افراد سازی ۔۔۔ قرآن کریم کی روشنی میں
محترم اختر امام عادل قاسمی
﴿وارسلنا الریاح لواقح فانزلنا من السماء ماءً فاسقیناکموہ وما انتم لہ بخازنین﴾․ (حجر:22)
ترجمہ: بوجھل اوررس بھری ہوا کے جھونکے بھیج کر ہم نے آسمان سے پانی برسایا، پھر تم کو خوب سیراب کیا، جب کہ تم اپنی ضرورت کے مطابق پانی کا خزانہ جمع نہیں رکھ سکتے تھے۔
اس آیت کی کسی دقیق علمی تفسیر سے گریز کرتے ہوئے، اگر ظاہری معنی ہی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ظواہرِ طبیعی کے چند مہمات پر روشنی پڑتی ہے، آیت میں تو بظاہر ہوا کا فائدہ بیان کیا گیا ہے کہ ہواؤں کے چلنے سے ابرباراں کا نزول ہوتا ہے، مگر قدرتی طور پر یہاں ابروباد کے رشتہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہوا چلنے سے بادلوں کا سفر شروع ہوتا ہے، اس سفر کے دوران بادلوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے ، جس کے نتیجے میں کڑک اور اس کے ساتھ ہی بجلی پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد بارش کی فیاضی شروع ہوتی ہے… اس طرح صرف اس ایک آیت سے کڑک ، بجلی کی چمک اور بارش کے نزول کے بارے میں کتنے سائنسی نکتے معلوم ہو جاتے ہیں ، بلکہ یہیں سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ بجلی کی تخلیق مثبت اور منفی اثرات کے آبی تصادم سے ہوتی ہے ، اس انکشاف سے انسانی عقل اس حقیقت تک پہنچی، جو آج ہمارے پاس الیکٹرک نظام کی شکل میں موجود ہے۔
چند علمی حقائق
قرآن میں جہاں ظاہر بینوں اور عام عقل والوں کی ہدایت وروشنی کے لیے ظواہر طبیعی سے استدلال کیا گیا ہے ، وہیں اہل نظر اور ارباب علم وعقل کے لیے دقیق علمی وتکوینی نکات سے بھی بحث کی گئی ہے، صحیح ہے کہ قرآن کوئی فلسفہ وسائنس اور فنونِ لطیفہ کی کتاب نہیں ، بلکہ یہ اصل میں کتابِ ہدایت ہے ، جس کا مقصد ساری انسانیت کو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دعوت پر جمع کرنا ہے، مگر چوں کہ یہ ایک کامل ومکمل کتاب ہے اور ہر دور کے لیے کافی رہنمائی کی صلاحیت رکھتی ہے ، اس بنا پر اس میں عام عقلی وبد یہی استدلالات سے لے کر دقیق سائنسی حقائق سے بھی تعرض کیا گیا ہے، تاکہ ہر قسم کا مذاق رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب بہتر غذا مہیا کرسکے، ہمارے محققین نے اس موضوع پر بہت کام کیا ہے، اس لیے تفصیل کے لیے انہیں کی طرف مراجعت کی جائے۔
میرا مقصد صرف کرگسوں میں پلے ہوئے شکست خوردہ شاہینوں کو یہ بتانا ہے کہ جس علم وفن کی تلاش اور جس آبِ حیات کی جستجو میں وہ مغرب کے بت کدوں کی خاک چھان رہے ہیں ، وہ خود ان کے گھر میں موجود ہے ، مغرب انہیں علم وفن کی بعض جزئیات سے آگاہ کرسکتا ہے اور آبِ حیات کے چند قطرات فراہم کرسکتا ہے ، جب کہ خو دان کے گھر میں علم وفن کی کلیات پر مشتمل کتاب ( قرآن ) موجود ہے، وہ ایک قطرہٴ آب کے لیے پریشان ہیں ، حالاں کہ خود ان کے مذہب کی سلبیسل سے چشمہٴ حیات بہہ رہا ہے ، وہ یورپ کے آشیانوں میں شاہبازی کے آداب سیکھنے جارہے ہیں، جب کہ قرآن ان کو اس سے بدر جہا بہتر طور پر سکھانے کو تیار ہے ، بشرطیکہ وہ اس پر توجہ دیں #
وہ شکست خوردہ شاہین جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ ورسمِ شاہبازی
اس ضمن میں چند نمونے پیش کرتا ہوں:
سورج کے بارے میں قرآنی تصور
سورج کے بارے میں قرآن کا تصور یہ ہے کہ وہ اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے اپنی مقررہ منزل کی جانب رواں دواں ہے: ﴿والشمس تجری لمستقر لھا ذلک تقدیر العزیز العلیم، والقمر قدرناہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم ، لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمرولا اللیل سابق النھار وکل فی فلک یسبحون﴾․ (یسٰ:40-38)
ترجمہ: اور سورج اپنے ٹھکانہ کی طرف چل رہا ہے، یہ عزیز وعلیم پروردگار کا مقرر کردہ نظام ہے او رچاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں، یہاں تک کہ وہ لوٹ کر کھجو رکی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے، نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے او رنہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے ، سب آسمانی سمندر میں تیر رہے ہیں۔
اس آیت میں قرآن نے سورج کی حرکت کے بارے میں کتنا دو ٹوک نظریہ دیا ہے، مگر سائنس کی حیرانی وپریشانی دیکھیے کہ ایک زمانہ میں سائنس نے یہ نظر یہ قائم کیا تھا کہ سورج اپنی جگہ ٹھہرا ہوا ہے اور زمین اپنے محور پر گردش کر رہی ہے اور اسی سے لیل ونہار وجود میں آرہے ہیں، مگر کچھ ہی دنوں کے بعد حقائق نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ نظر یہ غلط تھا اور صحیح نظر یہ یہ ہے کہ: سورج بھی اپنے مدار پر گردش کر رہا ہے۔
مغربی سائنس دانوں نے اس انکشاف کو جو اہمیت دی، اس کا اندازہ ایک مشہور ماہر فلکیات محقق” سیمون“ کی کتاب کے اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے ، جو انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ لکھا ہے:” اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ سب سے اہم ترین حقیقت کیا ہے، جس کا انکشاف انسانی عقل نے کیا ہے؟ تو میں اس کے جواب میں سورج، چاند اور ستاروں کے نام لوں گا، جن کے بارے میں میں یہ انکشاف کیا گیا کہ یہ سب بسیط فضا میں گول گنبد کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ گردش کر رہے ہیں، جو ہمارے احساس سے بالاتر ہے۔“ ( مضمون جریان الشمس: عبدالرحمن فرتاس، مجلہ العلم والایمان:1976ء)
کواکب کے بارے میں قرآنی نظریہ
کواکب وسیارات کے بارے میں قرآنی نظریہ یہ ہے کہ وہ آسمان کی نچلی سطح کو خوب صورت بھی بناتیہیں او رمضر اثرات او رطاغوتی یورشوں سے حفاظت کا کام بھی کرتے ہیں:﴿انا زینا السمآء الدنیا بزینة الکواکب وحفظا من کل شیطان مارد، لا یسمعون الی الملا الاعلی ویقذفون من کل جانب، دحوراً ولھم عذاب واصب، الا من خطف الخطفة فاتبعہ شھاب ثاقب﴾․ ( صافات:10-6)
ترجمہ: ہم نے آسمان کو زرق برق ستاروں سے سجایا او رہر شیطان سرکش سے اس کو محفوظ کیا، وہ ملأ اعلیٰ کی طرف کان نہیں لگاسکتے او رہر طرف سے مارے جاتے ہیں ، تاکہ ان کو بھگایا جائے او ران کے لیے ایک دائمی عذاب ہے ، مگر جو شیطان کوئی بات اچک لے تو ایک دہکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔
زمین کے متعلق قرآنی تصور
قرآن نے آج سے چودہ صدی پیشتر ہی زمین کی خلقت، اس کی تشکیل اور اس کی حرکت کے متعلق مباحث دنیا کے سامنے رکھ دیے تھے، جس پر جدید سائنس ایک حرف کا بھی اضافہ نہ کرسکی۔
زمین کی خلقت کے متعلق قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ: زمین انسانی آبادی کے قابل چھ مرحلوں کے بعد ہو سکی:﴿ھو الذی خلق السموات والارض فی ستة ایام ثم استوی علی العرش﴾․ (حدید:4)
ترجمہ: الله وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، چھ دنوں میں ، پھر وہ عرش پر متمکن ہوا۔
﴿قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین وتجعلون لہ انداداً ذلک رب العالمین، وجعل فیھا رواسی من فوقھا وبارک فیھا وقدر فیھا اقواتھا فی اربعة ایام سواءً للسائلین﴾․ (حم سجدہ:10-9)
ترجمہ: اے نبی! کہہ دیجیے کیا تم لوگ اس ہستی کا انکار کرتے ہو ، جس نے زمین کو دو دن میں بنایا اور تم اس کے لیے ہم سر ٹھہراتے ہو؟! وہ رب ہے تمام جہان والوں کا اور اس نے زمین کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں فائدے کی چیزیں رکھ دیں اور اس کی غذاؤں کا نظام چاردنوں میں بنایا، ضرورت مندوں کی تکمیل کے لیے۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین وآسمان او رکائنات کو الله نے چھ (6) یوم میں پیدا کیا، اس کے بعد ہی زمین انسانی آبادی کی متحمل ہو سکی، مگر یوم سے مراد یہاں لیل ونہار کے دومدار نہیں ہیں، جو سورج کی چوبیس (24) گھنٹے کی گردش سے مکمل ہوتا ہے اور نہ قطب ارضی مراد ہے جو عموماً چھ(6) ماہ کی گردش کے بعد دن یا رات کی صورت میں پیدا ہوتا ہے،بلکہ یوم سے مراد وہ قرآنی مدت ہے ، جس کو قرآن کی دوسری آیات میں بیان کیا گیا ہے :﴿ان یوما عند ربک کالف سنة مما تعدون ﴾․ (حج:47)
ترجمہ: بے شک ایک دن تیرے رب کے نزدیک تمہارے شمار کے ہزار (1000) سال کے برابر ہے۔
﴿تعرج الملائکة والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنة﴾․( المعارج:4)
ترجمہ: فرشتے اور روح الامین وہاں تک ایک دن میں چڑھ کر پہنچتے ہیں ، جس کی مقدار پچاس ہزار ( 50000) سال کے برابر ہے۔
اس طرح ان آیات سے وضاحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زمین انسانوں کے رہنے کے قابل اصطلاحی طور پر چھ یوم یاچھ مرحلوں کے بعد ہوئی ، جو ایک طویل ترین مدت ہے۔ آغاز کے وقت سے تکمیل تک کے درمیانی مراحل کیا تھے؟ قرآن اس کے بارے میں خاموش ہے اورسائنس کی بھی مجال نہیں کہ وہ اپنی طرف سے ایک حرف بھی بتا سکے۔
زمین کا ابتدائی مادہ
قرآن زمین کے ابتدائی مادہ کے بارے میں کہتا ہے کہ : یہ پہلے پانی میں پوشیدہ تھا اور پانی ہی اس کی اصل علت ہے ، زمین اس کے اندر سے نمودار ہوئی:﴿وھو الذی خلق السماوات والارض فی ستة ایام وکان عرشہ علی المآء لیبلوکم ایکم احسن عملاً﴾․ (ہود:7)
ترجمہ: اور وہی ذات ہے جس نے آسمانوں او رزمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، جب کہ اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرتا ہے۔
