Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1432ھ

ہ رسالہ

2 - 16
عیدالاضحی کا پیغام
مولانا منت الله رحمانی

ہر قوم میں خوشی کے کچھ دن متعین ہوتے ہیں، جس کی بنیاد ماضی کا کوئی اہم واقعہ ہوتی ہے، اس واقعہ کی یاد کو تازہ اور ا س کی روح کو قوم میں باقی رکھنے کے لیے خاص خاص موقعہ پر اس کی یاد گار منائی جاتی ہے، مسلمانوں میں بھی خوشی کے کچھ دن متعین ہیں آج کا دن ان میں سے ایک ہے ، مسلمانوں کے نقطہ سے یہ اہم ترین تاریخی اور قومی دن ہے ، اسی موقعہ پر پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان مکہ معظمہ پہنچتے ہیں اور حج جیسا اہم فریضہ انجام دیتے ہیں اور پوری دنیا کے مسلمان اس موقعہ پر خوشی مناتے ہیں۔

آج کے دن مسلمان خاص طور پر دو کام کرتے ہیں ، ایک تو وہ بڑی تعداد میں جمع ہو کر ایک امام کے پیچھے دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں ، دوسرے ان میں سے ہر صاحب نصاب قربانی کرتا ہے، یہ دونوں چیزیں مسلمانوں کی ذمہ داری ہیں ، اب ذرا اس پر غور کیجیے کہ اسلام نے خوشی کے دن ان دو ذمہ داریوں کو انجام دینے کی ہدایت کیوں کی ؟

دیکھا گیاہے کہ خوشی اور غم دو موقعے ایسے ہیں جہاں انسان اپنے دائرہ سے باہر ہو جاتا ہے ، خوشی کے موقعہ پر احتیاط کا دامن چھوٹ جاتا ہے اوراکثر خوشی کے وقت انسان اپنے قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور غم کی پرچھائیاں زندگی کی توانائیوں کو کمزو رکر دیتی ہیں، غم والم نڈھال کر دیتا ہے اور اس موقعہ پر انسان زندگی کے فرائض بھی چھوڑ بیٹھتا ہے۔

اسلام چاہتا ہے کہ انسان ایک متوازن زندگی گزارے اور انسانیت کے تقاضوں اور زندگی کے متعین دائروں سے کبھی باہر نہ ہو ، اس لیے اس نے خوشی اور غم منانے کے طریقے بتلائے ہیں او رمسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

عید الاضحی کے دن سورج نکلنے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرنے کی ذمہ داری بھی دراصل اپنے اندر بڑی مصلحت رکھتی ہے، خوشی کے اس دن کی ابتدا میں نہا دھو کر، کپڑے بدل کر ، خوش بو لگا کر ، گھر سے نکلنا اور خوشی کے تمام جانے پہچانے طریقوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور پروردگار کی بارگاہ میں سرجھکانا، ایسے کام ہیں جو ہمارے اندر سنجیدگی ، اطاعت ،نظم وضبط پیدا کرتے ہیں او رہمیں بتاتے ہیں کہ خوشی کے لمحات میں خواہ جسم کا ہر حصہ مسکرا رہا ہو ، مگر دل کو خدا کی یاد سے غافل نہیں ہونا چاہیے ، خوشی کے دنوں میں بھی خدا کی یاد ہوتی رہے اور اس طرح ہوتی رہے جس طرح ہمیں خدا نے بتایا ہے، عید کے دن نماز کی یہ دو رکعتیں علیحدہ علیحدہ بھی ادا کی جاسکتی تھیں اور یہ حکم دیا جاسکتا تھا کہ نماز بند کمروں میں ادا کی جائے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ خشوع وخضوع، انہماک اور توجہ رہے ، لیکن ایسا حکم نہیں دیاگیا ، بلکہ بڑی جماعت کے ساتھ ایک جگہ ، ایک امام کے پیچھے ، دورکعت نماز ادا کرنے کی ہدایت دی گئی ، تاکہ مسلمان یہ محسوس کریں ہمیں یکجا اور متحد رہنا اور ایک امام وامیر کے تحت منظم ہونا ہے ، اسلام چاہتا ہے کہ امام وامیر ہی کے اشارہ پر مسلمانوں کی زندگی میں حرکت اور تبدیلی آئے، وہ جہاں رہیں مضبوط معاشرہ اور طاقت ور سماج کا ایک حصہ بن کر رہیں اور ان کی زندگی نظم واتحاد کے ساتھ گزرے۔

