Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی صفر المظفر 1431ھ

ہ رسالہ

6 - 19
***
سانچہٴ سیرت… اعلیٰ شخصیت
متعلم ابن جابر، جامعہ فاروقیہ کراچی
دنیا کا یہ طلسمی کارخانہ رنگا رنگ عجائبات سے معمور ہے۔ قسم قسم کی مخلوقات ہیں ، ہر مخلوق کی علیٰحدہ علیٰحدہ صفتیں ہیں، جمادات سے لے کر انسان تک اگر نظر ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ بتدریج اور آہستہ آہستہ ان میں احساس، ادراک اور ارادہ کی ترقی ہوتی جاتی ہے۔
دوسری حیثیت سے دیکھیے کہ جس مخلوق میں احساس ، ادراک اور ارادہ کی جتنی کمی ہے اتنی ہی فطرت اور قدرت الہٰی اس کی پرورش اورنشو ونما کے فرائض کا بار خود اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہے اور جیسے جیسے مخلوقات آنکھیں کھولتی جاتی ہیں ۔ فطرت اس بار کو اس کے احساس وادراک وارادہ کے مطابق ہر صفت مخلوق پر ڈالتی جاتی ہے ۔ کوئی بھی شخص خواہ کسی مذہب او رکسی فلسفہ کا معتقد ہی کیوں نہ ہو اس کو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ انسانی ذمہ داریوں کا اصلی سبب انسان کے احساس ، ادراک اور ارادے کی قوتیں ہیں ۔ اسلام میں ان ذمہ داریوں کا شرعی نام ” تکلیف“ ہے ۔ یہ تکلیف خود انسان کے اندرونی اور بیرونی قُوی کے مطابق انسان پر عائد ہے او راسی تکلیف کو کرہٴ اراض کے انسانوں میں سے کوئی انسان خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتا ہے تو اس کی اصلی شخصیت لوگوں کے سامنے واضح ہو جاتی ہے ۔
چناں چہ آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا کے تمام آسمانی صحیفے، تمام کتابیں ، تمام اخلاقی قصے او رانسان کے بننے اور بگڑنے کی تمام حکایتیں، ظلم وجہل اورایمان وعمل صالح کی دو رنگیوں سے معمور ہیں۔ ایک طرف ظلم ، جہل ، شر، تاریکی ، دوسری طرف عدل ، عمل صالح، خیر اور نور کی حکایتیں و داستانیں اور تاریخیں ہیں اور جن افراد نے انسانی ذمہ داریوں کو قبول کیا ، ان کی تعریف کی اورجنہوں نے ان سے انکار کیا ان کی برائی کے بیانات ہیں ۔ یونانی الیڈ، رومی پیرلل لاؤز، ایرانی شاہنامہ، ہندی مہابھارت اور مائن اورگیتا کیا ہیں ؟ ہر قوم کے سامنے اس کے بڑ ے بڑے اشخاص اور اکابر کی زندگیوں سے علم وجہل ، ظلم وعدل ،خیر وشر اور ایمان وکفر کی معرکہ آرائیوں کی عبرت آموز مثالیں ہیں ۔ تاکہ ہر قوم ظلم وشر اور کفر کے برے نتیجوں سے بچ کر عدل وخیر او رایمان کی مثالوں سے فائدہ اٹھائے۔
غرض دنیا کے اسٹیج پر ہزاروں قسم کی زندگیوں کے نمونے ہیں ، جو ”بنی آدم“ کی عملی زندگی کے سامنے ہیں ۔ لیکن بتاؤ کہ ان مختلف اوصاف انسانی میں سے کسی کی زندگی نوع انسانی کی سعادت ، فلاح او رہدایت کی ضامن اور کفیل اور اس کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔
ان لوگوں میں بڑے بڑے فاتح اور سپہ سالار ہیں جنہوں نے اپنی تلوار کی نوک سے دنیا کے طبقے کے طبقے الٹ دیے ہیں ۔ لیکن انسانیت کی فلاح وہدایت کے لیے انہوں نے کوئی نمونہ چھوڑا؟ کیا ان کی تلوار کی کاٹ میدان جنگ سے آگے بڑھ کر انسانی اوہام وخیالات فاسدہ کی بیڑیوں کو بھی کاٹ سکی؟ انسانوں کے باہمی برادرانہ تعلقات کی گتھی بھیسلجھا سکی؟ انسانی معاشرت کا کوئی خاکہ پیش کر سکی ؟ ہماری روحانی مایوسیوں اور ناامیدیوں کا کوئی علاج بتا سکی؟ ہمارے دلوں کی ناپاکی اور زنگ کو مٹا سکی؟ ہمارے اخلاق اور اعمال کا کوئی نقشہ بنا سکی؟
دنیا میں بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے ۔ لیکن خیالی دنیا کے یہ شہنشاہ عملی دنیا میں بالکل بے کارثابت ہوئے ۔ اسی لیے افلاطون کے مشہور نظام حکومت میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی ۔ہو مر سے لے کر آج تک فوری جوش وہنگامہ کی پیدائش او رخیالی لذت والم کی افزائش کے سو انسل انسانی کو اس کی زندگی کی مشکلات دور کرنے کے لیے یہ لوگ کوئی صحیح مشورہ نہ دے سکے ۔ کیوں کہ ان کی شیریں زبانیوں کے پیچھے ان کے حسن عمل کا کوئی خوش نما نمونہ نہ تھا۔