علم زولوجی کی رسائی بھی اس سے آگے تک نہیں ہو سکی ہے، اس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ : ” زمین کو اس کی ابتدائی حالت میں بخارات نے ڈھانپ رکھا تھا، جو بعد میں پانی سے تبدیل ہو گیا، پھر وہ پانی نشیب میں اترنے لگا اور اس سے نہریں او رسمندر بنتے چلے گئے۔“ ( احمد محمود سلیمان، مضمون القرآن والعلم: مجلہ العلم والایمان، شمارہ 71 نومبر1981ء(
درمیانی مراحل
عملِ تخلیق کے آغاز کے بعد زمین جن مختلف مراحل سے گزری، قرآن ان کو اشاراتی طور پر زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کرتا ہے : ﴿والارض بعد ذلک دحٰھا، اخرج منھا مآء ھا ومرعھا، والجبال ارسٰھا﴾․ (النازعات:32-30)
ترجمہ: اور زمین کو اس کے بعد پھیلایا، اس سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو قائم کر دیا۔
اس آیت سے زمین کے عملِ تخلیق کے درمیانی مراحل پر روشنی پڑتی ہے کہ زمین کا مادہ جو عالم آب میں مستور تھا، وہ ظاہر ہونے کے بعد پھلینا شروع ہوا اور پھر سطح ارض کے نشیبی حصوں میں پانی اترنے لگا، جس سے نہریں اور سمندر بنتے چلے گئے ، اس کے بعد اس کے اندر سے پہاڑی چٹانیں برآمد ہوئیں، جو بتدریج اونچے پہاڑوں کی شکل میں تبدیل ہو گئیں۔
زمین کا قالب
قرآن نے زمین کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا کہ زمین کی شکل وصورت کیسی ہے ؟ آج کے جدید سائنسی دور میں یہ مشہور سی بات ہے کہ زمین کرہ ( گیند) کی طرح گول ہے۔ یعنی خط استوا سے دیکھا جائے تو وسیع ترین نظر آتی ہے او راس کے قطبین سے دیکھا جائے تو وہ چھوٹی اور معمولی نظر آتی ہے، مگر سائنس کا بیان قرآن کے بیان پر اضافہ نہیں ہے ، قرآن نے بھی زمین کے قالب کا یہی نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچا ہے :﴿اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا والله یحکم لا معقب لحکمہ وھو سریع الحساب﴾․ (رعد:41)
ترجمہ: کیا انہو نے غور نہیں کیا کہ زمین کو ان پر ہم اس کے کناروں سے کم کرتے ہیں؟حکم صرف الله کا ر ہے گا، کوئی اس کے حکم کوٹال نہیں سکتا اورحساب لینے میں اسے کچھ بھی دیرنہیں لگے گی۔
﴿ بل متعنا ھؤلاء واباء ھم حتی طال علیھم العمر افلا یرون انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا افھم الغالبون﴾․ (انبیاء:44)
ترجمہ: بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ داداؤں کو ایک مدت تک برتنے کو سامانِ زندگی دیا اور طویل عمر گزرنے پر بھی حق بات ان کی سمجھ میں نہ آسکی ، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ زمین کو ہم چاروں طرف سے ان پر کم کرتے ہیں توکیا اب بھی کچھ امکان رہ گیا ہے کہ یہ غالب آجائیں گے۔
﴿ننقص من اطرافھا ﴾کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ زمین اپنے کناروں سے چھو ٹی معلوم ہوتی ہے ، تو زمین کا کروی قالب ہونا صاف ثابت ہوتا ہے ، اس لیے کہ ہر گول جسم خطِ استوا سے وسیع اور طرفین سے چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔
خلقت انسانی کے بارے میں قرآنی نظریہ