عید الاضحی کی دوسری خاص چیز ”قربانی“ ہے، آج سے سیکڑوں برس پہلے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حضور میں اپنے لڑکے حضرت اسماعیل کو قربان کیا تھا، قرآن مجید نے حضرت ابراہیم کے ارادے کو اس طرح بیان کیا ہے ، ﴿یا بنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تری﴾․ ( یعنی میرے بچے میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔ بتاؤ تمہاری کیارائے ہے ) حضرت اسماعیل نے جواب دیا ﴿یا ابت افعل ما تؤمر ستجدنی انشاء الله من الصابرین﴾․( ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے، اسے کر ڈالیے، انشاء الله آپ مجھے صابر وشاکر پائیں گے ) بیٹے کی اس اجازت کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر ڈالا، یہ علیحدہ بات ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ ارادہ قبول کیا گیا اور قربان گاہ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام زندہ واپس آگئے۔

یہ قربانی کوئی معمولی چیز نہ تھی ، بیٹے کو خدا کے حکم پر قربان کرنا دل گردہ کی بات ہے ، سعید وصالح بیٹا، جو بڑھاپے کا سہارا بننے والا ہے اور جسے نبوت ملنے والی ہے اس کی گردن پر خدا کے حکم سے چھری چلانا اخلاص ووفا، ایمان ویقین کا آخری امتحان ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں بھی کھرے اترے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام پر توحید کے اہم مسائل شرح وبسط کے ساتھ نازل کیے گئے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے الله کے بندوں کے سامنے توحید کا وعظ دیا اور وحدانیت کا سبق پڑھایا، ستاروں کے چمکنے اور ڈوب جانے سے سورج کے طلوع او رغروب سے ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دنیا کو توحید کا سبق واضح مثالوں سے دیا، انہوں نے سمجھایا، آفتاب خوب روشن بڑا اور سب کے کام آنے والا ہے ، شاید یہی خدا ہو ، لیکن اس کے غروب ہو جانے پر آپ نے لوگوں کے ذہن کو پھیرا اور فرمایاکہ ﴿انی لا احب الآفلین﴾ ہم ایسا خدا ماننے کو تیار نہیں جو صبح نکلے اور شام کو ڈوب جائے ، جو فانی ہو وہ خدا کس طرح ہو گا ؟ دنیا کا یہ کارخانہ بہت دنوں سے ہے اور نہ معلوم کب تک رہے گا ، خدا تو ایسا ہونا چاہیے جوہمیشہ ہو او رہمیشہ رہے ، صبح نکل کر شام کو ڈوب جانے والا خدا بننے کے لائق نہیں۔

توحید خالص کا سبق وہی دے سکتا ہے جو اخلاص ووفا اور ایمان ویقین کی آخری منزل پر پہنچ چکا ہو ۔ حضرت ابراہیم اس امتحان میں کام یاب ہو چکے تھے۔

حق تعالیٰ نے فنا اور قربانی کے اس تاریخ ساز واقعہ کو ” ذبح عظیم“ کا خطاب عطا فرمایا او رجناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اس کی یادگار منانے کا حکم دیا ﴿فصل لربک وانحر﴾․( اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے)۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے جانور کی قربانی دی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی یاد تازہ کر دی، آپ نے اس سنت ابراہیمی کو مخلوق میں بھی رائج کیا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ” ذبح عظیم“ کے واقعہ کو تازہ کرنے کے لیے ہر سال مخصوص تاریخوں میں قربانی کریں، یہ قربانی صرف اپنے مال کی قربانی نہیں ہے ۔ بلکہ خواہشات نفس کی ، غلط جذبات کی اور برے خیالات اور ارادوں کی قربانی ہے ، یہ قربانی دراصل ایک عہد ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم نے اپنی زندگی کی قیمتی نشانی کو خدا کی راہ میں قربان کیا تھا اور اطاعت خداوندی کی مثال قائم کی تھی ۔ ہم بھی اطاعت خدا وندی کے عہد کو تازہ کرتے ہیں ، تمام محبتیں خدا کی محبت کے سامنے ہیچ اور تمام احکام خدا کے حکم کے مقابلے میں منسوخ ہیں ، یہ قربانی خدا اور بندے کے درمیان ” پیمان“ ہے کہ حکم خدا وندی کی تعمیل میں اگر گردن بھی کٹانی پڑے او رخدا کا نام لینے کے بدلہ میں زندگی کا تحفہ بھی دینا پڑے تو اس سے گریز نہیں کیا جائے گا، اگر یہ مقصد اور مصلحت سامنے نہ ہو تو پھر صرف خون بہانا رہ جائے گا۔

