حضرت حکیم الامتؒ سے ایک ملاقات
مولانا ابوالحسن علی ندویؒ
اگست1938ء حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی لکھنؤ تشریف لائے اور اپنے قدیم مسترشد اور مجاز صحبت مولوی محمد حسن کاکوروی (مالک انوار المطابع اور نبیرہ مولانا محسن کاکوروی) کے مکان پر قیام فرمایا … علاج شفا ء الملک حکیم عبدالحمید ( جھوائی ٹولہ) لکھنؤ کا تھا… قیام پورے چالیس دن رہا … وہ مدت جس کو یوں بھی سلوک وتربیت اور خانقاہوں کے نظام سے خاص مناسبت ہے … ظہر او رعصر کے درمیان مخصوص لوگوں کو حاضری کی اجازت تھی…
ضابطہ یہ تھا کہ یا تو مولانا ذاتی طور پر آنے والوں سے واقف ہوں یا حاضرین مجلس میں سے کوئی معتبر آدمی اس سے واقف ہو … تاکہ کوئی نامناسب اور اذیت پہنچانے والی بات پیش نہ آئے… مولانا کی اس غیر متوقع آمد کی خبر تمام احتیاطوں کے باوجود بجلی کی طرح تمام اطراف واکناف بالخصوص مشرقی اضلاع میں پہنچ گئی… جو مدت دراز سے آپ کی آمد سے محروم ومایوس تھے… خاص ضوابط وشرائط کے ساتھ اہل تعلق کو آنے کی اجازت دی گئی اور خلفاء ومسترشدین کلکتہ سے … امر تسرو لاہور تک کے مختلف وقتوں میں حاضر ہوتے رہے… عمائدین شہر کی بھی ایک تعداد زیارت سے مشرف او رمجالس سے مستفید ہوئی… ان میں علماء فرنگی محل… اساتذہ دارالعلوم ندوة العلماء اور شہر کے دینی ذوق رکھنے والے رؤسا وعمائد بھی تھے … مولانا عصر کی نماز مسجد خواص میں جو آپ کی تشریف آوری اور روزانہ کی مجالس کی وجہ سے حقیقی معنی میں مجلس خواص بن گئی تھی… ادا فرماتے تھے … نماز کے بعدمسجد کے شمال مغربی گوشہ میں مجلس ہوتی مولانا خطوط کے جوابات بھی دیتے رہتے اور لوگوں سے مخاطب بھی ہوتے …
اس مجلس میں سلوک وتصوف کے نکات … اصلاح وعملی تحقیقات اور بزرگوں کے حالات وواقعات ارشاد فرماتے … بزرگوں کے واقعات بیان کرتے وقت خاص کیف واثر محسوس ہوتا اس وقت چیدہ چیدہ لوگ ہوتے اور مولانا کو بھی بڑا انبساط وانشراح ہوتا… بھائی صاحب مرحوم اس مجلس میں نیز عصر سے پیشتر کی مجلس میں جو قیام گاہ پر ہوتی بڑی پابندی سے شرکت کرتے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ کوئی طالب علم مدرسہ میں حاضری کی پابندی کر رہا ہے … مولانا بھی خصوصی شفقت والتفات فرماتے … علاج کے بارے میں بھی کبھی کبھی مشورہ میں شرکت کرتے … یہ ناچیز بھی تقریباً روزانہ ہی بھائی صاحب کے ساتھ حاضری دیتا … اس عاجز کی طرف مولانا کی خصوصی توجہ کا ایک محرک یہ پیدا ہوا کہ اسی زمانہ میں ” القول المنثور“ کی طباعت ہو رہی تھی … جو اصلاً مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی رحمہ الله کی تصنیف ہے لیکن اس میں مولانا کی تحقیقات واضافے بھی ہیں ۔ مولانا کو اس کی طباعت واشاعت کا بڑا اہتمام تھا … اس میں بکثرت طویل عربی کی عبارتیں بھی آئی ہیں … خدا وصل صاحب صاحب بلگرامی کوجزائے خیر دے کہ انہوں نے اس کی تصحیح کا کام میرے سپرد کر دیا … مجھے اس میں جہاں اشکال ومراجعت کی ضرورت پیش آتی عصر کے پیشتر کی مجلس میں مولانا کے سامنے پیش کرتا او رمولانا اس کو حل فرما دیتے اس دوران قیام میں 15 ستمبر1938ء کو اچانک بھائی صاحب سے ان کے مکان پر آنے کی خواہش کا اظہار فرمایا… اس سے زیادہ عزت ومسرت کی بات کیا ہو سکتی تھی … مولانا رفقاء وخدام کی ایک مختصر جماعت کے ساتھ مکان پر تشریف لائے… دیر تک سر فراز فرمایا حضرت حاجی صاحب اوربزرگوں کے حالات کا سلسلہ وہاں بھی شروع ہو گیا… تین برس کے بعد دوبارہ اگست 1941ء میں پھر لکھنؤ تشریف آوری ہوئی … اس مرتبہ بھی ایک مہینہ سے کچھ زیادہ قیام رہا… تقریباً وہی معمولات ونظام الاوقات رہا… اس طرح پھر ان روح پرور اور پر کیف مجالس میں شرکت اوراستفادہ کا موقع ملا…
علی میاں کی تھانہ بھون میں حاضری اور ملاقات
بالآخر وہ دن بھی آگیا کہ تھانہ بھون میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی اور جس جگہ کے قصے آنے جانے والوں سے برسوں سے سننے میں آرہے تھے… اس کو بچشم خود دیکھنے کا اتفاق ہوا کہتے ہیں کہ پھول شاخ گل پر او رچمن کے اندر ہی اپنی صحیح شکل وصورت میں نظر آتا ہے … غالباً1942ء اور مئی یا جون کا مہینہ تھا … اتنا یاد ہے کہ خوب گرمی تھی اور لو چل رہی تھی میں مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ الله کی ہمرکابی میں چھوٹی لائن پر سفر کر رتھا… جو شاہدرہ سے سہارنپور تک جاتی تھی اور جس میں و ہ سب مقامات وقصبات پڑتے تھے … جن سے بزرگان دیوبند کی تاریخ وابستہ ہے… یعنی کاندھلہ… تھانہ بھون… نانوتہ اور رام پور مینہاران اچھی طرح یاد نہیں کہ پہلے سے قصد تھا یا اثنائے سفر میں یہ خیال ہوا کہ تھانہ بھون بھی حاضری دی جائے … نظام کچھ ایسا تھا کہ کاندھلہ مولانا کے ساتھ قیام کرکے جوان کا وطن تھا… رام پور مینہاران جاناتھا… تھانہ بھون… کاندھلہ اور رام پور کے درمیان واقع ہے … میں نے مولانا سے اجازت لی کہ میں ایک روز پیشتر کاندھلہ سے روانہ ہو جاؤں اور چوبیس گھنٹے تھانہ بھون قیام کرکے اسی گاڑی پر سوار ہو جاؤں جس سے مولانا رام پور تشریف لے جائیں گے … مولانا خود تھانہ بھون کے عقیدت مندوں میں تھے اور مولاناتھانوی کو اپنے مشائخ کی صف ہی میں سمجھتے تھے … یہ سن کر بہت خوش ہوئے او ربڑی بشاشت ومسرت کے ساتھ اجازت دی …
تھانہ بھون کے ایک صاحب تعلق تھانہ بھون جارہے تھے میں نے اپنی آمد کی اطلاع کاخط لکھ کر ان کے حوالہ کر نا چاہا کہ وہ خود پیش کر دیں … انہوں نے کہا کہ یہ ضابطہ کے خلاف ہے … میں نے عرض کیا کہ آپ اس کو پوسٹ بکس میں ڈال دیں… انہوں نے اس کو منظور کیا… میں ایک روز کاندھلہ ٹھہر کر تھانہ بھون روانہ ہوا… ٹھیک دوپہر کو گاڑی تھانہ بھون پہنچتی تھی… خانقاہ امدادیہ کا اسٹیشن سے کچھ زیادہ فاصلہ نہیں… میں ایک حمال کو ساتھ لے کر پیدل خانقاہ پہنچ گیا… تھانہ بھون کے قواعد وضوابط اور آداب کے متعلق اتنا سن رکھا تھا اور داروگیر اور احتساب کے واقعات بھی اتنے کان میں پڑ چکے تھے کہ ڈرتے ڈرتے خانقاہ میں قدم رکھا… ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک طالب علم مدرسہ میں د اخل ہو رہا ہے … گرمی اور دوپہر کی وجہ سے وہاں سناٹاتھا… مقیمین خانقاہ اپنے اپنے حجروں میں آرام کر رہے تھے … میں ایک طرف سامان رکھ کر بیٹھ گیا…
