Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1432ھ

ہ رسالہ

10 - 16
بے حجابی خوش نما کانٹوں کی مالا ہے
مولوی محمد نایاب حسن

یوں تو عصر حاضر میں اسلام اور مسلمانوں پر مختلف النوع تابڑ توڑ حملے ہورہے ہیں، چناں چہ کبھی انہیں بنیاد پرست ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے ، کبھی قدامت پرستی کی پھبتیاں کسی جاتی ہیں،کبھی دہشت گردی کی تہمت سے نوازا جاتا ہے ، کبھی قرآنِ مقدس کی آیاتِ قتال کے اخراج کی بات کی جاتی ہے ، کبھی اسلامی تعلیم گاہوں کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اور نہ جانے کتنے اعتراضات واشکالات ہیں، جو مسلمانوں پر بلکہ دراصل اسلام پر کیے جاتے ہیں۔

اسلام کے خلاف شدومد کے ساتھ کیے جانے والے ان اعتراضات میں سے ایک اہم، تعجب خیز، بلکہ ہر دلِ مسلم کے لیے دھماکہ خیز اعتراض وہ ہے جو دشمنان اسلام، اس کی حقانیت ظاہرہ اور اس کی روشن تعلیمات سے کورچشمی برتنے والے اہل مغرب اور ان کے پروردوں کی جانب سے ایک طویل عرصے سے پیہم اچھالا جاتا ہے ، وہ اعتراض اسلام کے مبنی برمصالح حکمِ حجاب پر ہے، یہ حکم اپنے تمام تروضوح، ثمر آور اور دور رس ومثبت نتائج رکھنے کے باوجود عقل کے دشمنوں کے گلے ہی سے نہیں اترتا، چناں چہ مغرب سے اس کے خلاف بڑی پر زور وپرشور آوازیں اٹھتی رہتی ہیں، جن کی دھمک بلادِ عربیہ او رایشیا تک میں نہ صرف محسوس کی جاتی ہے، بلکہ چند ایک روشن خیال قسم کے لوگ ان کی سُر میں سُر ملانے کے لیے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں ، بقصد اختصار ہم صرف گزشتہ دو سالوں کا عالمی منظر نامہ پیش کرتے ہیں ، جس سے اس مسئلے کی زبردست حساسیت واہمیت واشگاف ہوتی ہے۔

فروری2009ء کو فرانس کی ایک بڑی یونی ورسٹی کی پچیس سالہ طالبہ” صابرین تروجات“ کو اس کے پیش کردہ تحقیقی مقالے کے انعام کے طور پر دیے جانے والے اسکالر شپ کو اس وجہ سے روک لیا گیا کہ وہ طالبہ برقع میں تھی، اسی سال جون کے مہینے میں یورپی غیر مسلم ملک بلجیم کی صوبائی اسمبلی کی ممبر ”ماہ نور“ کے باحجاب پارلیمنٹ جانے کی وجہ سے دائیں بازو کے ایک ممبر نے کورٹ میں اس کے خلاف جمہوریت کی پامالی کا مقدمہ دائر کر دیا ، اسی سال کی پہلی جولائی کو جرمنی کے شہر ”ڈریسڈن“ کے ایک کورٹ ( یعنی عدل گاہ اورانصاف کے مسکن!) میں بیس سالہ خاتون”مروہ شربینی“ پر چاقو سے بہیمانہ حملہ کیا گیا، جو بالآخر جان لیوا ثابت ہوا اور جولائی ہی کی سات کو، جب کہ ”مروہ شربینی“ کا خونِ ناحق ابھی تازہ ہی تھا کہ ایک فرنچ مسلم خاتون کو اس کے ٹیلرنگ ورک شاپ سے نکال دیا گیا، سبب اس کا بھی حجاب ہی تھا۔

