Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1433ھ

ہ رسالہ

10 - 18
قطب الارشاد مولانا رشید احمد گنگوہی
مولانا محمد عبدالله معتصم

ولادت وسیادت
امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی6 ذی قعدہ1244ھ بمطابق1869ء بروز پیر چاشت کے وقت اس دنیائے آب وگل میں تشریف لائے۔ آپ رحمہ الله کی پیدائش مشہور تاریخی مقام گنگوہ میں حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے مزار مبارک سے متصل اپنے آبائی مکان میں ہوئی، آپ رحمہ الله کے والد ماجد کا نام مولانا ہدایت احمد صاحب  ہے۔ آپ اپنے والدماجد او روالدہ دونوں کی جانب سے شریف النسب، شیخ زادہ، انصاری اور ایوبی النسل تھے، سلسلہ نسب حضرت ابوایوب انصاری  سے جاملتاہے۔

حضرت گنگوہی  میں بچپن ہی سے غیرت وحمیت، اہتمام نماز اورگناہوں سے نفرت جیسی صفات موجود تھیں ، چناں چہ خود ذکر فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے مجھے بچپن میں ایسا یقین نصیب فرمایا تھا کہ اگر دوران کھیل نماز کا وقت آجاتا تو بلا کسی تاخیر کے کھیل چھوڑ کر نماز کے لیے چلا جاتا تھا اور لوگوں سے کہہ دیتا کہ ہم نے اپنے ماموں صاحب سے سنا ہے کہ تین جمعہ کا چھوڑنے والا منافق لکھا جاتا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ جس فرمان رسول سے عموماً لوگ غفلت کا شکار ہوتے ہیں، حضرت مولانا صغر سنی میں اس کا کتنا خیال رکھتے تھے!

تعلیم وتربیت
آپ  نے ابتدائی دینی تعلیم ایک مقامی استاد میاں جی قطب بخش صاحب  سے حاصل کی، اس کے بعد فارسی کی کتابیں اپنے بڑے بھائی مولانا محمد عنایت احمد صاحب او رمولانا محمد تقی صاحب سے پڑھیں، فارسی کے بعد عربی پڑھنے کا شوق ہوا تو آپ رام پور تشریف لے گئے اور وہاں مولانا محمد بخش صاحب  سے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ مولانا محمد بخش  نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ کو دہلی جانے کا مشورہ دیا ، استاد کے مشورہ کو حکم سمجھتے ہوئے آپ نے 1261 میں دہلی کا سفر کیا، چوں کہ اس دور میں دہلی علوم وفنون کا مرکز تھا او رمختلف عظیم ہستیاں حلقہ درس لگائے ہوئے تھیں، لیکن مولانا  کی ذہین طبیعت کو کہیں تشفی نہ ہوئی، آخر ایک دن آپ مولانا مملوک علی نانوتوی کے حلقہ درس میں گئے تو وہاں دل لگ گیا اور فیصلہ کر لیا کہ یہیں پڑھوں گا۔

مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله ان دونوں مولانا مملوک علی صاحب کے پاس زیرتعلیم تھے، چناں چہ اپنے زمانہ کے شمس وقمر نے ایک جگہ تعلیم حاصل کرکے کتاب وسنت کی ایسی تحریک چلائی کہ پورا برصغیر پاک وہند علم دین سے جگمگا اٹھا، یہ دونوں حضرات پوری جماعت کے ذہین وفطین طلباء میں سے تھے بسا اوقات علمی مسائل میں مناظرہ تک کی نوبت آجاتی تھی، تمام طلباء ان حضرات کی نکتہ سنجیوں سے خوب محفوظ ہوتے تھے، اساتذہ ان مناظروں کا فیصلہ کرتے ہوئے فرماتے تھے ” رشید احمد حق پر ہے، مگر قاسم اپنی تیزی سے ہاتھ نہیں آتا۔“ (تذکرة الرشید، ص:30)