کچھ دیر کے بعد ظہر کی اذان ہوئی … مولانا تشریف لائے … وضو فرمایا… میں نے اس وقت اپنا تعارف مناسب نہیں سمجھا… ظہر کی نماز کے بعد مسجدکی اس سہ دری میں جو جانب جنوب واقع ہے او رمولانا کی نشست گاہ رہتی تھی … مجلس شروع ہوئی … چید چیدہ حضرات او رخواص تھے … جن میں خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب کو میں پہچانتاتھا… میں بھی حاضر ہوا اور کنارے بیٹھ گیا … سہ دری میں قدم رکھتے ہی میری نظر اس ڈیسک پر پڑی جو مولانا کے سامنے تھی اور جس پر خطوط اور لکھنے پڑھنے کا سامان رکھا ہوا تھا … انہی کاغذات میں او رسامان میں سیرت سید احمد شہید جس کو چھپے ہوئے تین سال سے زائد ہو چکے تھے … سامنے رکھی تھی …معلوم نہیں مولانا نے میری دل جوئی اور مجھے مانوس کرنے کے لیے اس کو اسی دن نکالا تھا… یا وہ عام طور پر اسی جگہ رکھی رہتی تھی … اس کو دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا گویاایک نہایت عزیز دوست میرے تعارف اور تقریب کے لیے موجود ہے … اس کی موجودگی سے اجنبیت کے احساس میں بڑی کمی ہوئی …
مولانا خطوط کے جواب دینے میں مصروف تھے… چند منٹ کے بعد خواجہ صاحب کی طرف متوجہ ہوئے او رفرمایا خواجہ صاحب ! ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کے بھائی آنے والے تھے آئے نہیں؟ اب میں نے خاموش رہنا نامناسب سمجھا… آگے بڑھا او رعرض کیا کہ میں حاضر ہوں … فرمایا کہ آپ نے بتایا نہیں … آئیے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا… میں نے عرض کیا حضرت کے حرج کے خیال سے عرض نہیں کیا فرمایاکہ اس سے بڑھ کر کیا حرج ہوتا کہ مجھے آپ کی آمد کا علم نہ ہوتا … خجلت ہوتی … ندامت ہوتی … افسوس ہوتا… مکر رکئی لفظ فرمائے … سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ فرمائی کہ میں نے تو آج آپ کی وجہ سے خطوں کا بہت سا کام پہلے کر لیا تھا تاکہ آپ سے اطمینان سے باتیں کرنے کا موقع ملے… یہ گویا حضرت کی طرف سے انتہائی رعایت اور اعزاز تھا… جو اس نو عمر وگمنام آنے والے کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا … پھر مزاج پرسی کے بعد بڑی شفقت سے فرمایا کہ کوئی اور رفیق تو ساتھ نہیں ؟ کھانے میں کیا معمول ہے … کوئی پرہیز تو نہیں … اس سے اندازہ ہوا کہ حضرت اپنا ہی مہمان رکھیں گے … یہ بھی عام روایات او رتجربات کے خلاف تھا او رمہمان کے ساتھ بڑی خصوصیت وشفقت… میرے عرض کرنے پر کہ کوئی پرہیز نہیں ہے … معذرت فرمائی کہ میں آج کل طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ساتھ نہیں کھاسکوں گا … اس کا کچھ خیال نہ فرمائیں … پھر فرمایا کہ قیام کتنا رہے گا … میں نے عرض کیا کہ اگلے روز دوپہر کو جانا ہے … فرمایابس اتنا مختصر قیام پھر فرمایا کہ میں اپنے دوستوں سے زیادہ قیام کے لیے اصرار نہیں کرتا کہ گرانی کا باعث نہ ہو اور شاید جو حضرات اتنا وقت بھی دیتے ہیں… ان کو آنے میں پس وپیش ہو اس کے بعد مجلس گفتگو شروع ہو گئی… زیادہ تر واقعات خاندان ولی اللّہی او رحضرت شاہ عبدالعزیز صاحب اور شاہ اسماعیل صاحب کے تھے۔