اسی طرح 2010ء میں بھی فرانس کے صدر ” سرکوزی“ کے زہرناک بیانات کا تسلسل رہا، بلکہ حجاب پر پابندی کو سرکاری قانون بنانے کی بھی کوشش کی گئی ، بعض اسلامی ملکوں سے بھی مسئلہ حجاب کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا اظہار کیا گیا، ایشیا کے ایک بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں بھی شاہانِ مغرب کی ہاں میں ہاں ملانے کا افسوس ناک منظر دیکھنے کو ملا، چناں چہ ایک نام نہاد مسلم خاتون ، میدان سیاست کی سرگرم کارکن اور سابق فلمی ایکٹرس کی طرف سے اسلامی پردے کو غیر ضروری اور بے فائدہ بتلایا گیا ، کاغذی شیر، پیر نابالغ او رمسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے کسی بھی موقع کی ٹوہ میں لگے رہنے والے شیوسینک لیڈر” بالا صاحب ٹھاکرے“ نے بھی برقع پر پابندی کا مطالبہ کیا، اس لیے کہ ہندوستان کی صنعتی راجدھانی ” ممبئی“ کے اژدحامی علاقے ”اندھیری“ سے کسی نقاب پوش نے ایک بچے کا اغوا کر لیا تھا اور چلتے چلتے سال کے اخیر میں یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ اس سال عالمی نقشے پر اپنی جرأت بیبا کی کی چھاپ چھوڑنے اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی وجہ سے عالمی میڈیا کی سرخیوں میں رہنے والے اسلامی ملک ”ترکی“ کی استنبول یونی ورسٹی کے کلیة الطب کی ایک طالبہ کو اس کے استاذ نے نقاب پوش ہونے کی وجہ سے لیکچر روم سے نکال دیا او راس طالبہ کی مجلس تعلیمی سے شکایت کرنے کے بعد یونی ورسٹی کو طالبہ کے (خواہ نقاب پوش ہو ) محاضرے میں شرکت کی مطلق اجازت کا قانون نافذ کرنا پڑا، اس استاذ اور اس کے ہم نواؤں کا کہنا تھا کہ نقاب لگا کر کلاس میں آنا، جمہوری آئین کی خلاف ورزی ہے او رترکی آئین اس کی اجازت نہیں دیتا، جب کہ مجلس تعلیمی کی طرف سے کہا گیا کہ ترکی کے دستور میں یہ بھی ہے کہ کسی بھی شخص کو حصول تعلیم کے حق سے باز نہیں رکھا جاسکتا اور بالآخر بات مجلس ہی کی معتبر رہی۔

اسلامی مفکرین، دانشوران او رامت کے احوال کے تئیں واقعیت پسندی سے کام لینے والے ہر شخص کے دل میں ان سوالات کا کھٹکنا بالکل یقینی اور بدیہی ہے کہ آخر اسلامی پردے کے تئیں اس تنگ نظری کی کیا وجہ ہے ؟ اورپردہ داری کی وجہ سے صرف مسلم خواتین کے حق میں ہی ہر نوع کا تشدد کیوں روارکھا جارہا ہے ؟ حالاں کہ عیسائی راہبات اور بدھسٹ مذہب پرست عورتوں میں بھی اس کا خوب چلن ہے او رسب سے اہم یہ کہ اعدائے اسلام کی ان ریشہ دوانیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اسلامی معاشرے ہی سے جنم لینے والے چند ایک مذہب بیزار ذہنیت رکھنے والوں کی طرف سے ” چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی “ کی صدائے مسلسل کیوں آرہی ہے؟

حکم حجاب پر چھینٹا کشی کرنے او راس کو تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ نام نہاد جمہوریت کی پامالی کو بتایا جاتا ہے، حالاں کہ دیگر مذاہب کی ماننے والی خواتین بھی اپنا مذہبی لباس پہنتی ہیں اور کسی بھی پبلک مقام یا تعلیم گاہ میں آنے کی ان کو کھلی اجازت ہوتی ہے۔