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ واقعہ کی روح کو سمجھ کر قربانی دی جائے ، ورنہ قربانی کے یہ جانور ان کا خون، گوشت ، چمڑا، اس کی ہڈیاں، اس کے جسم کا کوئی بھی حصہ کہیں نہیں جاتا، نہ خدا تک پہنچتا ہے ﴿لن ینال الله لحومھا ولا دماؤھا ولکن ینالہ التقوی منکم﴾ یعنی خدا تک نہ قربانی کے جانور کا گوشت پہنچتا ہے، نہ خون پہنچتا ہے، وہاں تقویٰ اور پرہیز گاری پہنچتی ہے۔ دراصل یہ تقویٰ ہی بنیاد ہے ،ور نہ خدا ظالم نہیں کہ اسے کسی کی جان لینا پسند ہو اور نہ اسلام ظلم کی تعلیم دیتا ہے ، اسلام نے تو جانوروں کی حفاظت او راس کے حقوق کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اسے یہ پسند نہیں کہ خدا کی یہ بے زبان مخلوق بھوکوں مرے، اسے پانی نہ دیا جائے، اسے کھانا نہ دیا جائے اور اگر اس سے نفع کی امید ختم ہو جائے تو گھر سے نکال باہر کیا جائے ، جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جانوروں کے حقوق کو پورا کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور اسے ثواب کا کام قرار دیا ہے اور جو لوگ جانوروں کو بند رکھتے ہیں او ربھوکا مارتے ہیں انہیں ظالم کہا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کسی نے بلی پکڑ کر رکھ لی اور وہ بھوک سے مر گئی تو ایسے شخص کو عذاب دیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک جانوروں کو پالا جائے ، اچھی طرح پالا جائے ، اس کی دیکھ ریکھ کی جائے، تکلیف نہ پہنچائی جائے ، لیکن ساتھ ہی اسلامی نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ پور ی کائنات اور اس میں جوکچھ بھی ہے وہ انسانی ضروریات کی تکمیل او راس کی سہولت کی خاطر بنائی گئی ہے، دنیا کی ہر چیز کسی نہ کسی پہلو سے انسان کے لیے مفید اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہے ، دنیا کے سارے جانور بھی اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ وہ اپنی مختلف او رگونا گوں صلاحیتوں سے انسان کو فائدہ پہنچائیں او رانسان ان سے اپنی ضرورتیں پوری کرتا رہے۔

اسی لیے اسلام نے طرح طرح کے جانوروں سے الگ الگ طریقہ پر فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ہے اور یہ صرف اسلام کی دی ہوئی اجازت نہیں ہے، تاریخ کے ہر دور اور دنیا کے ہر علاقہ میں لوگوں نے جاندار چیزوں سے مختلف قسم کے فائدے اٹھائے ہیں، خاص طور پر موجودہ سائنسی تحقیقات کی روشنی میں جان دار کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے ۔ کوئی بھی شخص جان دار کے استعمال سے بچ نہیں سکتا، یہ ساگ ، سبزی، پھول ہر چیز جان دار ہے او ران میں زندگی ہے ، پانی میں پائی جانے والی مچھلیوں میں بھی زندگی ہے، جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں ، اسی طرح جانوروں میں زندگی ہے، جنہیں استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے ،ان ساری چیزوں کا استعمال اگر ہم ذاتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کر سکتے ہیں، اگر یہی کا م خدا کے نام اور تقویٰ کی خاطر کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

یاد رکھیے: عیدالاضحی کے دو اہم پہلو ہیں، ایک نماز باجماعت، جس سے ہمیں نظم وضبط او رایک شخص کی اقتدا واتباع کا سبق ملتا ہے اور یہیں اس کی بھی تعلیم ملتی ہے کہ موقعہ خوشی کا ہو یا غم کا ، بہرحال ہمیں اپنے دل کو الله کی یاد سے آباد رکھنا چاہیے۔ دوسرے قربانی۔ جس سے صبر کا استقامت کا او رایثار وقربانی کا سبق ملتا ہے اور قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ نظم وضبط، سمع وطاعت اور ایثار وقربانی کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی، یہی عیدالاضحی کا پیغام ہے اوریہی اس سے ملنے والا سبق ہے۔
Flag Counter