Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1432ھ

ہ رسالہ

13 - 16
نافرمان بیٹے کاحالت نزع میں کلمہ شہادت پرقادر نہ ہونا ۔۔۔ ایک مشہور قصے پرناقدانہ کلام
تحقیق: مولانا سرفراز خان ،متخصص فی علوم الحدیث،جامعہ فاروقیہ، کراچی

روایت پر ائمہ حدیث کا کلام
امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:تفرد بہ فائد أبو الورقاء، ولیس بالقوي․
اس روایت کو بیان کرنے میں فائد أبو الورقاء راوی متفرد ہے اور وہ” لیس بالقوي“ (کلمہ جرح) ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے فرزندعبداللہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وکان في کتاب أبي: ……فلم یحدث أبي بہذین الحدیثین، ضرب علیہما من کتابہ؛ لأنہ لم یرض حدیث فائد بن عبد الرحمن، وکان عندہ متروک الحدیث․

یہ روایت اور ایک دوسری روایت میرے والد کی کتاب میں موجود تھیں…، لیکن میرے والد صاحب نے یہ دونوں روایتیں بیان نہیں کیں؛بلکہ ان کو اپنی کتاب میں نشان زد کردیا تھا ؛ کیوں کہ میرے والد فائد بن عبد الرحمن (جودونوں روایتوں کا راوی ہے) کی حدیث کوقبول نہیں کرتے تھے، وجہ یہ تھی کہ یہ ان کے نزدیک ”متروک الحدیث“ (شدیدجرح کا کلمہ)راوی تھا۔

امام ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
حافظ ابو الفرج عبد الرحمن بن علی ابن الجوزی المتوفی597ھ نے بھی عقیلی کے طریق سے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔

ہذا حدیث لا یصح عن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، وفي طریقہ فائد، قال أحمد بن حنبل: متروک، وقال یحیی: لیس بشيء، وقال ابن حبان: لا یجوز الاحتجاج بہ، وقال العقیلي: لا یتابعہ علی ہذا الحدیث إلا من ہو مثلہ․

یہ حدیث رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت نہیں ؛ اس کی سند میں فائد بن عبد الرحمن ہے، جس کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: کہ وہ”متروک الحدیث“(شدیدجرح کا کلمہ) ہے اور یحییٰ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:کہ” لیس بشيء“ (کلمہٴ جرح) ہے، اور امام ابن حبان رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: اس سے استدلال کرنا درست نہیں ، اورامام عقیلی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان کی متابعت کرنے والا اس جیسا کوئی کمزور راوی ہی ہوگا(یعنی کوئی قابل اعتماد متابع موجودنہیں)۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
حافظ شمس الدین محمد بن احمد الذہبی المتوفی 748ھ رحمہ اللہ تعالی نے ”تلخیص کتاب الموضوعات“ میں اس روایت کے موضوع ہونے میں ابن جوزی کی تقریروتصدیق ان الفاظ سے کی ہے۔
رواہ داود بن إبراہیم - کذاب - ثنا جعفر بن سلیمان، ثنا فائد العطار، عن ابن أبي أوفی․

داود بن ابراہیم نے اس کو روایت کیا ہے۔ جو کہ کذاب راوی ہے ۔وہ کہتاہے کہ ہم سے جعفربن سلیمان نے روایت بیان کی ،اس نے کہا کہ ہم سے فائد العطار نے روایت بیان کی،انہوں نے حضرت ابن أبی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ (کی طرف منسوب کرکے) روایت بیان کی ۔

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:ومن مصائب داود بن إبراہیم․(شدیدجرح کا کلمہ) داودبن ابراہیم نامی کمزور راوی نے یہ مصیبت کھڑی کی ہے۔

حافظ عقیلی رحمہ اللہ تعالی کے کلام کی توجیہ:
عقیلی رحمہ اللہ تعالی کا یہ کہنا کہ فائد عطار کی طرح کاکوئی دوسرا راوی ہی اس کی متابعت کرے گا،اس کابے تکلف مطلب یہی ہے کہ امام عقیلی رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک فائدبن عبد الرحمان العطار اِس روایت کونقل کرنے میں اکیلے ہیں،حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے کسی اور نے یہ حدیث نقل نہیں کی ہے ؛ بلکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ روایت موصوف کی سند کے علاوہ منقول نہیں ۔اس میں دو احتمال ہیں، ایک احتمال تو یہ ہے، کہ یہ کلمہٴ جرح ہو، کہ اس کی متابعت اس جیسا کمزور راوی ہی کرتا ہے،بظاہر یہی مراد ہے، حافظ سیوطی رحمہ اللہ تعالی نے بھی حافظ عقیلی رحمہ اللہ تعالی کا قول ذکر کرتے ہوئے یہی مراد لیا ہے، چناں چہ لکھتے ہیں:

فائد متروک، قال العقیلي: ولا یتابع علیہ․
فائد راوی” متروک“ (شدیدجرح کا کلمہ) ہے، حافظ عقیلی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ان کی متابعت نہیں کی جاتی ہے۔

دوسرا احتمال یہ ہے، اس جیسے کمزور راوی نے اس کی متابعت کی ہے،چناں چہ تلاشِ بسیار سے ایک کمزور بلا سند روایت ملی ہے، جو فقیہ ابو اللیث سمرقندی المتوفی 383ھ رحمہ اللہ تعالی نے ”تنبیہ الغافلین“ میں ابان عن انس کے طریق سے ذکر کی ہے اور ابان سے مراد ابان بن ابی عیاش فیروز، العبدی البصری ہے، جو”متروک“ ہے، اور بعض کے نزدیک کذاب ہے۔

اگر دوسرا احتمال مراد لیا جائے، تو پھر حافظ عقیلی رحمہ اللہ تعالی کا کلام امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی کے کلام کے بظاہر معارض ہو گا، کیوں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ”تفرد بہ فائد أبو الورقاء“، جیسا کہ گزر گیا(فائد أبو الورقاء اس کو روایت کرنے میں متفرد ہے )، اس کی توجیہ یوں ہو سکتی ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی کی مراد یہ ہو، کہ اس کی کوئی ایسی متابع روایت نہیں ہے،جس کا اعتبار کیا جاسکے،اگر کوئی غیر معتبر روایت ہو تو یہ اس کا منافی نہ ہو گا، جیساکہ یہاں پرایک شاہد ملاہے۔

متابع روایت میں ابان بن ابی عیاش فیروز، العبدی البصری کے متعلق محدثین کے اقوال:
تنبیہ الغافلین میں متابع روایت جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں ان سے روایت کرنے والا ابان بن ابی عیاش ہے، جس کے بارے میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: قال أحمد: متروک․

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: کہ ابان” متروک“ (شدیدجرح کا کلمہ) ہے۔

حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
حافظ ابو بکر احمد بن علی بن ثابت خطیب بغدادی المتوفی463ھ رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں۔
”أبان بن أبی عیاش رمي بالکذب“․
أبان بن أبی عیاش متہم بالکذب ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی کا کلام
حافظ ابن حجرعسقلانی المتوفی 852ھ رحمہ اللہ تعالی نے ا کو: متروک․(شدیدجرح کا کلمہ) لکھا ہے۔

علامہ ابن عراق کا تعاقب اور اس کا جواب
علامہ علی بن محمد بن عراق الکنانی المتوفی 963ھ رحمہ اللہ تعالی نے عقیلی کے حوالے سے روایت نقل کرکے ان الفاظ میں حافظ سیوطی رحمہ اللہ تعالی کے تعاقب کا خلاصہ ذکرکیا ہے۔

”ولا یصح ، فیہ داود بن إبراہیم قاضي قزوین، وفیہ حامد العطار متروک، (تعقب) بأن داود تابعہ فضیل بن عبد الوہاب، أخرجہ الخرائطي في ”مساوي الأخلاق“، وحامد تابعہ فائد أبو الورقاء، أخرجہ الطبراني والبیہقي في ”الشعب“، وقال: تفرد بہ فائد، ولیس بالقوی“․

یہ روایت صحیح نہیں اس لیے کہ اس کی سند میں ایک راوی داود بن ابراہیم قاضی قزوین اوردوسرا راوی حامد العطار ہے، ابن عراق اس کا تعاقب کرکے فرماتے ہیں کہ فضیل بن عبد الوہاب نے داود بن ابراہیم کی متابعت کی ہے، جس کو خرائطی نے ”مساوي الأخلاق“میں نقل کیا ہے،اور حامد العطار کی متابعت فائد أبو الورقاء نے کی ہے، جس کو طبرانی نے اور بیہقی نے ”شعب الإیمان“ میں نقل کیاہے اور امام بیہقی نے فرمایا کہ فائد اس میں متفرد ہے اور وہ ثقہ نہیں ۔

ابن عراقحمہ اللہ تعالی کا یہ فرمانا کہ عقیلی کی سند میں ایک راوی حامد العطار ہے، درست نہیں؛ کیوں کہ عقیلی کی کتاب ”کتاب الضعفاء الکبیر“ میں اس روایت کی سند میں اس نام کا کوئی راوی نہیں ان کی سند میں فائد العطار ہے اور نہ ہی ”اللآئی المصنوعة“ میں علامہ سیوطی نے علامہ عقیلی کی سند میں کسی حامد العطار کا ذکر کیا ہے بلکہ انہوں نے فائد لکھا ہے، چنا ں چہ اس میں تصحیف واقع ہوئی ہے، ہو سکتاہے کہ ابن عراق رحمہ اللہ تعالی کے پاس ”اللآلی المصنوعَة“ کا ایسا نسخہ ہو جس میں فائد العطار کی جگہ پر حامد العطار لکھاہو اورانہوں نے اس سے نقل کیا ہو، جونسی بھی صورت ہو بہرحال اس نام میں تصحیف واقع ہوئی ہے، اب ابن عراق رحمہ اللہ تعالی کا یہ کہنا کہ حامد العطار کی متابعت فائد أبو الورقاء نے کی ہے، درست نہ ہوگا، کیوں کہ سند میں حامد العطار کوئی راوی نہیں ، جس کی متابعت فائد العطار نے کی ہو؛ بلکہ اسی سند میں اور جس طریق کاابن عراق رحمہ اللہ تعالی حوالہ دے رہے ہیں، دونوں میں فائد العطار ہے، لہذا یہ وہی طریق ہوا ، کوئی دوسری طریق شمار نہ ہو گا۔

سند کے متکلم فیہ راویوں پر کلام
اس روایت کی سند میں دو راوی متکلم فیہ ہیں، ایک داود بن ابراہیم، قاضی قزوین اور دوسرافائد بن عبد الرحمن العطار ابو الورقاء، داود بن ابراہیم کذاب،اور فائد بن عبد الرحمن متروک ہے، ترتیب سے دونوں راویوں کے متعلق محدثین کا کلام ذکر کیا جائے گا۔

داود بن ابراہیم قاضی قزوین کے متعلق ائمہٴ حدیث کے اقوال
امام بیہقی اور امام احمد بن حنبل رحمہمااللہ تعالی کے علاوہ امام ابن جوزی اور حافظ عقیلی رحمہما اللہ تعالی سے جس سند کے ساتھ یہ روایت مروی ہے، اس میں ایک دوسرا راوی داود بن ابراہیم ہے، جو قزوین کا قاضی تھااس کے بارے میں محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں۔

أبو حاتم رازی رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
امام ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی ، ابو حاتم رازی کا قول ذکر کرتے ہوئے رقم طرازہیں:
”وفی إسنادہ داود بن إبراہیم ، قال أبو حاتم الرازی : کان یکذب“․
اس روایت کی سند میں ایک راوی داود بن إبراہیم بھی ہے، ابوحاتم رازی نے فرمایا کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالی کاکلام:
” رواہ داود بن إبراہیم - کذاب“․
اس روایت کو داود بن إبراہیم نے روایت کیا ہے، وہ کذاب ہے۔

حافظ سیوطی المتوفی 911 ھ رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
داود کذاب․داود کذاب ہے۔

