Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1433ھ

ہ رسالہ

7 - 18
دوسروں کی چیزوں کا استعمال
مفتی محمد تقی عثمانی

عن مستورد بن شداد رضی الله عنہ حدثہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: من أکل برجل مسلم أکلة فإن الله یطعم مثلھا من جھنم، ومن کسی ثوبا برجل مسلم فان الله عزوجل یکسوہ مثلہ من جھنم، ومن قام برجل مقام سمعة وریاء فان الله یقوم بہ مقام سمعة وریاء یوم القیامة․ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب العیة)

دوسروں کو تکلیف دے کر اپنا مفاد حاصل کرنا
حضور مستورد بن شداد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے ذریعہ کوئی لقمہ کھائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کی حق تلفی کرکے یا کسی مسلمان کو تکلیف پہنچا کر یا کسی مسلمان کو بدنام کرکے اپنا کوئی مفاد حاصل کرے۔ جیسے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی معیشت کا دار ومدار اس پر ہے کہ دوسروں کو تکلیف پہنچا کر اپنے کھانے کا سامان کرتے ہیں ، مثلاً رشوت لے کر کھانا کھایا، اب اس نے درحقیقت ایک مسلمان کو ناحق تکلیف پہنچا کر کھانا کھایا۔ اسی طرح اگر کسی کو دھوکہ دے کر اس سے پیسے حاصل کر لیے تو اس نے بھی ایک مسلمان کو تکلیف پہنچا کر کھانا کھایا۔

اسی طرح اگر کسی مسلمان کو بدنام کرکے پیسے حاصل کر لیے ،جیسے آج کل نشرواشاعت اور پبلسٹی کا زمانہ ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے نشرواشاعت کے ذریعہ لوگوں کی بلیک میلنگ کو اپنا پیشہ اور ذریعہ آمدنی بنا رکھا ہے، اب ایسا شخص دوسرے کو بدنام کرکے پیسے حاصل کرتا ہے اور کھانا کھاتا ہے۔ یہ تمام صورتیں اس حدیث کے مفہوم کے اندر داخل ہیں کہ جو شخص کسی مسلمان کو تکلیف پہنچا کر کھانا کھائے تو جتنا کھانا اس نے اس طریقے سے حاصل کرکے کھایا ہے الله تعالیٰ اس کو اس کھانے کے وزن کے برابر جہنم کے انگارے کھلائیں گے۔

دوسروں کو تکلیف دے کر لباس یا شہرت حاصل کرنا
اسی طرح جو شخص کسی مسلمان کو تکلیف پہنچا کر اس کی حق تلفی کرکے پیسے کمائے گا او رپھر ان پیسوں سے لباس بنائے گا تو اس کے بدلے میں الله تعالیٰ اس کو جہنم کا اتنا ہی لباس پہنائیں گے، یعنی آگ کے انگاروں کا لباس پہنائیں گے۔

اسی طرح جو شخص دوسرے مسلمان کو تکلیف پہنچا کر شہرت کے مقام تک پہنچے، جیسے بعض لوگ دوسروں کی برائی کرکے اپنی اچھائی ثابت کرتے ہیں،چناں چہ الیکشن کے دوران لوگ یہ کام کرتے ہیں کہ انتخابی جلسوں میں دوسروں کی خرابی بیان کرکے اپنی اچھائی بیان کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کوالله تعالیٰ قیامت کے دن بدنامی کے مقام پر کھڑا کریں گے ۔ یہاں دنیا میں تو اس نے شہرت حاصل کر لی، لیکن اس کے نتیجے میں الله تعالیٰ وہاں اس کو بُری شہرت عطا فرمائیں گے اور برسرعام اس کو رسوا کریں گے کہ یہ وہ شخص ہے جس نے مسلمان کو تکلیف پہنچا کر شہرت کا مقام حاصل کیا ہے۔

اس حدیث سے آپ اندازہ لگائیں کہ کسی کو تکلیف پہنچانا اور اس کے حق کو پامال کرنا کتنا خطرناک کام ہے اور یہ کتنی بری بلا ہے؟ اس لیے میں بار بار یہ عرض کرتا ہوں کہ ہر شخص اپنے برتاؤ اور اپنے طرز عمل میں اس بات کو مدنظر رکھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے کا حق پامال ہو جائے او رپھر قیامت کے روز الله تعالیٰ اس کا حساب ہم سے لیں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

دوسرے کی چیز لینا
ایک اور حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے کسی ساتھی یا دوست کا سامان مذاق میں لے اور نہ سنجیدگی میں لے۔ ایک چیز دوسرے کی ملکیت ہے تو آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ اس کی اجازت، بلکہ اس کی خوش دلی کے بغیر وہ چیز استعمال کریں یا اس کو قبضہ میں لیں، نہ تو سنجیدگی میں ایسا کرنا جائز ہے اور نہ ہی مذاق میں ایسا کرنا جائز ہے ۔ چاہے وہ دوسرا شخص تمہارا قریبی دوست اور شتہ دار کیوں نہ ہو، لیکن اس کی چیز کو اس کی اجازت اور اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کرنا ہر گز جائز نہیں۔

