Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1432ھ

ہ رسالہ

7 - 18
صاحبِ حُزن الله کی راہ جلد طے کر لیتا ہے
مولانا حکیم محمد اختر

صاحبِ حُزن الله تعالیٰ کی راہ کوجتنا جلد طے کر لیتا ہے اتنا جلد غیر صاحبِ حزن طے نہیں کر سکتا، اس لیے انبیا علیہم السلام کو بھی حزن میں مبتلا فرمایا جاتا ہے، جیساکہ ارشاد فرمایا ﴿وابیضت عیناہ من الحزن فھو کظیم﴾ او ران کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں بسبب ان کے غم سے گھٹنے کے۔ یہاں وابیضت عیناہ من الحزن فرمایا کہ ان کی دونوں آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں اورنسبت یعقوب علیہ السلام کی طرف فرمائی کہ وہ غم کو دل ہی دل میں دبار ہے تھے اور غم سے گھٹ رہے تھے۔ اپنی طرف غم کو عطا فرمانے کی نسبت نہیں فرمائی، ور نہ بندے ڈر جاتے او رساتھ ساتھ ادب بھی سکھا دیا۔ جیسا کہ سورہٴ شعراء میں فرمایا﴿ واذا مرضت فھو یشفین﴾ اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل فرمایا کہ جب میں مریض ہوتا ہوں او راس میں ادب کی تعلیم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مرض کی نسبت اپنی طرف فرمائی اور شفا کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف فرمائی فھو یشفین تو الله مجھے شفا دیتا ہے ﴿وابیضت عیناہ من الحزن فھو کظیم﴾ یہ جملہ حالیہ معرض تعلیل میں ہے، جس میں ذوالحال یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کا حال بیان فرمایا گیا ہے ۔ یہاں علت فھو کظیم میں بیان فرمائی، یعنی ان کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں بوجہ اس کے کہ وہ دل ہی دل میں گُھٹا کرتے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کا بطور معجزہ واپس آنا بھی قرآن حکیم میں موجود ہے ارشادفرمایا ﴿فلما ان جآء البشیر ألقاہ علی وجہہ فارتد بصیرا﴾ جب خوش خبری دینے والا آیا اور یوسف علیہ السلام کا کرتا یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالا توان کی بینائی لوٹ آئی ۔ یہاں یعقوب علیہ السلام کی بینائی کا واپس لوٹ آنا بطور معجزہ تھا۔ جو اس کو کرامت سمجھتے ہیں وہ نادان ہیں، کیوں کہ جن خوارقِ عادت چیزوں کا ظہور انبیاء علیہم السلام سے ہوتا ہے وہ معجزہ ہے، کرامت نہیں۔ فارتد بصیراً کا عاشقانہ ترجمہ یہ ہے کہ یعقوب علیہ السلام ٹکاٹک دیکھنے لگے #
        درد از یار است ودرماں نیزھم
        دل فدائے او شد وجاں نیزھم

درد بھی یار کی طرف سے ہے او ردرماں بھی الله تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ اس لیے بوجہ حزن اگر بلڈ پریشر ہائی یا لو(Low) ہو جائے تو پریشان ہر گز نہ ہو ۔ بلڈ بھی ان کا ہے اور پریشر بھی ان کی طرف سے ہے ،اس لیے پریشانی کیسی؟ لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ غم غیر اختیاری طور پر آجائے ورنہ غم کی تمنا نہ کرے ۔ خود سرور عالم صلی الله علیہ وسلم نے غم سے پناہ مانگنے کی تعلیم اپنی امت کو تلقین فرمائی فرمایا کہ ﴿اللھم انی اعوذبک من الھم والحزن﴾ اے الله! میں ھم او رحزن سے پنا ہ چاہتا ہوں ھم اس غم کو کہتے ہیں الذی یذیب الانسان جو انسان کو گھلا دے۔ غم کو طلب کرنا گویا الله تعالیٰ کے سامنے پہلوانی دکھانا ہے، حالاں کہ ارشادِ ربانی ہے ﴿وخلق الانسان ضعیفا﴾ خلق مجہول کا صیغہ ہے کہ انسان کو ضعیف بنایا گیا۔ اس میں پیدا کرنے کی نسبت اپنی طرف نہیں فرمائی اور تعلیم فرمائی کہ نقص کی نسبت الله کی طرف نہ کرے۔ ہاں! اگر غیر اختیار ی طور پر خود بخود غم آجائے تو یہ الله تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے۔ گویا یہ ایساانعام ہے، جس کا مانگنا جائز نہیں۔ یہ ایسا مہمان ہے کہ جس کا بلانا جائز نہیں۔