ان کے علاوہ حافظ عبد الرحمن بن ابی حاتم الرازی المتوفی 327ھ رحمہ اللہ تعالی نے ”الجرح والتعدیل“میں، اور حافظ شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان الذہبی المتوفی 748ھ رحمہ اللہ تعالی نے ”المغنی فی الضعفاء“میں، اور حافظ أحمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی852ھ رحمہ اللہ تعالی نے ”لسان المیزان“میں اس کے کذاب ہونے کی تصریح کی ہے اور محدثین کے اقوال کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

علامہ سیوطی رحمہ اللہ تعالی نے”اللآلی المصنوعة“ میں امام خرائطی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ”مساوي الأخلاق“ اور امام طبرانی سے روایت کو سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

اس راوی یعنی داود بن ابراہیم کے کذاب ہونے سے اس روایت پر کوئی فرق نہیں پڑتا؛ کیوں کہ فضیل بن عبد الوہاب نے اس کی متابعت کی ہے، جیساکہ گزر گیا۔

لیکن ان تمام طرق کا مدار فائد بن عبد الرحمن العطارکوفی ابو الورقاء پر ہے، جو ”منکرالحدیث“ اور ”متروک“ ہے۔

سند کے دوسرے راوی فائد بن عبد الرحمن العطار ابو الورقاءکے متعلق ائمہٴ حدیث کا کلام
اس روایت کا مدارِ اسنادفائد بن عبد الرحمن ہے، جس کے بارے میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں:

امیر الموٴمنین امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اپنی مایہٴ ناز کتاب ”التاریخ الکبیر“میں لکھتے ہیں:”منکر الحدیث“․(اکثر اوقات شدیدجرح کا کلمہ)۔

اما م بخاری  کے قول ”منکر الحدیث“کے متعلق علمی بحث
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی جس راوی کے بارے میں ”منکر الحدیث“ فرماتے ہیں، ان سے روایت کرنا جائز نہیں ہوتا، جیسا کہ علامہ عبد الحی لکھنوی المتوفی 1304ھ رحمہ اللہ تعالی ”میزان الاعتدال“ کے حوالے سے لکھتے ہیں:”إن البخاري قال: کل من قلت فیہ: منکر الحدیث، فلا تحل الروایة عنہ“․

ایساہی حافظ محمد بن عبد االرحمن السخاوی المتوفی902ھ رحمہ اللہ تعالی ”فتح المغیث بشرح ألفیة الحدیث“اور حافظ جلال الدین السیوطی المتوفی 911ھ- رحمہ اللہ تعالی - ”تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی“ میں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کے اس قول کو نقل کیا ہے۔

تاہم ممارست سے یہ معلوم ہوتاہے، کہ بعض دفعہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی ایک راوی کے بارے میں ”منکرالحدیث“کہتے ہیں لیکن اس راوی کے ضعف کی تلافی ہو جاتی ہے اور اس سے روایت لینا جائز ہو جاتا ہے، لہذا امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کے اس قول کو ان کے ایک دوسرے قول پر محمول کیا جائے گا، جس کو حافظ سخاوی رحمہ اللہ تعالی نے ”فتح المغیث“میں نقل کیا ہے۔

لکن قال البخاری: کل من قلت فیہ منکر الحدیث - یعنی: الذی أدرج فی الخامسة - لا یحتج بہ․

امام بخاری جس راوی کے بارے میں ”منکر الحدیث“ کہیں، اس سے احتجاج نہیں کیا جائے گا، اب ان کا یہ قول عام ہو گیا، چاہے ایسا راوی ہو جس کے ضعف کی تلافی ہی نہ ہو سکتی ہو یا اس کی تلافی ہو سکتی ہو، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کے اس کلام کے ساتھ دوسرے محدثین کے کلام کو بھی دیکھا جائے گا کہ دوسرے محدثین نے اس راوی کے ساتھ کیا معاملہ کیاہے اور اس کے بارے میں کیاحکم صادر فرمایا ہے، پھر اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

