ہادیٴ عالم ا کا کردار اور صرف اسلام میں معاشرتی عروج
محمد صدیق، تخصص فی الحدیث
تاریک رات، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا، باشندے چین کی نیند سو رہے تھے، سطح زمین پہ رینگنے والی مخلوقات تھک ہار کر دامنِ سکون میں آرام پذیر ہو چکی تھیں… اچانک ایک سمت سے غیر متوقع او رخطرناک آوازیں کانوں سے ٹکرانے لگیں، جس سے طبیعتوں پر خطرہ کے آثار رونما ہونا شروع ہو گئے، ایسا محسوس ہو رہاتھا کہ آج رات موقع پاکر کوئی موذی دشمن بے خبری کی حالت میں حملہ آور ہونے کی غرض سے پیش قدمی کر رہا ہے۔
اہل قریہ کے امن وامان میں دراڑیں پڑگئیں او رہر طرف بے سکونی سی چھاگئی ، لوگ خوف کے مارے، گھبرائے ہوئے، خوابِ غفلت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے ارد گرد کی خیرخبر لینے کے بعد یکے بعد دیگرے مشکوک سمت کی طرف نکل پڑے، ابھی اسی سمت قدم بقدم بڑھ ہی رہے تھے کہ یک دم سامنے سے آتا ہوا ایک شہ سوار دکھائی دینے لگا، جوتلوار گلے میں لٹکائے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا، وقت گزرنے پر وہ نامعلوم شہ سوار جیسے، جیسے قریب ہوتا چلا گیا، اس کے بارے میں تفتیش کے جذبات مسلسل بڑھتے چلے گئے کہ رات کی اس تاریکی میں کون ہو سکتا ہے ، جو اتنی دلیری کے ساتھ، خطرناک صورت حال میں، بے فکری کا دامن تھامے اکیلا چل رہا ہے۔
وقت جوں جوں گزرتا گیا، دونوں طرف سے مسافت میں اتنی ہی کمی واقع ہوتی گئی، آخر کار جب دونوں طرف سے آمنا سامنا ہوا تو شناخت پر معلوم ہوا کہ یہ تیز رفتار شہسوار، سالار کارواں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم ہیں، جو رات کی تاریکی میں خطرہ محسوس ہونے پر اپنے ماتحت رعایہ پر فریضہٴ پاسبانی سرانجام دیتے ہوئے مذکورہ سمت کی طرف نکلے تھے اور وہاں کی خبرلے کر واپس آرہے ہیں۔
ملاقات پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بتایا میں آگے تک ہو کرآیا ہوں، کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے، آپ لوگ بے فکر ہو کر گھروں کو واپس چلیں۔( صحیح مسلم،252/2، ط: قدیمی کتب خانہ کراچی)
اس واقعہ کے راوی حضرت انس رضی الله عنہ ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت ابو طلحہ انصاری رضی الله عنہ کے مستعار( عاریت پر لیے ہوئے) گھوڑے کی ننگی پشت پر سوار تھے، جو سست روی میں بہت مشہور تھا، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس پر سوار ہونے کی برکت سے اس کی سابقہ کیفیت بدل چکی تھی، اسی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” میں نے تو اس کو تیز رفتار پایا ہے۔“
حضرت انس رضی الله عنہ سے یہ روایت دوسرے طریق سے بھی مروی ہے ، جس میں ”وھوعلی فرس لأبي طلحة“ (آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ابو طلحہ کے گھوڑے پر سوار تھے) کی بجائے”وھو علی فرس لنا“ (آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ہمارے گھوڑے پر سوار تھے) کے الفاظ مذکور ہیں۔
یہ پیاری داستان اس باکمال شخصیت کی ہے ، جو قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی کے لیے کامیابی اورترقی کی خواہاں قوم کے لیے بہترین نمونہ ہیں، جس نے امت مرحومہ کو اگر ایک طرف صوم وصلاة اور بندگیٴ حق کا درس دیا ہے تو دوسری طرف اخوت وبھائی چارگی اور حسن معاشرت اختیار کرنے اور اسلام دشمن قوتوں سے مڈبھیڑ کے وقت سینہ سپر ہو جانے کی صرف تعلیم ہی نہیں، بلکہ راہ چل کے بھی دکھائی ہے۔
جس کی وجہ سے معاشرہ میں حاکم ومحکوم او رادنی واعلیٰ کے درمیان عدل وانصاف او رمحبت وپیار کی ایسی فضا قائم ہوئی کہ اہل فرماں اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ روا داری کے ہر ضابطہ کے پابند او ران پر اس قدر مشفق اور مہرباں تھے کہ ان کو اولاد جیسا عزیز رکھتے تھے اور رعایا کے دلوں میں ان کی ایسی عظمت تھی کہ ان کے ہر ہر امر پر مطمئن او ران سے اس قدر مخلص تھے کہ اشاروں پر جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔
اس پورے قصے کا حاصل عروج کی خواہش مند قوم اور خاص طور پر ہر منزل وچورا ہے پہ ملکی ترقی او ربحالی امن کے گیت گانے والے اہلِ منصب کی آرزو سے متعلق ایک راہ نما اصول ہے کہ ملکی ترقی وسا لمیت، معاشرتی نظام حیات میں امن وسکون اور ملکی نظام کار میں رعایا سے خراج عقیدت وصول کرنے کے لیے ان سے ہمدردی، دلی لگاؤ اور انتظامی سطح پہ ان سے حسنِ معاشرت اور امانت داری والا معاملہ نہایت اہم ہے۔
جس کو پوری طرح تعبیر کا رنگ صرف اور صرف مذہبِ اسلام ہی دے سکتا ہے ، کیوں کہ اس وقت دنیا کے اندر رائج مذاہب میں سے صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے ، جو معاشرے کے ادنی فرد سے لے کر اعلیٰ تک، ہر کسی کو اس کا پورا پورا حق مہیا کرتا ہے ، اجتماعی زندگی کے ہر ہر موڑ پر آپس میں خیر خواہی او رایک دوسرے کے ساتھ منصفانہ معاملہ کی تلقین کرتا ہے او رتعزیرات وتنبیہات کے سلسلہ میں حدود شرع سے تجاوز کرنے والے اورممانعات کے مرتکب کو، چاہے وہ اہل ثروت میں سے ہو یا نادار گھرانے کا فرد ہو،تا دیبی سزا کے لیے ایک ہی صف میں کھڑا کرتا ہے۔
اس کے برخلاف دوسرے مذاہب میں سے بعض کا تو مدار ہی انسانی عقول کی تراش اوراسی معاشرے ہی کے چندافراد کے متعین کردہ اصولوں پر ہے، احکام الہٰی کے مقابلہ میں انسان کی نسبت ہی جن کے نقص کی واضح دلیل او رناکافی الزام ہے، اس لیے کہ وہ ذات جس کو اپنے احوال میں سے مستقبل کے ایک لمحہ تک کی خبر نہ ہو وہ پوری قوم کی زندگیاں سنوارنے کے لیے اپنی طرف سے پختہ اصول کس طرح وضع کر سکتی ہے۔
بعض مذاہب کا مدار اگرچہ وحی سماوی پر ہے ، لیکن ان میں حددرجہ تحریف اور رد وبدل واقع ہونے کے ساتھ ساتھ تقدیر الہٰی میں طے شدہ فیصلے کے مطابق آپ صلی الله علیہ وسلم کی آمد سے وہ سب مذاہب منسوخ اور ناقابل عمل واشاعت ہو چکے ہیں ، جن پر عمل پیرا ہونے کی گنجائش تو کہاں؟ ان کی طرف ادنی سا میلان بھی ناقابل برداشت اور باعث عتاب ہے؟
اسلام پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف یہ کہ ہمارے ملکی مسائل اور انتظامی پیچیدگیوں کا حل سامنے آئے گا، بلکہ معاشرتی سطح پر خوش حالی، عائلی زندگیوں میں چین اور ملکی اقتصادیات ومعاشیات میں مسلسل ترقی جیسی اساسات بھی نشو ونما پائیں گی اور وہ معاشرہ جو دن بدن بدامنی اور پستی کی گرداب ذِلت میں پھنستا چلا جارہا ہے، آئے دن لوگوں کو نئے سے نئے مسائل کا سامنا ہے ۔ اسلام ان سب فسادات کو ختم کرکے معاشرے میں پرامن فضا قائم کرے گا او رمسلم قوم کو پستی سے بام عروج پہ لاکھڑا کرے گا۔
یقینا اسلام ہمہ جہتی ترقی کا ایک منفرد راستہ ہے، جس میں افراد سازی او ران کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی حسن تدبیر بھی ہے اور ملکی وملی معاملات سلجھانے کی مسا عدت بھی ہے، جس سے تحریک پاکستان کے عظیم قائد مولانا شبیر احمد عثمانی، مفکر پاکستان علامہ اقبال اور قیام وطن کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ہزاروں مسلمانوں کے اس خواب کو شرمندہٴ تعبیر بنایا جاسکتا ہے ، جو تحریک پاکستان کے وقت مسلمانانِ ہند کے تفکرات میں گھوم رہا تھا ” کہ پاک وہند کے اس خطے کو علیٰحدہ ملک بنانے کی غرض ایک ایسی آزاد اور پرسکون ریاست کا قیام ہے جس میں مسلم قوم آزادی کے ساتھ اسلام کے مطابق زندگی بسر کرسکے۔“