آخر جمہوریت کی بحالی کے لیے یہ دہرے پیمانے کیوں؟ ایک طرف تو اسلامی پردے پر روک لگائی جائے اور دوسری طرف دیگرافراد کے لیے کوئی قید نہ ہو۔

بات دراصل یہ ہے کہ ان کے دعوے کے پیچھے ان کی بد نیتی پوشیدہ ہے ، حکمِ حجاب پر پابندی کا مطالبہ اس لیے نہیں کرتے جو وہ ظاہر کرتے ہیں، بلکہ ان کے اس پروپیگنڈے کے پس پردہ اسلام کی بڑھتی ہوئی حیرت انگیز طور پر مقبولیت، اس کی بے پناہ کشش اور تعجب خیز حد تک حقیقت بین افراد کے اسلام کے حظیرہٴ قدس میں پناہ لینے کے غیر منتہی تسلسل کو منقطع کرنے کی گھناؤنی سازشیں سر گرم عمل نظر آتی ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی قدرتی مقناطیسیت ہر فردِ باشعور کو اپنی طرف حیرت ناک حد تک کھینچے جاری ہے ، ہر سال اسلامی تعلیمات کی شفافیت سے متاثر ہو کر بے شمار افراد قبول اسلام سے مشرف ہور ہے ہیں ، اسی طرح اسلام کے حکمِ حجاب سے متاثر ہو کر ان گنت خواتین اسلام کی طرف جھک رہی ہیں ، بلکہ چندایک نو مسلم خواتین کے یہ تاثرات دشمنان اسلام کے دماغ کی چولیں ہلائے دے رہے ہیں کہ وہ حجاب اپنا کر اپنے آپ کو انتہائی محفوظ محسوس کر رہی ہیں، حجاب او رباحجاب خواتین کو تشددِ بے جا کا نشانہ بنائے جانے کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے ۔

ایسی نازک ترین اور تشویشناک صورتِ حال میں اسلامی سوسائٹی کا یہ فریضہ ہے کہ اسلام کی بیٹیوں کو ان کی اصلیت سمجھائے، اسلامی تعلیمات سے روشنا س کرائے ، انہیں بتائے کہ اسلام نے حجاب کا حکم دے کر تم پر ظلم نہیں کیا ہے ، بلکہ تمہاری عصمت وعفت کی حفاظت کا ایک اچھا انتظام کیا ہے ۔ ان کے ذہن ودماغ میں یہ تصور بٹھا دے کہ اگر حالات کے تھپیڑے اور حوادث دہر کی بے دردیاں کہیں تمہیں تلاش معاشِ میں بیرونِ خانہ نکلنے پر مجبور کر دیں تو بھی تم اپنی ناموس کے تحفظ کی خاطر حجاب سے ہر گز باہر نہ آنا، انہیں یہ بھی ذہن نشین کرا دیا جائے کہ اگر تم کسی بڑی دانش گاہ کی طالبہ ہو تو بھی پردہ نشینی سے دامن نہ جھٹک دینا، ان کے دلوں میں یہ حقیقت نقش کالحجر کر دی جائے کہ تمہارے لیے شفقتِ مادریت ، محبت خواہریت اور شوہر کے ساتھ اطاعت شعاری ووفا کیشی ایک عظیم شرف ہے، نہ کہ بوجھ او رتکلیف کا سامان، انہیں اسلام کی روشن تعلیمات کے ذریعہ یہ باور کرا دیا جائے کہ اسلام نے ، بلکہ اسلام ہی نے تمہارے تمام حقوق کو کماحقہ ادا کیا ہے، انہیں یقین دلایا جائے کہ اسلام نے ماں ہونے کی صورت میں تمہارے قدموں تلے جنت رکھی ہے ، بہن ہونے کی صورت میں بھائیوں کے بے مثال لاڈوپیار سے نوازا ہے اور بیوی ہونے کی صورت میں تمہیں گھر کی ملکہ بنایا ہے ، انہیں یاد دلایا جائے کہ اسلامی تاریخ میں صدیق وفاروق، عثمان وعلی، خالد وابن الوقاص وابن زیادو ابن قاسم ، ایوبی  وزنگی ، ابوحنیفہ ومالک، جنید وشبلی اور ان جیسے ہزاروں جواہر ریزے تمہاری دَین ہیں ، لہٰذا وقت کے تندوتیز جھکڑ تمہارے پائے ثبات میں ذرا بھی لغزش نہ پیدا کرنے پائیں او رتمہاری ناموس ووقار کے لٹیروں کی سازشیں ہر گز ہر گز تمہیں اپنے دین سے سرگشتہ نہ کرنے پائیں۔

اسی طرح مسلم معاشرے کے تنور پسند او رتہذیب جدید کو خوش آمدید وآفریں کہنے والوں کی غیرت وحمیت پر تازیانے برسائے جائیں، ان سے پوچھا جائے کہ کیا تم اتنے بے حمیت ہو گئے کہ سرِ عام اپنی عزت وناموس کو بیچنے کے لیے تیار ہو ؟ کیا تم چاہتے ہو کہ مغرب کی عریانیت وفحاشی اسلام کے حصن حصین میں درآئے؟ کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری بیٹیاں سرِ بازار اپنے حسن کی نمائش کریں ، نائٹ کلبوں، رقص گاہوں اور تھیڑوں میں عریاں ونیم عریاں ہو کر شہوت رانی وہوس پرستی کے خوگروں کے لیے اپنی موسیقی سے لذت گوش ، اپنے رقص وناز وادا سے لذت نظر اور اپنے صنفی کمالات ( اور درحقیقت حوانیت) کے ذریعہ لذت جسم بن جائیں؟

ان مائل بہ آوارگی ذہنوں او رمذہب ومذہبیات کے پالے سے اپنے کندھے کو جلد از جلد ہلکا کرنے کو بے تاب افراد کے سامنے تاریخ کی روداد ورق ورق کھول کر رکھ دی جائے ، انہیں بتایا جائے کہ تہذیب ِ یونان کے آفتاب نیم روز کے گہنانے کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ اہل یونان خدا کی دی ہوئی بے پناہ دولت، سیم وزر کے ذخائر اور وسائل معیشت کی بے پناہ فراوانی کا صحیح اور موزوں طریقہ پر استعمال کرنے کی بجائے عیش وعشرت کے دل دادہ ہو گئے تھے، حسن وعشق کے درمیان پردہ نام کی کوئی چیز نہ تھی ، شہوت رانی جنون کی حد تک ان کے دل ودماغ پر چھا چکی تھی، افسانہٴ عبرت بن کر رہ گئے، پھر روم کی بلند اقبالی کا دورِ ہمایوں آیا، ان کی تہذیب کا بھی خوب چرچا رہا، دنیا کے خطے خطے اور گوشے گوشے میں ان کی عظمت کی دھوم مچ رہی تھی، مگر انہوں نے بھی وہی غلطی کی کہ کہاں تو عصمت وعفت کو ایک قیمتی شے سمجھا جاتا تھا اور اسی کو معیار شرافت گردانا جاتا تھا، اخلاق کا معیار کافی بلند تھا، مگر اچانک اخلاقیات کے سارے بند ٹوٹ پڑے اور روم میں شہوانیت، عریانیت اور فواحش کا سیلاب باخیز پھوٹ پڑا، تھیڑوں میں بے حیائی کے کھلم کھلا مظاہرے ہونے لگے ، ننگی اور فحش تصویریں ہر گھر کی زینت کے لیے ضروری ہو گئیں، قحبہ گری کے کاروبار کو اتنا فروغ حاصل ہوا کہ قیصر ٹائبریس (14 م تا37 م) کو معزز خاندانوں کی عورتوں کو پیشہ ور طوائف بننے سے روکنے کے لیے مستقل قانون پاس کرنا پڑا، رومی لٹریچر میں فحش اور عریاں مضامین بے تکلف پڑھے جاتے تھے، بلکہ وہی ادب مقبول عام ہوتا تھا جس میں استعارے کنائے کا بھی کوئی گذر نہ ہو ، بہیمی خواہشات سے اس قدر مغلوب ہو جانے کے بعد تہذیب روم کا قصر عظمت ایسا پیوندِ خاک ہوا کہ پھر اس کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ قائم نہ رہ سکی۔

