یقین کی دولت
مولانا عبدالرحمن نگرامی
تاریخ اسلام کے اس زمانہ پر نگاہ ڈالنے سے، جو نہ صرف تاریخ اسلام میں بلکہ تاریخ عالم میں اپنی پاکیزگی کی کوئی نظیر نہیں رکھتا اور جسے ایک تاریخی واقعہ کی حیثیت سے خیر القرون کا لقب دیا گیا ہے ، یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ خدا کے چند بندے ، جو تعداد میں تھوڑے سروسامان کے لحاظ سے بالکل بے حیثیت تھے، اٹھتے ہیں او رایک عالم کی کایا پلٹ دیتے ہیں، صرف سلطنتوں ہی کو نہیں، بلکہ مخلوق کے دلوں اور روحوں تک میں عظیم الشان تبدیلی پیدا کر دیتے ہیں ، برائی مٹ کر بھلائی آجاتی ہے اور ظلم کی جگہ انصاف قائم ہوتا ہے ، اس زمانہ کا کوئی دانش مند اس پاک گروہ کے حالات پر جب غور کر ے گا، ان کی لڑائیوں کے سروسامان کی فہرست تاریخ کے اوراق میں دیکھے گا، ان کے جنگ کے اطوار، دعوت اور تبلیغ کے طریقے معلوم کرے گا تو یقینا اسے اچنبھا ہو گا، کوئی بڑا علم النفس کا ماہر اپنے فن کے اعتبار سے کچھ باتیں نکال کر ان کی کام یابی کے اسباب گنانا شروع کرے گا، لیکن حقیقت کچھ اور ہے، ان کی کام یابی کا راز او ران کی تاثیر کے اس قدر جلد اور مضبوطی کے ساتھ پھیلنے کا بھید نہ تو قوت ارادی کی باضابطہ اور باقاعدہ مشق ہے اور نہ سروسامان کی بہتات اور زیادتی ہے ، یہ چیزیں وہاں کہاں او رکب تھیں؟ ایک ہی چیز تھی جس نے ان سب مادی چیزوں کی قائم مقامی کی تھی اور اسی کے جوش کے یہ سب کرشمے تھے، وہ خدا اور اس کے رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی باتوں کا یقین تھا، یقین انسان میں طاقت پیدا کر دیتا ہے، اسی سے ہمتیں بندھتی ہیں، حوصلے پیدا ہوتے ہیں، کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے اگر اس کے انجام کی کام یابی کا پوری گہرائی کے ساتھ یقین ہو تو پھر اس کام کے پورا کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ یقین رکھنے والا آدمی ہر مشکل پر غالب آسکتا ہے اور ہر دشواری کو اپنے راستہ سے ہٹا سکتا ہے ، یقین ہی کا پھل تھا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاک ساتھی اسلام کی راہ میں کانٹوں کو پھول جانتے تھے، ثواب آخرت کی امید ان کو ہر قسم کی قربانی کے لیے آگے بڑھاتی تھی اور وہ بے جھجک اپنی جان ومال کو نچھاور کرتے تھے، عذاب کا خوف، حساب کتاب کا ڈر ان کی زندگی کے ہر ہر لمحہ کو نیکی او ربھلائی میں صرف کراتا تھا، مایوسیوں کے بادل او رناامیدیوں کی گھنگھور گھٹائیں ان کے یقین کی روشنی سے چمٹ جاتی تھیں اور بالآخر کام یابی کی صورت ان کے سامنے ہوتی، غربت ان کو نہ روکتی، بے زری مانع نہ ہوتی، کسی کا ڈر ، دبدبہ حائل نہ ہوتا، کیوں کہ انہیں اپنے مالک کے وعدوں کا یقین تھا۔
آج بھی خدا کا وعدہ موجود ہے ، اس کا فرمان ہمارے پاس ہے اورکہنے کو ہم اس کے بندے اور فرماں بردار ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ اس کی باتوں کا یقین نہیں، یقین کا نہ ہونا ہی تمام مصیبتوں کی جڑ اور ساری بیماریوں کی بنیاد ہے، ہم کو اقرار سب باتوں کا ہے، اس کی خدائی کا بھی ، یکتائی کا بھی ، مسبب الاسباب ہونے کا بھی ، حشر ونشر کا بھی، حساب وکتاب کا بھی ،لیکن کیا یقین، پختگی اور مضبوطی ان باتوں پر ہے؟ اس کا جواب ہم میں سے ہرایک کو اپنی پوری دلی حالت کو ٹٹولنے کے بعد دینا چاہیے، ہم اس کی راہ میں اپنی پونجی نہیں خرچ کرسکتے، کیوں کہ مستقبل کا کھٹکا لگا ہوا ہے ، جان نہیں دے سکتے ، اس لیے کہ جان پیاری ہے ، عیش وآرام ترک نہیں کر سکتے کہ وہ محبوب ہے ، ان تمام چیزوں کے بدلہ میں جو کچھ آخرت میں ملنے والا ہے ، اس کی طرف ہلکا سا خیال تو ضرور جاتا ہے، لیکن ان کے ملنے کے بارے میں دل کو تردُّد ضرور ہے اور جب تک یہ تردُّد مٹ کر یقین سے نہ بدلے گا، خدا کے وہ وعدہ بھی ہم پر پورے نہیں ہو سکتے ، غور کرنے کی بات ہے کہ ایک پرانی وضع کا شریف اپنے پہناوے، اپنے اٹھنے بیٹھنے کے لیے ہر لمحہ میں محفل کے آداب او رمجلس کے آئین کا کیسالحاظ رکھتا ہے، کیوں کہ لوگوں کی انگشت نمائی کا خطرہ ہے اوراسی طرح ایک جنٹلمین کوئی بات اٹیکیٹ ( آداب) کے خلاف نہیں کر سکتا، اس لیے کہ اسے ہر دم سوسائٹی کی گرفت کا اندیشہ ہے ، دونوں اپنی اپنی جگہ محض اندیشہ اور خطرہ کی بنا پر بندھے بندھائے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں، لیکن ہم مدعی اسلام وایمان، جنہیں اپنی زندگی کے ہر ہر لمحہ کا حساب دینا ہے اور وہ بھی ایسے مالک کے روبرو، جوہر کھلی چھپی بات سے آگاہ ہے ، پھر بھی ہم برائیوں کے کرنے میں شیر اور گناہوں میں دلیر ہیں ، ہم اسلام کی عزت کو بڑھانے او رکلمة الله کو اونچا کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، مصیبتیں ہمارا راستہ روک لیتی ہیں او رمصیبتیں ہمیں پیچھے ہٹا دیتی ہیں ، ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں:﴿ان الله لا یخلف المیعاد﴾ خدا ا پنے وعدہ کو پیچھے نہیں کرتا، لیکن دل اس پر یقین نہیں کرتا، اس لیے قدم آگے بڑھنے سے رک جاتے ہیں، دنیا میں مختلف تحریکیں اٹھتی ہیں، ہزاروں آدمی اس میں آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹ جاتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی کام یابی کے یقین سے خالی ہوتے ہیں ۔ یقین رکھنے والی تھوڑی سی فوج اس بھیڑ کے مقابلہ میں کام یاب ہو گی جو خود اپنی طرف سے اپنے اندر شبہ رکھتی ہے ۔ یقین کام یابی کا پیش خیمہ ہے اور شک ناکامی ونامرادی کی نشانی۔ کام یابی چاہتے ہو تو یقین پیدا کرو: ﴿وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین﴾․
”اگر تم یقین رکھتے ہو تو تم ہی سرفراز ہو۔“