نورِخداہے کفرکی حرکت پہ خندہ زن
محترم یرید احمد نعمانی
آہ!یہ منظر بھی آنکھوں نے دیکھا، کانوں نے سنا، حسرت، ندامت اور شرمندگی کا دریا ہے، جس میں قلب مضطرب ڈوبا ڈوبا جاتا ہے۔ایسے میں امت مسلمہ کی بے بسی وبے کسی، لاچارگی کے احساس کو بڑھاوادے جاتی ہے۔ہرمعتدل سوچ مغرب کی جانب سے توہین قرآن کے واقعے پر غلطاں وپیچاں ہے۔ملعون پادری ٹیری جونز کی ناپاک جسارت، یورپ کی وسعت نظری اوررواداری کے دعووں کاکھلا جنازہ ہے۔اقوام عالم میں اپنا شمارمہذب ،شائستہ اورترقی یافتہ تہذیبوں میں کرانے والا امریکا اندرسے کتنا کھوکھلا،تنگ نظراورمتعصب ہے؟اس کی تازہ ترین گواہی فلوریڈامیں واقع چرچ کے مذموم اورناقابل بیان اقدام سے ملتی ہے۔ ثابت ہوگیا کہ دوسروں کو اعتدال کادرس دینے والے خود بے اعتدالی کے خوگرہیں۔ہروقت مسلمانوں کو تنگ فکر ،محدودسوچ اورعدم برداشت کے طعنے دینے والے خود اس روگ میں مبتلاہیں۔کفریہ طاقتیں اپنے ظاہری لب ولہجے کو کتنا ہی میٹھا اورشیریں بنالیں ،مگر کلام مقدس کی یہ خبر اپنا آپ منواکر ہی رہتی ہے کہ ”یہ یہود ونصاری دل سے چاہتے ہیں کہ تم تکلیف اٹھاؤ،بغض ان کے منہ سے ظاہرہوچکاہے اورجو عدوات ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔“(آل عمران، 118)
شیطان نما انسان ٹیری جونز اوراس قبیل کے دوسرے افرادیا گروہ کے خبث باطن کے پس منظر میں کیا ذہنیت کارفرماہے؟اس کا جواب بہت آسان اورواضح ہے۔بلاشبہ فرقان عظیم روز اول سے اسلام دشمنوں کے لیے ناقابل برداشت رہاہے۔کیوں کہ یہی وہ سچی ،ابدی اورسرمدی کتاب ہے جو ان کے سابقہ کرتوتوں اورمجرمانہ رویوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ماضی میں ضالین ومضلین نے احکام ِخداوندی کو کس طرح پامال کیا ؟خواہشات نفس کی غلامی نے انہیں ضلالت کی کن اتاہ گہرائیوں میں دھکیلا؟حق سبحانہ وتعالی کے رسولوں اورنبیوں علیھم السلام کی کھلم کھلابغاوت اوران کی اتباع سے اعراض کی روش نے انہیں دنیا وعقبیٰ کی کن رسوائیوں اورناکامیوں سے دوچارکیا؟یہ اوران جیسے دیگر مبنی برحقیقت سوالات کے جواب میں ،کلام الٰہی بنی نوع انسان کی کامل راہ نمائی اورمکمل رہبری کرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کو طاغوت کی پیروی کے ہول ناک نتائج سے آگاہی دیتاہے۔بدی کی قوتوں کا نیکی کے چشمہ صافی کے خلاف یہ عنادتب سے قائم ہے ،جب غار حرامیں اس پاکیزہ ،قابل تکریم اورکائنات کی سب سے سچی آسمانی کتاب کی پہلی وحی نازل ہوئی۔
حق وباطل کے مابین یہ معرکہ آرائی پہلے دن سے جاری ہے۔فرق اتنا ہے پہلے معرکے رزم گاہوں میں ہواکرتے تھے۔اب ان کامیدان ہردھڑکنے والا دل ،دیکھنے والی آنکھ اورسوچنے والا دماغ ہے۔اس فکری جنگ میں صہیونی طاقتوں کا نشانہ ہر وہ صاحب ایمان ہے جو اسلام ،قرآن اورصادق مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نسبت کو باعث نجات اورمایہٴ آخرت جانتاہے۔مغربی چرچوں میں پیش آمدہ افسوس ناک واقعات دراصل اہل اسلام کی ایمانیات کو جانچنے کا وہ آلہ ہیں، جس کے سیماب میں کمی یا زیادتی، اعدائے اسلام کو اپنے دجالی منصوبوں کے لیے پھیلائی جانی والی سازشوں کے بارے میں کام یابی یا ناکامی کاپتادیتی ہے۔
