مُنافِقوں کا انجام
محترم سید ملک الرحمن
اسلام نے دعویٰ کیا ہے کہ وہی حق پر ہے اور یہ دلیل اس بات کی ہے کہ وہ تمام دنیا کے ادیان کو باطل قرار دیتا ہے ۔ وہ بلاشک دین فطرت ہے اور اس سچائی پر کائنات کا ہر ذرہ گواہ ہے، جو حق پسند ہیں وہ اس کی حقانیت پرایمان لائے ہیں ۔ ان کے ذہن شک وبے یقینی سے پاک ہیں ،اسلام ان کی پیاسی روح کے لیے آب زلال بن گیا۔ ان کے دل میں رحمت وبرکت کے چشمے ابلنے لگے، ان کا ظاہر، ان کے باطن کا عکس وپر تو بن گیا، ان کے چہروں سے ان کے دل کا نور ٹپکنے لگا۔ ان کی زبان کی باریک رگیں ان کے دل کے تاروں سے جڑ گئیں، لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک گروہ ایسے ملمع کار مسلمانوں کا بھی پیدا ہو گیا تھا ، جن کی زبانیں تو اسلام کی پر ستار اور قصیدہ خواں تھیں ، لیکن جن کے دلوں میں کافروں اور مشرکوں کا انس ومحبت، ان کی عظمت وکبریائی جاگزیں تھی ۔ مگر قلب وزبان کا یہ تضاد اسلام کا نازک مزاج برداشت نہ کر سکتا تھا اور چوں کہ خالق کائنات کو اپنی زمین پر ایک صالح نظام تمدن اور صحت مند معیار زندگی پھیلانا مقصود تھا۔ اس لیے یہ ممکن نہ تھا کہ ایسے منافقوں … کی حقیقت دنیا پر آشکار نہ کی جاتی ۔ ان منافقوں کے دل میں فساد تھا۔ ان کی نیتوں میں فتور تھا۔ وہ نفس کے پیرو اور شیطان کے تابع تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد صرف ظاہری آسودگی اورحصول جاہ ومنصب تھا۔ وہ اقامت دین او رتعلق مع الله کے قیام کے آرزو مند نہ تھے۔ ان کے دلوں میں اقرار وانکار کی روح فرسا الجھنیں تھیں اور امید وہم کی خوف ناک گھٹائیں۔ وہ طاقت ور کا ساتھ دیتے تھے او رکمزوروں سے دور رہتے تھے۔ ان کا ذہن آخرت کے تصور سے خالی تھا۔
حضرت ختمی مرتبت صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں ایک مشہور منافق تھا، جس نے اپنی ذہانت او رخطابت کی صلاحیتوں سے خود بھی تباہی مول لی تھی اور بے شمار لوگوں کے دلوں میں یہی شک وبے یقینی کا غبار بھر دیا تھا۔ یہ عبدالله بن ابی تھا، جسے رئیس المنافقین کہا جاتا ہے، جو منافقوں میں ممتاز اور بے حد وقیع سمجھا جاتا تھا۔ اس کی رائے بے شمار لوگوں کو ظلمت کی گھاٹیوں میں بھٹکاتی رہی، اس کے مشوروں نے بہت سے لوگوں کو نفاق کی بھٹی میں جلایا۔ تذبذب کے کانٹوں میں گھسیٹا اور بے یقینی کے دلدل میں پھنسایا۔ عبدالله یہود کا ہم نشین تھا او ران کی دوستی اس کا قابل فخر سرمایہ ۔ یہودیوں کے افکار وعقائد اس کے دل پر آکاس بیل کی طرح چھائے جارہے تھے ،وہ تباہ ہو رہا تھا، لیکن اس کا دل اس تباہی کے احساس سے خالی تھا۔ اس کی حریص طبیعت اسلام کی سادہ، قانع اور پرمشقت زندگی کی طرف مائل ہونے میں ہچکچاتی تھی، وہ مطلب پرست تھا اور جاہ وحشمت کا خواہاں، وہ اسلام کے خلاف نقشے جماتا رہتا تھا، لیکن ظاہر کرتا تھا کہ واسلام کا بہی خواہ او ردوست ہے ۔ اس نے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو بہت دھوکے دیے ہیں۔
اور یہ تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ جب کبھی باطل ، حق کے مقابلے میں صف آرا ہوا تو باطل کی ساری قوتیں اپنے اندرونی خلفشار اورباہمی عداوتوں کے باوجود متحد ہو گئیں اور چشم فلک نے یہ منظر بارہا دیکھا کہ یہودی یہود کا اور نصرانی نصرانی کا ہمیشہ رفیق اور دم ساز بنا رہا او ران سے مل کر اسلام کے چمنستان کو تباہ وبرباد کرنے کی سعی وتدبیر کرتا رہا۔ دنیا کی تمام کافرانہ او رمشرکانہ طاقتیں ، الله کے سچے دین کو مٹانے اور دنیا پر شیطانی نظام حکمرانی مسلط کرنے میں یک جاں ودو قالب بنی رہیں۔