حکماء اور فلاسفہ، جنہوں نے بارہا اپنی عقل رسا سے نظام عالم کے نقشے بدل دیے ہیں جنہوں نے عجائبات عالم کی طلسم کشائی کے حیرت انگیزنظریے پیش کیے ہیں ۔ وہ بھی انسانیت کے نظام ہدایت کا کوئی عملی نقشہ پیش نہ کر سکے، اس کے علاوہ بڑ ے بڑے بادشاہ او رحکمران بھی رونما ہوئے ہیں جنہوں نے کبھی کبھی چاردانگ عالم پر حکومت کی ہے ۔ قوموں کی جان ومال پر قابض ہوئے ہیں، ایک قوم کو گھٹایا اور دوسری کو بڑھایا ہے ۔ ایک سے چھینا اور دوسری کو دیا ہے ۔ مگر ان کا عام نقشہ وہی رہا جس کو قرآن پاک نے ایک آیت میں ادا کیا ہے ۔﴿ان الملوک اذا دخلوا قریة افسد وھا وجعلوآ اعزة اھلھا اذلہً﴾․
”بے شک بادشاہ جب کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو بگاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے معزز باشندوں کو ذلیل کر دیتے ہیں۔“ (سباع3)
ان کی تلواروں کی دھاک نے آبادیوں او رمجمعوں کے مجرموں کو روپوش کر دیا ۔ لیکن تنہائیوں اور خلوت خانوں کے روپوش مجرموں کو وہ باز نہ رکھ سکے۔ انھوں نے بازاروں اور راستوں میں امن وامان قائم کیا ۔ لیکن دلوں کی بستی میں وہ امن وامان قائم نہ کرسکے ۔ انہوں نے ملک کا نظم ونسق درست کیا لیکن روحوں کی مملکت کا نظم ونسق ان سے درست نہ ہوسکا۔ بلکہ ہر قسم کی روحانی بربادی انہی کے درباروں سے نکل کر ہر جگہ پھیلتی رہی ۔ کیا سکندر اور سیزر جیسے بڑ ے بڑے بادشاہ بھی ہمارے لیے کچھ چھوڑ گئے؟
بڑے بڑے مقنن سولن سے لے کر اس وقت تک پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے قانون کی عمر نے بقا کی دولت نہ پائی او راس کے ماننے والوں کو دل کی صفائی کا راز نہ ملا۔ دوسرے دور کے حاکموں اور عدالتوں نے خوداس کو حرف غلط سمجھ کر مٹا دیا او راپنی مرضی او راپنی مصلحتوں کے مطابق، نہ کہ انسانوں کی اصلاح کی خاطر، اس کی جگہ دوسرا قانون بنا لیا اور آج بھی یہی حالت قائم ہے۔ آج اس مہذب دور حکومت میں بھی یہی صورت قائم ہے کہ آئین ساز مجلسیں بنائی گئی ہیں، جو اپنے ہر اجلاس میں آج کے کیے کو کل مٹاتی ہیں اور یہ سب کچھ انسانوں کی خاطر نہیں، بلکہ حکومتوں کی خاطر ہوتا رہتا ہے۔
بہرحال افراد انسانی میں سے کسی بھی فرد کی اعلیٰ شخصیت کی ضمانت تب ممکن ہے جب اس کے بیک گراؤنڈ میں کسی الوالعزم شخصیت کی سیرت طیبہ کار فرما ہو۔ کسی بھی شخصی زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں ممکن ہے کہ ہر سانچہ زندگی میں کوئی نہ کوئی عبرت وبصیرت ہو، لیکن اخلاقی او رروحانی زندگی کی تکمیل وتزکیہ کے لیے صرف انبیائے کرام او ران کے نقش قدم پر چلنے والی ہستیوں کی تاریخیں اور سیرتیں ہی کار آمد او رمفید ہو سکتی ہیں۔
بہتر سے بہتر فلسفہ، عمدہ سے عمدہ تعلیم ، اچھی سی اچھی ہدایت زندگی نہیں پاسکتی اور کامیاب نہیں ہوسکتی، اگر اس کے پیچھے کوئی ایسی شخصیت اس کی حامل او رعامل ہو کر قائمنہ ہو جو ہماری توجہ، محبت اور عظمت کامرکز ہو۔ مشہور شاعر ڈاکٹر ٹیگور سے امریکا کے سفر سے واپسی پر ایک شخص نے سوال کیا کہ برہمو سماج کی ناکامی کا سبب کیا ہے ؟ حالاں کہ اس کے اصول بہت منصفانہ تھے۔ اس کی تعلیم یہ تھی کہ سارے مذہب سچے اور کل مذہبوں کے بانی اچھے اور نیک لوگ تھے۔ اس میں عقل او رمنطق کے خلاف کوئی چیز نہ تھی ، وہ موجودہ تمدن، موجودہ فلسفہ اور موجودہ حالات کو دیکھ کر بنایا گیا تھا۔ تاہم اس نے کامیابی حاصل نہ کی ۔ تو فلسفی شاعر نے جواب میں کتنا اچھا نکتہ بیان کیا کہ ”یہ اس لیے ناکام وناکامیاب ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی شخصی زندگی اور عملی سیرت نہ تھی جو ہماری توجہ کا مرکزبنتی اور ہماری نیکو کاری کا نمونہ بنتی۔“ ڈاکٹر صاحب کے اس نکتہ کے بیان کرنے سے یہ ثابت ہے کہ مذہب اپنے نبی کی سیرت اورعملی زندگی کے بغیر ناکام ہے۔
غرض ہمیں چاہئیں کہ ہم اپنی ہدایت اور رہنمائی کے لیے معصوم انسانوں، بے گناہ ہستیوں اور ہر حیثیت سے باکمال بزرگوں کی سیرت کا انتخاب کریں، تاکہ معاشرے کے ہر ہر فرد کو روزِ الست کا بھولا ہواوعدہ یاد آجائے اور پھر سے معاشرے قرون اوّل کا سماں پیش کریں۔ صلوات الله علیہم اجمعین․

Flag Counter