صلح کرانا ایک اہم اسلامی فریضہ
مولانا سیف الله رحمانی
الله تعالیٰ نے انسان کو ایک جیتا جاگتا، ہنستا بولتا اور چلتا پھرتا وجود عطا کیا ہے ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے ، غورفکر کا ملکہ ودیعت فرمایا ہے اور ارادہ واختیار کی قوت سے اسے نوازا گیا ہے ، اس لیے کسی بھی انسانی سماج سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے کہ اس میں اختلاف پیدا ہی نہ ہو اور وہ پتھر کی مورتوں کی طرح خاموش اور بے زبان رہے ، کیوں کہ الله تعالیٰ نے سوچنے کے انداز میں فرق رکھا ہے ، ذوق ونظر کا اختلاف بھی پایاجاتا ہے اور مفادات میں ٹکراؤ بھی ، پس کسی بھی انسانی سماج میں اختلاف کا وقوع پذیر ہونا فطری بات ہے اور اس سے کوئی مفر نہیں، اگر یہ اختلاف خلوص اور نیک نیتی پر مبنی نہ ہو، بلکہ ضد ، اَنا اور خود غرضی کی وجہ سے ہو تو یہ مہذب اور شائستہ اختلاف رائے کی حدود سے گزر کر باہمی جنگ وجدال، قیمت اندازیوں اور الزام تراشیوں کا باعث بن جاتا ہے ، معاشرہ میں ہمیشہ ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں اورپیش آتے رہیں گے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے نزاع اور اختلاف کا حل کیا ہے ؟ قرآن الله کی کتاب ہے ، جو زندگی کے ہر گوشہ میں انسان کی راہ نمائی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے ، اس نے یقینا اس سلسلہ میں بھی راہ نمائی کی ہے کسی بھی نزاع سے بنیادی طور پر تین طبقے متعلق ہوتے ہیں ، دو فریق تو وہ جو باہم ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوں اور تیسرے وہ سماج او رمعاشرہ، جس میں اس طرح کا نزاع پیش آتا ہو ، قرآن کی نگاہ میں فریقین کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں دونوں ایک دوسرے سے قریب آنے کو تیار نہ ہوں اور وہ اپنے طور پر اس فاصلہ کو سمجھنے اور اس خلیج کو پاٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو دونوں فریق اپنی صف سے کسی مخلص، دین دار، سمجھ دار او رمعاملہ فہم آدمی کا انتخاب کریں اور ان کو اپنا ”حَکم“ مان لیں، یہ حَکم کی حیثیت سے جو بھی فیصلہ کریں اسے دونوں فریق قبول کر لیں اور حکم کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ان دونوں فریقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھرپور سعی کرے، قرآن کہتا ہے کہ اگر حکم طرف دار بنے بغیر نیک نیتی اور صدق دلی کے ساتھ صلح کی کوشش کرے گا ، تو الله تعالیٰ ضرور کام یابی سے ہم کنار فرمائیں گے ﴿ ان یریدا اصلاحاً یوفق الله بینھما﴾․ (النساء:35)
صلح او رباہمی اختلاف کو دور کرنے کا یہ نہایت بہترین طریقہ ہے ، بلکہ یہ اختلافات سے باہر آنے کا باعزت راستہ ہے ، اس لیے کہ اس میں نہ کسی فریق کی فتح ہے اور نہ کسی فریق کی شکست، اس سے سماج میں بھی انسان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے اور الله تعالیٰ کی رضا وخوش نودی کی جو دولت حاصل ہوتی ہے وہ ان سب سے بڑھ کر ہے ، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے ” اَنا“ کے خول سے باہر آئے ، بڑائی کے احساس سے اپنے ذہن کو فارغ کرے، اپنے بھائی کو حقیر نہ سمجھے ، اس کے اندر حقائق کو قبول کرنے کی جرأت ہو اور اس کی نگاہ نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
