دیکھتے ہیں ، الله تعالیٰ قرآن میں ایسے افراد کی بے چارگی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں” اگر ہمارے نصیب میں لوٹنا ہوتا تو ہم ایمان والوں میں شامل ہو جاتے۔ “ (شعراء:102)
لیکن افسوس صد افسوس! کہ اس قیمتی متاع کو ضائع کرنے کے واسطے آج کل بہانے تلاش کیے جاتے ہیں ، مختلف قسم کے رسم ورواج، کھیل کود کے طور وطریق اور نت نئے پیکیچز نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، اس سے بھی بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ وقت کا ضیاع ہمارے معاشرے میں کوئی برائی ہی نہیں سمجھی جاتی ۔ اس بگڑی ہوئی صورت حال کود یکھ کر عربی شاعر کا یہ کلام زبان پر آتا ہے #
والوقت انفس ما عنیت بحفظہ
وأراہ أسھل ما علیک یضیع
ترجمہ:” وقت بہت قیمتی چیز ہے، جس کی حفاظت تم پر ضروری ہے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ یہی چیز تمہارے پاس بڑ ی آسانی سے ضائع ہو رہی ہے ۔“
آج مسلم معاشرے میں باصلاحیت افراد کی کمی شدت سے محسوس کی جارہیہے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ مسلم سوسائٹی میں باصلاحیت افراد ہیں ہی نہیں، بلکہ باصلاحیت افراد کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا ماحول نہیں ملتا، جس کے نتیجے میں وہ ضیاع کے شکار ہو جاتے ہیں، ایسے افراد کو مخاطب کرکے شاعر کہتا ہے #
برخود نظر کشا زتہی دامنی مرنج
در سینہٴ تو ماہِ تمامے نہادہ اند
ترجمہ:” اپنے اوپر نظر رکھ، اپنے خالی دامن سے افسردہ نہ ہو ! تمہارے سینے میں چودھویں کا چاند رکھا ہوا ہے۔“
اب سوال یہ ہے کہ جب یہ بیماری ایک وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے تو کیا اس سے چھٹکارا پانے کی کوئی امید ہے ؟ یا یہ ناسور ہمیں یونہی موت کے گھاٹ اتار دے گا؟
جی ہاں! عربی کا مشہو رمقولہ ہے ” لکل داء دواء“ ( ہر بیماری کے لیے دوا ہے ) اس بیماری کے لیے بھی علاج ہے، وہ یہ کہ ہم قابل قدر ہسیتوں کے حالات زندگی کا بغور مطالعہ کریں ، کیوں کہ ان حضرات نے اپنی زندگی سے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا، قاضی ابراہیم بن جراح کوفی فرماتے ہیں کہ ”امام ابویوسف رحمة الله علیہ بیمار تھے، میں ان کی عیادت کے لیے آیا تو میں نے ان کو بے ہوش پایا، پھر جب انہیں ہوش آیا تو مجھ سے فرمانے لگے ” تم کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟“ میں نے کہا ” اس حالت میں کیسے پوچھوں؟“ فرمایا” کوئی بات نہیں، پڑھیں گے شایداس سے کوئی نجات پائے “۔
پھر فرمایا:” اے ابراہیم! کنکریاں مارنے میں بہتر طریقہ کیا ہے ؟ پیدل مارنا بہتر ہے ؟ یا سوار ہو کر ؟“ میں نے کہا ” سوار ہو کر مارنا بہتر ہے“۔ فرمایا ”غلط کہا“ ۔میں نے کہا ” پیدل مارنا بہتر ہے“ فرمایا”۔ غلط کہا“۔ میں نے کہا ” اس مسئلے کے بارے میں بتائیے ( الله تعالیٰ آپ سے راضی ہو)۔“
فرمایا” جس ستون کے پاس دعا کے لیے ٹھہرنا پڑے تو بہتر یہ ہے کہ پیدل رمی کی جائے اور جس کے پاس دعا کے لیے نہیں ٹھہرا جاتا تو اس میں بہتر یہ ہے کہ سواری سے کیا جائے۔“
پھر میں جانے لگا ابھی تک میں ان کے گھر کے دروازے سے نہیں نکلا تھا کہ چیخوں کی آواز میر ے کان میں پڑی جب میں واپس آیا تو امام صاحب انتقال کر گئے تھے ۔“ ( قیمة الزمن عند العلماء، ص:56)
علامہ شبلی نعمانی رحمة الله علیہ پروفیسر آرنلڈ کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” ہم عدن کی طرف سفر کر رہے تھے۔ 10 مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا ” جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے “ میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہو گیا تھا اور جہاز نہایت آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے ، اس اضطراب میں ، میں او رکیا کر سکتا تھا ، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے، میں نے کہا کہ آپ کو کچھ خبر بھی ہے؟ بولے ”ہاں“ انجن ٹوٹ گیا ہے ، میں نے کہا ” آپ کو کچھ اضطراب نہیں، بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟“ فرمایا:” اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے ، ایسے قابل قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے “ ان کے استقلال سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا۔“ ( متاع وقت اور کاروان علم)
ایسے واقعات پڑھ، سن کر دلوں میں وقت کی اہمیت پیدا ہو گی اور ایک نظام کے تحت کام کرنے کا سلیقہ آئے گا او رجب کچھ افراد کے دلوں میں وقت کی قدر پیدا ہو گی، ان کو دیکھ کر دوسرے بھی اس راستے پر گام زن ہوں گے اور یوں چراغ سے چراغ جلتا جائے گا او رخداداد صلاحیتوں کو جلاملے گی، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال رحمة الله علیہ فرماتے ہیں #
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن