Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1432ھ

ہ رسالہ

5 - 16
اصلاح قلب اور اس کی ضرورت
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؓ

آیات مبارکہ
ارشاد فرمایا حق سبحانہ نے:
﴿ فی قلوبھم مرض فزادھم الله مرضا﴾․ ( سورة البقرة آیت: 9)
ان کے دلوں میں بڑا مرض ہے، پس الله تعالیٰ نے ان کے مرض کو اور بڑھادیا۔

ف: اس میں اثبات ہے امراض قلب کا اور وہ معاصی ہیں جو حضرات صوفیاء کے اطلاقات میں شائع ہے ۔ ( مسائل السلوک من کلام ملک الملوک)
            سخت بیماری ہے بیماریٴ دل
پھر جس طرح امراض جسمانی کے علاج کے لیے اطبا اور ڈاکٹر صاحبان سے رجوع کرتے ہیں اسی طرح امراض قلب ( اخلاق ذمیمہ وغیرہ) کے علاج کے لیے مشائخ کاملین سے رجوع کرنا ضروری ہے۔
﴿ الا بذکر الله تطمئن القلوب﴾․ ( الرعد آیت:128)
خوب سمجھ لو کہ الله کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔

ف: روح میں ہے کہ اس اطمینان کا سبب ایک نور ہے، جس کو الله مؤمنین کے قلوب پر فائز فرماتا ہے، جس سے پریشانی اور وحشت جاتی رہتی ہے۔ ( مسائل السلوک)

صحیح ہے #
                تسلی دل کو ہوتی ہے خدا کو یاد کرنے سے
﴿ فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور﴾․ (الحج:16)
بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہو جایا کرتیں، بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہو جایا کرتے ہیں۔

ف: اس میں قلوب کے اسماع وابصار کا اثبات ہے۔ ( مسائل السلوک)

بقول عارف رومی  #
            ایں سخن از گوش دل باید شنود
            گوش گل اینجا نماند ہیچ سود
حدیث میں بھی ہے ”اللھم افتح مسامع قلبی لذکرک“ یعنی اے الله! میرے دل کے کان ( مسام) اپنے ذکر کے لیے کھول دے۔

ف: پس جس طرح ظاہر کی آنکھیں ہیں اسی طرح قلب کی بھی آنکھ ہے، اگر قلب کوشے واحد کی طرف متوجہ کر دیا جائے تو قلب کی شعاعیں دوسری طرف منتقل ہوں گی، پس کسی دوسری شے کا خیال نہ آئے گا۔ (رفع الموانع ص:10)

احادیث طیبہ
ارشاد فرمایا جناب رسول صلى الله عليه وسلم نے:” ان فی الجسد مضغة اذا صلحت صلح سائرا لجسد․“( متفق علیہ من حدیث النعمان بن بشیر )․
ترجمہ:” بدن میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے وہ جب سنور جاتا ہے تو تمام جسد سنور جاتا ہے ( مراد قلب ہے کہ اس کی اصلاح سے تمام جسد کے اعمال درست ہو جاتے ہیں)۔

ف: یہ حدیث صریح ہے اس میں کہ اصلاح قلب اصل مدار ہے تمام اصلاح کا اور یہ مسئلہ گویا فن کی روح ہے۔ (تشرف بمعرفة احادیث التصوف ص:137)

الحدیث:” قال الله تعالیٰ:ما وسعنی ارضی ولا سمائی، ووسعنی قلب عبدی المؤمن اللین“․
یعنی: ” الله تعالیٰ نے فرمایا مجھ کو نہ میری زمین سما سکتی ہے اور نہ میرا آسمان او رمجھ کو میرے مؤمن بندہ کا قلب، جس میں نرمی اور اطمینان (کی صفت) ہے، سمو لیتا ہے۔

