Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1432ھ

ہ رسالہ

13 - 18
انجینئر محمد خالد (ونود کمار کھنہ) سے ایک ملاقات
مولانا احمدا وّاہ ندوی

اس لیے میں کہتا ہوں کہ مسلمانوں میں دعوتی شعور بیدار ہونا بہت ضروری ہے ، اگر مسلمانوں کو ذمہ داری کا احساس ہو جائے تو پھر دعوت کا کام بالکل آسان ہے او رماحول بہت ساز گار ہے، ادھر تو پیاس ہے، بے چینی ہے، بس ہم میں ان کو کچھ دینے اور سیراب کرنے کا شعور ہی نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے ؟ اس لیے مولانا صاحب ہر وقت اس غم میں گھلتے رہتے ہیں اور دن رات یہی بات کہتے ہیں کہ بس مسلمانوں، سارے انسانوں، بلکہ کائنات کے سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ مسلمانوں کو دعوتی ذمہ داری کا احساس ہو جائے ۔

محمد خالد: السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ
احمد اوّاہ: وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ
سوال… خالد صاحب! آپ کو ایک زحمت دینی ہے ، ہمارے یہاں پُھلت سے ایک اردو دعوتی میگزین ارمغان کے نام سے نکلتا ہے، اس کے لیے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں؟

جواب… ہاں احمد بھائی! ارمغان سے میں خوب واقف ہوں اس میں میرا نام بھی ہو جائے، تو میرے لیے بڑی خوش قسمتی کی بات ہو گی، آپ جوحکم کریں میں تیار ہوں۔

سوال… آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں؟

جواب… میرا نام الحمدلله محمد خالد ہے ، میرا گھریلو نام ونود کمار کھنہ تھا، میری پیدائش2 اگست1956ء میں پنجاب کے مشہور شہر جالندھر میں ہوئی ، ہمارا آبائی وطن پٹیالہ ہے ، میرے والد کا نام جناب ڈاکٹر انل کمار کھنہ ہے، وہ میکانیکل انجینئر ہیں او روہ پانچ سال پہلے بجلی پانی کے محکمہ ہائیڈل سے ایگزیکیٹیو انجینئرکی پوسٹ سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں، میں نے بھی الیکٹرکل میں انجینئرنگ کی اور والد صاحب کے محکمہ میں مجھے ملازمت مل گئی،15 سال برابر میری پوسٹنگ بھی جالندھر میں رہی ، تین سال پہلے میرا پرموشن میں ٹرانسفر ہو گیا، آج کل وہیں پر فیملی کے ساتھ رہتا ہوں، بہت دنوں سے مولانا صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی تھی ، مجھے ایک دفتری کام سے دہلی کا سفر تھا،موقع غنیمت سمجھ کر ملنے آیا ہوں، الحمدلله ملاقات بھی ہوگئی اور ضروری باتوں کے لیے مشورہ بھی ہو گیا۔