لاتقنطوا من رحمة الله کی عجیب تقریر
حضرت والا نے فرمایا کہ الله تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:﴿ قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمة الله﴾․(سورة الزمر، آیت:53)

اے نبی! آپ کہہ دیجیے، الله تعالیٰ نبی رحمت سے کہلا رہے ہیں ، کلام الله تعالیٰ کا ہے، مگر بواسطہ نبوت ہے کہ ﴿قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم﴾ مسرفین علی انفسھم کو بھی یائے نسبتی لگا کر اپنا فرما رہے ہیں، گویا اپنی ذاتِ پاک سے لگا رہے ہیں ، گنہگار بندوں کو بھی میرا فرمارہے ہیں ، باوجود گناہوں کے ان کو اپنے سے جدا نہیں فرمایا، اپنی نسبت قائم رکھی، اپنی بندگی سے نہیں نکالا، قل یا عبادی اے نبی رحمت ! میں اپنی رحمت کا اعلان تو کر رہا ہوں مگر کس کے واسطہ سے؟ جو خود سراپا رحمت ہیں ، مجسم رحمة للعالمین سے الله تعالیٰ کہلا رہے ہیں کہ اے نبی رحمت! آپ میرے بندوں سے فرما دیجیے کہ میں ارحم الراحمین ہوں اور آپ رحمة للعالمین ہیں۔ میں اپنی رحمت کو نبی رحمت کے واسطے سے بیان کر رہا ہوں، تاکہ میرے بندوں کو دوگنا مزہ آئے گا او ررحمة اللعالمین صلی الله علیہ وسلم کے کہنے سے وہ میری رحمت کے اور زیادہ امیدوار ہو جائیں گے ، میری رحمت اور نبی کی رحمت دو رحمتوں سے مل کر شرابِ محبت، شرابِ رحمت اور تیز ہو جائے گی #
        نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
        مئے مرشد کو مئے حق میں ملا لینے دو

الله تعالیٰ کی محبت کی شراب او رمرشد کی محبت کی شراب جب دونوں مل جاتی ہیں تو نشہ تیز ہو جاتا ہے ۔ اصلی مرشد تو حضور صلی الله علیہ وسلم ہیں ۔ الله تعالیٰ نے آپ کو سارے عالم کے لیے نبی بنایا ہے ﴿وما ارسلنک الارحمة للعالمین﴾ آپ تو سارے عالم کے لیے رحمت ہیں ، سارے عالم کے لیے نبی ہیں تو ارحم الراحمین بواسطہ رحمة للعالمین اپنی رحمت کا اعلان فرما رہے ہیں، کیوں کہ میں تو غیبت میں ہوں، ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں، میرے آثار ونشانات سے بندے مجھے پہچانتے ہیں، لیکن میرانبی تو ان کی آنکھوں کے سامنے ہے ، ان کی رحمت وشفقت کو تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں تو رحمة للعالمین کی رحمت کو دیکھ کر ان کو ارحم الراحمین کی رحمت کا یقین آئے گا، اس لیے اے نبی ( صلی الله علیہ وسلم) آپ کہہ دیجیے یا عبادی الذین اسرفوا اے میرے گنہگار بندو! آہ! کیا رحمت ہے کہ گنہگار بھی فرما رہے ہیں او رمیرے بھی فرمارہے ہیں یا نسبتی لگا کر الله تعالیٰ نے مزہ بڑھا دیا کہ اگرچہ یہنالائق ہیں ،مگر میرے ہیں، تو یاء کیوں لگائی یعنی میرے کیوں فرمایا؟ مارے میاں کے ، مارے محبت کے، کیوں کہ جب باپ کہے کہ میرے بیٹے تو سمجھ لو کہ اس وقت محبت کا دریا جوش میں ہے ۔ اگر صرف بیٹا کہے تو اس وقت محبت میں جوش نہیں، لیکن جب کہے میرے بیٹے! تو یہ جوش محبت کی علامت ہے تو الله تعالیٰ نے بھی یا عباد نہیں فرمایا کہ اے بندو بلکہ یا عبادی فرمایا کہ اے میرے بندو۔ یعنی جو نا امید ہیں ان کو الله تعالیٰ اپنی رحمت سے امیدوار کر رہے ہیں ، نافرمانوں کو ، گنہگاروں کو، سرکشوں کو ، مجرمین کو ، نالائقوں کو، امید رحمت دلارہے ہیں ، عبادی فرما کر اپنی آغوش رحمت میں لے رہے ہیں، تاکہ میری رحمت کا ان کو آسرا، سہارا اور اطمینان ہو جائے ۔ آہ! یا عبادی میں کیا کرم ہے ، کیا شفقت ہے ، کیا رحمت ہے ۔ ہمارے گناہوں کی وجہ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم میرے بندے نہیں ہو ، ماں باپ بھی اپنی نالائق اولاد کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے نہیں ہیں، مگر الله تعالیٰ ارحم الراحمین ہیں، ان کی محبت کے آگے ماں باپ کی محبت کیا حقیقت رکھتی ہے ؟ وہ فرما ر ہے ہیں کہ چاہے تم کتنے ہی گنہگار ہو، چاہے تم ایک ہزار، ایک لاکھ، ایک کروڑ، دس کروڑ، ایک ارب گناہ کر لو،یعنی بے شمار گناہ کر لو، مگر میرے ہی رہو گے ، میرے دائرہ عبدیت سے خارج نہیں ہو سکتے، جب تم گناہ کرتے ہو اس وقت بھی میرے رہتے ہو ، میری محبت ورحمت سے اس وقت بھی خارج نہیں ہوتے، پس اے میرے بندو جنہوں نے گناہ کر لیے، چاہے بڑے گناہ ہوں یا چھوٹے گناہ، سب اسراف میں داخل ہیں، کیوں کہ اسراف کے معنی ہیں وضع الشیءِ فی غیر محلہ کسی شے کو غیر محل میں رکھ دو تو یہ اسراف ہے۔ تو جو بھی حرام کا م ہو گئے، گناہ کبیرہ، صغیرہ ہوگئے، جو بھی نالائقیاں ہو گئیں تو اے میرے بندو! جب تم میرے ہو تو کیوں ناامید ہوتے ہو؟ میں ارحم الراحمین بواسطہ رحمة اللعالمین اعلان کر رہا ہوں کہ لا تقنطوا من رحمة الله میری رحمت سے نا امید مت ہونا، تاکہ مایوسی میرے گنہگار بندوں کو کہیں مجھ سے دو رنہ کر دے او رمایوسی کو کس جملہ سے دور فرمایا؟ جملہ اسمیہ سے ﴿ان الله یغفر الذنوب جمیعا﴾ ان بھی تاکید کے لیے الذنوب کا الف لام بھی استغراق کا، جس میں کفروشرک، کبائر صغائر تمام گناہ آگئے اورجملہ بھی اسمیہ، جو ثبوت ودوام کو متقاضی ہے یعنی ماضی، حال ومستقبل کسی زمانے میں بھی تم سے گناہ ہو جائے، ہماری یہ صفت علی سبیل الاستمرار تم پر کرم فرما ہے۔ اس کے بعد جمیعاً سے مزید تاکید فرمادی۔ اگرچہ الف لام استغراق کا سب گناہوں کو سمیٹے ہوئے تھا، مگر الله تعالیٰ نے ہماری تسلی کے لیے جمیعاً نازل فرمایا، یعنی گناہ کے جتنے انواع وافرا دو اقسام ہیں سب کے سب معاف کر دوں گا، کوئی گناہ نہیں بچے گا، جسے میں معاف نہ کردوں۔ اتنی تاکیدوں سے گنہگاروں کو اپنے قریب فرمارہے ہیں، مایوسی سے بچارہے ہیں ، رحمت سے امیدوار فرما رہے ہیں ۔ آہ! کیا شانِ رحمت ہے #
        میں اُن کے سوا کس پہ فدا ہوں یہ بتادے
        لا مجھ کو دِکھا اُن کی طرح کوئی اگر ہے

آگے فرمایا ﴿انہ ھو الغفور الرحیم﴾ یہ بخشش کون کر رہا ہے؟ تمہاری مغفرت کیوں کر رہا ہے؟ میری رحمت ہی کافی تھی، لیکن تمہاری مغفرت کا نبی رحمت سے اعلان کیوں کر ارہا ہوں؟ تمہارے اطمینان کے لیے! کیوں کہ میں تو ابھی عالمِ غیب میں ہوں، پوشیدہ ہوں، تمہارے سامنے نہیں ہوں، مگر میرا نبی تو تمہارے درمیان موجود ہے ، تمہاری آنکھوں کے سامنے عالمِ شہادت میں ہے، عالمِ حضوری میں تم میرے نبی رحمت کو دیکھ رہے ہو کہ وہ سراپا رحمت ہیں او رتم پر کتنے مہربان اور شفیق ہیں، اس لیے ان کے واسطے سے کہلا رہا ہوں، تاکہ رحمة للعالمین کی رحمت سے تم کو ارحم الراحمین کی بے پایاں اور غیر محدود رحمت کی معرفت ہو گی او رمیری رحمت کو تم چشم بصیرت سے دیکھو گے او رقلب وجاں میں محسوس کرو گے ۔ اگرچہ میں پردہٴ غیب میں ہوں، لیکن تمہارے ساتھ ہوں ﴿وھو معکم اینما کنتم﴾ الله تمہارے ساتھ ہے، جہاں کہیں بھی تم ہو ۔ تم اکیلے نہیں رہتے ہو، ہم بھی تمہارے ساتھ ساتھ ہیں، چاہے جہاں بھی تم رہتے ہو، الله تمہارے ساتھ ہے ۔ ایک جگہ الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ﴿والله یعلم متقلبکم ومثواکم﴾ اے صحابہ! تمہارا بازاروں میں چلنا پھرنا اور اپنے گھروں میں سونا سب ہمارے علم میں ہے او راپنے نبی صلی الله علیہ وسلم سے فرمایا ﴿فانک باعیننا﴾ اے نبی ! آپ تو میری نگاہوں میں ہیں الله تعالیٰ نے صحابہ سے نہیں فرمایا کہ تم لوگ میری نگاہوں میں ہو، مگر اپنے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی شان محبوبیت بیان کی کہ ﴿فانک باعیننا﴾ جملہ اسیمہ سے فرمایا، جو ثبوت اور دوام پر دلالت کرتا ہے اور ان بھی تحقیق کے لیے ہے ۔ پس تحقیق کہ آپ میری نگاہوں میں ہیں او راعین جمع کا صیغہ ہے او رجمع عربی میں تین سے اوپر ہوتا ہے او رالله تعالیٰ کی ذات غیر محدود ہے تو اس کی صفات بھی غیر محدود ہیں تو اس کا ترجمہ ہوا کہ پس اے نبی ! آپ میری غیر محدود نگاہوں میں ہیں۔ اس آیت میں کیامحبت، کیا پیار ،کیا رحمت ہے ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کو کتنی خوشی ہوئی ہو گی، کتنی کیفیت طاری ہوئی ہو گی ، کتنا وجد آیا ہو گا کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ میری نگاہوں میں ہیں؟!!