ف: اس حدیث میں اصل ہے حضرات صوفیا کے اس قول کی کہ مومن کا قلب عرش الله ہے، یعنی محل ہے تجلی اعظم کا، جس کو وسع کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے ۔ ( التشرف بمعرفت احادیث التصوف ص:19-89)

جس طرح بعض عشاق کا یہ قول ہے #
            پر تو حسنت نہ گنجد در زمین وآسمان
            درحریم سینہ حیرانم کہ چوں جاکردہ
                                                                    ( التشرف ص:229)

اردو کا یہ شعر گویا اس فارسی شعر کا ترجمہ ہے #
            ارض وسماء کہاں تیری وسعت کو پا سکے
               میرا ہی دل ہے جہاں تو سما سکے
الحدیث:”قلب العبد بین اصبعین من اصابع الرحمن“․ (رواہ مسلم من حدیث عبدالله بن عمر) یعنی بندہ کا دل حق تعالی کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے ۔

ف: اس حدیث میں بعض احوال قلبیہ کا مطلقاً غیر اختیاری ہونا اور بعض کا اختیار مستقل کے اعتبار سے غیر اختیاری ہونا مذکور ہے۔ (التشرف، ص:6)

قلب کا مفہوم
کسی شاعر نے خوب کہا ہے #
            وما سمی الانسان الا لانسہ
            وما سمی القلب الا ان یتقلب
یعنی انسان کا نام اس کے انس ومحبت کے سبب رکھا گیا اور دل کا نام قلب اس لیے رکھا گیا کہ یہ کسی ایک حالت پر قائم نہیں رہتا، بلکہ ہمیشہ اس کی حالت میں تغیر وتبدل ہوتا رہتا ہے #
            میں اب سمجھا کہ کچھ نہیں دنیا مرا دل ہے
            بدل جانے سے اس کے رنگ ہر ایک چیز کا بدلا
غرض دل کی کیسی ہی اچھی حالت کیوں نہ ہو جائے اس پر کبھی اعتبار یا غرور نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ اس میں تغیر آتے دیر نہیں لگتی۔ اسی کو ایک بزرگ فرماتے ہیں #
            گہ رشک برد فرشتہ بر پاکی ما
            گہ خندہ زند دیو زنا پاکی ما
            ایمان چوں سلامت بہ لب گور بریم
            احسنت بریں زچستی وچالاکی ما

بعض اوقات ہماری پاکیزگی وصفائی باطن پر فرشتہ بھی رشک کرتا ہے او ربعض دفعہ ہماری بد باطنی پر شیطان بھی ہنستا ہے، اگر ہم ایمان سلامت لے کر قبر کے دہانے تک پہنچ جائیں اس وقت ہماری چستی وچلاکی پر شاباش کہنا۔

جن پر گزرتی ہے وہ جانتے ہیں کہ قلب کے اندر کتنا بڑا محکمہ ہے، کہیں پھول پھلواری ہے، کہیں خارہے، کہیں خزاں ہے، کہیں بہار ہے، اسی کو اہل حال ظاہر کرتے ہیں ۔ (جمال الجلیل ص:53)
            ستم است اگر ہوست کشد کہ بسیر سرو وسمن درا
            تو زغنچہ کم نہ دمیدہ در دل کشا بچمن در آ!

دل کے متعلق شاہ ولی الله قدس سرہ کا ایک فارسی شعر ہے #
            دلے دارم جواہر خانہ عشق است تحویلش
            کہ وارد زیر گردوں سامانے کہ من دارم

قدسی کہتا ہے #
            دارم دلے اما چہ دل صد گونہ حرماں در بغل
            روز قیامت ہر کسے آید بد ستش نامہ !!
            چشمے وخوں در آستیں اشکے وطوفاں در بغل
            من نیز حاضر مے شوم تصویر جاناں در بغل
                                                                        (مجالس حکیم الامت  ص:106)