سوال… اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے؟

جواب… آج سے ٹھیک تیرہ سال پہلے19 اپریل1992ء کو میں دہلی سے دفتر کے کام سے واپس لوٹ رہا تھا، دہلی سے سپر فاسٹ ایکسپریس میں سوار ہوا ، گاڑی مظفر نگر اسٹیشن پر پہنچی، گاڑی میں لوگ سوار ہوئے، ان سوار ہونے والوں میں ایک ( اگر میں اپنی پیدائشی زبان میں یہ کہوں کہ) دیوتا بھی گاڑی میں سوار ہوئے تو میرا خیال ہے کہ اس زبان میں وہی ٹھیک ہو گا، اسلامی زبان میں رحم وکرم کا فرشتہ، نبی رحمت کا سچا وارث بھی کہہ سکتا ہوں ، مجھ سے کچھ فاصلہ پر تیسری سیٹ پر بیٹھ گئے دو منٹ گاڑی رُکی او رجلدی ذراسی دیر میں رفتار تیز ہو گئی، وہ دیوتا اور فرشتہ صفت انسان ،احمد بھائی، آپ کے والد، میرے سب سے بڑے محسن، مولانا کلیم صاحب تھے ، میرے برابر میں مظفر نگر کا ایک دیہاتی شاید جاٹ چوہدری بیٹھا تھا، گاڑی جب تیز ہو گئی تو اس نے سوال کیا کہ مظفر نگر کتنی دیر میں آجائے گا؟ مولانا صاحب نے جواب دیا کہ تاؤجی! مظفر نگر تو جاچکا ، یہ اسٹیشن جس سے ہم سوار ہوئے ہیں، مظفر نگر ہی تھا۔ اس کو مظفر نگر اترنا تھا، وہ چوہدری اپنی سیٹ کے نیچے سے سامان کی گٹھری اپنے سر پر رکھ کر، دروازہ کی طرف بڑھا او رجلدی میں دروازے سے چلتی گاڑی سے کودنا چاہتا تھا، مولانا صاحب نے پہلے اس کا ہاتھ پکڑا او رپھر اس کو دونوں ہاتھوں میں تھاما او رکہا تاؤجی! اب آپ نہیں اتر سکتے،آپ دیوبند تک چلیں، گاڑی رکے گی ، آپ اتر کر کسی دوسری گاڑی سے مظفر نگر واپس آنا ، وہ چوہدری ضد کرنے لگا، میری لڑکی کی منگنی والے آرہے ہیں، مجھے جلدی جانا ہے ، مولانا صاحب اس کو کھینچ کر اپنی سیٹ پر لے آئے او راس کو سمجھایا کہ تاؤ جی! جب آپ زندہ بچیں گے ، تب تو آپ منگنی کریں گے ، چلتی گاڑی سے اتریں گے تو آپ بچیں گے کہاں؟ وہ ضد کرتارہا، مگر مولانا صاحب اس کو مضبوط تھامے رہے او رکہا کہ میں دیوبند سے پہلے آپ کو نہیں اترنے دوں گا ، جب چوہدری کو یقین ہوگیا کہ یہ ہر گزمجھے چلتی گاڑی سے نہیں اترنے دیں گے ، تو اس نے مجبوراً اپنی گٹھری سیٹ کے نیچے ڈال دی ، دیوبند اسٹیشن آیا، گاڑی رکی ، مولانا صاحب نے اس کی گٹھری اٹھائی او راس کو اتارا ، گٹھری اس کے سپرد کی ، میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا ، ہمارا گھر انہ بہت مذہبی سمجھا جاتا تھا او رمجھے خود اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ میں بہت سوشل انسان ہوں ، یہ منظر دیکھ کر میرے ضمیر کو بہت چوٹ لگی، میرے دل میں خیال آیا کہ میرا ہم مذہب ہندو بھائی میرے برابر سے اٹھ کر چلتی گاڑی سے کود کر گویا مر گیا او رایک غیر مذہب کے بہت مذہبی دکھائی دینے والے مسلمان نے اس تعصب کے زمانہ میں ( یہ بابری مسجد رام جنم بھومی کی آگ کا زمانہ تھا) اس کی جان بچائی، اس لیے کہ اگر مولانا صاحب اس کو نہ روکتے اوربہت کوشش کرکے زبردستی کھینچ کر نہ لاتے تو چوہدری تو مر گیا تھا، مجھے اپنے حال پر بڑی شرمندگی ہوئی اور میں اٹھ کر مولانا صاحب کے سامنے والی سیٹ پر جا کر بیٹھا اور مولانا صاحب سے کہا کہ مولانا! آپ نے تو مجھے بہت بڑی سزا دی ، مجھے اس قدر تکلیف ہو رہی ہے کہ دل چاہ رہا ہے کہ ٹرین سے کود کر مر جاؤں۔ مولانا صاحب نے بڑے پیار سے کہا، معاف کیجیے، میں تو آپ سے بہت دور بیٹھا ہوں ، آپ سے میری کوئی بات چیت بھی نہیں ہوئی ، پھر بھی اگر کوئی تکلیف ہوئی ہے تو میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ ساتھ میں سفر کرنے والے ہیں او رایک مسلمان پر ساتھی مسافر کا بڑا حق ہوتا ہے۔

میں نے کہا مولانا صاحب! ہندو مسلم نفرت کی اس آگ کے زمانہ میں آپ نے ایک ہندو کو اتنی محنت سے مرنے سے بچا لیا ورنہ یہ میرا مذہبی بھائی میرے برابر سے اٹھ کر مر گیا تھا، مجھے یہ ہوش نہ آیا،کہ میں اس کو روکتا اور آپ اتنی دور سے جاکر اس کے لیے پریشان ہوئے ، مجھے یہ خیال ہو رہا تھا کہ ایسی بے حسی کی زندگی سے مر جانا بہترہے ، واقعی مولانا صاحب! آپ کی تو یہ بڑائی کی بات تھی ، مگر مجھے آپ کے اس برتاؤ نے بڑی سزا دی ، میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں اپنے کو اس کی کیا سزا دوں ؟مولانا صاحب میرے اس احساس سے بہت خوش ہوئے او رپیار سے میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر چوما اور بولے میرے پیارے بھائی! مالک کا کرم ہے کہ آپ کو احساس ہو گیا ، ورنہ یہ دنیا تو بس اپنے میں کھوئی ہوئی ہے او رمیں تو آپ سے بہت گیا گزرا ہوں ، بس مالک کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان مذہبی گھر میں پیدا کیا، جس کی وجہ سے ہمیں انسانیت کے کچھ اصول آگئے، ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں پڑوسیوں، انسانوں او رجان داروں کے حقوق بتائے ، مولانا صاحب نے دیر تک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی باتیں ، ہمیں بتائیں اور بیچ بیچ میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے سچے وارث کئی الله والوں کے بھی قصے سنائے ، باتیں محبت کی اور سنانے والا کچھ ایسا کہ لوگ اکٹھا ہو گئے ، بار بار دل بھر آرہا تھا، کئی لوگ تو روپڑے۔

