شیام پرتاپ سنگھ، محمد عمر بن گئے
محترمہ ام فاکہہ زنجانی، جدہ
شیام پرتاپ سنگھ گوتم کی پیدائش1964ء میں صوبہ یوپی کے فتح پور ضلع کے ایک راجپوت خاندان میں ہوئی تھی ۔ الله تعالیٰ نے دنیاوی اعتبار سے اس خاندان کو بہت نوازا ۔ شیام پرتاپ سنگھ کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہی ہوئی ۔12 ویں جماعت الہٰ آباد سے پاس کی اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے نینی تال ضلع کی پنت نگر ایگری کلچرل یونیورسٹی میں بی ایس سی ایگری کلچرل کی ڈگری کے لیے 1980ء میں داخلہ لے لیا اور اسی یونیورسٹی میں 1984ء میں الله تعالیٰ نے ان کی ہدایت کا معاملہ کیا اور انہوں نے اپنا نام شیام پرتاپ سنگھ گوتم سے بدل کر محمد عمر گوتم رکھ لیا۔ جب محمد عمر گوتم 15 سال کے تھے تبھی سے ان کے دل اور دماغ میں بہت سارے سوالات پیدا ہوئے کہ بتوں کی پوجا کیوں کی جاتی ہے ، ہمارا خالق او رمالک کون ہے ؟33 کروڑ دیوی دیوتاؤں کی پوجا پاٹ کیسے کی جائے ۔86 لاکھ یونیوں میں آواگون کیسے ممکن ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ محمد عمر سوچتے کہ جب ہماری سب سے پرانی مذہبی کتب، جنہیں ویدوں کے نام سے جانا جاتا ہے ان کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ ” کم برہم، دوشیوناستی“ یعنی برہم ( الله) صرف ایک ہے، دوسرا نہیں ہو سکتا۔ ویدوں میں بت پرستی کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے او رکہا گیا ہے کہ ” ایک ایشور ( الله) کی اپاسنا ( عبادت) کریں۔“ محمد عمر کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ جب ہماری مذہبی کتابوں میں ایک الله کا اقرار ہے تو33 کروڑ دیوی دیوتا کہاں سے آگئے او رجب ویدوں میں صاف طور پر لکھا ہے کہ ” ایشور ( الله) کی کوئی پریتما ( شکل صورت) نہیں“ تو خدا کی مورتیاں کہاں سے بن گئیں؟ اُن کے ان سوالوں کے جواب نہ ان کے گھر والے دے پاتے تھے اور نہ ان کے پنڈت۔
پنت نگر یونیورسٹی (اترکھنڈ) میں دوران تعلیم انہیں تقریباً 3 سال یونیورسٹی لائبریری میں ہندومذہب کی تقریباً سبھی کتابیں اور مختلف سوشل ریفارمر کی سوانح عمری پڑھنے کو ملیں، ان سب کو پڑھ کر محمد عمر کا ذہن اور زیادہ الجھ گیا اور وہ کافی کنفیوژ ہو گئے۔ انہوں نے یہاں تک ذہن بنا لیا کہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد پہاڑوں پر جا کر سنیاسی والی زندگی گزاروں گا۔ یہ وقت آتا، اس سے پہلے ہی الله تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تم خود براہ راست اپنے پیدا کرنے والے اور اس دنیا کو چلانے والے سے یہ دعا کیوں نہیں مانگتے کہ وہ تمہیں سیدھا راستہ دکھائے او رحق کو پہچاننے اور اس پر چلنے میں مدد کرے او رمحمد عمر نے یہ دعا مانگنی شروع کر دی۔
یہ1984ء کی بات ہے ، اُن دنوں محمد عمر کے ایک دوست ناصرخان، جو ان کے ہم جماعت بھی تھے اور ضلع بجنور کے رہنے والے تھے ، الله تعالیٰ کی قدرت سے وہی ان کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنے۔ ہوا کچھ یوں کہ محمد عمر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے پیر میں کافی چوٹ آگئی اور انہیں ہسپتال بھی جانا پڑا۔ سائیکل چلانا او رچلنا پھرنا چھوٹ گیا، جس کی وجہ سے انہیں کافی پریشانی کا سامنا تھا، ایسے وقت میں ناصر خان مدد کے لیے سامنے آئے ، وہ اپنے ساتھ انہیں ہسپتال او رکالج لے جاتے اور میس سے کھانا لا کر ہوسٹل کے روم میں ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے تھے۔ تقریباً ایک مہینے تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور محمد عمر ، ناصر خان سے کافی متاثر ہوئے ۔ ایک دن محمد عمر نے ان سے پوچھا کہ آپ میرے ساتھ اتنی ہمدردی کا معاملہ کیوں کرتے ہیں۔ آپ تو میرے دھرم ( مذہب) کے بھی نہیں پھر بھی آپ کے اخلاق میرے ساتھ اتنے اچھے کیوں ہیں ؟ ناصر خان نے جواب دیا: گوتم صاحب! میں یہ کام کسی لالچ میں نہیں کر رہا بلکہ میں ایک مسلمان ہوں ، میرے مذہب کی تعلیم ہے کہ پڑوسی کے حقوق ادا کرو، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو ۔ پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اس کی مدد کرنا او ر مصیبت میں اس کے کام آنا یہ ہر مسلمان کی بنیادی ذمے داری ہے او رمصیبت میں اس کے کام آنا یہ ہر مسلمان کی بنیادی ذمے داری ہے او راگر میں آپ کو اس حالت میں چھوڑ دیتا ہوں تو روز قیامت مجھ سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو میں الله تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا ؟ ان کے اس جواب سے محمد عمر گوتم بہت زیادہ متاثر ہوئے ، ناصر کی باتوں سے انہیں اسلام کا پہلا سبق مل گیا، جو پڑوسی کے حقوق کے بارے میں تھا او رحشر کے میدان کی اطلاع بھی مل گئی تھی۔
محمد عمر کو مطالعہ کابہت شوق تھا، ناصر خان نے انہیں اسلامی کتابیں پڑھنے کو دیں، یہ سلسلہ6,5 مہینوں تک چلتا رہا، محمد عمر نے مختلف عنوانات پر بہت سی اسلامی کتابیں پڑھیں، اب ان کے سامنے اسلام کی پوری تصوریر آگئی تھی ، خاص طورسے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی سیرت، خلفائے راشدین کے بارے میں اور ہندی میں قرآن کریم کی روشنی میں وحدانیت ، رسالت اور آخرت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کیں۔ محمد عمر کہتے ہیں کہ جب میں نے سچی نیت کے ساتھ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا تو ان سارے سوالوں کے جواب مجھے مل گئے ، جو مجھے برسوں سے پریشان کر رہے تھے اور الله تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا کہ جو لوگ ہدایت کے طلب گار ہوں گے انہیں ضرور ہدایت ملے گی ، اس طرح 1984ء میں شیام پرتاپ سنگھ گوتم محمد عمر گوتم ہو گئے۔
اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے پہلے یونیورسٹی میں پڑھنے والے دوستوں نے اسلام لانے پر ان کی کھل کر مخالفت شروع کر دی ، پوری یونیورسٹی میں ہر کسی کا یہی سوال تھا کہ آخر میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ یہاں تک کہ بریلی سے نکلنے والے ہندواخبار” امر اُجالا“ نے ”گوتم، عمر ہوئے“ ہیڈنگ بنا کر نیوز چھاپ دی۔ پورے علاقے میں ہوا کی طرح یہ خبر پھیل گئی، یہاں تک کہ پولیس اور سی آئی ڈی والے بھی انکوائری میں لگ گئے۔ آرایس ایس اور وشو ہندوپریشد کے لوگوں نے پہلے مجھے دھمکیاں دیں اور پھر مجھے جنگل میں لے جاکر مارپیٹ کی او رکہا کہ اگر میں نے اسلام نہیں چھوڑا تو وہ میری بوٹی بوٹی کر دیں گے ۔ حالات یہاں تک خراب ہوئے کہ انہیں اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر یونیورسٹی سے باہر جانا پڑا۔2 ڈھائی سال اسی طرح گزر گئے۔1988ء میں انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں ایم اے اسلامک اسٹیڈیز میں داخلہ لے لیا۔ گھر والے بھی ان سے سخت ناراض تھے۔ انہوں نے ان کی مخالفت ہی نہیں کی بلکہ ان سے ہر طرح کا رشتہ ختم کر دیا۔ انہیں12,10 سال تک خاندان والوں سے کٹ کر رہنا پڑا۔ اس کے بعد حالات کچھ نارمل ہوئے تو گھر آنا جانا شروع ہوا،ان سب حالات کے بعد بھی انہیں ایک سکون کا احساس تھا کہ میں حق پر ہوں، میں نے سچائی کو پالیا ہے۔
انہوں نے دعوت کا کام سب سے پہلے گھر سے ہی شروع کیا ، اسلام کی دعوت کا اثر یہ ہوا کہ سب سے پہلے ان کی اہلیہ نے، پھر ان کی والدہ نے اسلام قبول کر لیا اور آج بھی وہ تمام رشتے داروں سے دعوتی نسبت سے جڑے ہوئے ہیں ۔ محمدعمر نے اپنی زندگی کا مشن ہی دین کی دعوت کو بنالیا ہے ۔ محمد عمر کہتے ہیں کہ ایک طرف اسلام کی عمدہ تعلیمات ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کے خراب معاشرتی او راخلاقی حالات، ان کو دیکھ کر لوگ اسلام سے قریب نہیں ہو رہے ۔ الحمد لله محمد عمر ابھی تک تقریباً100 کے آس پاس افراد کو اسلام کے دائرے میں داخل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
محمد عمر گوتم کا کہنا ہے کہ ہزاروں غیر مسلم بھائیوں سے رابطہ ہونے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ دین کی دعوت صحیح معنوں میں ان تک پہنچائی نہیں گئی جس کی وجہ سے وہ اسلام کی طرف سے غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اسلامی تعلیمات اتنی عمدہ ہیں کہ اسلام میں داخل ہوئے بغیر بھی دنیا کی بہت ساری قومیں او رملک ان اسلامی تعلیمات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں او رمسلمان دور کھڑے ہو کر ان کی تعریف کر رہے ہیں ، انہیں خود یہ نہیں معلوم کہ وہ ساری تعلیمات اسلام میں موجود ہیں ۔ ایسے بھی بے شمار لوگ ہیں جو اسلام کی تعلیمات دیکھ کر اسلام میں داخل ہوئے، مگر اچھے مسلم ساتھی اور صحیح اسلامی تعلیم اور تربیت نہ ملنے کی وجہ سے وہ کمزور پڑ گئے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اسلام میں نئے داخل ہوئے لوگوں کا خاص خیال رکھیں او ران کی اچھی تعلیم وتربیت کا مکمل بندوبست کریں او رانہیں ثابت قدم رہنے میں مدد کریں۔آج اگر تمام مسلمان دین پر چلیں او راپنے اخلاق اور کردار کو سنواریں اور انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں تو ہزاروں لاکھوں لوگ اسلام کو سمجھنے او راپنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، کوئی کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بناسکتا، بلکہ یہ فیصلہ بندے کی طرف سے حق کی تلاش پر ہی ممکن ہے۔
آخر میں محمد عمر اپنے تمام غیر مسلم بھائیوں کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اسلام کو قرآن وحدیث کی روشنی میں سمجھیں، مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں ۔ میں اپنے مسلمان بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ اپنے اخلاق ، کردار او رمعاملات کو ایسا معیاری بنائیں کہ وہ ان اوصاف سے متاثر ہو کر آپ کے قریب آسکیں اور آپ کے لیے دین کی دعوت دینے کی راہ آسان ہو سکے ۔ دنیا میں جتنی بھی انسانی حقوق کی باتیں ہیں وہ سب ہمارے ہی دین کا حصہ ہیں، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم مسلمان خود یہ سب نہیں جانتے ۔ الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو دین کا صحیح نمائندہ بنائے۔ آمین