قلب کی نگہداشت کی اشد ضرورت ہے
ہمارے حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی قدس سرہ قلب کی نگہداشت کا امر فرمایا کرتے تھے اور یہی اوفق بالسنة ہے۔ حضرت فرماتے تھے کہ قلب کو ذاکر بنالو ۔ بقیہ لطائف خود بخود ذاکر ہو جائیں گے ان کی مشق کی مستقل ضرورت نہیں ۔ ایک کے منور ہونے سے دوسرے بھی منور ہو جائیں گے ۔اس کی دلیل حدیث میں بھی ہے ”ان فی الجسد مضغة اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت الجسد کلہ“ یعنی جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست رہتا ہے سارا جسم درست رہتا ہے او رجب وہ خراب ہو جاتا ہے سارا جسم خراب ہو جاتا ہے ( اور وہ دل ہے ) الا وہی القلب ۔ ( متفق علیہ)

رہا یہ اشکال کہ حدیث میں مضغہ کا ذکر ہے، لطیفہ قلب کا نہیں؟ جواب یہ ہے کہ حدیث میں مضغہ مراد نہیں، ورنہ مضغہ تو حیوانات میں بھی ہوتا ہے بلکہ انسان سے بڑا ہوتا ہے ۔ بلکہ وہ شے مراد ہے جس کو اس مضغہ سے تعلق ہے، کیوں کہ مضغہ میں اصلاح وصلاحیت وادراک مسائل کی قوت نہیں اور قلب کے لیے فہم وعقل نصوص سے ثابت ہے۔ ( التصرف بالتصرف)

قلب کی نگہداشت کی عمر بھر ضرورت ہے
جس طرح عام حالت کے اعتبار سے قرآن بدوں دائمی مزا ولت کے یاد نہیں رہتا۔ اسی طرح اس طریق میں قلب کی نگہداشت عمر بھر کا روگ ہے، کسی وقت غفلت کی اجازت نہیں #
            یک چشم زدن غافل ازاں شاہ نباشی
            شاید کہ نگاہ کند آگاہ نباشی
                                        (انفاس عیسی ج1، ص:37)

اس شہنشاہ حقیقی سے تم پلک جھپکنے کی دیر تک غافل نہ ہو، شاید اسی وقت ان کی توجہ ہو اور تمہیں خبر نہ ہو۔

دیکھنے کی چیز دراصل قلب ہے
زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ دل میں دین کی وقعت ہو ، عظمت ہو لوگ اعمال کو دیکھتے ہیں، مگر دیکھنے کی چیز دراصل قلب ہے کہ اس کے دل میں الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت کس قدر ہے۔ ( انفاس عیسی ج2، ص:596) واقعی ان کے بغیر دل کی مثال ایسی ہے #
                بے ترئے دل کیا ہے بس اک خول ہے
                جلد آ یہ ناؤ ڈانوا ڈول ہے

افسوس دور حاضر میں اکثر لوگوں کے قلوب خشیت خداوندی سے خالی ہیں #
            دغا مکر وحرص وہویٰ دل کے اندر
            حسد، بغض، کبر وریا دل کے اندر
            نہیں اس زمانہ میں کیا دل کے اندر
            نہیں ہے تو خوف خدا دل کے اندر

قلب کا اثر لباس اور کلام میں
قلب کا اثر انسان کے کلام اور لباس تک میں ظاہر ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل الله کے تبرکات میں اثر ہوتا ہے اور صحبت میں اس سے زیادہ اثر ہوتا ہے ۔ (کمالات اشرفیہ ص:68) بزرگان کاملین کے قلوب میں یہ برکت ہوتی ہے کہ جوان کو راضی رکھتا ہے اور جس کی طر ف ان کے قلوب متوجہ رہتے ہیں ، الله تعالیٰ اس پر فضل فرماہی دیتا ہے، تجربہ یہی ہے، چناں چہ ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ اورایکشخص نہر میں وضو کر رہے تھے، امام صاحب  نیچے کی طرف تھے اور وہ شخص اوپر کی طرف۔ اس شخص نے خیال کیا کہ امام صاحب مقبول بندے ہیں، میرا مستعمل پانی ان کے پاس جاتا ہے، یہ بے ادبی ہے، اس لیے وہ اٹھ کر دوسری طرف ان کے نیچے جا بیٹھا،بعد انتقال کے اس کو کسی نے خواب میں دیکھا پوچھا کہ مغفرت ہوئی یا نہیں ؟ کہا میرے پاس کوئی عمل نہ تھا۔ اس پر مغفرت ہوئی کہ تونے ہمارے مقبول بندہ احمد بن حنبل کا ادب کیا تھا، ہمیں پسند آیا۔ ( کمالات اشرفیہ ص:242)

اسی لیے حضرت حاجی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کوشش کرو کہ کسی (اہل الله) کے دل میں جگہ کر لو، کیوں کہ ان کے دل تجلی گاہ حق ہیں تو تمہاری حالت کچھ بھی ہو، ان شاء الله انوار تجلی سے محروم نہ رہوگے اس میں بڑی بشارت ہے ( اوج قنوج ص:35 ،معارف امدادیہ ص:67) اسی لیے اپنے شیخ کی بے ادبی کرنے سے اس کے قلب میں کدورت پیدا ہو جاتی ہے، جو مانع ہوتی ہے تعدیہ فیض میں، حضرت حاجی صاحب  نے اس کی خوب مثال دی ہے کہ اگر کسی چھت کے میزاب کے مخرج میں مٹھی ٹھونس دی جائے تو جب آسمان سے پانی برسے گا تو گو وہ چھت پر نہایت صاف وشفاف حالت میں آئے گا، لیکن جب میزاب میں ہو کر نیچے پہنچے گا تو بالکل گدلا او رمیلا ہو کر ۔ اسی طرح شیخ کے قلب پر ملا اعلیٰ سے جو فیض وانو ار نازل ہوتے ہیں ان کا ایسے طالب کے قلب پر جس نے شیخ کے قلب کو مکدر کر رکھا ہے، مکدر صورت ہی میں ہوتا ہے، جس سے اس طالب کا قلب بجائے منور و مصفا ہونے کے تیرہ و مکدر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ( اشرف السوانح ج2، ص:117)

اپنے شیخ کو مکدررکھنے او رمکدر کرنے کا وبال طالب پر یہ ہوتا ہے کہ اس کو دنیا میں جمعیت قلب میسر نہیں ہوتی اور وہ عمر بھر پریشان رہتا ہے۔ (معارف امدادیہ ص:114)

لایعنی کلام سخت مضر قلب ہے
حضرات عارفین کا مشاہدہ ہے کہ ضروری گفتگو دن بھر ہوتی رہے تو اس سے قلب پر ظلمت کا اثر نہیں ہوتا۔

چناں چہ ایک کنجڑا دن بھر لے لوا مرودپکارتا ہے تو ذرہ برابر قلب میں اس سے ظلمت نہ آئے گی، کیوں کہ بضرورت ہے اور بے ضرورت ایک جملہ بھی زبان سے نکل جائے تو دل سیاہ ہو جاتا ہے ۔ ( انفاس عیسی ص:189)
            دل زبر پر گفتن بمیرد در بدن
            گرچہ گفتارش بود در عدن
بے کاری میں شیطان قلب میں تصرف کرتا ہے۔ فرمایا کہ میں تو اس کو پسند کرتا ہوں کہ ہر شخص کام میں لگے، چاہے وہ کام دین کا ہو یا دنیا کا۔