میں نے مولانا صاحب سے تعارف چاہا ، تو انہوں نے بتایا کہ صوفی سنتوں کی ایک مشہور تاریخی بستی پھلت ہے ، جہاں پر دنیا کے مشہور اسلامی اسکالر حضرت شاہ ولی الله پیدا ہوئے ، وہ وہیں کے رہنے والے ہیں ، مولانا صاحب نے اپنا پتہ لکھ کر دیا اور میرا پتہ بھی معلوم کیا او رجب یہ معلوم ہوا کہ میں جالندھر میں انجینئر ہوں، تو مولانا صاحب نے اپنے دو لوگوں کے فون نمبر او رپتے دیے، جو جالندھر میں کاروبار کے سلسلہ میں آتے تھے او رمجھے ان سے رابطہ رکھنے کی تاکید کی ، مولانا صاحب کے دونوں ساتھی اصل میں مولانا صاحب کے مرید تھے ، جالندھر جا کر میں ان سے ملا، مجھے انہوں نے بہت متاثر کیا، انہوں نے مجھے مولانا صاحب کی کتاب” آپ کی امانت آپ کی سیوا میں“ اور ”اسلام کیا ہے ؟“ دی، میں نے ٹرین میں اسلام کی ہلکی سی کرن مولانا صاحب کے عمل کی شکل میں دیکھی تھی، ان دونوں کتابوں کو پڑھنے کے بعد میرے لیے کسی شک کی گنجائش نہیں رہی اور میں نے اسلام قبول کر لیا ، شروع میں مجھے لوگوں نے اپنے اسلام کو چھپانے کا مشورہ دیا ، ایک سال تک میں نے اعلان نہیں کیا ، مگر بعد میں مجھے خیال ہوا کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں، ایک غلط راہ پر تو ہم کھلے عام چلیں اور الله کی زمین پر ، الله کے آسمان کے نیچے الله کی بندگی چھپ کر کریں ، یہ کیسی بزدلی او رکم ظرفی کی بات ہے، میں نے کچہری جاکر اپنے قبول اسلام کے قانونی کاغذات بنوائے او رپھر گھر والوں کے سامنے اعلان کر دیا ، اپنی بیوی سے بھی بتا دیا، گھر کے لوگ بہت برہم ہوئے او رمیرے والد کے علاوہ سب لوگ مجھے برا بھلا کہتے رہے ،گھر سے نکل جانے کو کہا، میرے والد صاحب نے گھر والوں سے کہا ،اس طرح لڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ، یہ پڑھا لکھا ہے ، ہوشیار بھی ہے ، کوئی پاگل نہیں، ہاں! یہ بات ضروری ہے کہ مذہب بدلنے کا فیصلہ بڑا فیصلہ ہے، بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے دو سال خوب سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے ۔

اسلام کو پوری طرح جاننے او رنماز وغیرہ سیکھنے کے لیے مجھے کسی آدمی کی تلاش ہوئی تو میں نے ایک مولانا صاحب سے، جو سہارنپور کے رہنے والے تھے اور ایک مسجد میں امام تھے، مولانا محمد اشتیاق صاحب، ان سے رابطہ کیا، میں نے ان کے پاس رات میں جانا شروع کیا، تین چار روز کے بعد انہوں نے ہمیں بتایا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کی بیوی سے آپ کا رشتہ ختم ہو گیا ہے کیوں کہ وہ ہند و ہیں، اب ان کے ساتھ آپ کا رہنا جائز نہیں ، اسلام میں نے بہت سوچ سمجھ کر قبول کیا تھا اور میری خواہش تھی کہ ایک پکے مسلمان کی طرح اسلام کے ہر قانون کوجانوں ، میں نے ایک کمرہ کرائے پر لیا او راپنی بیوی سے اپنی مجبور ی بتائی، میرے دو چھوٹے بچوں کا مسئلہ تھا ،جن میں سے ایک ابھی دودھ پیتا تھا ، اس مسئلہ کے بعد میرے خاندان میں میرے قبول اسلام کی سخت مخالفت ہوئی او رمجھے سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑا، مجھے مولانا اشتیاق صاحب نے بتایا کہ مولانا کلیم صاحب کو ہم نے جالندھر کی دعوت دی ہے او رانہوں نے اگلے ہفتہ پنجاب کے سفر کا وعدہ کر لیا ہے، ان کا اصلی سفر سمرالاضلع لدھیانہ کا تھا، میں نے اس خیال سے کہ جالندھر سفر ہو نہ ہو اور بات کا موقع ملے یانہ ملے ، سمر الاجاکر ملاقات کو اچھا سمجھا، جہاں رات کو مولانا صاحب کو رکنا تھا میں نے چھٹی لی ، سمر الا دوپہر کو پہنچ گیا ، عصر کے بعد مولانا صاحب آگئے، ملاقات ہوئی، میرے قبول اسلام سے بہت خوش ہوئے او رمجھے بتایا کہ کئی رات وہ میرے لیے ہدایت کی دعا کرتے رہے کہ الله کیسا اچھا آدمی ہے، کیسا صاحب ضمیر ہے ، وہ تو ہدایت کا ضرور مستحق ہے ، الله کا شکر ہے، میرے الله نے سن لی ۔ میں نے اپنی بیوی سے علیحدگی وغیرہ کے بعد درپیش مسائل کے سلسلہ میں مشورہ کیا، مولانا صاحب نے مجھے الله کے ہر حکم کو ماننے پر رضا مندی پر مبارک باد دی، مولانا صاحب نے فون نمبر بھی دیا اور مجھے تاکید کی کہ ہر مسئلہ میں مجھ سے مشورہ کریں ، یہ ملاقات میرے لیے بڑی راحت کا ذریعہ بنی میں اپنے گھر چلاگیا او رمیں نے ٹرین والے واقعہ کے ساتھ مولانا صاحب کا تعارف کرا رکھا تھا، میں نے سمرالا لوٹ کر بیوی کو بتایا کہ مولانا صاحب نے مجھے بہت برابھلا کہا کہ ایسی وفادار او رمحبت کرنے والی بیوی کو مسلمان ہو کر کس طرح چھوڑ سکتے ہیں، اب تو اور بھی ان کا حق بڑھ گیا ہے ، میں نے اپنی بیوی کو یہ بھی بتایا کہ مولانا صاحب نے مجھے یہ بات بتائی ہے کہ سب سے اچھا مسلمان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو مولانا صاحب نے مجھے اردو اور قرآن شریف پڑھنے کا مشورہ دیا، میں نے روزانہ اس کے لیے ایک گھنٹہ دینا شروع کیا اور آدھا گھنٹہ بیوی پر دعوت کے لیے بلاناغہ لگایا، جس میں اس سے محبت کی باتیں کرتا اور دو چار باتیں اسلام کی حقانیت اور ہندومذہب کی خلاف عقل باتوں کی کرتا ، چار سال کی مسلسل لگن کے بعد میری بیوی اسلام قبول کرنے کے لیے راضی ہو گئی او رمیں نے قرآن شریف اور اردو اس طرح پڑھ لیا کہ میں اردو اچھی طرح لکھنے لگا، جنوری1999ء میں، میں نے دو روز کا اپنی بیوی کے ساتھ پھلت کا سفر کیا، مولانا صاحب بہت خوش ہوئے او رمجھے بتایا کہ آپ کے ذمہ حج فرض ہے ، اب الحمدلله ہمارے یہاں چار بچے تھے او رایک کی ولادت قریب تھی، وقت ایسا تھا کہ حج کے موقع پر میری بیوی کا سفر مشکل تھا، اس لیے ہم نے اگلے سال حج کا پختہ ارادہ کیا اور الحمدلله2000ء میں پانچوں بچوں کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی ، حج کے اس سفر میں دس روز میرا مدینہ منورہ کا قیام عجیب رہا، اصل میں 1996ء میں، میں نے مولانا صاحب کی کتاب ارمغان دعوت پڑھی، اس کو پڑھ کر میرے دل میں یہ بات بالکل بیٹھ گئی کہ پوری انسانیت تک نبی کے درد کے ساتھ اسلام کی دعوت کو مقصد بنائے بغیر مسلمانی جھوٹی ہے، بس مجھے کچھ کرنے کی سوجھی اور میں نے جالندھر میں چمڑارنگنے والی ایک آبادی کو نشانہ بنایا، میں نے اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو جوڑا ،گھر والوں پر محنت کے ساتھ میں نے ان پس ماندہ لوگوں پر کام شروع کیا، الحمدلله چند سالوں کی کوشش الله نے قبول کی اور اس برادری کے پنجاب میں تقریباً200 لوگوں نے کفروشرک سے توبہ کی، جالندھر میں ایک مسجد او رمدرسہ بنوایا، اس کے علاوہ تین گردواروں کے گرنتھی بھی مسلمان ہوئے ، یہ میری مدینہ حاضری عجیب جذبہ سے ہوئی تھی ، دل چاہتاتھا کہ قدموں سے نہیں، بلکہ پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے شہر میں پلکوں سے چلوں ، روضہ اطہر پر پہنچ کر میں بے خود ہو گیا ، ایک عجیب مد ہوشی کی کیفیت تھی ، میں نے محسو س کیا کہ پیارے نبی صلی الله علیہ سلم نے مجھے سینہ سے چمٹا لیا ہے ، میں نے اپنی شرمندگی اور ندامت کا اظہار کیا کہ پیارے نبی (صلی الله علیہ وسلم) آپ نے تو اس دعوت کے لیے کیسے کیسے قربانیاں دی ہیں ؟ مگر ہم تو بس نام کے مسلمان ہیں۔پیارے نبی ”ارمغان دعوت“ سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ آپ کے سے درد کے بغیر آپ کا کہلانے کا حق نہیں ہے ، کیا میرا یہ خیال صحیح ہے ؟ مجھے ایسا لگا جیسے آپ صلی الله علیہ وسلم نے میرے خیال کی تائید کی ہو اور فرمایا کہ بلاشبہ ہمارے اس کام کے بغیر ہمارا کہلانے کا حق نہیں ہے اور تم سے ہمیں جو پیار ہے وہ اس لیے کہ تم نے سماج کے کمزور سیکڑوں لوگوں کو دوزخ سے بچانے کی کوشش کی ۔

