***
یورپ… اذان دینے اور میناروں کی تعمیر پر پابندی
محترم نصرت مرزا
پاکستان میں اس وقت تشویش کی لہر دوڑ گئی جب یورپ کے کھیل کا میدان اور سرمایہ محفوظ کرنے کی سر زمین، غیر جانب دار اور سیکولر ملک سویزر لینڈ کے عوام نے ایک ریفرنڈم کے ذریعہ میناروں کی تعمیر پر پابندی لگا دی ہے ۔ اس سے پہلے سویز ر لینڈ کے صدر ہینس روڈولف مرز نے اذان دینے پر پابندی عائد کر دی تھی ۔ اس طر ح وہ یورپ میں اسلام کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ہمارے خیال میں یہ اطالوی صحافی آنجہانی آریانہ فلاچی کی اُس پکار کا رد عمل ہے جو انہوں نے بستر مرگ پر دی تھی ۔ آریانہ فلاچی ایک نامور صحافی رہی ہیں۔ انہوں نے 60ء سے 80ء کی دہائی میں دنیا بھر کے اہم رہنماؤں کا انٹرویو کیا تھا، جن میں پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور انڈیا کی مسز اندرا گاندھی، چین کے چواین لائی ، فرانس کے صدر اور دیگر ممالک کے رہنما شامل تھے ۔ راقم خود اُن کی بہادری اور ان کے بر ملا بولنے کا مداح رہا ہے، مگر بعد میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ برپا کر دی تھی ، خاتون نے مسلمانوں کے خلاف تین کتابیں لکھی ہیں ، مئی 2006ء میں انہوں نے بستر مرگ پر ایک ایسا انٹرویو دیا جو شاید یورپی ممالک کے اذہان پر چپک کر رہ گیا اور اس کا رد عمل اب سامنے آرہا ہے ۔ لوگ اسلام کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں اور اذان دینے پر یہ کہہ کر پابندی لگا رہے ہیں کہ وہ عبادت کے خلاف نہیں، مگر اذان کے دیے جانے سے اتفاق نہیں کرتے۔ اسی طرح وہ میناروں کے ایستادہ کرنے پر پابندی لگا رہے ہیں، کیوں کہ مشرق وسطی کے مسلمان امراء یہاں بڑی بڑی عمارتیں اور یہاں تک کہ غیر استعمال شدہ چرچ خرید کر وہاں مسجد یں تعمیر کر رہے ہیں، جس نے وہاں کے لوگوں کو قدرے فکر مند کر دیا ہے ۔ چناں چہ سویزرلینڈ میں حال ہی ہونے والے ایک ریفرنڈم نے میناروں کی تعمیر پر پابندی کے حق میں ووٹ ڈالے خود سویزز لینڈ میں 40 لاکھ مسلمان رہتے ہیں ، مگر عیسائی اکثریت نے ریفرنڈم میں میناروں کی تعمیر پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا، جس کا اب قانون بنے گا، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ موجودہ مینار بھی شہید کر دیے جائیں گے یا آئندہ تعمیر نہیں ہونے دیے جائیں گے۔
آریانہ فلاچی نے بستر مرگ پر دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ یورپ نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو یورپ میں متشدد اسلام پھیل جائے گا۔ چند دن جاتے ہیں کہ یورپ اسلام کی کالونی بن جائے گا اور سعودی کی جگہ یوروبیا کہلائے گا۔ جس کی وجہ سے یورپ میں جلد ہی گھنٹی کی آوازوں اور چرچوں کے بجائے مسجد کے میناروں کی قطاریں لگ جائیں گی او رمنی اسکرٹ کی جگہ برقعہ لے لے لگا۔ فلاچی کا کہنا ہے کہ اسلام یورپ کے خلاف ہمیشہ منصوبہ بندی کرتا رہا ہے اور یہ منصوبہ بندی اس وقت سے کر رہا ہے جب ساتویں صدی میں قسطنطنیہ کا یورپ نے محاصرہ کیا تھا یا چودہویں اورپندرھویں صدی میں سلطنت عثمانیہ ظہور پذیر ہو ئی او راس کا محاصرہ کیا گیا اس وقت سے مسلم ممالک کی یورپ پر یلغار جاری ہے ۔ اس وقت وہ یلغار مسلح تھی۔ اس دفعہ یہ یلغار پناہ گزینوں کی شکل میں ہے، جو اپنے بچوں اوراپنی کشتیوں کے ذریعے یورپ پر حملہ آور ہو رہے ہے ۔ اس عورت کی مسلمانوں سے نفرت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ الله کے بندوں (مسلمانوں) کو حملہ، فتح کرنا اور لوگوں کو غلام بنانے میں مہارت حاصل ہے ۔ مسلم پناہ گزینوں کا یورپی معاشرے میں ضم ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور یورپی رہنماؤں کے دماغوں پر ہمہ جہتی تہذیب کا تصور سمائے ہوئے ہے، جو غلط ہے ۔ یہ یورپی لوگ مسلمان عورت کا اسکارف کے ساتھ فوٹو اتار کر مطمئن ہو جاتے ہیں، جب کہ مسلمان مرد کئی کئی شادیاں کرکے ہمارے ملکوں کے قانون توڑنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ اس بیمار صحافی کا ذہن بھی بیمار تھا ،وہ مرنے سے پہلے کہتی رہیں کہ ہم اپنے یورپ اپنے چرچ کے بارے میں جو چاہے کہہ دیتے ہیں او رحضرت مریم کی دوشیزگی کے بارے میں بھی سوال جواب کر لیتے ہیں، لیکن اگر مسلمانوں کے اسلام، اُن کے قرآن یا اُن کے پیغمبر حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں ایک لفظ بھی کہہ دیا جائے تو یہ غضب ناک ہو جاتے ہیں اور ہم پر توہین رسالت کا الزام لگاتے ہیں اور ساتھ ساتھ نسلی امتیاز کا مقدمہ قائم کردیتے ہیں۔ واضح رہے کہ فلاچی کے خلاف ایک نو مسلم اطالوی نے نسلی امتیاز کا مقدمہ قائم کر رکھا ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی ہیں، بلکہ جان بوجھ کر اپنی مرضی کے نتائج اخذ کرنے میں مشاق ہیں اور مسلمانوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور ان کے مذہب اور ان کی ذات پر حملہ کرتی ہیں ۔ جیسے اس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ مسلمانوں کے ہاں چوہوں کی طرح پیدائش ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے یورپ میں بھی او رامریکا میں بھی وہ تنقید کا نشانہ بنتی رہی تھیں۔ اس پر وہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف ان کے جملے بعض اوقات وحشیانہ ہوتے ہیں، لیکن وہ صحیح بھی ہوتے ہیں ۔ اسپین کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ فرماتی ہیں کہ اسپین میں مسلمانوں کی نسل آج بھی موجود ہے او ران کے اندر قرآنی اسلام کسی نہ کسی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس طرز عمل کی وجہ سے فلاچی پر اسلام کو بد نام کرنے کا مقدمہ قائم کیا جاچکا تھا۔جس کی وجہ سے وہ اور تلخ ہو گئی تھیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ آج آپ یورپ کو دیکھیں! وہاں مسلمان عورتیں اپنی چادروں، برقعہ اور جبہ کے ساتھ پھرتی دیکھی جاسکتی ہیں ۔ مرد اپنی بیگمات اور اپنے بچوں کے ساتھ بد سلوکی کرتے نظر آتے ہیں اور وہ ہمارے تہذیب وتمدن کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور ہم پر اپنی تہذیب وتمدن مسلط کر رہے ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اس کو اپنی عیسائیت، اپنی تہذیب وثقافت، اپنی روایات کے تحفظ کی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اسے رد کرتی ہیں۔ اُن کے نزدیک اسلام نیا نازی ازم اور فاشزم کی شکل ہے اور مغرب نے اس پر توجہ نہ دی تو یہ مغرب کی خود کشی ہو گی۔ ہمارے خیال میں فلاچی بہت آگے بڑھ گئیں تھیں۔ وہ خواہ مخواہ مسلمانوں کے خلاف یورپ والوں کو اکساتی رہی تھیں اور چند مسلمانوں کی غلطیوں کی سزا سارے مسلمانوں کو دینا چاہتی ہیں، جو ان کی جذباتیت، مذہبی جنونیت اور تشدد پسندی کا اظہار تو ہو سکتا ہے، مگر ان کا سچ ، انصاف ، انسانیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتا۔ مسلمان اس دنیا کو تباہ کرنا نہیں چاہتے، وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں ۔ وہ مذہبی رواداری کو جانتی ہی نہیں ،اگر کوئی اٹلی میں نماز پڑھ لے تو انہیں غصہ آجاتا ہے ۔ مذہبی آزادی کو تو اقوام متحدہ کے چارٹر تک میں تحفظ دیا گیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ مسلمان یورپ کو مغلوب کرنا چاہتے ہیں۔ مغرب میں بے چارے غریب مسلمان اپنی روزی کمانے کے لیے جاتے ہیں، وہاں کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں اور ان کے اندر رچ بس جانے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا کہ اسلام فاشزم اور نازی ازم کی ایک نئی شکل ہے ، بالکل غلط ہے۔ مسلمانوں نے کس ملک پر حملہ کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ملکوں پرحملہ کیا جارہا ہے او رانہیں غلام بنایا جارہا ہے ۔ وہ تو معتدل اسلام کو بھی نہیں مانتیں کہ اس دُنیا میں کوئی اچھا یا بُرا اسلام نہیں ہے، صرف اسلام موجود ہے اور اسلام قرآن ہے اور قرآن جو کہتا ہے وہی کہتا ہے ۔ وہ اس حدتک تو ٹھیک کہہ رہی ہیں کہ اسلام تو ایک ہی ہے، لیکن اُس سے جو نتائج اخذ کرہی ہیں وہ غلط ہیں ، اس پران کا رویہ عکاسی کرتا ہے۔
ہمارے نزدیک اسلام پر یلغار شدید ہے۔ نہ صرف یہ کہ صلیبی جنگ افغانستان، عراق اور دوسری جگہوں پر لڑی جارہی ہے بلکہ یہ جنگ یورپ کے ملکوں میں بھی شروع ہو چکی ہے ۔ مسلمان چاہے وہ انڈیا کا ہویا پاکستان کا یا عربستان کا ،وہ مغرب کا تختہ مشق ہے اور وہ اس یلغار کو پھیلاتے چلے جارہے ہیں۔ ہر مذہب کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر رہے ہیں ۔ ان کو مختلف طریقوں سے اشتعال دلاتے ہیں ۔ ہر مذہب کو محمد صلی الله علیہ وسلم کی توہین کرنے کے لیے یورپ کے کئی ممالک کے باشندوں پر مشتمل ایک گروپ منصوبہ تیار کرتا ہے ۔ او رمسلمانوں کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف وہ کوئی نہ کوئی منصوبہ بناتا رہتا ہے او راس کے پھیلاؤ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے منصوبے بناتا رہتا ہے جو سویزر لینڈ تک محدود نہیں رہے گا… بڑھتا ہی چلایا جائے گا ،اگر اس کا تدارک نہیں کیا گیا۔ اس یلغار کو روکنے کے لیے یورپ کے معاشی مفادات سے رجوع کرنا پڑے گا۔ سویزرلینڈ میں عربوں کا خوب سارا سرمایہ محفوظ کیا جاتا ہے، اب معلوم نہیں ان حالات میں اور ایسی متعصب حکومت کی موجودگی میں ان کا سرمایہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ پھر ساری مسلم دنیا میں یہ لوگ تجارت کرتے ہیں، وہاں ان پر قدغن لگ سکتی ہے اگر مسلمان ہوش میں آگئے۔