مسلم معاشرہ کے عقل باختہ اور فریب خوردہ افراد کو مغربی تہذیب او راس کے لائے ہوئے گناہوں کے سیلاب کے بارے میں کھول کھول کر بیان کیا جائے، انہیں بتایا جائے کہ فرماں روایانِ مغرب کا نعرہٴ مساواتِ مرد وزن، ان کے معاشی استقلال کی صدائے بازگشت اور مرد وعورت کے آزادانہ اختلاط کے اس پروپیگنڈے کے پس منظر میں کیا ہے ؟ وہ دراصل بھانپ چکے ہیں کہ مسلمانوں کو ان کے د ین،ان کے نبی صلی الله علیہ وسلم اوران کے قرآن سے برگشتہ کرنے کے لیے ظلم وعدوان کی ہر تدبیر ناکارہ ہوتی جارہی ہے ، لالچ او رحرص وطمع دے کر بھی ہم انہیں شیشے میں نہ اتارسکے، اس لیے انہوں نے ایسے پر فریب نعرے دیے کہ بہ ظاہر سننے والا اس کو اپنے دل کی آواز سمجھ بیٹھے اور باور کر لے کہ واقعتا عورت کی صنف اب تک دبی کچلی تھی اور تہذیب غرب کے علم برداروں کی ان کے حقوق کی بازیابی کی کوششوں کو سراہنا چاہیے، بلکہ ان کے قدم سے قدم ملا کر تعاون باہمی کا مکمل ثبوت دینا چاہیے، حالاں کہ مغرب کی پالیسی وہ بالکل نہیں جو وہ ظاہر کرتے ہیں، بلکہ وہ فطرت کے مقیاس بدل دینے کے خواہاں ہیں، مساوات کے نام پر عورتوں کو ان کی سکت سے زیادہ مکلف بنانے کی خطرناک سازش ہے اورسب سے زیادہ ان کی خواہش یہ ہے کہ مسلمان عورتوں پر نشانہ سادھا جائے، ان کے نقاب کو الٹ دیا جائے او ران کو کوچہ وبازار، رقص گاہ، سرکاری دفاتر او رہر پبلک مقام پر کھینچ کرلایا جائے او رعورت ومرد کے آزادانہ اختلاط کا اندوہ ناک نتیجہ یہ ہے کہ عورتوں میں حسن کی نمائش ، عریانی اور فواحش کو غیر معمولی ترقی ملی ہے ، صنفی میلان ،جو پہلے ہی سے مرد وعورت کے درمیان موجود ہے طاقت ور ہوتا جارہا ہے ، پھر اس قسم کے صنفی اختلاط کی سوسائٹی میں دونوں صنفوں کے اندر یہ جذبہ ابھر آتا ہے کہ صنف مقابل کے لیے زیادہ سے زیادہ جاذب نظر بنیں اورجب کہ اخلاقی نظریات کی رو سے ایسا کرنا باعث ننگ وعار بھی نہ ہو ، بلکہ شان دل ربائی کو مستحسن سمجھ لیا گیا ہو تو حسن وجمال کی نمائش اپنی تمام حدود کو توڑتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ برہنگی کی آخری حد تک پہنچ کر ہی دم لیتی ہے یہی کیفیت اس وقت مغربی تہذیب میں پیدا ہوچکی ہے، صنف مقابل کے لیے مقناطیس بننے کی خواہش عورت میں اتنی بڑھ گئی ہے ( اور کسی لمحہ رکنے کا نام نہیں لیتی) کہ شوخ وشنگ لباسوں ، غازوں کی تہوں، سرخیوں اور بناؤ سنگار کے نت نئے سامانوں کے استعمال کے باوجود اس کی شہوت نمائش حسن کو قطعی تسکین نہیں ملتی ، چناں چہ وہ تنگ آکر کپڑوں سے باہر نکل پڑتی ہے ، یہاں تک کہ بسا اوقات بدن پر تارتک نہیں رہنے دیتی، ادھر مردوں کی طرف سے ”ھل من مزید؟ “ کی مسلسل صدا ہے، کیوں کہ جذبات میں جو آگ لگی ہے وہ بے حجابی کے ہر منظر پر سرد نہیں ہوتی ، بلکہ اس میں اور شعلگی آجاتی ہے اورمزید بے حجابی کا مطالبہ کرتی ہے، ان غریبوں کی پیاس بڑھتے بڑھتے، ایسی حالت ہوچکی ہے ، جیسے کسی کو استسقا کا مرض ہو اور پانی کے ہر گھونٹ کے حلق سے نیچے اترنے پر اس کی پیاس مزید بڑھتی جاتی ہو ، حد سے بڑھی ہوئی شہوانیت کی تسکین کے لیے وہ ہر ممکن طریقہ استعمال کرتے ہیں ، چناں چہ یہ ننگی تصویریں، یہ فحش لٹریچرز، یہ عشق ومحبت کے افسانے، یہ عریاں اور جڑواں ناچ کے حیا سوز مناظر او ریہ جذبات شہوانی سے بھری ہوئی فلمیں ،آخر کیا ہیں ؟ سب اسی آگ کو بجھانے ( اور دراصل بھڑکانے) کے سامان ہیں ، جو اس غلط معاشرت نے سینوں میں لگا رکھی ہے او راس بے حیائی وعریانیت کا نام انہوں نے آرٹ ، ثقافت اور فنون لطیفہ رکھا ہے ۔

