تحفظ ختم نبوت کی خاطرقُربانیاں
مولانا حذیفہ وستانوی
اللہ رب العزت نے اشرف الخلائق حضرت انسان کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا، سنة اللہ کے مطابق اس سلسلة الذہب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا، کیوں کہ دنیا میں اللہ کا دستور ابتدائے آفرینش سے چلا آیا ہے کہ ہر چیز کا مبدابھی لازم اور منتہا بھی لازم، چاہے وہ مادی ہو یا روحانی؛ لہٰذا نبوت کے اس وہبی دستور کو یہ قانون الٰہی لازم آیا اور حضرت آدم علیہ الصلاة والسلام سے سلسلہ نبوت کا آغاز ہوا اور حبیب کبریاء، احمد مصطفی، محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سلسلہ نبوت ختم ہوا؛ گویا یہ ایک قدرتی قانون کے تحت ہوا اور جس کا ہونا ﴿ولن تجد لسنة اللہ تبدیلا﴾ کی روشنی ضروری بھی تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک انقلاب آفریں بعثت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دنیا میں تمام ظلمتیں چھٹ گئیں۔ دنیا جو ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی پُرنور اور روشن ہوگئی، جس کی برکتوں کے اثرات آج چودہ صدیوں کے بیت جانے کے بعد بھی محسوس کیے جارہے ہیں اور قبیل قیامت تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور پھر حشر و نشر میں بھی اور میزان و حساب میں بھی آپ کی برکتیں جلوہ گر ہوں گی۔ انشاء اللہ!
یہ امر امر بدیہی ہے کہ آپ کی وفات حسرت آیات پُر ہنگامہ تو ہونا ہی تھی اور کوئی معمولی ہنگامہ نہیں، بلکہ زوردار، جیسے کسی عظیم رہنما کی وفات سے فتنے کھڑے ہوتے ہیں، وہ اس کے زندہ رہنے سے دبے رہتے ہیں، جس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے صفحات پر آپ کو مرقوم ملیں گی۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی عظیم فتنوں نے سر اٹھایا، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی ، حمیت اسلامی اور بلند حوصلگی۔ اولاً آپ رضی اللہ عنہ کے اخلاص کی برکت سے نصرت الٰہی و تائید غیبی اور ثانیاً آپ نے اپنی حکمت عملی سے تمام فتنوں کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں کافور کرکے رکھ دیا۔ اللہ آپ رضی اللہ عنہ کو پوری امت کی طرف بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین!
عجیب بات
یہ بات تعجب خیز ہے کہ اہل کتاب بہود و نصاریٰ نے سب سے پہلے اسلام کے خلاف جو سازش رچی وہ تھی عقیدہٴ ختم نبوت پرکاری ضرب، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو پانچ افراد دعوہٴ نبوت لے کر کھڑے ہوئے الاستاذ جمیل مصری کی تحقیق کے مطابق ان سب کے اہل کتاب یہود و نصاریٰ کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ یہ سب انہوں نے تاریخ کے مستند حوالوں سے اپنی تحقیقی کتاب ”اثر اہل الکتاب فی الحروب و الفتن الداخلیة فی القرن الأول“ میں ثابت کیا ہے۔دوسری جانب حضرات صحابہ نے بھی اس کو گویا بھانپ لیا، خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور آپ نے ”أ ینقص الدین و أنا حی؟“ کا تاریخی جملہ کہہ کر صحابہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ عقیدہٴ ختم نبوت کی اہمیت خوب اچھی طرح سمجھیں اور تاریخ کا رُخ پھیر دینے والے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔ الحمدللہ! حضرت ابوبکر کی کوششوں اور اللہ کے فضل سے صحابہ نے اس بات پر اجماع کرلیا کہ عقیدہٴ ختم نبوت، کو تحفظ فراہم کیا جائے، نبوت کے دعویداروں کو کافر قرار دیا جائے اور ان کے خلاف جہاد فرض گردانا جائے، اس طرح صحابہ کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوگیا کہ ختم نبوت کا تحفظ ایک اہم ترین فریضہ ہے اور دعوہٴ نبوت کرنے والا کافر ہے ،ا س سے جہاد فرض ہے۔