مولانامملوک علی کے علاوہ آپ نے بعض علوم عقلیہ مولانا مفتی صدر الدین صاحب سے بھی پڑھے او رحدیث شریف کے اسباق قدوة العلماء حضرت مولانا شاہ عبدالغنی مجددی سے پڑھے۔ نانوتوی او رگنگوہی رحمہما الله دونوں شاگرد یہاں بھی اپنی ذہانت وذکاوت کی وجہ سے استاد کی خصوصی عنایات کے مستحق ٹھہرے، حضرت گنگوہی  کی دہلی میں تعلیمی مدت تقریباً چار سال بنتی ہے، اس مدت کو ملاحظہ کیا جائے اور پھر آپ کے علم واستعداد کو دیکھا جائے (جس کا مخالفین بھی اعتراف کرتے تھے) توبے ساختہ دل سے آواز اٹھتی ہے #
        لیس علی الله بمستنکر
        ان یجمع العالم فی واحد

تدریس
یوں تو الله تعالیٰ نے آپ کو تمام علوم میں مہارت تامہ عطا فرمائی تھی، لیکن حدیث وفقہ سے آپ کو بہت زیادہ شغف تھا، اپنے زمانہ میں آپ حدیث اور فقہ کے امام تسلیم کیے جاتے تھے، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ کو آپ نے چودہ مرتبہ سے زیادہ پڑھایا تھا، تقریباً49 سال تک درس حدیث دیتے رہے ۔ اس دوران سینکڑوں طلبائے کرام نے آپ سے دورہ حدیث کی تکمیل کی، آپ کے درس حدیث میں ایک بڑ ی اور اہم خوبی یہ تھی کہ مضمون حدیث سن کر اس پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا تھا، یہ خاص اثر اس لیے تھا کہ آپ سب سے زیادہ متبع سنت تھے، آپ کی تدریس میں محویت کا ایسا عالم ہوتا تھا کہ ہر شریک درس کی یہ خواہش ہوتی کہ سلسلہ درس مزید دراز ہو اور جب سبق ختم ہوتا تو ہرایک یہ سمجھتا کہ ابھی تشنگی باقی ہے۔

سلوک وتحصیل معرفت
خدا طلبی او رمعرفت خداوندی کا شوق ازل سے آپ کے قلب مبارک میں الله تعالیٰ نے ودیعت فرمایا تھا، چناں چہ تحصیل علم کا سلسلہ ختم ہونے کے بعداب مرشد کامل کی تلاش ہوئی اور یہی جستجو آپ کو تھانہ بھون لے آئی اور وہاں پر حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی سے بیعت ہوئے بیعت کے چند ہی دنوں بعد حضرت حاجی صاحب نے آپ کو خلافت دیتے ہوئے فرمایا” میاں مولوی رشید احمد! جو نعمت الله تعالیٰ نے مجھے دی ہے وہ میں نے تجھے دے دی آئندہ اس کو بڑھانا تیرا کام ہے “۔

اس خدائی نعمت کو ( جس کے لیے دردر کی خاک چھاننا پڑتی ہے) پاکر جب آپ واپس گنگوہ تشریف لائے تو حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی کی خانقاہ، جو تین سو سال سے ویران او رخراب وخستہ پڑی تھی، کو مرمت کرکے آباد کیا اور وہیں پر ذکر وفکر الہٰی میں مشغول ہو گئے، ہر وقت استغراق، محویت اور تفکر کے عالم میں رہتے۔

اکثر تمام شب روتے روتے گزر جاتی ، والدہ ماجدہ نے آپ کے لیے نیلے رنگ کی ایک چاد ربنائی تھی کہ رات کو مسجد آتے جاتے خنکی سے محفوظ رکھے۔ مولانا کی گریہ وزاری اور آنسوؤں کی کثرت کی وجہ سے اس کا رنگ کئی جگہ سے متغیر ہو گیا تھا۔

آپ رات کے آخری پہر میں اس انداز اور جذب وکیفیت سے ذکر جہر فرماتے کہ ایسا معلوم ہوتا کہ ساری مسجد کانپ رہی ہے۔ خود پر جو حالت گزرتی ہو گی اس کی کسی کو کیا خبر #
        جس قلب کی آہوں نے دل پھونک دیے لاکھوں
        اس قلب میں یا الله! کیا آگ بھری ہو گی

تواضع وانکساری
باوجود فضل وکمال کے، آپ نہایت متواضع او رمنکسر المزاج تھے، آپ اپنے کو کبھی بھی کسی دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے دوران درس ایسی بلیغ تقریر فرمائی کہ طلبہ جھوم اٹھے اور آپ کے سامنے ہی آپ کی تعریف کرنے لگے تو آپ رو پڑے او ربے ساختہ قسم کھا کر فرمایا ”اپنے کو تم میں سے کسی کے برابر بھی نہیں سمجھتا، چہ جائیکہ زیادہ سمجھوں“۔