سوال… یہ باتیں آپ سے بیداری میں ہوئیں؟

جواب… مجھے تو پتہ نہیں کہ مجھے نیند تھی یا خیال تھا یا مدہوشی ، مگر اس میں اتنا مزہ تھا کہ آج تک اس کا مزہ محسو س ہوتا ہے ، بلکہ جب بھی مجھے ذرا غفلت ہوتی ہے ، میں اس کا تصور کر لیتا ہوں ، میرا جذبہ بالکل تازہ ہو جاتا ہے، خود دس روز تک مدینہ منورہ کے قیام کے دوران مجھ پر اس واقعہ کا نشہ سا طاری رہا اور الحمدلله دس روز میں اکیس بار خواب میں حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کی اس گندے کو زیارت ہوئی ، الحمدلله میں نے وہیں پر ڈاڑھی رکھ لی اور تقوی کی زندگی گزارنے کا عزم کر لیا ، ملازمت کے دوران اس سلسلہ میں جو بے احتیاطی ہوئی تھی ، ان کی مدینہ منورہ میں ایک فہرست بنائی اور حج سے واپسی کے بعد اہل حق کو حق ادا کرنا شروع کیے ، کافی حد تک میرے الله نے مجھے کام یابی عطا فرمائی۔

سوال… آپ کے بچوں کی تعلیم کا کیا ہوا ؟

جواب… احمد بھائی! میرے تین بیٹے عبدالله، عبدالرحمن اورعبدالرحیم ہیں اور دو بچیاں فاطمہ او رعائشہ ہیں ، اہلیہ کا نام بھی میں نے آمنہ رکھا ، میں نے ایک مولانا صاحب کو صرف اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے گھر پر رکھا ہوا ہے ، اسلام قبول کرنے سے پہلے میں فیملی پلاننگ کاقائل تھا، اس لیے گیارہ سال تک ہمارے ایک بچہ اور بچی چھ سال کے فاصلہ سے پیدا ہوئے تھے ، مگر میں نے اسلام قبول کیا تو مجھے خیال ہوا کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کا معاملہ اچھا نہیں ، جب میں نے اسلام قبول کیا ہے تو اب عقل میں آئے یا نہ آئے مجھے اسلام کو ماننا ہے اور الله تعالیٰ نے مجھے چھ بچے عطا فرمائے ، مجھے خوشی ہوتی ہے ، مدینہ منورہ کے قیام کے دوران اسلام کے سلسلہ میں میری کیفیت بدل گئی، اب مجھے اسلام کا ہر حکم سو فی صد عقل کے مطابق بالکل برحق لگتا ہے ، چنا ں چہ اب میں فیملی پلاننگ کی حمایت کے خلاف کسی بڑے سے بڑے اسکالر سے مناظرہ کر سکتا ہوں، میرے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم حکم دیں کہ زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورتوں سے شادی کرو اور ہم مسلمان ہو کر ان احمق انگریزوں کے چکر میں فیملی پلاننگ کی حماقت کو ترقی سمجھیں، کیسی بے وقوفی ہے؟! مجھے امید ہے کہ اگر میرے الله مجھے بیس بچے دیں گے او رمیں نے ان کی تعلیم وتربیت کا اسلامی حق ادا کیا تو سب سورج چاند بنیں گے ، ان شاء الله، ثم ان شاء الله۔ الحمدلله! میرے بچے اسکول بھی جاتے ہیں اور دینی تعلیم کی حالت سے بھی میں مطمئن ہوں۔