بس پھر کیا تھا، اس عقیدے کے تحفظ کی خاطر مدینہ سے گیارہ لشکر ان مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکر صدیق کے حکم پر میدان کارساز میں کود پڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال سے بھی کم عرصے میں یا تو مدعیان نبوت اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں یا تو بہ و انابت کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔
قائدین جہت
(1) خالد بن سعید بن عاص مشارف بلادشام
(2) عمرو بن العاص دومة الجندل
(3) خالد بن ولید بُزاخہ، البطاح، یمامہ
(4) عکرمہ بن ابی جہل یمامہ، عمان و مہرہ، حضرموت، یمن
(5) شرحبیل بن حسنہ یمامہ، حضرموت
(6) علاء بن الحضرمی بحرین، دارین
(7) حذیفہ بن محض الغطفانی عمان
(8) عرفجہ بن ہرثمہ البارقی عمان، مہرہ، حضرموت، یمن
(9) طریفہ بن حاجز شرق حجاز، بنوسلیم کی طرف
(10) مہاجربن ابی امیہ یمن، کندہ، حضرموت
(11) سوید بن مقرن الذنی تہامة الیمن
حضرت ابوبکرصدیق کے بارے میں حضرت ابوہریرہ راویة الاسلام فرماتے ہیں ”واللہ الذی لاالہ الا ہو، لولا ان ابا بکر استخلف ما عبد اللہ“اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اگر ابوبکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ نہ بنائے جاتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔ (رواہ البیہقی بحوالہ ازالة الخفاء: ج1/ص3)
حضرت عبداللہ بن مسعود فقیہ الامة و الاسلام فرماتے ہیں: ”لقد قمنا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامًا کدنا نہلک فیہ لولا ان اللہ مَنَّ علینا بابی بکراجمعنا علی ان لا نقاتل علی ابنة مخاض و ابنة لبون وان نأکل قریٰ عربیة، ونعبد اللہ حتی یأتینا الیقین، فعزم اللہ لابی بکر علی قتالہم“․ (التاریخ الکامل لابن اثیر: ج2/205)
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد ہم ہلاکت خیز حالات سے دوچار ہوگئے تھے، مگر اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جیسی بصیرت افروز) شخصیت کے ذریعہ ہم پر احسان عظیم کیا ، ہم لوگ (یعنی جماعت صحابہ) یہ طے کرچکے تھے کہ مانعین زکوٰة کے ساتھ قتال نہیں کریں گے اور جو کچھ تھوڑا بہت رزق میسر آئے گا اس پر اکتفا کریں گے اور اس طرح موت تک اللہ کی عبادت کرتے رہیں گے، مگر اللہ رب العزت نے حضرت ابوبکر کو مانعین زکوٰة کے ساتھ قتال کا پختہ حوصلہ دیا۔
موٴرخ کبیر، مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی بیسویں صدی میں مسلمانوں کی گمراہیوں کو دیکھ کر دل برداشتہ ہوکر فرماتے تھے ”رد ة ولا ابا بکرلہا“ کہ ارتداد نے ایک بار پھر زوردار سر اٹھایا ہے، مگر افسوس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ابوبکر صدیق جیسا حوصلہ نہیں ،ان کے جیسی حمیت و غیرت نہیں ۔بلکہ اس موضوع پر آپ کی مستقل کتاب ہے۔ واقعةً حضرت نے بالکل درست کہا جیسی فکری یلغار حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں تھی آج بھی ویسی ہی کیفیت ہے، تب ابوبکر تھے، مگر آج کوئی ابوبکر تو کیا ان کا عشرعشیر بھی نہیں، اللہ ہی مدد اور حفاظت فرمائے۔ آمین!
حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں تحفظ ختم نبوت کی خاطر ہزاروں صحابہ نے اپنی جانوں کو قربان کردیا، بیسویں صدی میں تحفظ ختم نبوت کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام سرِ فہرست ہے، آپ فرماتے ہیں:
جو لوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں تہاں شہید ہوئے، ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں، وہ عشق رسالت میں مارے گئے، اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کہتا ہوں، ان میں جذبہٴ شہادت میں نے پھونکا تھا۔ (حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نوراللہ مرقدہ کی تحریک کی وجہ سے ختم نبوت کے تحفظ کے لیے امت میں بیداری پیدا ہوئی اور امت مسلمہ ہندیہ پورے جوش و جذبہ کے ساتھ میدان کارزار میں کود پڑی، جب کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اس تحریک کی خاطر شہید ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنے آپ کو اس تحریک سے علیحدہ کرکے یہ ثابت کرنا چاہا کہ جو لوگ مارے گئے یا مارے جارہے ہیں ہم اس کے ذمہ دار نہیں، تب پھر حضرت نے اپنی تقریر میں کہا) جو لوگ ان کے خون سے دامن بچانا چاہتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی ان کے خون کا ذمہ دار رہوں گا، کیوں کہ ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق نے بھی سات ہزار حفاظ قرآن‘ تحفظ ختم نبوت کے خاطر شہید کروا دیے تھے (اور غیرحافظوں کی تعداد اس سے تقریباً دوگنی ہوگی) ۔ (تحریک ختم نبوت، آغاشورش کاشمیری، بحوالہ روزنامہ اسلام)
صداقت کے لیے گر جاں جاتی ہے تو جانے دو
مصیبت پر مصیبت سر پہ آتی ہے تو آنے دو
مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر نے بڑا عجیب شعر کہا ہے #
جلا دو پھونک دو سولی چڑھا دو خوب سن رکھو
صداقت چھٹ نہیں سکتی ہے جب تک جان باقی ہے
خلاصہ یہ کہ اسلامی دور حکومت میں جب بھی کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا یا حرف زنی کی مسلمان خلفاء و امراء نے ان کو کیفرکردار تک پہنچا یا، جس کی سینکڑوں مثالیں تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے، تو آئیے! مدعیان نبوت اور منکرین ختم نبوت کے بدترین انجام پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
دور خلافت و حکومت سن انجام انجام منکرین ختم نبوت شمار
حضرت ابوبکر صدیق 11ھ قتل ہوا عبہلہ بن کعب معروف باَسود العنسی 1
حضرت ابوبکر صدیق 11ھ قتل ہوا مسیلمہ بن کبیر حبیب الکذاب 2
حضرت عبداللہ بن زبیر 67ھ قتل ہوا مختار بن ابوعبدابن مسعود ثقفی 3
عبدالملک بن مروان 79ھ قتل ہوا حارث بن سعید کذاب 4
ہشام بن عبدالملک بن مروان 119ھ قتل کیا گیا مغیرہ بن سعید عجلی 5
ولید بن یزید 126ھ قتل کیا گیا بیان ابن سمعان 6
خلیفہ ابوجعفر منصور معلوم نہ ہو سکا قتل کیا گیا اسحاق اخرس 7
خلیفہ ابوجعفر منصور 150ھ قتل کیا گیا سیس خراسانی 8
خلیفہ ابوجعفر منصور نامعلوم قتل کیا گیا ابوعیسیٰ بن اسحاق یعقوب اصفہانی 9
خلیفہ مہدی 163ھ خود کشی کی حکیم مقنع خراسانی 10
خلیفہ معتصم باللہ 223ھ قتل کیا گیا بابک بن عبداللہ خرمی 11
خلیفہ المعتمد علی اللہ 270ھ قتل کیا گیا علی بن محمد عبدالرحیم 12
خلیفہ المعتضد باللہ 301ھ قتل کیا گیا ابوسعد حسن بن سیرام 13
خلیفہ راضی باللہ 322ھ قتل کیا گیا محمد بن علی شمغانی 14
یہ تھے مشہور منکرین ختم نبوت اور مدعیان نبوت اورجب بھی کسی اسلامی دور میں انہوں نے سر اٹھایا ہمارے خلفاء اور امراء نے ان کو تہہ تیغ کرکے رکھ دیا، یا انہوں نے مجبوراً خودکشی کی یا توبہ کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اسی لیے اہل کتاب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہی سے خلافت کے عدم قیام یا قیام کے بعد سقوط کی بھرپور کوشش کرتے رہے، مگر13سو سال بعد انہیں اس میں کچھ حد تک مسلمانوں کی اعتقادی کمزوری کی وجہ سے اور کتاب و سنت سے بُعد کی بنا پر کامیابی ملی، مگر ان شاء اللہ ایک بار پھر خلافت قائم ہوگی۔ وما تشاوٴن الا ان یشاء اللہ* و اللہ متم نورہ و لو کرہ الکافرون!
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سقوط خلافت سے قبل اس کے ضعف کے زمانہ ہی سے ایک بار پھر انکار ختم نبوت کے فتنے نے سر اٹھایا اور انیسویں صدی کے اوائل میں باب اللہ نے پھر بہاوٴاللہ نے اور اسی صدی کے اواخر میں مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا، بلکہ پچھلے دو سو سال میں جتنے مدعیان نبوت و مہدویت کھڑے ہوئے وہ 12سو سال کے مقابلہ میں اضعافا مضاعفہ ہیں گویا دشمن کی یہ ایک منظم سازش ہے کہ وہ ختم نبوت کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں، مگر انشاء اللہ وہ قیامت تک اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
منکرین ختم نبوت کے ساتھ جہاد بالسیف کے بعد جہاد بالقلم
جیسا کہ اوپر تاریخ کے حوالے سے واضح کیا گیا کہ جب بھی اسلامی دور حکومت میں کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا اس کو واصل جہنم کردیا گیا، مگر جب استعماری طاقتیں عالم اسلام پر غالب آگئیں اور اس طرح کے فتنوں نے سر اٹھایا تو علماء قلم و کاغذ لے کر میدان کارزار میں کود پڑے اور الحمدللہ ختم نبوت کا بھرپور دفاع کیا، انگریز کے زمانہ میں عدالتوں میں اور کتابوں کے ذریعہ صرف غلام احمد قادیانی ملعون کے رد میں ایک اندازے کے مطابق20 ہزار صفحات اردو میں تحریر کے گئے، احتساب قادیانیت کے نام سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے 23 جلدوں پر مشتمل چالیس کے قریب علمائے کے بارہ ہزار صفحات کی طباعت کی ہے، جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ کتنا اہم ہے۔ تو آیئے! اب میں مختصراً اس پر روشنی ڈالتا ہوں۔
گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں
تحفظ ختم نبوت کتنا اہم ترین مسئلہ ہے، اس کا اندازہ آپ خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری قدس اللہ سرہ کے اس واقعہ سے کرسکتے ہیں۔
26 اگست 1932 ء کو یوم جمعة المبارک تھا ۔جامع مسجد الصادق بہا ولپور میں آپ نے جمعہ کی نماز ادا فرمانا تھی ۔مسجدکے اندرتِل دھرنے کی جگہ نہ تھی ۔قرب وجوار کے گلی کوچے نمازیوں سے بھرے ہوئے تھے، نماز کے بعد آپ نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا :
”میں بواسیر خونی کے مرض کے غلبہ سے نیم جاں تھا اور ساتھ ہی اپنی ملازمت کے سلسلہ میں ڈابھیل کے لیے پابہ رکاب کہ اچانک شیخ الجامعہ صاحب کا مکتوب مجھے ملا، جس میں بہاولپور آکر مقدمہ میں شہادت دینے کے لیے لکھا گیا تھا ۔ میں نے سوچا کہ میرے پاس کوئی زادراہ ہے نہیں ۔شاید یہی چیز ذریعہ نجات بن جائے کہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا جا نب دار بن کر یہاں آیا ہوں ۔“
یہ سن کر مجمع بے قرار ہوگیا ۔آپ کے ایک شاگرد مولانا عبد الحنان ہزاروی آہ وبکا کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور مجمع سے بولے کہ اگر حضرت کو بھی اپنی نجات کا یقین نہیں تو پھر اس دنیا میں کس کی مغفرت متوقع ہوگی ؟اس کے علاوہ کچھ اور بلند کلمات حضرت کی تعریف و توصیف میں عرض کئے جب وہ بیٹھ گئے تو پھر مجمع کو خطاب کرکے فرمایا کہ :
”ان صاحب نے ہماری تعریف میں مبالغہ کیا ۔حالانکہ ہم پر یہ بات کھل گئی کہ گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں“۔ (کمالات انوری)(احتساب قادیانیت :ج4/ص36 )
اب آپ اندازہ لگایئے کہ ایک جلیل القدر محدث و فقیہ ایسا کہہ رہے ہیں جس کے بارے میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہ فرماتے تھے ”انور شاہ کشمیری صحابہ کی جماعت کے بچھڑے ہوئے فرد ہیں“ ان کے اخلاق، ان کا علم، ان کا تقویٰ، ان کی دینی غیرت و حمیت کو دیکھ کر یہ جملہ آپ نے کہا۔
ختم نبوت اور قرآن
قرآن کریم نے مسئلہ ختم نبوت کو تقریباً سو مقامات پر ذکر کیا ہے ، کہیں صراحتاً، کہیں کنایةً، کہیں عبارت النص سے، کہیں اقتضاء النص سے، کہیں اشارة النص سے تو کہیں دلالت النص سے، جس کو پوری تفصیل کے ساتھ حضرت اقدس مفتی شفیع صاحب قدس اللہ سرہ نے اپنی تصنیف انیق” ختم النبوة فی القرآن“ میں ذکر کیا ہے اور دوسری تصنیف لطیف ”ختم النبوة فی الاحادیث“ میں 210احادیث جمع فرمائی اور ”ختم النبوة فی الآثار“ میں امت کا اجماع اور سینکڑوں علمائے امت کے اقوال ختم نبوت کی تائید میں جمع فرما دیے۔ اللہ حضرت کو امت کی جانب سے بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین!
حضرت مفتی شفیع صاحب مفتئ اعظم پاکستان نوراللہ مرقدہ و برد اللہ مضجعہ ”ختم نبوت“ کامل ہر سہ حصہ کی تمہید میں تحریر فرماتے ہیں:
مسئلہ ختم نبوت
یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی نبوت او ر وحی کا اختتام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ورسول ہونا اسلا م کے ان بدیہی مسائل اور عقائد میں سے ہے ،جن کو تما م عام و خاص ،عالم وجاہل ،شہری اور دیہاتی مسلمان ہی نہیں، بلکہ بہت سے غیر مسلم بھی جانتے ہیں، تقریباً چو دہ سو برس سے کروڑہا مسلما ن اس عقیدہ پر ہیں ،لاکھوں علمائے امت نے اس مسئلہ کو قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح کرتے ہو ئے واضح فرمایا ،کبھی یہ بحث پیدا نہیں ہوئی کہ نبوت کی کچھ اقسام ہیں اور ان میں سے کوئی خاص قسم آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد باقی ہے ،یا نبوت کی تشریعی غیر تشریعی یا ظلی وبروزی یا مجازی اور وغیر ہ اقسام ہیں، قرآن وحدیث میں اس کا کوئی اشارہ تک نہیں پوری امت اور علمائے امت نے نبوت کی یہ قسم نہ دیکھی اور نہ سنی ،بلکہ صحابہ وتابعین سے لے کر آج تک پوری امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوة والسلام اس عقیدہ پر قائم رہی کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر طرح کی نبوت ورسالت ختم ہے آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی یا رسول پیدا نہیں ہوگا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آپ سے پہلے پیدا ہو کر منصب نبوت پر فائز ہو چکے ہیں، ان کا آخر زمانہ میں آنا اس کے قطعاًمنافی نہیں )۔
اس مسئلہ کے اتنا بدیہی اور اجماعی ہونے کے سا تھ اس پر دلائل جمع کر نا اور اس کا ثبوت پیش کرنا درحقیقت ایک بدیہی کو نظر ی اور کھلی ہو ئی حقیقت کو پیچیدہ بنا نے کے مرادف معلوم ہوتا ہے ،بلکہ اس مسئلہ کا ثبوت پیش کرنا ایساہی ہے جیسا کوئی شخص مسلمانو ں کے سامنے لااِلہ الاَّ اللہ کا ثبوت پیش کر ے، ان حالات میں کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس موضوع پر کوئی مستقل رسالہ یا کتاب لکھی جائے ،لیکن تعلیمات اسلام سے عام غفلت وجہالت اور روز پیدا ہونے والے نئے نئے فتنوں نے جہاں بہت سے حقائق پر پر دہ ڈال دیا ہے، باطل کو حق او رحق کو با طل کر کے ظاہر کیا ہے، وہیں یہ مسئلہ بھی تختہ مشق بن گیا ۔
اس مسئلہ میں فرقہ وار جماعت کی حیثیت سے سب سے پہلے باب وبہا ء کی جماعت فرقہٴ بابیہ نے اختلاف کیا ،مگر وہ علمی رنگ میں اس بحث کو آگے نہ پہنچا سکے، ا س کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی نے اس میں خلاف واختلاف کا دروازہ کھولا اور ان کی چھوٹی بڑی بہت سی کتابو ں میں یہ بحث ایسی منتشر اور متضاد ہے کہ خود ان کے ماننے والے بھی اس پر متفق نہ ہو سکے کہ وہ کیا کہتے ہیں اور ان کا کیا دعوی ہے؟ کہیں بالکل عام مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کے مطابق آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے اور وحی نبوت کے انقطاع کلی کا اقرار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مطلقا کسی نبی یا رسول کے پیدا نہ ہونے کا اعتراف ہے ۔کہیں اپنے آپ کو مجازی اور لغوی نبی کہاگیا ہے، کہیں نبوت کی ایک نئی قسم ظلی و بروزی بتلاکر بروزی نبی ہونے کا دعوی کیا گیا، کہیں نبوت کو تشریعی اور غیر تشریعی میں تقسیم کر کے تشریعی کا اختتام اور غیر تشریعی کا جاری ہونا بیان کیا گیا اور اپنے آپ کو غیر تشریعی نبی بتلایا اور وحی غیر تشریعی کا دعوی کیا گیا ہے، کہیں کھلے طور پر صاحب شریعت نبی ہونے اور وحی تشریعی کا دعوی کیا گیا ۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے متبعین تین فرقوں میں تقسیم ہوگئے، ایک فرقہ ان کو صاحب شریعت اور تشریعی نبی ورسول مانتا ہے ،یہ ظہیر الدین اروپی کا فرقہ ہے ،دوسرا فرقہ ان کو بااصطلاح خود غیر تشریعی نبی کہتا ہے، یہ قادیانی پارٹی ہے، جو مرزا محمود کی پیر و ہے، تیسرا فرقہ ان کو نبی یا رسول نہیں، بلکہ مسیح موعود اور مہدی موعود قرار دیتا ہے ۔یہ مسٹر محمد علی لاہوری کے متبعین ہیں ۔
غرض مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے متبعین نے اس قطعی اور اجماعی مسئلہ میں خلاف و شقاق کا دروازہ کھولا ،عوام کی جہالت اور مغربی تعلیم سے متأثر، دینی تعلیم سے بیگانہ افرادکی ناواقفیت سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مسئلہ میں طرح طرح کے اوہام وشکوک ان کے دلوں میں پیدا کردیے ،اور ان کی نظرمیں بدیہی مسئلہ کو نظری بنادیا، اس لیے اہل علم اور اہل دین کو اس طرف متوجہ ہونا پڑا ،کہ ان کے شبہات دور کیے جائیں اور قرآن حدیث کی صحیح روشنی ان کے سامنے لائی جائے۔ ( ختم نبوت:ص 12-10)
حضرت کاندھلوی فرماتے ہیں:
ختم نبوت اور اس کا مفہوم اور حقیقت
ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ نبوت اور پیغمبر ی حضور کی ذات بابرکت پر ختم ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلسلہ انبیاء کے خاتم (بالکسر)ہیں، یعنی سلسلہ انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں اور آپ صلی ا للہ علیہ وسلم سلسلہ انبیاء کے خاتم (بالفتح)یعنی مہر ہیں ۔اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہ ہوگا ،مہر کسی چیز کا منہ بند کرنے کے لیے لگا تے ہیں۔ اسی طرح حضور ُپر نور صلی اللہ علیہ وسلم سلسلہ انبیاء پر مہر ہیں، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اس سلسلہ میں داخل نہیں ہوسکے گا ۔اور قیامت تک کوئی شخص اب اس عہدہ پر سرفراز نہ ہوگا ۔مہر ہمیشہ ختم کرنے اور بند کرنے کے لیے ہوتی ہے، کما قال تعالی ﴿یسقون من رحیق مختوم ختامہ مسک﴾ یعنی سربمہر بوتلیں ہوں گی اور شراب ان کے ا ندر بند ہوگی ۔﴿ختم اللہ علی قلوبہم﴾ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے یعنی کفر اندربند کردیا ہے۔ (احتساب قادیانیت: ج2،ص514) (جاری)