Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1433ھ

ہ رسالہ

1 - 18
خود کُشی کیوں؟
مولانا عبید اللہ خالد
بلاشبہ، ایک عام انسان کے لیے اس کی زندگی اس کے لیے سب سے قیمتی شے ہوتی ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں ہر سال تقریباً ایک ملین (دس لاکھ) افراد خود کشی کرتے ہیں۔ ایک طرف تو یہی انسان اپنی جان بچانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگادیتا ہے اور دوسری جانب وہ کون سے عوامل اس کی زندگی میں پیدا ہوجاتے ہیں کہ جن کی بنا پر وہ اس زندگی ہی سے بیزار ہوجاتا ہے۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ خود کشی کرنے والوں میں صرف غریب لوگ ہی نہیں ہوتے، امیر بھی شامل ہیں۔ ان پڑھ ہی خود کشی نہیں کرتے، اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات وخواتین بھی خود کشی کرجاتے ہیں بلکہ جاپان جیسے ملک میں کہ جہاں تعلیم اور ٹکنالوجی دنیا بھر میں اپنے بلند ترین مقام پر ہے، خود کشی کی شرح اپنے بلند ترین مقام پر ہے۔ اس کے علاوہ روس، ناروے، آسٹریلیا، سلوویکیا، یورا گوئے، پولینڈ اور امریکا ان ممالک میں سے ہیں جن میں خود کشی کی شرح خاصی زیادہ ہے۔آخر وہ کیا سبب ہے کہ وہی فرد جسے اپنی زندگی سب سے پیاری ہوتی ہے اور جس زندگی کی بقا اور خوب صورتی کے لیے وہ سب کچھ کرتا ہے، اسی کے در پہ ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کو آزار اور مصیبت سمجھ کر اس سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ 

بعض کم فہم لوگوں کی رائے یہ ہے کہ انسان معاشی تنگی کی بنا پر پریشان ہوکر خود کشی پر مجبور ہوتا ہے۔ لیکن اگریہ بات درست ہوتی کہ معاش ہی انسان کی ضروریات پورا کرتا ہے تو صرف پیسے کی کمی والے آدمی خود کشی کرنے پر مجبورہوتے اور پڑھے لکھے اور دولت مند افراد خود کشی نہ کرتے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان ہونے کے ناتے ہر شخص کو زندگی میں جن بنیادی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ان میں سکون اور اطمینان غالباً ایک اہم اور لازمی شے ہے۔ آپ غور کیجیے، جو انسان خود کشی کرتا ہے وہ اس وقت مجموعی طور پر شدید ذہنی ہیجان اور جذباتی الجھن کی گرفت میں ہوتاہے۔اور یہ ذہنی ہیجان اور جذباتی الجھن امیر کو بھی پیش آسکتی ہے اور غریب کو بھی۔

ایسی صورت میں اول تو آدمی اپنے ذہنی ہیجان اور جذباتی الجھن سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے وہ جو ظاہری اور مادی طریقے اختیار کرتا ہے، وہ اسے اکثر مزید ہیجان اور الجھن میں ڈال دیتے ہیں۔ انسان سکون کی تلاش کے لیے کبھی ایک حربہ اختیار کرتا ہے تو کبھی دوسری سرگرمی کو اختیار کرتا ہے۔ کچھ تو شیطانی دھوکے کی بنا پر اور کچھ اپنے نفس کی چاہت کی وجہ سے یہ خیال کرتا ہے کہ اس کو سکون اور اطمینان شاید زیادہ پیسہ کما کر مل سکے، دوستوں کی محفل سے حاصل ہوجائے، دنیا کی رنگینیوں یا سیر سپاٹے سے تسکین ہوجائے۔ کئی لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر ایسی سوسائٹی میں بیٹھنا شروع کردیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ اگرچہ وقتی کیف و سرور تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن جلد ہی کہیں تیزی کے ساتھ مزید ذہنی و جذباتی ہیجان کے اندھے کنویں گرتے چلے جاتے ہیں۔پھر، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کے پاس ایک انتخاب صرف اور صرف زندگی سے چھٹکارے کا ہی ہے۔

خود کشتی کی طرف قدم بڑھانے والا شخص دراصل اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوتا ہے۔ اسے خالق کائنات او راپنے کریم رب سے حالات کے سدھار کی کوئی امید نہیں ہوتی۔ مایوسی کی یہ کیفیت الله تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر کامل ایمان نہ ہونے کی علامت ہے۔ اسلام اسی لیے مایوسی کو کفر سے تعبیر کرتا ہے۔ مسلمان ہر طرف سے مایوس ہو کر بھی خدائے تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا جب کہ کافر یاکمزور ایمان والا یقین کی اس نعمت سے محروم ہوتا ہے او رخود کشی کا انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے۔

ہم نے اوپر جن ممالک کا ذکر کیا، وہ دراصل بے خدا معاشرے ہیں جن کی نقالی اور پیروی کو ہم بالخصوص پاکستانی مسلمان اپنی کج فہمی کے باعث اپنے لیے فخر کا باعث اور ترقی کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اسی جذباتی اور ذہنی ابتلا میں تو مبتلا کرنے نہیں جارہے کہ جن کا شکار آج یہ اقوام ہیں۔

اگرکوئی فرد خواہ وہ کسی بھی ملک کا رہنے والا اور کوئی بھی بولی بولنے والا ہو، زندگی کا حقیقی سکون اور سچی خوشی حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ سوائے اللہ کے دامن کے اور کہیں دستیاب نہیں ہے۔ آج کے مضطرب معاشرے میں خوشی اور سکون کے حصول کا سب سے آسان اور سب سے مختصر راستہ یہی ہے کہ اللہ کی طرف لوٹا جائے اور اس تک پہنچنے کا طریقہ بس ایک ہے کہ اس نے جن کاموں کو کرنے سے منع کیا، رک جائے اور جن کاموں کو کرنے کو کہا، انھیں اختیار کیا جائے۔ اور اس میں رضائے الہٰی اور سنت نبوی صلی الله علیہ وسلم کو ہر دم پیش نظر رکھا جائے۔ جس دن سے ایسا معمول بنا لیا جائے گا اسی دن بلکہ اسی لمحے دنیا کی تمام خوشیاں اور کائنات بھر کا سکون میسر آجائے گا۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ!
Flag Counter