سوال… آپ نے اپنے والدین پر کام نہیں کیا؟

جواب… میرے الله کا مجھ پر کرم ہے کہ میرے والد ریٹائرڈ ہو کر پٹیالہ اپنے گھر چلے گئے ، میں نے حج کے دوران ملتزم پر اور عرفات میں اپنے والد اور والدہ او راپنی چھوٹی بہن کے لیے خوب ہدایت کی دعا کی او رحج سے واپسی پر سیدھا پٹیالہ گیا اور ایسا لگتا تھا کہ والد صاحب خود ہی تیار تھے، وہ اصل میں پاکستان کے ایک صوفی بابا بولے شاہ چشتی کے مرید بابا سانولی شاہ سے بہت متاثر تھے، بابا سانولی شاہ گرد اس پور کے رہنے والے تھے ،125 سال کی عمر ہوئی اور بڑے مجاہدے کیے، توحید کے قائل تھے، بڑے ذکر وغیرہ کرتے تھے ، ان کا پنجاب میں تصوف پر بڑا کلام چھپا بھی ہے شاید وہ کہیں ان سے بیعت بھی ہو گئے تھے ، حج سے واپسی پر انہوں نے مجھ سے زم زم مانگا اورکھڑے ہو کر عقیدت سے پیا، مدینہ کی کھجوریں بہت آنکھوں کو لگا کرکھائیں اوربار بار کہتے رہے کہ مدینہ اور مدینہ والے کی باتیں بتاؤ؟ میں نے جب ان سے اپنے مدینہ کے کچھ واقعات سنائے تو وہ سن کر رونے لگے اور بولے بیٹا تونے بڑی قسمت پائی ہے ، مجھے مدینہ سے ان کی ایسی عقیدت کا اندازہ نہیں تھا، میں نے ان سے مدینہ والے کا پیغام بتا کر اسلام قبول کرنے کو کہا تو انہوں نے بتایا کہ میں تو تیرے آنے کا انتظار کر رہا تھا، مجھے میرے بابا سانولی شاہ کی خواب میں زیارت ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ دین تو سچا اسلام ہی ہے، پھر اس کو مانتے کیوں نہیں؟ اس دن سے میں بے چین ہوں، میں نے ان سے کلمہ پڑھنے کے لیے کہا، الحمدلله انہوں نے کلمہ پڑھا، میں نے ان کا نام محمد عمر رکھا، اس کے بعد میں نے محبت سے اپنی والدہ کی خوشامد کی، تین روز کی کوشش سے وہ بھی مسلمان ہوگئیں، اس کے بعد سارے گھر میں میری بہن بچی تھی ، اس کی شادی کے ایک سال کے بعد وہ بیوہ ہو گئی تھی، ہم سب کے اسلام کے بعد اس کے مسلمان ہونے کی زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑی ، وہ خود بہت بھلی انسان ہے، بلکہ ہم سبھی سے اچھی ہے۔

سوال… ماشاء الله خالد صاحب! آپ کے ساتھ الله کی خاص رحمت ہے ،ورنہ گھر والوں کے سلسلہ میں بڑے مسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے۔

جواب… الحمدلله! میرے لیے میرے الله نے سب کچھ بلا مشقت مقدر کر رکھا ہے ، واقعی میں اس کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔

سوال… بتائیے آپ تو دن رات دعوت کی دھن میں لگے رہتے ہیں ، دعوتی زندگی کے کچھ خاص تجربات ، کچھ خاص مشکلات یانکات سنائیے؟

جواب… احمد بھائی! اصل میں میری زندگی کے اجالے کی شروعات آپ کے والد صاحب کی محبت کی کرنوں سے ہوئی ہے ، میری نگاہ میں کوئی آئیڈیل اور نبی کا سچا متبع مسلمان اگر کوئی ہے، جو میں نے دیکھا ہے تو وہ مولانا کلیم صاحب ہیں، میں کہا بھی کرتا ہوں #
        دیر وحرم میں روشنی شمس وقمر سے ہو تو کیا
        مجھ کو تم پسند ہو اپنی نظر کو کیا کروں