جو شخص مصروف ہوتا ہے وہ بہت سی خرافات سے بچا رہتا ہے ۔ ایک بزرگ نے راستہ سے گزرتے ہوئے ایک شخص کو سلام نہیں کیا اور جب اسی راستہ سے لوٹے تو وہ شخص زمین کرید رہا تھا۔ ان بزرگ نے اس کو سلام کیا، لوگوں نے دریافت کیا کہ حضرت اس میں کیا راز تھاکہ اس شخص کو آپ نے پہلے تو سلام نہیں کیا اور اب کیا؟ فرمایا کہ پہلے وہ بے کار بیٹھا تھا، اس لیے اس کے قلب میں شیطان تصرف کر رہا تھا اور اب مشغول ہے، گوبے کار ہی فعل میں صحیح، جو معصیت بھی نہیں، اس لیے شیطان اس سے دور ہے ۔ (انفاس عیسیٰ ج2 ص:596)

اصلاح قلب کے لیے قطع علائق ضروری ہے
اصلاح قلب تمام علائق قطع کیے بغیر نہیں ہو سکتی اور قطع تعلق سے مراد تقلیل غیر ضروری تعلقات کی ہے اور ضروری تعلقات کی تکثیر مطلق مضر نہیں۔ (انفاس عیسیٰ ص:26)

دل کے تباہ ہونے کی علامات
مبصر شیخ یہ ادراک کر لیتا ہے کہ تمہارے تعلقات کا منشا حظ نفس ہے یا اتباع سنت۔ وعظ کرکے دل خوش ہو ، تعلقات ماسوی الله میں دل پھنسا ہو ، یکسوئی سے کورا ہو ، نماز پڑھنے میں حظ نہ آتا ہو، ہاں! وعظ چاہے جتنا کہلوا لو، اس میں حظ آتا ہو، جلسوں میں شرکت کے لیے فوراً تیار ہو جاتے ہیں، یہ حالت دل کے تباہ ہونے کی علامت ہے ۔ (انفاس عیسی ج1، ص:360)

مصائب اور بلاؤں سے قلوب کا آپریشن
جس طرح والدین بچوں کے دنبل کا آپریشن کرتے ہیں اسی طرح الله تعالیٰ قلوب کا آپریشن کرتے ہیں جب کہ دلوں میں غفلت بڑھ جاتی ہے اور گناہوں کی ظلمت سے دل پر پردے پڑ جاتے ہیں تو مصیبت اور بلا کے نشتروں سے دلوں کا خراب مادہ نکالا جاتا ہے او ران کی اصلاح کی جاتی ہے، پس یہاں بھی بالفعل تکلیف ہے اور وہاں بھی، مگر انجام دونوں کا راحت ہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہاں راحت قریب ہے کہ پندرہ بیس ہی دن میں دنبل نشتر دینے کے بعد صحت ہو جاتی ہے اور یہاں بعید ہے کہ قیامت میں اس کا ظہور ہوگا ،جب مصائب کا ثواب ملے گا۔ ( کمالات اشرفیہ ص:266)

واردات قلب منجانب الله ہیں
حضرت مولانا گنگوہی نے میرے ایک عریضہ کے جواب میں فرمایا کہ جو کچھ قلب پروارد ہو منجانب الله خیال کرو۔ جوواردات مضر ہوں گے اس مراقبہ سے سب دفع ہو جائیں گے۔( انفاس عیسی: ج2 ص:433) حضرت حاجی صاحب فرماتے تھے کہ نماز پڑھنے میں جو کچھ قلب پر وارد ہوتا ہے صحیح ہوتا ہے۔ (روح القیام ص:99،و معارف امدادیہ ص:173)