آپ کو قسم کھانے کی مطلق عادت نہ تھی، لیکن اس موقع پر بلااختیار آپ  سے قسمیہ الفاظ صادر ہو گئے۔

ایک دفعہ درس حدیث کے دوران بارش شروع ہو گئی، طلبہ نے بارش سے بچانے کی غرض سے جلدی جلدی کتابیں او رتپائیاں اٹھائیں اورچل دیے، اچانک طلبہ نے دیکھا کہ حضرت مولانا نے اپنے کندھے کی چادر میں طلبہ کی جوتیاں ڈالی ہوئی ہیں اور اٹھائے چلے آرہے ہیں، طلبہ بہت زیادہ نادم وحیرت زدہ ہوئے تو فرمایا” اس میں کون سی بری بات ہے، تمہاری خدمت کرنا تو میری نجات کا باعث ہے، طلبائے دین کے لیے تو مچھلیاں سمندر میں ، چیونٹیاں بلوں میں دعا کرتی ہیں او رفرشتے تمہارے قدموں کے نیچے اپنے پر بچھاتے ہیں او رتم تو مہمانان رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہو۔“

جب1857ء کا ہو ل ناک حادثہ ختم ہوا تو حکومت برطانیہ نے ہر اس آدمی کو تختہ دار پر لٹکادیا جس کے متعلق ذرا سا بھی شبہ ہوا کہ یہ تحریک آزادی سے متعلق ہے چناں چہ حاجی امداد الله مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہم الله کے نام گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے۔ حضرت صاحب تو مکہ مکرمہ ہجرت فرماگئے۔

مولانا محمدقاسم نانوتوی او رمولانا گنگوہی رحمہا الله روپوش ہو گئے، لیکن مخبر کی خبر رسانی سے آپ  کو گرفتار کیا گیا اور سہارن پور کی کال کوٹھڑی میں رکھا گیا۔ تین چار دن کال کوٹھڑی میں بند رہے، تحقیقات او رپیشی پر پیشی ہوتی رہی، آخر عدالتی فیصلے کے تحت آپ  کو مظفر نگر جیل بھیج دیا گیا۔

وہاں پر آپ تقریباً چھ ماہ رہے، اس عرصہ میں آپ کے عزم واستقلال، بلند ہمتی او رحق گوئی میں کچھ فرق نہ آیا۔ بالآخر جب حکومت کو کوئی ثبوت آپ کے متعلق نہیں ملا تو آپ  کو باعزت رہا کر دیا گیا۔

تصانیف
مولانا گنگوہی کو تصنیف وتالیف سے کچھ زیادہ شغف نہ تھا، البتہ مسائل شرعیہ اور خالصتاً مختلف فیہ مسائل میں رفع تضاد کے لیے کچھ نہ کچھ لکھ دیتے تھے۔ آپ کی مشہور تصانیف یہ ہیں۔

#   رد الطغیان فی اوقاف القرآن… قرآن مجید کے اوقاف کو بدعت ثابت کرنے والوں کا جواب۔
#  ھدایة الشیعہ… ایک شیعہ عالم ہادی علی لکھنوی کے اعتراضات کے جوابات۔
#  زبدة المناسک… حج کے مناسک سے متعلق ایک عام فہم رسالہ۔
#   قطوف دانیہ… قراء ة فاتحہ خلف الامام کے جوابات۔
#  سبیل الرشاد… ردعدم تقلید۔
#   رسالہ تراویح… بیس رکعات تراویح کا احادیث سے ثبوت۔
#   لطائف رشیدیہ… آیات قرآنی کے۔ نکات وغیرہ۔
#  تصفیة القلوب… حضرت حاجی صاحب کی تصنیف”ضیاء القلوب“ کا اردو ترجمہ۔

وفات حسرت آیات
جمادی الاولیٰ1322ھ کو آپ تہجد کی نماز میں مشغول تھے کہ آپ کے پاؤں کی دو انگلیوں کے درمیان کسی جانور نے کاٹا۔ آپ نے معمولی زخم سمجھ کر توجہ نہ دی، آخری یہی زخم وفات کا سبب بنا۔
انالله واناالیہ راجعون
 
Flag Counter