Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1432ھ

ہ رسالہ

15 - 18
ستاروں پہ کمند
محترم عثمان غنی

”سوالِ“ عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

وہ کون سی چیز ہے جو ایک مشتِ خاک کو سر بہ فلک چوٹیاں مسخر کرنے کے لیے مستقل کوشاں رکھتی ہے ؟

وہ کون سا جذبہ ہے جو ایک ضعیف خلقت کو سمندر کی گہرائیوں میں اسرارِ مخفی سے پردہ اٹھانے کے لیے غوطہ زن ہونے کی قوت فراہم کرتا ہے؟

وہ کون سی قوت ہے جو ایک محرومِ پرواز کو آکاش کی پنہائیوں میں ” جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر چھپٹنا“ کی ادائیں سکھاتی ہے؟

اب ذرا کچھ دیر کے لیے اپنے افکار کا سیارہ گلوبل ولیج کے مدار سے ”ماضی کی دنیا“ میں لے کر جائیے اور پھر چشم عقدہ کشا سے لمحہ بھر کے لیے اس بات کا تصور کیجیے کہ کس عرق ریزی وجان فشانی سے ایٹم بم کی ایجاد ہوئی؟ کس سرعت سے الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا نے ارتقاء کے مراحل طے کیے اورکتنی حیرت انگیزی سے دنیا موبائل فون کی صورت میں ہر ایک کی ہتھیلی پر آگئی۔

حیرت میں ڈالنے والی ان ایجادات سے ایک طرف ہو کر چند ساعتیں ان عبقری شخصیات کی زندگی پر نظر ڈالیے جنہوں نے تاریخ کے اوراق کو اپنے عظیم کارناموں سے زینت بخشی ،سوچیے وہ کیا شے تھی جس نے اقبال کو شاعری کی دنیا میں انقلاب برپا کرکے ”شاعر مشرق“ کا تاج سر پر سجانے کا موقع دیا؟ وہ کیا بات تھی جس نے غزالی کو علم کا بے پایاں سمندر بنایا؟ ایسی کیا جادوگری تھی جس کی بنا پر البیرونی کو ” ودیاساگر“ کا لقب دیا گیا؟ یہ کیا کرشمہ سازی تھی جس نے مولانا اشرف علی  کو ایک ہزار سے زیادہ تصنیفات اوراصلاح عوام کی بدولت حکیم الامت کا لقب عطا کیا؟

فکر کا یہ سفر ذرا اور پیچھے کی جانب جاری رکھیئے کہ سلطان محمد فاتح نے راتوں رات خشکی پرکئی میل تک کشتیاں کیسے چلائیں ؟ محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے؟ یہ کیوں کر ممکن ہے، ایک سترہ سالہ نوجوان اپنے وطن سے دور، غیر کی مملکت کو زیر وزبر کرتا رہے او رایک بڑے خطے کی فتح اپنے سر سجائے؟ غور کرنے کی جایہ ہے کہ بہ ظاہر یہ مافوق الفطرت صلاحیتیں کس چیز کی بدولت ممکن ہوئیں؟ الغرض دل کی آنکھ سے دیکھیں تو ”آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے،لب پہ آسکتا نہیں“ کی کیفیت پیدا ہو گی۔ عقل یہ سوچ کر دنگ رہ جاتی ہے، جب کہ ہوش انگشت بدنداں، لیکن تجسس ہے کہ ان سوالوں کا جواب تلاش کیے بغیر چین نہیں آتا۔

اگر غور کیا جائے تو ان سوالوں کے گونا گوں زاویے اور ان گنت تاویلات ہو سکتی ہیں، مگر سب بالآخر ایک جو اب پر منتج ہوں گی #
        ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
        وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا

عزم وہمت کے کرشمے
عزم وہمت کی بلند پروازی کی یہ ادنی سی جھلک اس کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ ایسے ہزاروں واقعات تاریخ کی اسکرین پر حرکت کرتے نظر آتے ہیں،جو عزم وہمت کی ساکن موجوں میں حرکت پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

یہ عزم وہمت ہی ہے جو موت کی بہن سے ہم آغوش ایک انسان کو دوبارہ زندگی کی گہما گہمیوں کی طرف لاتی ہے اور انسان پھر سے اپنے متروکہ کاموں کی تکمیل کی طرف اپنے قدم بڑھاتا ہے ۔ عزم وہمت زندگی کا دوسرا نام ہے او رزندگی کا ہر عمل عزم وہمت کا مرہونِ منت ہے عزم وہمت سے قومیں ترقی کی بامِ عروج پر فائز ہوتی ہیں ،یہ وہ لباس ہے جسے اوڑھ کر افراد ، قوم کے مقدر کے ستاروں میں شامل ہو کر ٹمٹمانے لگتے ہیں، یہی وہ فسوں ہے جس سے صحرا کا ذرا ذرا گلزار کے پھولوں کا روپ دھار لیتا ہے۔ عزم وہمت وجدوجہد کے لیے محرک ہیں او رمشہور ہے کہ:

”من جد وجد“. ”جس نے کوشش کی اس نے مقصد کو پالیا“

یہ حقیقت ہے کہ مقصد تک رسائی کے سفر میں ہم اگر کسی سواری کو تیز رفتار پاتے ہیں تو وہ عزم وہمت ہی ہے۔مختصر الفاظ میں یہ کہ عزم وہمت ایک حقیر سی مخلوق کو ستاروں پہ کمند ڈالنے کے قابل بنا دیتی ہے۔ بقول اقبال #
        محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
        ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند
Flag Counter