ایک ضروری تنبیہ
آگے جانے سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جرح وتعدیل کے جتنے بھی مراتب اور صیغے ہیں یہ قاعدئہ کلیہ نہیں ہیں کہ آدمی ان مراتب اور صیغوں کو یاد کر کے راویوں پر حکم لگانا شروع کردے ، بلکہ ہرجگہ محدثین کی صنیع کو دیکھا جائے گا کہ محدث نے یہاں کونسا صیغہ استعمال کیا ہے،اس سے ان کی مراد کیاہے، ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی محدث کسی راوی کے بارے میں ”ضعیف“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، لیکن ان کی مراد اس سے ”متروک“ ہوتی ہے ،دوسری جگہ ان کے کلام سے اس خاص راوی کے بارے میں ”متروک“ کا لفظ مل جاتا ہے، جیساکہ نور الدین الہیثمی کی کتاب ”مجمع الزوائد“ میں اس کی بہت مثالیں مل جاتی ہیں، حدیث اور علم حدیث اور محدثین کی صنیع سے ناواقف لوگ ایسے محدثین کی گرفت کرتے ہیں، اس سے ان کی جہالت کا اظہار ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے، کہ ہر محدث نے اپنے ذوق سے الفاظ کا استعمال کیا ہے، بعد کے لوگوں نے تطبیق کے لیے یہ قواعدبنائے ، الفاظ پہلے استعمال ہوئے ، قواعد بعد میں بنے،ایسا نہیں ہوا کہ قاعدہ پہلے وضع کیا گیا ہو، پھران محدثین نے اس قاعدہ کی بنیاد پر الفاظ کا استعمال کرنا شروع کردیا ہو، جیسا کہ بعض لوگوں کی صنیع سے معلوم ہوتا ہے، وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہم نے یہ قواعد اورمراتب یاد کردلیے اور سمجھ گئے، لہذا ان قواعد کی بنیاد پر ہی حکم لگائیں گے، اس سے یہ لوگ بڑی بڑی غلطیوں کے شکار ہوگئے ہیں، جن کی تلافی کرنا ہی مشکل ہو گیاہے اور دوسرے علوم حدیث سے ناواقف لوگ ان کی تحقیق پر اعتماد کرکے خوش ہورہے ہیں کہ ہم قواعد کی روشنی میں حدیث پر حکم لگا رہے ہیں، حالاں کہ یہ لوگ علوم حدیث اور محدثین کے اسلوب وانداز سے بالکل کورے ہیں۔اللہ تعالی ہماری حفاظت فرمائے۔

تیسری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کتبِ موضوعات والے مجتہدین حضرات کے تعامل کو دیکھا جائے گا،جیساکہ امام ابن جوزی ، امام ذہبی، حافظ ابن حجر رحمہم اللہ تعالی وغیرہم، کہ انہوں نے اس راوی کی روایات کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے ؟ بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ ایک راوی کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال سخت استعمال ہوئے ہوتے ہیں،جس سے ان کی روایات کو قابلِ بیان بھی شمار نہیں کیا جا سکے گا، لیکن ان کتبِ موضوعات والے مجتہدین حضرات نے ان سے نرمی کا برتاؤ کیا ہوگا اور ان کی روایات کوقابلِ بیان قرار دیا ہوگا، یا معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے، ائمہ جرح وتعدیل نے تو راوی کے متعلق کلام سخت نہیں کیا ہو گا، لیکن کتبِ موضوعات والے مجتہدین حضرات نے اس کے ساتھ سختی کا برتاوٴ کیا ہوگا، لہذا طویل ممارست سے ہی اس کاپتہ چلتا ہے، ایک ،دو روایات یاایک ، دو راوی کی تخریج سے کبھی یہ ملکہ حاصل نہیں ہوسکتا، جیسا کہ ایک دو کتابوں کو دیکھ کرراویوں کے حالات کا فیصلہ نہیں کیاجاسکتا۔

بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے فائد بن عبد الرحمن العطار کو” منکر الحدیث“(اکثر اوقات شدیدجرح کا کلمہ)کہا ہے،اب دوسرے محدثین کے اقوال کو بھی دیکھا جائے گا، دوسرے محدثین نے ان کے ساتھ کیا برتاوٴ کیا؟اکثر محدثین نے اس کو متروک کہاہے،چناں چہ اس کے بارے میں چند محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں۔

حافظ ابوحاتم رازی اور حافظ ابوزرعہ رحمہما اللہ تعالی کا کلام:
حافظ أبو حاتم رازی کے فرزندحافظ عبد الرحمن اپنے والد محترم اور حافظ ابو زرعہ کا قول نقل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
سمعت أبی وأبا زرعة یقولان: فائد أبو الورقاء لا یشتغل بہ، سمعت أبی یقول:فائد ذاہب الحدیث، لا یکتب حدیثہ․

میں نے اپنے والد محترم اور أبو زرعہ کو سنا، فرمارہے تھے: فائد ابو الورقاء حدیث میں شغل نہیں رکھتا اور ایک دوسرے موقعہ پر میں نے اپنے والد محترم کو سنا،فرمارہے تھے کہ فائد ”ذاہب الحدیث“ہے اور ”لایکتب حدیثہ“ کے درجہ میں ہے۔

مزید لکھتے ہیں:وأحادیثہ عن ابن أبی أوفی بواطیل، لا تکاد تری لہا أصلاً، کأنہ لا یشبہ حدیث ابن أبی أوفی، ولو أن رجلاً حلف أن عامة حدیثہ کذب لم یحنث․

فائد بن عبد الرحمن العطار کی ابن أبی أوفی سے منقول تمام روایتیں باطل ہیں، ان کی کوئی اصل نہیں دیکھی جا سکتی ہے، گویا ان کی روایتیں حضرت ابن أبی أوفی رحمہ اللہ تعالی کی روایات کے مشا بہ نہیں ہیں، اگر کوئی شخص قسم کھائے، کہ اس کی اکثر روایتیں جھوٹ ہیں تو وہ حانث نہ ہو گا!!۔

امام محمد بن حبان بن احمد ابی حاتم بستی المتوفی 354ھ رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
کان ممن یروي المناکیر عن المشاہیر، ویأتي عن ابن أبی أوفی بالمعضلات، لا یجوز الاحتجاج بہ.

فائد ان لوگوں میں سے ہے جو مشاہیر محدثین سے منکر روایتیں بیان کیا کرتے تھے،بالخصوص ابن ابی اوفی سے معضلات روایت کرتا تھا، اس سے استدلال کرنا جائز نہیں۔

حافظ شمس الدین ذہبی المتوفی 748ھ رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
ترکوہ․(شدیدجرح کا کلمہ)۔

حافظ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی المتوفی 807ھ رحمہ اللہ تعالی کاکلام:
آپ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد ر قم طراز ہیں۔
رواہ الطبراني وأحمد باختصار کثیر، وفیہ: فائد أبو الورقاء، وہو متروک․

امام طبرانی اور امام أحمد بن حنبل رحمہما اللہ تعالی نے اس کو بہت اختصار کے ساتھ نقل کیاہے ، اس کی سند میں ایک راوی فائد أبو الورقاء ہے، جو متروک (شدید کلمہٴ جرح) ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی المتوفی 852ھ رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
فائد ہالک․
فائد ”ہالک “ (شدیدجرح کا کلمہ) ہے۔

حافظ سیوطی رحمہ اللہ تعالی کا کلام:”فائد متروک“․
فائد ”متروک“ (شدیدجرح کا کلمہ) ہے۔

ان کے علاوہ دوسرے محدثین نے بھی اس کی تجریح کی ہے، جس کی تفصیل حافظ جمال الدین ابو الحجاج یوسف مزی المتوفی 742ھ کی مشہور کتاب ”تہذیب الکمال فی أسماء الرجال“ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

خلاصہٴ کلام
محدثین کے مذکورہ اقوال کی روشنی میں یہ ثابت ہو گیا کہ جب تک کوئی دوسرا معتبر طریق نہ ملے اس وقت تک اس روایت کو بیان کرنادرست نہیں گا۔
Flag Counter