مولانا صاحب کی ایک تقریر میں نے لدھیانہ میں سنی ، انہوں نے کہا کہ اسلام ایک نور ہے او رمسلمان اس نور سے منور ایک یونٹ ( اکائی) ہے، نور او روشنی کی مجبور ی یہ ہے کہ وہ ہو گی تو منو رکرے گی ، یعنی مسلمان ہو گا تو داعی ہو گا اور داعی اس طرح کا کہ اس کی پہچان داعی ہو ۔

میں تو الحمدلله اپنا کام اور اصل مشغلہ دعوت کو سمجھتا ہوں او رمجھ سے کوئی مشغلہ پوچھتا ہے تو میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ میں ہائیڈل میں انجینئر ہوں، بلکہ دعوت بتاتا ہوں اور یہ بتانا بھی میں نے مولانا صاحب سے سیکھا ہے اورالحمدلله مجھے بتانے او رکہنے کا بہت فائدہ ہوا ، پہلے میں نے کہنا شروع کیا تھا، الحمدلله کہتے کہتے میرے شعور میں یہ بات بیٹھ گئی ، میں الحمد لله اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ کم ازکم دعوت پر خرچ کرتا ہوں، میرے بچے میری بیوی برابر کے شریک ہیں ، میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے منصب او رمشغلے کا شعور ہو جائے تو پوری دنیا اسلام کی پیاسی ہے اوردعوت اسلام کے لیے ماحول بالکل سازگار ہے، اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان اس کے لیے تیار نہیں ، مسلمانوں میں دعوتی شعور بیدارکرنا اور ان کو اس سلسلہ میں ذمہ داری کا احساس دلانا بڑا مشکل ہے ، ایک داعی کو سب سے بڑی مشکل مسلمانوں کے ذمہ داری کا نہ سمجھنے او ردعوتی شعور نہ ہونے کی وجہ سے آتی ہے ، اصل میں انسان ایک سماجی حیوان ہے، اسے زندگی کے ہر مرحلہ میں ایک سماج کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا سماج جو اسے اسلام پر باقی رکھنے میں معاون ہو ، میں آپ کو ایک درد ناک واقعہ بتاتا ہوں ، جالندھر میں جو چمڑا رنگنے والے لوگ مسلمان ہوئے ہیں ،ان میں سے ایک ذمہ دار اور حدر درجہ فکر مند ساتھی ہیں، جو پہلوان کے نام سے مشہور ہیں ، ان لوگوں میں کام کرنے میں ہمارے سب سے فعال ساتھی ہیں ،ابتدا سے بہت پکے ، حج بھی کر لیا ہے، اس علاقہ میں چھ مسجدیں واگزار کرانے میں ان کا بنیادی حصہ ہے، مدرسہ کے قیام میں مرکزی کردار ادا ہو رہے ہیں ، اپنے چاروں بچوں کو انہوں نے حافظ بنایا، بڑی بچی ہے اس کو بھی حفظ کرایا ، جب اس کی شادی کا مرحلہ آیا تو کوئی آدمی اس سے شادی کو تیار نہ ہوا، چار سال تک کوشش کرتے رہے ، بہت معمولی درجہ کے لڑکوں سے شادی کی کوشش کی، مگر چمار کہہ کر لوگ ہٹ گئے وہ بہت جذباتی آدمی ہیں ، بہت مجبور ہو کر انہوں نے اپنی حافظہ لڑکی کی شادی اپنی برادری کے غیر مسلم سے کرد ی ، جس کے گھر میں خنزیر پلتے ہیں اور اس کا گوشت پکتا ہے ، اب پہلوان کاحال یہ ہو گیا کہ مسلمان کا نام آتا تھا تو گالیاں بکتا تھا ، میں نے اس کو سمجھایا بھی تھا کہ بغیر شادی کے رہ جانا اس سے بہتر ہے کہ غیر مسلم کے یہاں جائے او رحرام کاری کی مجرم ہو، اصل میں ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ ان کے کارخانے میں ان کا ایک مزدور ملازم مسلمان تھا، جو بالکل ان پڑھ او رموٹی عقل کا تھا، انہوں نے اس سے شادی کی پیش کش کی ، اس نے صاف انکار کر دیا کہ چماروں میں، میں تو ہر گزبھی نہیں کرسکتا، بس اس غصہ میں کہ ہمارا ملازم بھی اس لڑکی سے شادی کو منع کر دے، انہوں نے غیر مسلم سے اس کی شادی ہندوانہ طریقہ پر کر دی ، خود میری لیے یہ بہت تکلیف کی بات تھی، وہ لڑکی ساری ساری رات روتی تھی، کئی بار اس نے زہر بھی کھایا ، مگر زندگی تھی، نہیں مری، الله کا کرنا کہ آپ کے والد صاحب کایہاں کا سفر ہوا، میں نے پورا واقعہ سنایا ، انہوں نے جالندھر جا کر پہلوان سے ملاقات کی او ران کو سمجھایا کہ آخرت اور الله کی رضا کے لیے مسلمان ہوئے ہو تو ان مسلمانوں سے کیا امید لگاتے ہو ، پھر انہوں نے اپنے دو ساتھیوں کو لڑکی کے شوہر پر لگایا، الحمدلله وہ مسلمان ہو کر اپنا گھر چھوڑ کر آگیا، ان کا نکاح کرایا، مولانا صاحب نے ان کو یقین دلایا کہ بچوں کی شادی کرانے کی ذمہ دار ی ہماری ہے ، اب الله کا شکر ہے، مسئلہ حل ہو گیا ، سچی بات یہ ہے احمد بھائی! اس لڑکی کے شوہر کے مسلمان ہونے کی خوشی مجھے اپنے مسلمان ہونے سے زیادہ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تھا اس وقت مجھے دعوتی شعور نہیں تھا اور اس بات کا مجھ پر دن رات غم سوا رتھا، میں راتوں کو اس سلسلہ میں مولانا صاحب کے لیے دعائیں کرتا ہوں ، اس لیے میں کہتا ہوں کہ مسلمانوں میں دعوتی شعور بیدار ہونا بہت ضروری ہے ، اگر مسلمانوں کو ذمہ داری کا احساس ہو جائے تو پھر دعوت کا کام بالکل آسان ہے او رماحول بہت ساز گار ہے ، ادھر تو پیاس ہے، بے چینی ہے ، بس ہم میں ان کوکچھ دینے اور سیراب کرنے کا شعور ہی نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے ؟ اس لیے مولانا صاحب ہر وقت اس غم میں گھلتے رہتے ہیں اور دن رات یہی بات کہتے ہیں کہ بس مسلمانوں، سارے انسانوں، بلکہ کائنات کے سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ مسلمانوں کو دعوتی ذمہ داری کا احساس ہو جائے ، اس سلسلہ میں بڑا کام کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال… بہت بہت شکریہ خالد صاحب! ارمغان کے لیے میں نے بہت سے لوگوں سے باتیں کیں، بہت سے انٹرویو لیے، مگر مجھے بڑا احساس ہو رہا ہے کہ الله تعالیٰ نے دعوت کا کام آپ کو جس طرح سمجھایا ہے ، کسی دوسرے کو نہیں سمجھایا، آپ کے ساتھ رہ کر اس سلسلہ میں استفادہ کرنا چاہیے، الله نے موقع دیاتو آپ کے ساتھ رہوں گا۔