اسی طرح قرآن نے انسانی تخلیق او راس کے درمیانی مراحل پر بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے، قرآن کے بیان کے مطابق جب مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں جاتا ہے تو کچھ مدت کے بعد وہ بستہ خون بن جاتا ہے، اس کے بعد یہ خونِ بستہ، گوشت کے لوتھڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے ، اس کے بعد اس میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں او رپھر اس پر گوشت کی موٹی تہیں جم جاتی ہیں او رکچھ دنوں رحم مادر میں تربیت او رنشو ونما پاکر ایک نئی صورت میں دنیا کی کھلی فضا کے اندر وہ آجاتا ہے، جس کو ہم ولادت کہتے ہیں : ﴿ثم جعلناہ نطفة فی قرار مکین، ثم خلقنا النطفة علقة فخلقنا العلقة مضغة فخلقنا المضغة عظاما فکسونا العظام لحما ثم انشاناہ خلقا فتبارک الله احسن الخالقین﴾․ ( مومنون:14-13)
ترجمہ: پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اس کو ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو بستہ خون کی شکل دی، پھر بستہ خون کو گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا، اس کے بعد لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا، پھر ہم نے اس کو ایک نئی صورت میں بنا کر کھڑا کیا، پس بڑا ہی بابرکت ہے الله ،جو بہترین پیدا کرنے والا ہے۔
یہ چند نمونے ہیں جو قرآن کے جدید علمی حقائق کے تعلق سے پیش کیے گئے۔
علم کی طلب
قرآنِ کریم کی ان تعلیمات نے مسلمانوں میں حصولِ علم کی اسپرٹ پیدا کی اور وہ اس راہ میں بڑھتے چلے گئے ، ان کے جذبہٴ صادق پر حضور صلی الله علیہ وسلم کے الفاظ نے مہمیز کا کام کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا:
”إن العلماء ورثة الانبیاء، وإن الأنبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درھماً، وإنما ورثوا العلم، فمن أخذہ أخذ بحظ وافر“․ ( مشکوٰة)
ترجمہ: بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں او رانبیاء کی وراثت درہم ودینار نہیں ہے، بلکہ ان کی وراثت علم ہے ، پس جس نے علم حاصل کیا، اس نے بڑا وافر حصہ پایا۔
پھر یہ کارواں بڑھتا گیا اور علمی طور پر ساری دنیا پر چھا گیا اور پوری روئے زمین ان کے زیرنگیں آگئی، اس لیے کہ علم تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے، علم کے ساتھ صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہو سکتا ہے اور علم کے بغیر دس قدم بھی پہاڑ ہو جاتا ہے۔
عہد ماضی کی ایک جھلک
ہم اگر اپنے ماضی کا جائزہ لیں تو ہم کو نظر آئے گا کہ مسلمان علم وفن کے میدان کے کیسے شہسوار تھے او رساری دنیا میں امامت کا مقام ان کو کس طرح حاصل ہوا؟ یہ تاریخ کی ایسی حقیقت ہے ، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، اس موقعہ پر میں کسی مسلم مؤرخ کا حوالہ دینے کے بجائے ایک غیر مسلم مؤرخ کا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں، ایک انگریز مؤرخ جارج سارٹن نے اپنی کتاب ” قدمة فی تاریخ العلم“ ( جو پانچ ضخیم جلدوں میں ہے ) میں علوم وفنون کی تاریخ، ان سے متعلق تجدیدی کارناموں کی تفصیل او رتجدیدی کام کرنے والی اقوام وشخصیات کا جائزہ پیش کیا ہے ، اس نے تاریخی حوالوں کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر نصف صدی کے بعد حالات اور تقاضے بدل جاتے ہیں او رنئے حالات کے مطابق علوم وفنون کی تجدید واصلاح کا کام کرنے لیے کوئی نہ کوئی مرکزی شخصیت ضرور پیدا ہوتی ہے ، اس طرح اس نے ہر نصف صدی پر ایک مجدد کی تلاش کی ہے ۔
