Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1433ھ

ہ رسالہ

12 - 18
گلستان دیوبند کے پھولوں کی خوش بو
مفتی محمد راشد ڈسکوی، استاد جامعہ فاروقیہ کراچی

گلستان ِ دیوبند کے ہر ہر پھول کی خوش بو نرالی تھی، اس چمن کا جو پھول بھی کسی طرف کھلا، وہاں بہار ہی بہار پھیلتی چلی گئی، ان کی بول چال، لین دین، میل ملاپ، گفتار اور کردار کا ایک ایک انداز سنتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم میں ڈھلا ہوا تھا ، ان کے افعال و اعمال میں شریعت کے ہر ہر حکم کی پاس داری کا نمونہ جس سطح پر تھا وہ کہیں اور دیکھنے میں نہیں آتا، یہی وہ گوہر ِ مقصود ہے جو ہر ہر نفس میں نمایاں طور پر چمکتا ہوا نظر آنا چاہیے، تاکہ مسلم و غیر مسلم، سنت وبدعت ، حق و باطل کے درمیان حدِّ فاصل اور امتیاز کرناآسان ہو سکے، آئیے ان ہی باتوں کی ایک جھلک اس گلستان کے دو پھولوں میں دیکھتے ہیں:

”حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری اورحضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ایک سفر میں ساتھ تھے، حضرت مولانا تھانوی کے یہاں ہدیہ قبول کرنے کے کچھ اصول مقرر تھے، مگر مستثنیات بھی تھے۔(یعنی کچھ خاص افراد ایسے بھی ہوتے تھے جن سے ہدیہ وصول کرتے وقت ان اصولوں کی رعایت نہیں رکھی جاتی تھی۔)

ایک شخص نے اس سفر میں حضرت تھانوی کو ایک گھڑی ہدیہ میں پیش کی، حضرت نے قبول فرمالی،حضرت سہارن پوری نے بعد میں ارشاد فرمایا کہ اگر یہ گھڑی ضرورت سے زائد ہو تو اس کو میر ے ہاتھ فروخت کر دیں، حضرت تھانوی نے فرمایا کہ ”میں بھی آپ کا اور گھڑی بھی آپ کی ،یوں ہی لے لیجیے“۔

اس پر حضرت سہارن پوری نے فرمایا کہ”میں ابتدا خریدنے کی کر چکا ہوں، اس لیے اب ہدیہ نہیں ہو سکتا، ہدیہ تو ابتداء ً ہوتا ہے “ بالآخر کچھ گفتگو کے بعد معاملہ طے ہو گیااور حضرت سہارن پوری نے گھڑی خرید لی، جب اُس مُہْدِی(ہدیہ دینے والے)کو اِس واقعہ کا علم ہوا ، تو اس کو گرانی ہوئی(یعنی ناگوار گذرا)۔

تو حضرت تھانوی نے حضرت سہارن پوری سے فرمایا کہ وہ گھڑی واپس کر دیں۔حضرت سہارن پوری  نے فرمایا کہ کیا خیارِ شرط تھا،جو واپس کروں؟(خیار شرط کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خریدنے والا شرط لگائے کہ تین دن تک مجھے لینے یا نہ لینے کا اختیار ہو گا، جی چاہے گا تو لے لیں گے، ورنہ لوٹا دیں گے ، اسی طرح بیچنے والے کو بھی اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ یہ شرط لگائے کہ تین دن تک مجھے بیچنے یا نہ بیچنے کا اختیار ہو گا، جی چاہے گا تو بیج دیں گے وگرنہ واپس لے لیں گے۔ اس میں تین دن سے زیادہ کی شرط لگانا درست نہیں ہوتا۔)

حضرت تھانوی نے فرمایا کہ خیارِ شرط تو نہ تھا، مگر ہدیہ دینے والے کو اس فروخت کر دینے سے گرانی ہو رہی ہے،اس لیے واپسی کا مطالبہ کر رہا ہوں۔(یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدیہ میں ملی ہوئی چیز کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اس کے فروخت کر دینے کو ہدیہ دینے والا اچھا نہیں سمجھے گا تو اس چیز کو بیچنا نہیں چاہیے۔)