تو الله تعالیٰ اپنے بندوں سے اپنی صفات بیان فرمار ہے ہیں ﴿انہ ھو الغفور الرحیم﴾ جانتے ہو کہ میں تمہاری مغفرت کیوں کر رہا ہوں ؟ میری مغفرت کا غیر محدود سمندر کیوں ٹھاٹھیں ماررہا ہے کہ کفر وشرک ، کبائر وصغائر، تمہارے سب گناہ معاف کر دیتا ہوں ؟ معلوم ہے تمہیں کیوں بخش دیتا ہوں؟ بوجہ رحمت کے تمہیں بخش دیتا ہوں ۔ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھول پوری رحمة الله علیہ فرماتے تھے کہ سورہٴ بروج میں الله تعالیٰ نے فرمایا ﴿وھو الغفور الودود﴾ یعنی معلوم ہے کہ الله تعالیٰ تم کو کیوں معاف کر دیتے ہیں ؟ مارے میا کے ، بوجہ محبت کے اور یہاں فرمایا ﴿انہ ھو الغفور الرحیم﴾ انہ الغفور الرحیم بھی کافی تھا ،پھر ھو کیوں لگایا؟ جب کہ انہ میں ھو موجود ہے تو تاکید کے لیے لگا دیا ۔ ارے وہ الله، تم اس کو نہیں جانتے ؟ وہی الله، جو بڑا غفور الرحیم ہے ، تم اس سے ناامید ہوتے ہو ؟ وہ تو بہت بخشنے والا ہے اوربخشنے کی وجہ کیا ہے؟ مارے رحمت کے ، مارے محبت کے معاف کر دیتا ہے غفور کے بعد رحیم نازل ہونے کی یہ حکمت ہے ۔ جب رحمت کا غلبہ ہو جاتا ہے تو انسان بڑے بڑے جرائم، بڑی بڑی خطاؤں کو معاف کر دیتا ہے۔ اسی لیے ماں باپ جلد معاف کر دیتے ہیں ۔ اولاد بھی سمجھتی ہے کہ یہ میر ی اماں ہیں، یہ میرے ابا ہیں۔ اگر وہ کہہ دے اماں معاف کر دیجیے۔ ابا معاف کر دیجیے۔ تو وہ جلدی سے معاف کر دیتے ہیں ۔ پس اسی لیے الله تعالیٰ نے بھی فرما دیا ﴿انہ ھو الغفور الرحیم﴾ الله تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا ، بے انتہابخشنے والا ہے ، مغفرت کرنے والا ہے او ررحمت کی فراوانی کیوں ہے ؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ ﴿انہ ھو الغفور الرحیم﴾ تحقیق وہ الله بڑا غفور رحیم ہے ۔ اس کی رحمت سے کبھی ناامید نہ ہونا۔ اسی لیے فرمایاکہ اگر میری رحمت سے ناامید ہوئے تو جہنم میں ڈال دوں گا۔ مجھ سے ناامید ہوئے تو کافر ہو جاؤگے، خبردار! نا امید نہ ہونا۔ کیا رحمت ہے کہ جہنم کا ڈنڈا دکھا کر اپنی رحمت کا امیدوار بنارہے ہیں! جیسے باپ کہتا ہے کہ اگر دودھ نہیں پیو گے تو ڈنڈے لگاؤں گا۔ ڈنڈے لگاناباپ کا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ باپ دودھ پلانا چاہتا ہے۔ اسی طرح الله تعالیٰ بھی جہنم سے ڈرا کر ناامیدی سے بچار ہے ہیں کہ میری رحمت کو کیا سمجھتے ہو ؟ نا امید نہ ہو ، اگر تمہارے گناہ بڑے بڑے ہیں تو الله ان سب سے بڑے ہیں۔

اس کے بعد حضرت والا نے نہایت شکستگی سے فرمایا کہ پیشی کے دن عرض کروں گا کہ رحمت کی امید لے کر حاضر ہوا ہوں۔ اگر سوال ہو کہ تم تو نالائق تھے تو عرض کروں گا کہ آپ نے مسرفین علی انفسھم کے لیے فرمایا تھا لا تقنطوا الخ آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے #
        فان کان لا یرجوک الا محسن
        فمن ذا الذی یدعو ویرجو المجرم

ترجمہ: اگر صرف نیک بندے ہی آپ سے امید رکھ سکتے ہیں تو کون ہے وہ ذات جس کو گنہگار پکاریں #
        نہ پوچھے سوا نیک کاروں کے گر تو
        کدھر جائے بندہ گنہگار تیرا
Flag Counter