جواب… احمد بھائی! آپ شرمندہ کرتے ہیں، میں تو خود بہت کڑھتا ہوں کہ نبی کا امتی ہونے کا ہم حق ادا نہیں کر رہے ہیں، یہ جو کچھ زبانی باتیں ہیں وہ صرف آپ کے والد صاحب کے درد کا ایک فیض ہے ، یہ بات ضرو رہے کہ مولانا صاحب میرے اور ہمارے ساتھیوں کے واسطہ سے قبول اسلام کرنے والے سینکڑوں لوگوں کے اسلام کو اس بات کے ثبوت میں بیان کرتے ہیں کہ اسلام کے لیے حالات کس قدر ساز گار ہیں، مولانا صاحب کہا کرتے ہیں کہ دعوت کا شور مچانے والا ایک شخص ایک طرح سے بے شعوری میں انسانی ہمدردی میں چلتی گاڑی سے کود پڑنے والے ایک چوہدری کا ہاتھ پکڑ کر سیٹ پر بٹھا لیتا ہے تو یہ چھوٹا سا ہمدردی کا عمل سینکڑوں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن جاتا ہے، اس سے زیادہ دعوت کے لیے ساز گار حالات ہونے کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔

سوال… واقعی بڑی سچی بات ہے، بہت بہت شکریہ! آپ نے بڑے کام کی بات بتائی اور ان سے قارئین کو ان شاء الله بڑا فائدہ ہو گا۔

جواب… شکریہ! آپ کا کہ آپ نے مجھے اس کار خیر میں شریک کیا۔
Flag Counter