قلب سلیم خیر وشر کا صحیح ادراک کرتا ہے
ایسا قلب جو محل ہوتا ہے تجلیات لامتنا ہیہ کا او رمہبط ہوتا ہے انوار الہیٰہ کا ،اسی کی نسبت کہا ہے #
            آئینہ سکندر جام جم است بنگر
            تا بر تو عرصہ دارد احوال ملک دارا
یہاں سکندر اور دارا سے مراد وہ دو بادشاہ نہیں جن کی کسی وقت لڑائی ہوئی تھی، بلکہ دو مخالف مراد ہیں سکندر تم خود ہو اور دار اوہ ذات شریف ( ابلیس لعین) ہے ،جو سب کو دار پر لے جارہا ہے۔ مفہوم یہ ہوا کہ تمہارے اندر ایک آئینہ سکندریا جام جم موجود ہے، اس میں دیکھو اور غور کر وتو اس میں ملک دارا یعنی ابلیس کے حالات نظر آئیں گے یعنی ابلیس کے تلبیسات اور مکروفریب کا انکشاف ہو جائے گا تو ان سے بچ سکو گے، یہ اسی قلب کے متعلق کہا ہے جس میں صفات قلب موجود ہوں، کما قال الله تعالیٰ ﴿ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب او القی السمع وھو شہید﴾( اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس دل ہو یا وہ متوجہ ہو کر کان ہی لگا دیتا ہو ) یعنی جس کا قلب سلیم ہو (اور اس میں علم وعزم ہو ) او راس میں عقل سلیم سے استعداد ہو صحیح بات سمجھنے کی۔

واقعی اگر قلب میں صفت سلامت پیدا ہو جائے تو ایسا دقیقہ رس ہو جاتا ہے کہ بے تکلف خیر وشر کا ادارک کر لیتا ہے۔ ( جلاء القلوب ص :94,93,90) مگر قلب میں ایسی صفت پیدا کرنے کے لیے کسی شیخ کامل کی سرپرستی میں سخت مجاہدہ کی ضرورت ہے ۔ بقول عارف بالله حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب #
            آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل
            کچھ نہ پوچھو دل بڑی مشکل سے بن پاتا ہے دل

وسوسہ قلب کے باہر سے آتا ہے
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وسوسے قلب ہی کے اندر سے پیدا ہوتے ہیں !یہ بات نہیں ہوتی، بلکہ ہوتے تو باہر ہی ہیں، لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اندر ہیں او رجب قلب میں عقائد حقہ مرکوز ہیں تو ان کے خلاف خود قلب سے کیوں پیدا ہو گا؟ خارج ہی سے آئے گا، یعنی بالقاء شیطان۔ جس طرح کسی شیشہ پر مکھی بیٹھی ہو تو وہ شیشہ کے اوپر ہی ہے، لیکن عکس کی وجہ سے دیکھنے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر بیٹھی ہوئی ہے۔ ( کمالات اشرفیہ ص:200)

نماز میں احضار قلب مقصود ہے
قطع وسوسہ کی کوئی تدبیر حدیث میں نہیں آئی، یعنی ایسی تدبیر جس کے بعد وسوسہ آئے ہی نہیں، بلکہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایسی تدبیر بتلائی ہے کہ اگر وسوسہ آئے بھی تو پریشانی نہ ہو اور وہ عدم التفات ہے اس پر۔ میں نے کہا کہ عدم التفات کے بعد یہ بھی نہ دیکھو کہ وسوسہ گیا یا نہیں، یہ بھی التفات ہے، بلکہ مجاہدہ کے بعد بھی وساوس موجود ہوں تو پریشان نہ ہو۔ (فناء النفوس) کیوں کہ توجہ قلب کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے رویت بصر کی۔ جب آپ ایک نقطہ کی طرف نگاہ کریں گے اور اشیاء بھی تبعا نظر آئیں گی تو جس طرح حاسہ بصر کے سامنے اور چیزیں بھی اضطراراً آجاتی ہیں اسی طرح حاسہ بصیرت کے سامنے بھی کچھ چیزیں (وساوس) آجاتی ہیں ،اس لیے سالک کو وساوس سے پریشان نہ ہونا چاہیے۔