وہ 450 قبل مسیح سے لے کر 400 مسیح کے وقفہ کو ” عہدِ افلاطون“ ( ولادت427 وفات 347 قبل مسیح) کہتا ہے۔ اس کے بعد کی صدیوں میں یکے بعد دیگرے ارسطو ( ولادت384 وفات322 قبل مسیح) پھر اقلیدس (300 قبل مسیح) ، پھر ارخمیدس ( ولادت287 وفات212 قبل مسیح) نے علوم کی تجدید واصلاح کا کام کیا، اس کے بعد چھٹی صدی عیسوی کے آغاز سے ساتویں صدی کے آغاز تک کا زمانہ اس کی نزدیک چین کے علمی ارتقاء وتجدید کا زمانہ ہے ، اس کے بعد 750ء سے لے کر 1100ء تک کا ساڑھے تین سو (350) سالہ طویل عہد خالص مسلمانوں کا عہد ہے ، اس پوری مدت میں علوم وفنون کی تمام تر خدمات مسلمانوں نے انجام دیں ، یکے بعد یگرے ان میں مجددین علوم آتے رہے او رعلوم کی خدمت انجام دیتے رہے ، جابر بن حیان (815ء) سے لے کر خوارزمی (849ء) ، رازی (932-864ء) تاریخ داں، سیاح مسعودی (956ء) البیرونی (1048-973ء) اور عمر خیام (1132ء) تک مجددین وخُدّ ام علوم کی لمبی فہرست ہے ، جنہوں نے علم کیمیا، الجبرا، طب، جغرافیا، ریاضیات، الفیزیا اور فلکیات کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں، جن میں کوئی عربی ہے تو کوئی ایرانی، کوئی ترکی ہے تو کوئی افغانی، خطہ اور رنگ ونسل سے گزر کر محض اسلامیت نے ان سب کو خدمت وتجدیدِ علوم سے جوڑ رکھا تھا، جارج سارٹن کی نگاہ میں اتنے طویل عرصے تک یورپ میں کوئی قابل ذکر آدمی نظر نہیں آتا، گیارہوں صدی کے بعد ہی جرارڈ کرمونی اور روچر بیکن جیسے کچھ مفکرین پیدا ہوئے اور علم وعقل میں مقام حاصل کیا، درمیان کی صدیاں بھی اسلامی مفکرین سے خالی نہیں رہیں، بلکہ علامہ ابن رشد (1198-1126ء) نصیرالدین محمدموسیٰ (1273-1200ء) ابن النفیس مصری (1288ء) او رابن خلدون (1404-1332ء) جیسے عبقری علماء نے علم وفن کی وہ خدمات انجام دیں جن کے سامنے یورپی علماء کے کارنامے پھیکے نظر آتے ہیں۔ (مضمون، أمة العلم من أجل نہضة علمیة في العالم الاسلامی: الأستاذ عبدالسلام ،رسالہ: الیونسک آب۔ ایلول1981ء، ص:51)
یہ تو وہ علوم ہیں ، جن کو علوم جدیدہ کہا جاتا ہے اور جن پر نئی دنیا فخر کرتی ہوئی نہیں تھکتی، رہ گئے علوم اسلامی، ادب وبلاغت، فنون لطیفہ، آرٹ، تعمیر وغیرہ، علوم اخلاق، فلسفہ اخلاق، فلسفہٴ تاریخ، سیر وتراجم، سلوک وروحانیت، فقہ وقانون، زراعت وتجارت اور سیاست وقیادت وغیرہ تو ان کے خادموں او رمجددوں کی بہت لمبی فہرست ہے ، جن میں کوئی قوم وملت مسلمانوں کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔
یہ ہے اس کتابِ مقدس کا اعجاز، جوہر زمانے میں اور ہر محاذ پر شخصیات اور افراد کی کھیپ کی کھیپ تیار کرتی رہی ہے اور اس کی یہ صلاحیت آج بھی اسی طرح قائم ہے ، فقط ہمیں اس سے کام لینے اور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے #
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے