Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1432ھ

ہ رسالہ

12 - 16
شہیدِ ناموسِ رسالت صلی الله علیہ وسلم غازی علم الدین شہید
محترم محمد متین خالد

ہندو آریہ سماج تنظیم جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے دل آزار کتابیں شائع کرواتی رہتی تھی، 1923ء کے اواخر میں اس تنظیم کے سرگرم رکن راجپال نے ایک ایسی دل آزار کتاب شائع کی، جس میں حضور نبی کریمصلی الله علیہ وسلم کی شان اقدس میں بے پناہ گستاخیاں کی گئی تھیں۔ کتاب کی اشاعت سے پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔ مسلمانوں نے احتجاجی جلسے اور جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ ملزم راجپال کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ پھر راجپال کو 6 ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہوا۔ بعدازاں ہائی کورٹ نے نہ صرف ملزم کو بری کر دیا، بلکہ اس کا جرمانہ بھی معاف کر دیا۔ اس دل آزار کتاب کی اشاعت جاری رہی۔ یکم اپریل 1929ء کی رات ایک نوجوان غازی علم الدین شہید اپنے بڑے بھائی کے ساتھ دہلی دروازہ کے باغ میں جلسہ سننے چلے گئے، جہاں سیّد عطا اللہ شاہ بخاری نے بڑی رقت انگیز تقریر کی۔ دفعہ 144 کا نفاذ تھا، جس کی رو سے کسی نوع کا جلسہ یا اجتماع نہیں ہو سکتا تھا، لیکن مسلمانوں کا ایک فقید المثال اجتماع بیرون دہلی دروازہ درگاہ شاہ محمد غوث کے احاطہ میں منعقد ہوا۔ وہاں اس عاشق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ناموسِ رسالت پر جو تقریر کی، وہ اتنی دل گداز تھی کہ سامعین پر رقت طاری ہو گئی۔ کچھ لوگ تو دھاڑیں مار مارکر رونے لگے۔ شاہ جی نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:”آج آپ لوگ جناب فخر رسل محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی عزت و ناموس کو برقرار رکھنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آج جنس انسان کو عزت بخشنے والے کی عزت خطرہ میں ہے۔ آج اس جلیل المرتبت کا ناموس معرض خطر میں ہے، جس کی دی ہوئی عزت پر تمام موجودات کو ناز ہے۔“ اس جلسہ میں مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید دہلوی بھی موجود تھے۔ شاہ جی نے ان سے مخاطب ہو کر کہا۔”آج مفتی کفایت اللہ اور احمد سعید کے دروازے پر اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ اور اُمُّ المومنین خدیجہ الکبرٰی کھڑی آواز دے رہی ہیں۔ ہم تمہاری مائیں ہیں۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دی ہیں؟ ارے دیکھو! کہیں اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ دروازہ پر تو کھڑی نہیں؟“یہ الفاظ دل کی گہرائیوں سے اس جوش اور ولولہ کے ساتھ ابل پڑے کہ سامعین کی نظریں معاً دروازے کی طرف اٹھ گئیں اور ہر طرف سے آہ و بکا کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ پھر اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔”تمہاری محبتوں کا تو یہ عالم ہے کہ عام حالتوں میں کٹ مرتے ہو، لیکن کیا تمھیں معلوم نہیں کہ آج گنبد خضرٰی میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تڑپ رہے ہیں۔ آج خدیجہ اور عائشہ پریشان ہیں۔ بتاؤ! تمہارے دلوں میں اُمہات المومنین کے لیے کوئی جگہ ہے؟ آج اُمُّ المومنین عائشہ تم سے اپنے حق کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وہی عائشہ جنھیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ”حمیرا“ کہہ کر پکارا کرتے تھے،جنھوں نے سید عالم صلی الله علیہ وسلم کو وصال کے وقت مسواک چبا کر دی تھی۔ یاد رکھو کہ اگرتم نے خدیجہ اور عائشہ کے لیے جانیں دے دیں تو یہ کچھ کم فخر کی بات نہیں۔“شاہ جی نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا۔”جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے۔ پولیس جھوٹی، حکومت کوڑھی اور ڈپٹی کمشنر نااہل ہے۔ وہ ہندو اخبارات کی ہرزہ سرائی تو روک نہیں سکتا، لیکن علمائے کرام کی تقریریں روکنا چاہتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ دفعہ 144 کے یہیں پرخچے اڑا دیے جائیں۔ میں دفعہ 144 کو اپنے جوتے کی نوک تلے مسل کر بتا دوں گا۔
            پڑا فلک کو ابھی دل جلوں سے کام نہیں
            جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں

داغ کا یہ شعر شاہ جی نے کچھ اس انداز سے پڑھا کہ لوگ بے قابو ہو گئے۔ اس تقریر نے سارے شہر میں آگ لگا دی۔ لاہور میں بدنام زمانہ کتاب، اس کے مصنف اور ناشر کے خلاف جا بجا جلسے ہونے لگے۔

6 اپریل 1929ء کو غازی علم الدین ٹھیک ایک بجے راجپال کی دکان پر پہنچ گئے اور دریافت کیا کہ راجپال کہاں ہے؟ راجپال نے خود ہی کہا۔ میں ہوں کیا کام ہے؟ غازی صاحب نے چھری نکال کر اس پر بھرپور حملہ کیا۔ پھر پے در پے وار کر کے اسے واصل جہنم کر دیا اور کہا” یہی کام تھا“۔

غازی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ 10 اپریل 1929ء کو سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ 22 مئی 1929ء کو غازی صاحب کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔ 30 مئی کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ 15 جولائی کو قائداعظم محمد علی جناح اس مقدمہ کی وکالت کے لیے ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، مگر ہائی کورٹ نے اپیل خارج کر دی۔

31 اکتوبر 1929ء کو علم الدین نے حسب معمول تہجد کی نماز پڑھی اور بارگاہِ الٰہی میں دعاگو ہی تھے کہ انھیں کسی کے بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر کمرے کے بند دروازے کے سامنے ہی کسی کے رکنے کی آواز کے کھٹکے پر غازی صاحب نے جو ادھر دیکھا تو پھانسی دینے والے عملہ کو اپنا منتظر پایا۔ اس موقع پر داروغہ جیل کی آنکھوں سے شدت جذبات سے آنسو بہہ نکلے… آپ نے اس کی طرف دیکھا اور کہا تم گواہ رہنا کہ میری آخری آرزو کیا تھی۔آپ نے معمول سے بھی کم وقت میں نماز ادا کی… اتنی جلدی آخر کس لیے تھی؟ ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کہیں مجسٹریٹ یہ تصور نہ کرے کہ محض زندگی کی آخری گھڑیوں کو طول دینے کے لیے دیر کر رہا ہوں۔ داروغہ جیل نے بند دروازہ کھولا… آپ اٹھے اور مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے۔ دایاں پاؤں کمرے سے باہر رکھتے ہوئے انھوں نے مجسٹریٹ سے کہا۔ چلیے! دیر نہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی آپ تیز تیز قدم اٹھاتے تختہٴ دار کی جانب چل پڑے۔ ایک کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے آپ نے ہاتھ اٹھا کر ایک قیدی کو خدا حافظ کہا… جواباً اس نے نعرہٴ رسالت صلی الله علیہ وسلم بلند کیا۔ تب جیل حکام اور مجسٹریٹ کو معلوم ہوا کہ جیل میں سبھی قیدی علم الدین کو مبارک باد دینے کے لیے ساری رات سے جاگ رہے ہیں۔ کلمہ شہادت کے ورد سے فضا گونج رہی تھی۔ علم الدین لمحہ بھر کے لیے رکے… مجسٹریٹ اور پولیس کے دستے کی طرف دیکھا، ان کے لب ہلے اور پھر چل دیے۔تختہٴ دار کے قریب متعلقہ حکام کے علاوہ مسلح پولیس کے جوان بھی کھڑے تھے۔ سب کی نظریں آپ پر جمی ہوئی تھیں۔ ان کی نظروں نے اس سے پہلے بھی کئی لوگوں کو تختہٴ دار تک پہنچتے دیکھا تھا، لیکن جس شان اور قوتِ ارادی سے انھوں نے علم الدین کو تختہٴ دار کی جانب بڑھتے دیکھا، وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ جو ”حیات“ علم ا لدین کو نصیب ہونے والی تھی، اس کا تو ہر مسلمان آرزو مند رہتا ہے۔اس وقت آپ کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوئی تھی اور آپ کو سیاہ رنگ کا لباس پہنا دیا گیا۔ جب مجسٹریٹ نے آپ سے آپ کی آخری خواہش پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ ”میں پھانسی کا پھندہ چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں۔“بعدازاں علم الدین کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے۔ اس دوران میں آپ نے اردگرد کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”تم گواہ رہو کہ میں نے حرمت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لیے راجپال کو قتل کیا ہے۔ اور گواہ رہنا کہ میں عشق رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جان دے رہا ہوں۔ آپ نے کلمہ شہادت باآوازِ بلند پڑھا اور پھر رسنِ دار کو بوسہ دیا۔ علم الدین حقیقت میں ہر اس شے کو مبارک سمجھتے تھے جو ان کو بارگاہِ حبیب میں پہنچانے کا ذریعہ بن رہی تھی۔ آپ کے گلے میں رسہ ڈال دیا گیا۔

