زبان کاغلط استعمال
محترم احمدمعاویہ اشرفی
کبھی آپ نے اپنے اردگرد کا سرسری مشاہدہ کیا؟ راہ چلتے،دوران سفر، بوقت ملاقات مسلمانوں کاطرزتکلم اورانداز گفتگوکیامنفی رخ اختیارکرتاجارہاہے؟ایسے ایسے نازیبا اورفحش جملے، جواہل ایمان کی شان سے بہت بعید سمجھے جاتے ہیں،ہمارے ہاں رواجی حیثیت اختیارکرچکے ہیں۔ شرافت ومتانت سے بہت دور،یہ کلمات اب معمول کاحصہ بن چکے ہیں۔ ہماری سماعتیں ،اخلاقیات سے عاری جملوں اورگفتگو کی اس قدرعادی ہو چکی ہیں کہ ان کی شناعت وقباحت کااحساس تک نہیں ہوپاتا۔معاشرے میں رواج پذیر بدکلامی وفحش گوئی اوردشنام طرازی کا عمومی ماحول ،بڑی تیزی سے ہماری نسل نو کے ایمان واخلاق کو بربادکررہاہے۔ذرااندازہ لگائیے! جس نوجوان کے منہ پر یہ شیطانی کلمات جاری ہوں ،وہ اپنی اخلاقی ،مشرقی اور اسلامی روایات سے کس قدر بے بہرہ ہوگا؟اس کے ایمانی احساسات کس قدر کمزوری کاشکارہوں گے؟بلاشبہ شیاطین بے ہودہ گوئی کے مرض میں مبتلا شخص سے بے انتہا خوش ہوتے ہیں ۔ ایسا نادان فردنورحق سے نکل کر تاریکیوں کا راہی بن جاتاہے۔
اسلام کی سب بڑی ،جامع اورعمدہ خوبی یہ ہے کہ وہ انسان کی ظاہری اورباطنی طہارت کا خواہاں ہے۔ قلب وذہن کی نظافت وصفائی کے واسطے، زبان اوراعضائے ظاہرہ کی پاکیزگی کا درس دیتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایمان وتقویٰ کی جڑیں جتنی گہری اورمضبوط ہوتی ہیں ،اتناہی صاحب ایمان کی فکر،اخلاق اورزبان وبیان شائستہ ،عمدہ اوربلندہوتے چلے جاتے ہیں۔ کتاب وسنت میں مختلف اسلوب وپیرایوں کے ذریعے اہل اسلام کو تعلیم وتلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنی ذات سے دوسرے مسلمان بھائی کو ایذادینے سے بچیں۔اخلاقی پستی ،بدکلامی اورفحش بیانی جیسی مذموم عادات ،دوسروں کی دل شکنی اورایذارسانی کاجس قدر ذریعہ بنتی ہیں ،وہ محتاج بیان نہیں۔
قرآن مجید میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:”بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ،ان کے پاس بھی مت جاؤ،خواہ وہ علانیہ ہو ں یا پوشیدہ“۔(سورہ انعام/151)
مذکورہ آیت مبارکہ کے تحت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع قدس سرہ لکھتے ہیں:”لفظ فحش،فحشاء اورفاحشہ ہرایسے برے کام کے لیے بولے جاتے ہیں،جس کی برائی اورفساد کے اثرات برے ہوں اوردورتک پہنچیں۔ اس مفہوم میں تمام بڑے گناہ داخل ہیں،خواہ اقوال سے متعلق ہوں یا افعال سے اورظاہرسے متعلق ہوں یاباطن سے ۔قرآن کی اس آیت میں فواحش کے قریب جانے سے بھی روکا گیا ہے ،اس کو اگر مفہوم عام میں لیاجائے توتمام بری خصلتیں اورگناہ، خواہ زبان کے ہو ں ،خواہ ہاتھ پاؤں کے اورخواہ دل سے متعلق ہوں ،سبھی اس میں داخل ہوگئے ہیں۔“(معار ف القرآن 3/485)
ایک حدیث مبارکہ میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :”مومن طعنہ دینے والاہوتاہے،نہ لعنت کرنے والا ،نہ بے حیائی اوربدکلامی کرنے والا۔“ (ترمذی)دوسری حدیث شریف میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدزبانی وبے حیائی کی مذمت وقباحت یوں بیان فرمائی:”بے حیائی جس کسی چیز میں بھی ہوتی ہے ،اسے عیب داربنادیتی ہے۔اورشرم وحیا کی صفت جس میں ہو ،وہ مزین،پسندیدہ اورخوبصورت ہو جاتی ہے۔“(ترمذی)