اس پر حضرت سہارن پوری نے فرمایا کہ (فروخت کرتے وقت) ہدیہ دینے والے کی رضا کو تو شرط قرار نہیں دیا گیا تھا، ہمارے درمیان تو بیع کی بات ہوئی تھی۔(یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بیع میں یہ شرط ٹھہرائی جائے کہ” اگر ہدیہ دینے والے کو اس چیز کے فروخت ہو جانے پر تکلیف ہوئی تو اس بیع کو فسخ کر دیا جائے گا “تو اس بیع کو فسخ کرنا درست ہے، ورنہ نہیں۔)

تب حضرت تھانوی نے فرمایا کہ اچھا تو اقالہ کر لیجیے۔(اقالہ کہتے ہیں بیع یعنی خریدو فروخت والے معاملے کو ختم /فسخ کرنے کو۔)

تو حضرت سہارن پوری نے فرمایا کہ اقالہ کی صحت کے لیے طرفین کی رضامندی شرط ہے اور میں تو اقالہ پر راضی نہیں ہوں۔(اقالہ کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں اس معاملے کو ختم کرنے پر راضی ہوں ، اگر ایک راضی ہوا اور دوسرا راضی نہ ہوا تو شرعاً اقالہ صحیح نہ ہو گا۔)

حضرت تھانوی نے فرمایا کہ آپ میرے بڑے ہیں اور چھوٹوں کی خاطر بڑے راضی ہو ہی جایا کرتے ہیں،آپ بھی راضی ہو جائیے۔

اس پر حضرت سہارن پورینے فرمایا کہ میں ضرور راضی ہو جاتا ، مگر میں نے وہ گھڑی اپنے لیے نہیں خریدی تھی، بلکہ میرے ایک دوست ہیں، ان کے واسطے ان کی نیت سے خریدی ہے، میں ان کی طرف سے وکیل بالشرا تھا، چناں چہ شرا پر توکیل پوری ہو گئی ، اب مجھے اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں رہا، اس لیے کہ وکیل کو اس کام کے انجام دینے کے بعد جس کا اس کو وکیل بنایا گیا تھا ، تصرف کرنے کا حق نہیں رہتا۔(اس سے معلوم ہوا کہ وکیل جب اپنے موٴکل کے لیے کوئی چیز خرید لے تو اس خریدنے کے بعد وہ اس میں کوئی تصرف نہیں کر سکتا۔)

پھر کسی اور مجلس میں جس میں وہ مُہْدِی بھی موجود تھے، حضرت سہارن پوری نے وہ گھڑی حضرت تھانوی کو دے دی۔

حضرت تھانوینے فرمایا کہ اس وقت تو ایسا فرما رہے تھے، اب کیاہوا؟

تو فرمایا کہ معاملہ تو اسی طرح ہے جس طرح میں نے بتایا تھا، مگر مجھے اپنے دوست پر اعتماد ہے، مجھے اطمینان ہے کہ میرے اس تصرف سے انہیں گرانی نہیں ہو گی۔(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وکیل بنانے والا ایسا فرد ہو جس نے وکیل کو اختیا رِ کامل دیا ہو کہ جیسے مناسب سمجھو تصرف کرو تو پھر اس طرح کے تصرفات کرنے کی اجازت ہے۔“

اپنے اکابرین کی اس دور اندیشی اور شریعت کی پاس داری کو دیکھتے ہوئے ہمیں بھی اس بات کا عزم کرنا چاہیے کہ ہم بھی اپنے ہر طرح کے کاموں میں شریعت کی حدود و قیود کا لحاظ رکھیں گے ، اس کے لیے جہاں علم ِ دین کے حصول کی ضرورت پڑے گی وہاں ان اکابرین کی سوانح کا مطالعہ بھی کرنا ہو گا ،تا کہ دینی و دنیوی کاموں میں شریعت کو جمع کرنے کا حسین امتزاج سامنے آ سکے۔ 
Flag Counter