مجسٹریٹ کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور ایک خفیف اشارے کے ساتھ ہی آپ کے پاؤں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا گیا… چند لمحوں میں ہی آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی… اس نے جسم کو تڑپنے پھڑکنے کی بھی زحمت نہ ہونے دی۔ گویا حضرت عزرائیل نے عاشق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جان ان کے جسم سے رسہ لٹکنے سے پہلے ہی قبض کر لی ہو اور پھانسی کی زحمت سے بچا لیا ہو۔ ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کی اور آپ کے لاشہ کو پھانسی کے تختہ سے اتارا گیا۔
            زینتِ دار بنانا تو کوئی بات نہیں
            نعرہٴ حق کی کوئی اور سزا دی جائے

ادھر جیل کے باہر علم الدین کے والد طالع مند کے علاوہ سینکڑوں مسلمان اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ حکام لاش ان کے حوالے کریں۔ لیکن اعلیٰ حکام نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ علم الدین کی میت مسلمانوں کے حوالے نہ کی جائے۔ انھیں خطرہ تھا کہ مسلمان جلسے اور جلوس نکالیں گے، جن سے حالات خراب ہوں گے۔غازی علم الدین شہید کی شہادت پر میانوالی میں فرنگی حکومت کے خلاف زبردست احتجاجی جلوس نکلے، ہڑتالیں ہوئیں، شہید کا سوگ منایا گیا، غم و غصہ کا اظہار ہوا۔ شہید کے جنازہ میں قیدیوں کے علاوہ کچھ مقامی مسلمانوں نے بھی شرکت کی۔ حکومت وقت نے میانوالی کے کئی افراد کو گرفتار کیا، ان پر مقدمہ چلایا، جس میں ان کو چھ چھ ماہ قید اور جرمانے کی سزا دی گئی۔غازی علم الدین شہید کی شہادت کے بعد ناعاقبت اندیش گورنر کی ہدایت کے مطابق غازی شہید کو بے یار و مددگار ایک مردہ اور بے بس قوم کا فرد سمجھ کر اس کی پاک میت کو میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔

جب یہ خبر لاہور اور ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچی تو ہر طرف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ 4 نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد جیفری ڈی مونٹ مورنسی گورنر پنجاب سے ملا اور اپنا مطالبہ پیش کیا۔ بالآخر چند شرائط کے تحت مسلمانوں کا مطالبہ منظور کر لیا گیا۔ مسلمانوں کا ایک وفد ”سید مراتب علی شاہ“ اور ”مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن“ کی قیادت میں 13 نومبر 1929ء کو میانوالی آیا۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر میانوالی راجہ مہدی زمان نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔میانوالی کے ایک معمار نے بکس تیار کیا اور ضلعی حکام اور معمار نور دین دوسرے روز علی الصباح غازی علم الدین شہید کی نعش بصد احترام میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان سے نکال کر ڈپٹی کمشنر میانوالی کے بنگلے پر لائے۔ معمار نور دین نے بتایا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی نعش میں ذرا برابر تعفن نہیں تھا اور نعش سے مسحور کن خوش بو آ رہی تھی۔ انھوں نے ڈی سی میانوالی کی کوٹھی پر شہید کی نعش کو بکس میں محفوظ کیا۔ یہاں سے نعش کو اسٹیشن میانوالی لایا گیا۔ اور ایک اسپیشل گاڑی کے ذریعے لاہور لایا گیا اور پھر لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں غازی علم الدین شہید کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔یاد رہے کہ غازی علم الدین شہید کے جنازہ میں مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ نمازِ جنازہ 4 دفعہ پڑھائی گئی۔ پہلی دفعہ نمازِ جنازہ مولانا محمد شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی، دوسری دفعہ نمازِ جنازہ سید دیدار علی شاہ نے، تیسری دفعہ سید احمد شاہ اور چوتھی دفعہ پیر جماعت علی شاہ صاحب امیر ملت نے پڑھائی۔ اس وقت انھوں نے اپنی داڑھی مبارک پکڑ کر روتے ہوئے اپنے آپ سے کہا کہ ”تو سید زادہ ہے اورتمہارے ہزاروں مرید ہیں، لیکن ایک ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا۔“ بعدازاں انھوں نے مزار مبارک کی تعمیر کروائی۔جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ میت کو ”مولانا سید دیدار علی شاہ“ اور حضرت علامہ اقبال نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے غازی علم الدین شہید کا ماتھا چوما اور کہا:

”اَسی تے گلاں کر دے رہ گئے، تے ترکھاناں دا مُنڈا بازی لے گیا“
 
Flag Counter