لوہے کا پہاڑ
محترم یرید احمد نعمانی
افغانستان پر سامراجی تسلط کو دس برس مکمل ہوچکے۔ایک عشرہ قبل دنیاکے سب سے طاقت ورملک نے ،ایک پس ماندہ ترین سرزمین کو اپنی ننگی جارحیت کاہدف بنایاتھا۔قیامت خیز گھڑیاں تھیں۔غروروتکبر سے اکڑی گردنیں خم کھانا بھول چکی تھیں۔مادی برتری کا نشہ سرچڑھ کربول رہاتھا۔ایک طرف طاغوت کے پجاری تھے،دوسری جانب رحمن کے بندے۔ایک اپنی طاقت وقوت پر نازاں تھاتودوسرا اپنے رب کی خصوصی نصرت کا امید وار۔ ایک کے ساتھ دنیاکی جدیدترین ٹیکنالوجی اورسامان حرب سے مسلح فوج تھی،دوسرااپنی بچی کھچی اورمنتشر قوت کو جمع کرنے میں مصروف عمل۔ایک سمت صلیبی اتحادی مظلوم وبے کس مسلمانوں کے خاتمے کے لیے یک زبان تھے ،دوسری جانب اپنوں نے بھی عین وقت میں بے گانگی اور چشم پوشی کی چادراوڑھ رکھی تھی ۔ظاہر کی آنکھ اورعقل کا فیصلہ یہی بتلارہا تھاکہ بس چند مہینوں کا کھیل ہے،جوجلداختتام پذیر ہوجائے گا۔کہاں توآلات حرب تک کی فروانی اورکہاں اشیاء خوردونوش کی نایابی ۔کوئی مقابلہ اورتوازن ہی نہیں بنتاتھا،دونوں کے درمیان ۔لیکن آج 10سال بعد زمینی حقائق کوئی اورکہانی سنارہے ہیں۔دنیاپرایک بارپھریہ ثابت ہوگیا کہ کولشکروں کو شکست دی جاسکتی ہے،نظریا ت کونہیں۔
سوال یہ ہے کہ امریکا نے جس طمطراق کے ساتھ اپنے تمام تردست یاب وسائل افغانستان کی تسخیر کے لیے جھونکے تھے،کیا وہ اسے کام یابی سے ہم کنارکرچکے ہیں؟ کیاافغان قوم کے سامنے اپنے آپ کوایک نجات دہندہ اورمصلح کے روپ میں پیش کرنے والے امریکا نے ،افغانوں کی تعمیروترقی کے لیے خاطرہ خواہ اقدامات کیے ہیں؟اگر ہاں تو وہ کس حد تک کارگر اورموٴثرثابت ہورہے ہیں؟ان سوالات کے جواب کے لیے انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی حالیہ رپورٹ کاحوالہ ہی کافی ہوگا۔جس میں کہا گیا ہے:”طالبان کے زیرکنٹرول علاقوں میں روزبہ روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔2011ء کے پہلے 6ماہ کے دوران غیرملکی فوجیوں اورسویلین کی ریکارڈ ہلاکتیں ہوئیں۔اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجودسرکاری ادارے انتہائی ناقص اورکمزورہیں، جو گڈگورننس فراہم کرنے کے قابل نہیں۔آبادی کا کثیرحصہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔امریکا اوران کے اتحادیوں کے پاس مجوزہ انخلاسے قبل افغانستان کو معاشی اورسیاسی لحاظ سے مستحکم کرنے کے لیے کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے۔“
حیرت انگیز امریہ ہے کہ اس وقت طالبان کی حربی صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔افغان مجاہدین کے حوصلے بلند،ہمت جواں اورارادے غیرمتزلزل ہیں۔عیدالفطر کے موقع پر طالبان کے سپریم کمانڈر ملاعمر مجاہد کاتازہ اعلامیہ اس پر شاہدعادل ہے۔”بدر“کے نام سے موسوم صلیبی افواج کے خلاف جاری کارروائیوں میں ،جس طرح دشمن کوتباہی سے دوچارکیا جارہاہے ،اس نے بلاشبہ عالم کفرمیں زلزلہ بپاکردیاہے۔ایک سروے کے مطابق افغان عوا م کی اکثریت اب یہ سمجھتی ہے کہ نیٹو کے زیرقیادت اتحادی افواج، طالبان کی قوت کمزورکرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ امریکی فوج کی نفسیاتی شکست کی اس سے بڑی اورکیا مثال ہوسکتی ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ مہینے میں مجموعی طور پر 32فوجیوں نے خود کشی کرلی۔جن میں سے 22فوجی مستعد ڈیوٹی پرتھے۔جب کہ دس فوجیوں کا تعلق ریزرویونٹ سے تھا۔