رات کھانا حضرت کے دولت خانہ سے آیا … کھانے میں اہتمام اور تنوع تھا … صبح نماز فجرکے بعد خواجہ صاحب حضرت کاپیغام لائے کہ فلاں وقت میری خصوصیت کا ہے … جس میں مخصوص احباب کو شرکت کی اجازت ہے لیکن اگر ضرورت ہو تو میں اس سے بھی الگ وقت دے سکتا ہوں … میں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی خصوصی بات عرض کرنی نہیں ہے … زیارت واستفادہ کے لیے حاضر ہوا ہوں… اسی خصوصی مجلس میں حاضر ہو جاؤں گا… تقریباً چاشت کے وقت حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا… دو ہی چار حضرات تھے… ان میں خواجہ عزیز الحسن صاحب مجھے یاد ہیں … حضرت نے خواجہ صاحب سے فرمایاکہ خواجہ صاحب میرا جال لے آئیے … خواجہ صاحب تعمیل ارشاد میں اٹھ تو گئے مگر سمجھے نہیں… آپ نے فرمایا خواجہ صاحب سمجھے کہ میرا جال کیا ہے … خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت نہیں … فرمایا کہ تسبیح… یہی ہم لوگوں کا جال ہے… جس سے ہم لوگوں کو پھانستے ہیں…
مجلس میں اول سے آخر تک بڑا انبساط رہا… خشونت تو الگ رہی کسی درجہ کی خشکی اور یبوست بھی کہیں آس پاس نہ تھی … خندہ جبینی… شگفتہ بیانی… زندہ دلی او رنکتہ سنجی مجلس کو باغ وبہار بنا دیتی تھی … تھانہ بھون کے متعلق جوتصور قائم ہوا تھا … معلوم ہوا کہ اس میں جہاں تک مولانا کی ذات کا تعلق ہے… مبالغہ او رغلط فہمی کو دخل ہے… ضوابط ضرور تھے… مگر استثناء ات بھی بکثرت، طالبین اور زیر تربیت اشخاص کے لیے احتساب اور مواخذہ تھا… مگر زائرین اور کبھی کبھی کے آنے والوں کے لیے نیز ان لوگوں کے لیے جن کا تعلق مستقل اصلاح وتربیت کا نہیں تھا… شفقت ورعایت، یہ بھی اندازہ ہوا کہ خانقاہ کا سارا ماحول حضرت کے مزاج ومذاق اور حضرت کی جامعیت اور حکمت کے سو فی صدی مطابق نہیں تھا اور مولانا کی پور ی نمائندگی او راپنے زبان حال سے ترجمانی نہیں کرتا تھا او رشاید اس شہرت عام میں جو تھانہ بھون کی دار وگیر اور رعب وجلال کے متعلق ملک میں پھیلی ہوئی تھی … ان ضابطہ پرستوں کی بے لچک پابندیوں کو بہت دخل تھا … اپنا ہی تجربہ لکھتا ہوں کہ مولانا کی مجلس سے فارغ ہونے کے بعد گاڑی کے جانے میں بہت دیر تھی … خالی او ربیکار بیٹھنے کی عادت نہیں طالب علمی کاپرانا مرض خانقاہ میں شمالی حصہ میں ایک مدرسہ بھی تھا … ایک عالم کوئی کتاب پڑھا رہے تھے… میں بھی جاکر ایک طرف بیٹھ گیا… مدرس صاحب نے ایک طالب علم کو اشارہ کیا دیوار پر ایک تختی آویزاں تھی جس پر لکھا تھا کہ جس وقت کوئی استاد سبق پڑھا رہا ہو تو باہر کے آئے ہوئے کوئی صاحب وہاں نہ بیٹھیں… وہ تختی لائے اورمجھے دکھائی میں شرمندہ ہو کر اٹھ گیا… اسی طرح میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ کتب خانہ کس وقت کھلے گا… انہوں نے بجائے خود جواب دینے کے کہا کہ تختی پر اوقات لکھے ہوئے ہیں … پڑھ لیجیے… غالباً یہی لفظی پابندی اور ضابطہ پرستی بہت سے اجنبی لوگوں کے لیے وحشت کا سبب بنتی تھی لیکن اس کے برعکس مولانا ان ضوابط پر حاکم تھے … محکوم نہ تھے… واضع تھے مقلدنہ تھے… وہ جہاں چاہتے او رجس کے لیے چاہتے ضابطہ کو بالکل بالائے طاق رکھ دیتے اور اسی کو اس وقت کا ضابطہ سمجھتے… (پرانے چراغ)