احضار قلب نماز میں مامور بہ ہے اور ہے اختیاری اس کو عمل سے حاصل کرو ۔مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی نے ایک بار اس کی حقیقت یہ بیان فرمائی کہ نماز فعل مرکب ہے، جس کے مختلف اجزاء ہیں، قیام وقعود اور رکوع وسجود، قرات واذکار وغیرہ۔ پس احضار قلب یہ ہے کہ اس کے اعمال واقوال کو حفظ سے ادا نہ کر و،بلکہ ارادہ اور توجہ سے ادا کرو کہ اب زبان سے یہ نکال رہا ہے ، اب یہ لفظ کہہ رہا ہوں ، اب سجدہ کر رہا ہوں اور ہر فعل اور لفظ پر جدید ارادہ کرو۔ اس طرح کہ احضار قلب حاصل ہو جائے۔ ( فناء النفوس) اس کو حضور قلب نہ سمجھیے گا جو اختیاری نہیں، نہ اس کا مکلف کیا گیا ہے، بلکہ حکم اس کا ہے کہ تم اپنی طرف سے قلب کو حاضر کرنے کی کوشش کرو ۔ اسی طرح اپنی طرف سے وساوس نہ لاؤ اور خود بخود آئیں تو پریشان نہ ہو (اپنی طرف سے احضار قلب کی پوری سعی کرو )۔
            وساوس جو آتے ہیں ان کا ہو غم کیوں
            عبث اپنے جی کو جلانا برا ہے
            خبر تجھ کو اتنی بھی ناداں نہیں ہے
            وساوس کا لانا کہ آنا برا ہے
مزید تفصیل کے لیے احقر کا رسالہ ”نماز میں وساوس کا علاج“ کا مطالعہ ان شاء الله بہت مفید ثابت ہو گا۔

اعتکاف کی حالت میں دل کا گھر میں رہنا
اعتکاف کی حالت میں دل کے گھر میں رہنے کا توکچھ ڈر نہیں، کیوں کہ غیر اختیاری ہے ،ہاں! رکھنا نہ چاہیے ( کیوں کہ یہ اختیاری ہے ) اور وہ بھی جب کہ بلا ضرورت ہو اور ضرورت سے تو بعض اوقات رکھنے کا حکم ہے، یعنی انتظام حقوق واجبہ یا مستحبات کے لیے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے تو معراج میں کہ اعلیٰ مقام ہے قرب کا اپنا دل امت میں رکھا تھا اور ان کے مصالح کا اہتمام فرمایا تھا۔ ( انفاس عیسیٰ ج:1 ص:134)

دل میں وطن کا اشتیاق رکھتے ہوئے مکہ میں رہنا بڑی گستاخی ہے
حضرت حاجی امداد الله صاحب مہاجر مکی قدس سرہ کا ارشاد ہے” دل بمکہ وجسم بہ ہندوستان ،بہ ازآنکہ جسم بہ مکہ ودل بہ ہندوستان یعنی دل مکہ میں اٹکا ہو اور جسم ہندوستان میں یہ اس سے بہتر ہے کہ جسم مکہ میں ہو اور دل ہندوستان میں ۔ اسی لیے حضرت عمر رضی الله عنہ کی عادت تھی کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں سے کہتے پھرتے تھے کہ اب حج ہو چکا ، اب گھر کا راستہ لو ”یا اھل الیمن یمنکم ویآ اھل الشام شامکم ویآ اھل العراق عراقکم“ یعنی یمن والے یمن جاؤ، شام والے شام کو واپس جاؤ اور عراق کے رہنے والے عراق واپس جاؤ۔ حضرت عمر بڑے حکیم تھے۔ وہ جانتے تھے کہ حج کے بعد قدرتی طور پر وطن کا اشتیاق دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے تو اب ایسی حالت میں مکہ کے اندر قیام کرنا باطن کے لیے مضر ہے ۔ اس دربار میں اپنے گھر کو یاد کرتے ہوئے نہ رہنا چاہیے، یہ بڑی گستاخی ہے۔ (کمالات اشرفیہ ص:45، تفاضل الاعمال ص:12، محاسن الاسلام ص:60، معارف امدادیہ ص:66) (جاری)
Flag Counter