اب جو شخص اسلام کا دعوے دارہے۔وہ اپنے کردار،عمل اورقول کو پرکھے اوردیکھے کہ اس کی زندگی کس قدر قرآن مبین سے قریب ہے؟اس نے حیات مستعارکے گنے چنے لمحوں کوکہاں تک قرآنی سانچے میں ڈھال رکھا ہے؟اس کے دل میں ہدایت کی پیاس نے اسے کتنا بے چین کر رکھا ہے؟وہ اپنی تشنگی کی سیرابی کے لیے کہاں تک کتاب لاریب سے رجوع کرتاہے؟اس کا اپنا ربط وجوڑ اہل قرآن یعنی حضرات علمائے کرام سے کس حد تک استوارہے؟کہیں شیطان کے پھیلائے گئے پھندے میں پھنس کر ”مولویت“سے چڑتونہیں گیا؟کیا یہ امر کسی المیے سے کم نہیں کہ ایک طرف کلام مبارک کو نذرآتش کیا گیا اوراگلے دن پوری قوم کرکٹ میں فتح یابی کا جشن پورے تزک واحتشام کے ساتھ منارہی تھی۔خوشی اورغمی کے پیمانوں میں اس قدرواضح تفاوت اورفرق اہل ایمان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
بے شک کتاب مقدس کی بے آبروئی اوراہانت کی جس قدرپرز ور مذمت کی جائے کم ہے۔اظہارمذمت کے لیے جتنے جائز ذرائع ووسائل اختیارکیے جاسکتے ہوں وہ اپنی جگہ درست اوربرمحل ہیں۔مگرہم اور آپ اس واقعے پر زبانی کلامی ردعمل تک محدودہوکرنہ رہ جائیں۔بلکہ اپنی زندگیوں میں صالح انقلاب پیداکریں۔ایسی راست تبدیلی، جس سے ہمارا رشتہ کلام اللہ سے مزید مستحکم اورپائے دارہو۔دشمنان ِقرآن کومنہ توڑ جواب اسی وقت دیا جاسکتاہے جب ہمارے انفرادی واجتماعی مزاجوں میں قرآنی تعلیمات کا نورجھلکتانظرآئے گا۔جب ہم قرآنی زبان میں سیسہ پلائی عمارت کی طرح متحدومتفق ہوں گے۔جب ہمارے دل ونظرتلاوت اورتدبرقرآن سے آبادوشاداب ہوں گے۔ اگرہم اپنے معصوم بچوں کا تعلق ابھی سے کلام پاک سے مضبوط کردیں توکل یہی نوخیز نسل اسلام وقرآن اورصاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کی پشتی بان ہوگی۔
یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ امریکا،اسرائیل اوران کی ہم نواریاستیں اپنے اپنے ملکوں میں قرآن اورقرآنی احکام کی ہتک اوربے حرمتی کے واقعات کو بھرپور شہہ دے رہی ہیں، مگراس کے باوجوداسلا م مغرب کا دوسرابڑامذہب بن چکاہے۔وہ پرد ہ اورحجاب، جس کے متعلق مغربی مفکرین قید اورگھٹن کا پروپیگنڈاکرتے نہیں تھکتے تھے،آج وہاں مردوں کی ہوس ناکی کا نشانہ بننے والی صنف نازک کے لیے قلبی وروحانی سکون کا ذریعہ بنتاجارہاہے۔جو بھی یورپی باشندہ خالی الذہن ہوکر قرآن حکیم کا مطالعہ کرتاہے،اس کی تعلیمات وہدایات کو اپنے دل ودماغ کے قریب پاتا ہے۔اُسے اسلام مخالف نعرے مکڑی کا جال معلوم ہوتے ہیں۔اسلام کی واضح تصویر نظرآنے پر وہ خود کو قبول ِاسلام پر مجبورپاتاہے۔یہ سب آخرکیا ہے؟یہ اسلام کی وہ آفاقی صداقت اوراعجاز ہے، جس کے متعلق رب ذوالجلا ل فرماتے ہیں:”دشمنانِ اسلام چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کے نورکو بجھادیں، حالاں کہ اللہ اپنے نورکی تکمیل کرکے رہے گا،چاہے کافروں کو یہ بات کتنی بری لگے۔“(سورة الصف،08)
عین ممکن ہے صہیونی گماشتوں کی یہ ناپاک جسارتیں مغربی دنیا میں قرآن کی شمع فروزاں ہونے ،اسلام کی روزافزوں ترقی اورنشاة ثانیہ کا سبب بن جائیں۔ان ظالموں اورشیطانوں کی تدبیریں ان ہی پر الٹ جائیں۔آزرکے گھر سے ابراہیم کے پیداہونے کا منظردنیا ایک بارپھر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔وماذلک علی اللّہ بعزیز.