تصویر کا دوسرارخ یہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر، عراق وافغانستان میں اب تک 12کھرب ڈالر خرچ کر چکاہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ اس نقصان میں،ہرگزرتے سیکنڈکے ساتھ 5ہزارڈالر کااضافہ ہورہاہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی میڈیا نے نائن الیون کی حالیہ برسی کے موقع پر ،اپنی حکومت کی جنگی پالیسیوں کو شدید تنقیدکانشانہ بنایاہے۔دوسری جانب افغان جنگ جس تیزی سے نیٹو کے وسائل ہڑپ کررہی ہے ،وہ بھی عالمی طاقتوں کے حق میں کوئی نیک شگون نہیں۔ایک اخباری اطلاع کے مطابق:”آئندہ 8 ماہ کے لیے 2.7 ارب ڈالرکافوجی سازوسامان افغانستان میں استعمال کیاجائے گا۔جس میں لڑاکا طیارے اورٹینک شامل نہیں ہیں۔“ لا محدود دفاعی اخراجات،اعصاب شکن جنگ،بڑھتی ہوئی جنگی ضروریات اور معاشی ابتری نے حقیقتاًاتحادیوں کو مشکلات سے دوچارکررکھاہے۔اسی لیے نیٹومنصوبہ سازبھی اب افغان جنگ کو”لوہے کاپہاڑ“کہنے پر مجبورہیں ۔واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے 2014ء میں افغانستان سے فوجی انخلاکا اعلان بھی دھوکاثابت ہواہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا2024ء تک قیام کے لیے افغانستان میں پانچ اہم فوجی اڈے حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔
طالبان کے ہاتھوں ذلت آمیز ہزیمت اٹھانے کے باوجود امریکا خطے میں نیا گیم کھیلنے کی تیاری میں مصروف ہے۔جس کے فریق مخالف میں سرفہرست پاکستان کانام سامنے آتاہے۔کوئی دن نہیں جاتا،جس میں امریکی حکام اورذرائع ابلاغ مملکت خدادادکے خلاف ہرزہ سرائی نہ کرتے ہوں۔پروپیگنڈاجنگ کے ذریعے آہستہ آہستہ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہاہے۔بالخصوص سانحہٴ ابیٹ آباد کے بعد واشنگٹن براہ راست کارروائی کا عندیہ بھی دے چکاہے۔داخلی طورپربھی وطن عزیز کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے مختلف جہتوں سے کام ہورہاہے۔ فی الواقع گذشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان نے ،جس طرح امریکی وصلیبی جنگ میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگایاہے ،تاحال اس کا کوئی فائدہ کہیں نظر نہیں آرہا۔آئندہ بھی کسی نوعیت کے نفع کی توقع عبث ہی ہوگی۔ الٹا40ہزارکے قریب انسانی جانوں اور80ارب ڈالرکا ناقابل برداشت نقصان ملک عزیز کو سہنا پڑا ہے۔علاوہ ازیں طرح طرح کے مصائب عفریت کی مانندمادروطن پر سایہ فگن ہوچکے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سلامتی سے متعلق پالیسی ساز افراد اورادارے ،سابق دخترفروش صدرکی ناکام پالیسیوں سے مکمل برأت ولاتعلقی کا اعلان کریں۔مندرجہ بالا حقائق کے آئینے میں یہ ملک کے نازک ترین حالات کاتقاضابھی ہے اورہماری قومی بقاوسلامتی کاسوال بھی۔