لیکن افسوس! ان سب قربانیوں کے باوجود آج تک مسلم قوم اس عظیم مقصد کے حصول سے محروم ہے ، جس کے اسباب کی فہرست اگرچہ بہت طویل ہے، مگر ان سب کا مستقر اجتماعی طور پہ اسلام سے غفلت او راس طرزِ حیات سے بے رخی ہے، جو فلاح ابدی کی شاہراہ ہے۔
یہ کمزوری صرف پاکستان یا کسی متعین خطہ کے لوگوں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ علی العموم ہر جگہ مسلمانوں کی پستی کا ذریعہ بن چکی ہے۔ اگر ایک جانب اہلِ منصب نے اصول شریعت سے سبک دوش ہو کر امور سلطنت میں غیر اسلامی قوانین کو رواج دیا ہے تو دوسری طرف عوام نے بھی کسی قدر کمی نہیں چھوڑی، افراد نے اپنی ذمے داریوں سے ہاتھ جھاڑ لیے ہیں، نجی زندگیاں خرافات اور بے اعتدالیوں میں بری طرح دھنس چکی ہیں، مسلم معاشرے کی اکثریت کا سہولت پسندی، دین سے غفلت او رمن چاہی زندگی بسر کرنے کا مزاج بن چکا ہے، شترِ بے مہار کی طرح جو جی میں آیا کر گزرنے سے بالکل دریغ نہیں کیا جاتا اور ہر شخص بذاتِ خود الگ سے اپنی راہِ منزل متعین کرنے کی کوشش میں ہے۔
رہے سہے دین دار طبقہ کے چند افراد وہ بھی فرائض وواجبات اور صرف لوازم دین، پر اکتفا کے عادی بن چکے ہیں ، دین کے معاملہ میں توسع کی آڑ میں آکر سستی او رکاہلی برتی جارہی ہے ، الله تعالیٰ نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان میں سے بعض کو ادنی سمجھ کر ان سے رو گردانی اور جن چیزوں سے روکا ہے ان میں سے بعض کا ارتکاب مسلم معاشرہ میں کوئی عیب کی بات نہیں سمجھی جاتی ، حالاں کہ ترقی کی منازل تو مکمل دین کو تھامنے اور نوافل وزوائد کو بجالانے سے طے پاتی ہیں۔
یہ سب حقائق عقل وخرد کی دنیا میں قدم رکھنے والے کسی بھی شخص سے ماورا او رمخفی نہیں ہیں ، مگر ہمارا معاشرہ بے حسی کی ان حدود کو چھوچکا ہے کہ ان سب باتوں کے واضح اور کھلی کتاب ہونے کے باوجود ان کی طرف کسی کی توجہ تک نہیں جاتی۔
اس کڑی صورتِ حال میں باطل پورے اہتمام کے ساتھ اپنے اثرات بد پھیلانے او رمسلمانوں کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی مسلسل سعی میں لگا ہوا ہے۔اہلِ اسلام کو صراطِ مستقیم سے ہٹانے کے لیے نئے سے نئے ڈھنگ اختیار کیے جارہے ہیں، مسلم معاشرہ میں کفروشرک او رالحاد وارتداد کی علی الإعلان دعوت کے بجائے مسلمانوں کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے دو رکرنے او ران کی افکار پر براہ راست کفریہ سائے قائم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور مسلم قوم کی علمی اساسات میں گھس کر اسلام کو کمزور دکھانے کے لیے اس میں طرح طرح کے اشکالات پیدا کیے جارہے ہیں۔
جس کے بہاؤ میں آ کر امت کا کثیر طبقہ اسلامی ثقافت اور اقدار سے کہیں دور متحیر اور تذبذب کا شکار ہے اور اس طبقہ کے بعض سرکردہ تو اس سے اتنا مرعوب ہو چکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے لیے ان کفریہ طاقتوں سے ملی بھگت او رگٹھ جوڑہی کو راہ نجات سمجھنے لگے ہیں۔
مگر یہ سب باطل کی تلبیسات اور دھوکہ بازی کی کہانیاں ہیں، جن کا انجام بہرصورتخیبت اور خسران پر ختم ہے۔ الله تعالیٰ نے دین اسلام کو مذہب حق قرار دیا ہے اور عزت وشرف بھی اسی کے اندر محصور رکھا ہے۔
اساطینِ امت میں سے اگر آج بھی کوئی باہمت گروہ اس بات کی چاہت رکھتا ہے کہ ہمارے اندر جلد ترقی کی فضا پیدا ہو جائے ، قومی وملی زندگیوں میں موجود فساد اور بد اعتمادیوں کی جڑ کٹ جائے ، ملک میں امن وامان ، ایک دوسرے کی خیر خواہی اور آ پس میں انس ومحبت کی فضاپیدا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے معاملات او رکردار میں اس داستان کو نمونہ کار بنائے او ر اپنی صبح وشام کی داغ بیل ہادی عالم صلی الله علیہ وسلم کی متعین کردہ ان راہوں پہ ڈال دے جن کی منزل دونوں جہانوں کی کام یابی اور باہمی محبت کی ضمانت ہے۔