خود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات ،شمائل اوراخلاق کے حوالے سے کتب سیرت میں موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو طبعاًفحش گو تھے اورنہ بتکلف فحش بات فرماتے تھے۔اسی طرح بازاروں میں چیخ وپکار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ومزاج کا حصہ نہ تھا۔اخلاق نبوت کی گواہی قرآن کریم یوں دیتاہے :”اگرتم سخت مزاج اورسخت دل والے ہوتے تو یہ (صحابہ کرام )تمہارے آس پاس سے ہٹ کر تتربترہوجاتے “۔(آل عمران/159)
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برائی کابدلہ اچھائی سے دیا کرتے اورعفوودرگزرسے کام لیاکرتے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گندی ،بے ہودہ اوراخلاق سے گری ہوئی زبان کے استعمال سے انسان میں ”نفاق“کا مرض پیدا ہوجاتاہے ۔ایک حدیث نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰة والسلام میں حضرت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے :”چارچیزیں جس شخص میں ہوں گی، وہ خالص اورپکامنافق ہے۔اورجس کے اندراُن میں سے کوئی ایک بیماری موجودہو تو وہ نفاق کی ایک خصلت وعادت میں مبتلاہے،یہاں تک کہ اسے چھوڑدے۔وہ چارناپسندیدہ چیزیں یہ ہیں:جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے توخیانت کرے،جب بات کرے تو جھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تو ایفانہ کرے اورجب جھگڑاکرے تو گالی دے۔“(مشکوٰة1/17)
آج ہمارے رویوں میں ایمانی کمزوری اورعملی پستی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے قرآن وحدیث کی ہدایات وتعلیمات کو پس پشت ڈال کر، اپنے لیے جینے اوررہنے کے نئے نئے زاویے مقررکرلیے ہیں۔جس کامنطقی نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ بدچلنی،بدامنی اوربدکرداری کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔جب معاملات اورمعاشرت میں، بظاہر چھوٹی چھوٹی دکھائی دینے والی باتوں اورامور کا خیال نہیں رکھاجائے گاتویقیناانسانیت مبتلائے کرب واذیت ہوگی۔پھر انسان سے انسان غیر محفوظ رہے گا۔ہرشخص ذاتی، شخصی اورانفرادی حیثیت جتانے کی کوشش میں لگارہے گا۔اپنے حق کو وصول کرنے کے لیے دوسرے کے حقوق پامال کیے جاتے رہیں گے۔ زبانیں دوسروں کے دلوں کوچیرتی رہیں گی۔ہاتھ غیروں کے گریبانوں کو چاک کرتے رہیں گے۔انسانی زندگی پانی کی طرح سستی اوربے قیمت ہوکررہ جائے گی۔جھوٹ،خیانت،وعدہ خلافی اوربدزبانی عام ہوتی چلی جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ زبان کا درست استعمال،لایعنی گفتگو سے اجتناب اور بدگوئی سے بچاؤ آدمی کو متذکرہ تباہیوں اور ہلاکتوں سے بچا سکتاہے۔وہ تمام نفرتیں ،کدورتیں اورناچاقیاں،جو زبان کے غلط اورنازیبا استعمال سے پیداہوتی ہیں ،اُس کی درستگی سے دورکی جاسکتی ہیں۔محبت والفت،بھائی چارگی اوراحساس باہمی کے جذبات وخیالات کو فروغ مل سکتاہے۔شیطانی اقوال کی جگہ پاکیزہ بول رب کی رحمت ورضوان کا پروانہ بن سکتے ہیں۔نفاق کی قلبی بیماری کوروحانی دوامل سکتی ہے۔ انسان طاغوت کے راستے پرچلنے سے بچ سکتاہے۔ضرورت ہے صرف حوصلہ،ہمت اورفکر ی بیداری کی۔کیا ہم اورآپ اتنی بھی اصلاح احوال پر قدرت نہیں رکھتے؟؟؟