مغرب کی اس فحاشیت سے خود اس معاشرے میں جنم لینے والی بیٹیاں تنگ آچکی ہیں، جو ان میں تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں، وہ اسلام کے غیر جانب دارانہ مطالعہ کے بعد بصد شوق ورغبت اسلام کی آغوش میں پناہ گزیں ہو رہی ہیں اور ایسی خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، مغرب کی تہذیب کی بنیادوں کو گھن لگ چکا ہے او راس کی عظمت وسطوت کا بلند وبالا محل زمین دوز ہواہی چاہتا ہے۔

اب ایک با رپھر ان مغرب زدہ مشرقیوں سے پوچھا جائے کہ کیا تم اسی تہذیب کے حامی بننا چاہتے ہو جس کے دن گنے جاچکے ہیں؟ جس کی گود میں پلنے والے افراد ہی اس سے دامن چھڑانے کو بے تاب ہیں ؟ جس کی دَین کہ انسان، جسے الله نے مکرم بنایا تھا، وہ ذلت ورسوائی کی تمام حدوں سے گزر چکا ہے۔ تہذیب جدید کے ان ہلاکت خیز نتائج کے سامنے آجانے کے باوجود اگر تمہیں عقل نہ آئی، تم نے اپنے خاندان او رمعاشرے میں اسلامی حجاب کو رواجِ عام نہ دیا، تو اس دن کے لیے تیار رہنا، جب تمہاری ” فراخ دلی“ ”کشادہ ظرفی اور ” مارڈنیسٹ“ بننے کے شوقِ بے پناہ کی بھینٹ خود تمہاری بیٹی چڑھ جائے اور تمہیں اس نیلگوں آسمان کے نیچے اور اس روئے زمین پر ذلت ورسوائی کے سیاہ ترین دھبے کو دھونے کے لیے کوئی جگہ میسر نہ ہو۔ ولا راد لقضائہ․
Flag Counter