ایک طرف کافرانہ طاقتیں دنیا کو وحشت وبربریت کی آماج گا ہ بنانے میں مصروف رہیں اور دوسری طرف اسلام کے شیدائی اسے امن وسلامتی کا گہوارا بنانے میں اپنی جانیں لڑاتے رہے ۔ غرض اسلام نے علی الاعلان یہودی کی ، نصرانی کی او رمنافق کی دوستی کو اسلام کے لیے خطرہٴ عظیم قرار دیا اور اشاعت حق کے لیے ان کے وجود کو سنگ راہ بتلایا ۔ پھر وہ مسلمان جویہ استدلال کرتے تھے کہ مسلمان تعداد کے اعتبار سے کمزو رہیں اورکافر طاقت ور، اس لیے کمزور کا طاقت ور سے ٹکر لینا ، عقل ودانش کے خلاف ہے، ان کے لیے قرآن حکیم نے صاف صاف بتا دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل میں اسلام کا نور پوری طرح نہیں پہنچا اور وہ دین فطرت کے اصل مزاج سے ناواقف ہیں، وہ اپنی قلت کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہیں اور کثرت کی غرور وبرتری سے خائف ولرزہ براندام ہیں ۔ حالا ں کہ
”اکثر ایسا ہوا ہے کہ تھوڑی طاقت بڑی طاقت پر غالب آئی ۔ الله کے حکم سے ۔“
جو لوگ دین کے مزاج داں تھے ۔ جن کے سامنے اسلام کی سچی اور بے داغ تصویر جلوہ گر تھی۔ وہ قلت اور کثرت کے پیمانوں سے دین کی قدریں معلوم نہیں کرتے تھے ۔ بلاشبہ اسلام نے کافروں کے ساتھ حسن سلوک اور روا داری کی تعلیم دی، لیکن یہ حسن سلوک اور روا داری ان کافروں کے ساتھ جائز قرار دی جن کے دل اسلام سے دشمنی اور عناد کے جذبے سے خالی تھے، اسلام نے مسلمانوں کو کسی ایسے غیر مسلم سے دوستانہ مراسم قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جو اسلام کے دشمن ہوں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں ایک مشہور صحابی عبادہ بن صامت تھے، جن کے یہود بنی قینقاع سے گہرے دوستانہ مراسم تھے ۔ ان کے مراسم کو دیکھ کر یہ یقین نہ ہو سکتا تھا کہ کبھی حضرت عبادہ ان کی دوستی کو ترک کرنے کا خیال بھی لا سکیں گے ۔ لیکن وہ مبارک ساعت آگئی جب اسلام کی سچی تعلیمات نے ان کے دل میں نرمی وگداز پیداکیا اوروہ دل جس پر غفلت وبے یقینی کا بادل چھایا ہوا تھا، وہ بالکل صاف ہو گیا او ران کا سینہ نور الٰہی سے بھر گیا۔ اب بنی قینقاع سے ان کے تعلقات بالکل ختم ہو گئے تھے۔ وہ اپنی پچھلی زندگی کا خیال کرکے رو دیتے تھے۔ ان کا دل الله کے خوف سے لبریز تھا ۔ الله تعالیٰ نے ان میں قبول حق کی صلاحیت دیکھی او رانہیں اپنی رحمتوں سے نواز دیا، چناں چہ یہ آیات قرآنی ابن صامت کی شان میں نازل ہوئیں۔
”او رجو کوئی دوست رکھے الله کو اور اس کے رسول کو اور اہل ایمان کو ، تو الله کی جماعت ہی سب پر غالب ہے ۔“ (المائدہ)(کذا فی تفسیر ابن جریر الطبری وروح المعانی)
مکہ مکرمہ تمام عرب کا تہذیبی او رسیاسی مرکز تھا اور قریش یہ بات حاشیہ خیال میں بھی نہ لائے تھے کہ مکہ کی سر زمین پر اسلام کا پرچم لہر اسکے گا۔ لیکن الله تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جو حکمت بالغہ عطا کی تھی۔ اس نے چپکے چپکے مکے کے سارے بت کدوں کو سرنگوں کر دیا اور اسلام کا پرچم امن وسلامتی کے اس تاریخی اور مقدسمقام پر بھی سایہ فگن ہو گیا، مکے میں حضور صلی الله علیہ وسلم فاتحانہ داخل ہوئے، اب منافقین کو پتہ چلا دشمنان اسلام کی دوستی اور ظاہری منفعت ان کی دنیاوی تباہی اور آخرت کی ذلت ورسوائی کا سبب بنی، مکے کی فتح او راسلام کی سر بلندی کو دیکھ کر تمام اعدائے اسلام کی ہمتیں پست ہو گئیں اور منافقین کی سار ی امیدوں پر پانی پھر گیا۔