خوش دلی کے بغیر دوسرے کی چیز حلال نہیں
ایک اور حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لایحل مال امری مسلم إلا بطیب نفس منہ“․
ترجمہ: ”کسی بھی مسلمان کا کوئی مال اس کی خوش دلی کے بغیر دوسرے کے لیے حلال نہیں۔“

اس حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اجازت کا لفظ استعمال نہیں فرمایا،بلکہ خوش دلی کا لفظ استعمال فرمایا۔ مثلاً آپ نے کسی شخص سے ایسی چیز مانگ لی کہ اس کا دل تو نہیں چاہ رہا لیکن مروت کے دباؤ میں آکر اس نے وہ چیز دے دی اور اندر سے اس کا دل خوش نہیں ہے، اس صورت میں اگر آپ اس کی چیز استعمال کریں گے تو آپ کے لیے اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا، اس لیے کہ آپ نے اس کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر لے لیا۔

مولویت بیچنے کی چیز نہیں
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله اپنے کسی استاد یا شیخ کا واقعہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ کسی دوکان پر کوئی، چیز خریدنے گئے او رانہوں نے اس چیز کی قیمت پوچھی، دکان دار نے قیمت بتا دی ،جس وقت قیمت ادا کرنے لگے تو اس وقت ایک اور صاحب وہاں پہنچ گئے، جوان کے جاننے والے تھے ، وہ دکان دار ان کو نہیں جانتا تھا کہ یہ فلاں مولانا صاحب ہیں ، چناں چہ ان صاحب نے دکان دار سے کہا کہ یہ فلاں مولانا صاحب ہیں ، لہٰذا ان کے ساتھ رعایت کریں، حضرت مولانا نے فرمایا کہ :

” میں اپنے مولوی ہونے کی قیمت نہیں لینا چاہتا ،اس چیز کی جو اصل قیمت ہے وہی مجھ سے لے لو، اس لیے کہ پہلے جو قیمت تم نے بتائی تھی اس قیمت پر خوش دلی سے یہ چیز دینے کے لیے تیار تھے، اب اگر دوسرے آدمی کے کہنے سے تم نے رعایت کر دی اور دل اندر سے مطمئن نہیں ہے تو اس صورت میں وہ خوش دلی سے دینا نہیں ہو گا او رپھر میرے لیے اس چیز میں برکت نہیں ہوگی اور اس کا لینا بھی میرے لیے حلال نہیں ہو گا، لہٰذا جتنی قیمت تم نے لگائی ہے اتنی قیمت لے لو۔“

اس واقعہ سے اس طرح اشارہ فرما دیا کہ ” یہ مولویت بیچنے کی چیز نہیں“ کہ بازار میں اس کو بیچا جائے کہ لوگ اس کی وجہ سے اشیا کی قیمت کم کر دیں۔

امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی وصیت
بلکہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے، جن کے ہم سب مقلد ہیں، اپنے شاگرد حضرت امام ابویوسف رحمہ الله کو یہ وصیت فرمائی کہ: جب تم کوئی چیز خریدو یا کرایہ پر لو تو جتنا کرایہ اور جتنی قیمت عام لوگ دیتے ہیں تم اس سے کچھ زیادہ دے دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے کم دینے کی وجہ سے علم اور دین کی بے عزتی اور بے توقیری ہو۔

جن حضرات کو الله تعالیٰ نے احتیاط کا یہ اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے ، وہ اس حدتک رعایت فرماتے ہیں کہ دوسرے کی چیز کہیں اس کی خوش دلی کے بغیر ہمارے پاس نہ آجائے۔ مثلاً آپ نے کسی سے کوئی چیز مانگ لی تو مانگنے سے پہلے ذرا سوچو کہ اگر تم سے کوئی دوسرا شخص یہ چیز مانگتا ہے تو کیا تم خوش دلی سے اس کو دینے پر راضی ہوجاتے ہو؟ اگر تم خوش دلی سے راضی نہ ہوتے تو پھر وہ چیز دوسرے سے بھی مت مانگو ۔ اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ مروت کے دباؤ میں آکر وہ شخص تمہیں وہ چیز دے دے، لیکن اس کا دل اندر سے راضی نہ ہو او راس کے نتیجے میں تم نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق بن جاؤ کہ کسی مسلمان کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کی احتیاط کا ایک واقعہ
جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا کیا عالی مقام تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس حد تک احتیاط فرمائی کہ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ سے فرمانے لگے کہ الله تعالیٰ نے تمہارے لیے جو محل جنت میں بنایا ہے وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور وہ محل اتنا شان دار تھا کہ میرا دل چاہا کہ میں اس محل کے اندر چلا جاؤں، لیکن جب میں نے اندر جانے کا ارادہ کیا تو مجھے تمہاری غیرت یاد آگئی مطلب یہ تھا کہ الله تعالیٰ نے تمہیں بڑی غیرت بخشی ہے، اگر کوئی دوسرا شخص تمہارے گھر کے اندر اجازت کے بغیر داخل ہو تو تمہیں غیرت آتی ہے، اس لیے میں نے یہ سوچا کہ تمہارے بغیر اس میں داخل نہیں ہونا چاہیے، لہٰذا میں داخل نہ ہوا۔ حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ یہ سن کر رو پڑے اور فرمایا: ”اوعلیک اغار یا رسول الله؟“ کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! کیا میں آپ سے غیرت کروں گا؟

امت کے لیے سبق
اب آپ اندازہ لگائیں کہ سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم جانتے ہیں کہ فاروق اعظم جیسا انسان ،جو اپنی جان، اپنا مال، اپنی عزت وآبرو، اپنا سب کچھ آپ صلی الله علیہ وسلم پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں، ان کے پاس اگر کوئی بڑی سے بڑی نعمت ہو اور وہ نعمت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے استعمال میں آجائے تو وہ اس کو اپنے لیے باعث فخر سمجھیں گے، لیکن اس کے باوجود آپ ان کے محل میں داخل نہیں ہوئے، جب کہ وہ جگہ بھی جنت کی جگہ ہے، جوتکلیف کی جگہ نہیں ہوتی ۔ لیکن علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ اس حدیث سے درحقیقت سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم امت کو یہ سبق دینا چاہتے تھے کہ دیکھو! میں کبھی بھی اپنے ایسے فدا کار او رجاں نثار صحابی کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوا، تو تم لوگوں کے لیے عام حالات میں دوسروں کی چیز اس کی خوش دلی اور اجازت کے بغیر استعمال کرناکیسے جائز ہو گا؟

میزبان کے گھر کی چیز استعمال کرنا
اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ شریعت میں کسی دوسرے شخص کی چیز کو استعمال کرنے کے بارے میں کتنی حساسیت پائی جاتی ہے، مثلاً ہم دوسرے شخص کے گھر مہمان بن کر گئے، اب اگر اس کے گھر کی کوئی چیز آپ کو استعمال کرنی ہے تو استعمال سے پہلے ذرا یہ سوچو کہ میرے لیے اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں ؟ یہ سوچو کہ میرے استعمال کرنے سے میزبان خوش ہو گا یا اس کے دل میں تنگی پیدا ہو گی؟ اگر اس کے دل میں تنگی پیدا ہونے کا ذرا بھی اندیشہ ہو تو اس صورت میں اس چیز کو آپ کے لیے استعمال کرناجائز نہیں۔

ہمارے معاشرے میں اس بارے میں بہت بے احتیاطی پائی جاتی ہے، چناں چہ ہوتا یہ ہے کہ دوست کے گھر میں چلے گئے اور سوچا کہ یہ تو ہمارا بے تکلف دوست ہے، اب دوستی اور بے تکلفی کی مد میں اس کو لوٹنا شروع کر دیا اور اس کی چیزوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا، یہ جائز نہیں۔ کیوں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے صاف صاف فرما دیا کہ مذاق میں بھی دوسرے کی چیز اٹھاکر استعمال کرنا جائز نہیں تو پھر سنجیدگی میں کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ لہٰذا ہمیں اس بات کا جائز ہ لینا چاہیے کہ ہم بے تکلفی کی آڑ میں کہا ں کہاں حضور صلی الله علیہ وسلم کے اس حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

بیٹے کے کمرے میں داخل ہونے کے لیے اجازت
میرے والد ماجد مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله کا ساری عمریہ معمولی ہم نے دیکھا کہ جب کبھی آپ کسی کام سے اپنی اولاد کے کمرے میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے تو داخل ہونے سے پہلے اجازت لیتے، حالاں کہ وہ کمرہ ہماری ملکیت نہیں ہوتا تھا، انہیں کی ملکیت ہوتا تھا، اس کے باوجود پہلے اجازت لیتے کہ اندر آجائیں او راگر کبھی حضرت والد صاحب کو وہ چیز استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی جو ہمارے استعمال میں ہے تو ہمیشہ پہلے پوچھ لیتے کہ یہ تمہاری چیز میں استعمال کرلوں؟ حالاں کہ حدیث شریف میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”أنت ومالک لأبیک“ یعنی تم خود اورتمہارا مال سب تمہارے باپ کا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس درجہ احتیاط تھی کہ بیٹے سے پوچھ کر اس کی چیز استعمال فرما رہے ہیں تو جب اپنی اولاد کی چیز استعمال کرنے میں یہ احتیاط ہونی چاہیے تو جن کے ساتھ یہ رشتہ نہیں ہے ان کی چیزوں کو ان کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا کتنی سنگین بات ہے؟

اطلاع کے بغیر دوسرے کے گھر جانا
یہ تمام چیزیں ہم نے اپنے دین سے خارج کر دی ہیں، بس آج کل تو عبادات کا اور نماز کا نام دین سمجھ لیا ہے اور اس سے آگے جو معاملات ہیں ان کو ہم نے دین سے خارج کر دیا ہے۔ مثلاً کسی دوسرے کے گھر میں اطلاع کے بغیر کھانے کے وقت پہنچ جانا دین کے خلاف ہے، جیسے آج کل ہوتا ہے کہ پیر صاحب اپنے مریدوں کا لشکر لے کر کسی مرید پر حملہ آور ہوں گے اور پیر صاحب کے ذہن میں ہے کہ یہ تو ہمارا مرید ہے لہٰذا اس کو تو ہر حال میں ہماری خاطر تواضع کرنی ہی ہے۔ یہ میں آپ کو آنکھوں دیکھا واقعہ بتارہا ہوں، اب وہ مرید بیچارہ پریشان کہ عین وقت پر میں کیا انتظام کروں، اتنی بڑی فوج آگئی ہے، اس کے لیے کہاں سے تواضع کا انتظام کروں؟ اب دیکھیے نمازیں بھی ہو رہی ہیں ، تہجد، اشراق، چاشت، ذکر واذکار سب عبادات ہو رہی ہیں او رپیر صاحب بنے ہوئے ہیں، لیکن بغیر اطلاع کے مرید کے گھر پہنچ گئے۔ یاد رکھیے! یہ اس حدیث کے اندر داخل ہے جس میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لا یحل مال امری مسلم إلا بطیب نفس منہ“ لیکن پیر صاحب کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ اس سے مرید کو تکلیف ہو رہی ہے، آج ہمارے معاشرے میں یہ باتیں پھیل گئی ہیں او راس کو دین کا حصہ نہیں سمجھتے، الله تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح فہم عطا فرمائے اور ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنے کا ذوق عطا فرمائے کہ جس چیز کا جو مقام ہے اس کے مطابق اس پر عمل ہو۔

عاریت کی چیز جلدی واپس نہ کرنا
پھر حدیث میں ایک جملہ یہ ارشاد فرمایا:”فإذا أخذ أحدکم عصی صاحبہ فلیردھا إلیہ“ یعنی اگر کوئی تم کسی وقت دوسرے کی لاٹھی بھی لے لی ہے تو اس کو واپس کر دے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے کوئی چیز عاریتاً استعمال کے لیے لی ہے او راس نے خوش دلی سے تمہیں دے دی ہے، خوش دلی سے اس نے وہ چیز دے کر کوئی جرم نہیں کیا، لہٰذا جب تمہاری ضرورت پوری ہو جائے جس ضرورت کے لیے تم نے وہ چیز لی تھی تو پھر اس چیز کوجلد از جلد واپس لوٹاؤ۔ اس بارے میں بھی ہمارے یہاں کوتاہیاں اور غفلتیں ہوتی ہیں، ایک چیز کسی ضرورت کی وجہ سے کسی سے لے لی تھی، اب وہ گھر میں پڑی ہے، واپس کرنے کی فکر نہیں، ارے بھائی! جب تمہاری ضرورت پوری ہو گئی تو اب واپس کرو، اب جس شخص کی وہ چیز ہے ہو سکتا ہے کہ اس کو استعمال کرنے کی ضرورت ہو، لیکن وہ مانگتے ہوئے شرماتا ہے کہ اس کے پاس جا کر وہ چیز کیا مانگوں، اب اگر تم اس چیز کو استعمال کروگے تو تم اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کرو گے، لہٰذا یہ استعمال کرنا تمہارے لیے حرام ہے۔

کتاب لے کر واپس نہ کرنا
اسی طرح ہمارے معاشرے میں یہ مسئلہ باقاعدہ گھڑ لیا گیا ہے کہ کتاب کی چوری یہ کوئی چوری نہیں ہوتی، یعنی اگر کسی دوسرے سے کتاب پڑھنے کے لیے لے لی تو اب اس کتاب کو واپس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لہٰذا مطالعے کے بعد کتاب گھر میں پڑی ہے، اس کی واپسی کی کوئی فکر نہیں ہوتی، جب کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم نے دوسرے کی چیز لی ہو تو اس کو واپس کرنے کی فکر کرو اور جلد از جلد اس کو اصل مالک تک واپس پہنچاؤ۔

الله تعالیٰ ہم سب کو حضور صلی الله علیہ وسلم کے ان ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Flag Counter