تیسرا طبقہ جو دو مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے اپنے آپ کو الگ نہیں رکھ سکتا وہ ہمارا سماج ہے ، یہ سمجھنا کہ یہ فلاں اور فلاں شخص کا اختلا ف ہے ، ہمیں اس میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ صحیح فکر اور مثبت سوچ نہیں، مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ جب وہ دو افراد کے درمیان آویزش اور اختلاف محسوس کریں تو ان میں صلح کرانے اور شکستہ دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان میل ملاپ کرادیا کرو﴿انما المؤمنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم واتقوا الله لعلکم ترحمون﴾․ (الحجرات:10) یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے ، افسوس کہ مسلمانوں کو ا س کی اہمیت اور سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا نہ ادراک ہے اورنہ احساس ۔
حضرت ابو الدرداء سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو روزہ، صدقہ اور زکوٰة سے بھی افضل چیز نہ بتاؤں ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ ہے باہمی خلش کو دور کرنا اور صلح کرانا ، اصلاح ذات البین، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ آپس میں تعلقات کا بگاڑ مونڈ دینے والی چیز ہے۔ ( الادب المفرد، حدیث نمبر391)
” مونڈ دینے والی چیز“ سے مراد یہ ہے کہ یہ چیز صفایا کر دینے اور تباہ وبرباد کر دینے والی ہے ، خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے او ران کے باہمی اختلافات کو رفع کرنے کا کس قدر پاس ولحاظ تھا، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ باوجود یکہ نماز میں جماعت کا آپ کو حد درجہ اہتمام تھا، عین میدان جنگ میں بھی غیر معمولی حالات کے بغیر آپ صلی الله علیہ وسلم کی جماعت نہیں چھوٹتی تھی اور مرضِ وفات میں اس وقت بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے جماعت میں شرکت کااہتمام فرمایا، جب خود چلنے کی طاقت بھی باقی نہیں رہی، لیکن اس کے باوجود قبیلہٴ بنی عمروبن عوف میں ایک جھگڑا رفع کرنے اور مصالحت کرانے کے لیے آپ اپنے رفقا کے ساتھ بہ نفس نفیس تشریف لے گئے او راس فریضہ مصالحت میں اتنی تاخیر ہو گئی کہ حضرت بلال رضی الله عنہ نے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو امامت کے لیے آگے بڑھا دیا ، نمازشروع ہونے کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے۔ (بخاری ، حدیث:269)
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی نگاہ میں مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کی کیااہمیت تھی؟
مدینہ میں انصار کے دو مشہور خاندان اوس اور خزرج آباد تھے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے یہ ہمیشہ باہم دست وگریباں رہتے تھے ، اسلام ان کے لیے ابر رحمت بن کر آیا اور صدیوں سے عداوت کی جو آگ بجھائے نہ بجھتی تھی وہ لمحوں میں سرد ہو کر رہ گئی اور دونوں قبیلے اُخوت اسلامی کے رشتہ سے شیر وشکر ہو کر رہنے لگے، یہودیوں کو ان قبائل کا اتحاد اور آپسی محبت ایک آنکھ نہ بھاتا تھا،ایک بار ایک سن رسیدہ یہودی اوس وخزرج کے لوگوں کے پاس سے گزرا او ران کی باہمی محبت کو دیکھ کر بڑا رنجیدہ ہوا، چنا ں چہ اس نے اوس وخزرج کی لڑائی کے پرانے قصے چھیڑ دیے او راس زمانے میں دونوں قبائل کے شعراء نے ایک دوسرے کے خلاف مذمت کے جو اشعار کہے تھے، ان کا بھی ذکر نکالا، نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں خاندانوں کے نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی جاہلی حمیت لوٹ آئی، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جیسے ہی اس کی اطلاع ملی، بہت تیز تیز تشریف لائے، لوگوں کو شیطان کی اس وسوسہ اندازی سے باخبر کیا، اسی موقع پر سورہٴ آل عمران کی یہ آیتیں نازل ہوئیں:
” اے ایمان والو! الله سے ڈرو ، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے او رتم پر اسلام ہی کی حالت میں موت آنی چاہیے۔ سب مل کر الله کی ڈوری کو تھام لو ، پھوٹ نہ پیدا کرو اور اپنے اوپر الله کے اس انعام کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے ، پھر الله نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم الله کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے ، نیز تم دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر تھے ، تو الله نے تم کو اس سے نکالا، الله تعالیٰ اسی طرح تم لوگوں کو احکام بتاتے رہتے ہیں ، تاکہ تم ہدایت پر قائم رہو۔ “( آل عمران:103-102)
زبانِ مبارک سے ان آیتوں کا سننا تھا کہ دلوں کی کایا پلٹ گئی، لوگوں نے اپنے ہتھیار پھینک دیے او رایک دوسرے سے گلے مل کر خوب روئے ۔ (طبرانی:20/4)
غرض، کسی بھی انسانی سماج میں اختلاف ونزاع کا پیدا ہونا ایک فطری چیز ہے ، جس سے بچنا ممکن نہیں ، لیکن یہ ضروری ہے کہ جہاں آگ لگے وہاں پانی ڈالنے والے لوگ بھی موجود ہوں ،جہاں سیلاب آتا ہے تو وہاں ہر شخص پانی کی ظالم موجوں کے آگے بندباندھنے کی کوشش کرتا ہے ورنہ آگ پوری بستی کو اپنا لقمہ بنالے گی اور سیلاب پوری آبادی کو غرق آب کرکے رہے گا، اس لیے مسلمانوں میں جو ” اربابِ حل وعقد“ ہوں، یعنی ذمہ دار، سمجھ دار ، بااثر واہل علم ودانش، علماء ومشائخ، مذہبی اور سماجی قائدین ، ملی تنظیموں اور جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم معاشرہ میں ابھرتے ہوئے اختلاف کی بروقت تشخیص کریں، اس کے اسباب وعوامل کو سمجھنے کی کوشش کریں او ران کے تدارک کی طرف متوجہ ہوں، ورنہ یقینا عندالله وہ اس سلسلہ میں جواب دہ ہوں گے۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ کم سے کم ہندوستان میں مسلمانوں کے جتنے تعلیمی، اصلاحی اور دعوتی ادارے ہیں، مذہبی اور سیاسی جماعتیں او رتنظیمیں ہیں، اصلاحی تحریکیں ہیں، ان میں سے اکثر اختلاف وانتشار سے دو چار ہیں، یہ جماعتیں او رتنظیمیں دولخت بلکہ سہ لخت ہوچکی ہیں ، ایک تنظیم کے دو ٹکڑے اور پھر ان ٹکڑوں کئی کئی ٹکڑیاں، یہ اختلاف وانتشار اور صلاحیتوں کا بٹوارہ بحیثیت مجموعی ملت کے طبقات کو کمزو راور بے اثر کر دیتا ہے ، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم ہر سطح پر مسلمانوں کی پسماندگی اور زبوں حالی کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کر رہے ہیں ، کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی احوال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، خاص کر اقلیتوں کے لیے ان کے ووٹ کی بڑی اہمیت ہے ، اگر مسلمان سیاست کی ترازو میں بے وزن ہو جائیں تو اس ملک میں کوئی بھول کر بھی ان کوپوچھنے والا اور اشک شوئی کرنے والا نہ ہو گا، او راس میں شبہہ نہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ووٹ کی قیمت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا دوست دشمن سبھوں کو اقرار ہے ، لیکن افسوس کہ مسلم جماعتوں کی باہمی آویزشوں اوراختلاف نے ان کو بے وزن کرکے رکھ دیا ہے ، اس لیے ان حالات میں سربرآوردہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مختلف مسلم جماعتوں کی باہمی رقابتوں کا قابل قبول حل تلاش کریں، ان کو ایک میز پر جمع کریں اوران کو اختلاف کے باوجود اتحاد پر آمادہ کریں، یہ وقت کا سب سے بڑا جہاد اورموجودہ حالات کی سب سے بڑی ضرورت ہے!