Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی صفر المظفر 1431ھ

ہ رسالہ

5 - 19
***
احساس کی ضرورت
محترم عبدالله خالد قاسمی
میڈیا اور غیر اسلامی ذرائع ابلاغ کی روز افزوں ترقی نے آج مسلم معاشرے کے سامنے ان گنت مسائل کھڑے کردیے ہیں، انسانی معاشرتی نظام میں نت نئی تبدیلیاں اتنی تیزی سے آرہی ہیں کہ عقل و حواس محو حیرت ہیں۔ غیر اسلامی طاقتیں اپنی تسخیر کے لیے میڈیا اور ذرائع ابلاغ کو نہایت خفیہ انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہیں اور معاشرے کی ساری صالح قدروں پر نقب زنی میں مصروف عمل ہیں، خاص طور سے مسلم معاشرے میں ان کو خوب خوب رواج دیا جارہا ہے اور ایک طرح سے ذہنوں سے اسلامی قدروں کو پامال کرنے اور دینی شعائر کو فرسودہ تصور کرانے کی مہم چلا رکھی ہے ،اسلامی ناموں کے ساتھ پروگرام نشر کیے جاتے ہیں، ویب سائٹس بنائی جارہی ہیں” الجہاد“،” الشہادة“، ”الاسلام“اور ”القدس“ جیسے خوب صورت ناموں کے ذریعہ دام ہم رنگ زمین پھیلائے جارہے ہیں اور مسلمانوں کی نئی نسل کو گرفتار مکرو فریب کرکے ان کے ایمان اور ان کی روحانی وراثت کو سلب کیا جارہا ہے، اس سلسلہ میں عیسائی اور یہودی مشینریاں تو سب سے آگے ہیں ،گویا خوش رنگ اور دیدہ زیب حلوہ زہر ملا کر پیش کرتے ہیں اور معاشرہ اس سے لذت کام و دہن حاصل کرتا ہے، لیکن اس کے مہلک اثرات سے بے خبر ہوکر، اس کے نتیجہ اور انجام سے لاپروا ہوکر،یہودی مفکرین اور دانش وروں نے گلوبلائزیشن اور پوری دنیا پر حکمرانی کا جو منصوبہ بنایا اور اس کے لیے جو لائحہ عمل تیار کیا اس میں میڈیا کو زبردست اہمیت دی گئی، چنانچہ 1897ء میں سوئزرلینڈ کے شہر ”بال“ میں تین سو یہودی مفکرین کی جو نشست ہرٹزل کی قیادت میں منعقد ہوئی اور اس میں جو قراردادیں منظور کی گئیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ:
”اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے سونے کے ذخائر پر قبضہ کو مرکزی اور نبیادی اہمیت دیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ بھی ہمارے مقاصد کے حصول کے لیے دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں۔ ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہوکر اس کی باگ کو اپنے قبضہ میں رکھیں گے۔ ہم ایسے اخبار ورسائل کی حمایت کریں گے جو انتشار و بے راہ روی ، جنسی و اخلاقی انار کی کو فروغ دیں اور اس کے ذریعہ ہم جب اور جہاں چاہیں گے قوموں کے جذبات کو مشتعل کریں گے اور جب چاہیں گے اسے پرسکون کریں گے، اس کے لیے جھوٹی اور صحیح ہر طرح کی خبروں کا سہارا لیں گے اور انہیں اس انداز میں پیش کریں گے کہ قومیں انھیں قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔“ (ملخص از مغربی میڈیا ص:94,93)۔
اس وقت پوری دنیا میں جو اتھل پتھل اور انقلاب و تغیر رونما ہورہا ہے اس یہودی منصوبہ کے تناظر میں اس کا مطالعہ کرنے سے یہ خوب واضح ہوتا ہے کہ ڈور کہیں اور سے ہلائی جارہی ہے، پس پردہ کیا کچھ ہورہا ہے خوب پتہ چلتا ہے ،گذشتہ چند سالوں کا تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عالم اسلام، جس سے یہودی دنیا سب سے زیادہ خائف ہے، ہمیشہ ایک نئے فتنہ سے دو چار رہا ہے۔ اسلامی مدارس میں غیر اسلامی نصاب کی دخل اندازی، تقریباً ایک سال تک پورا عالم اسلام بڑی کرب و بے چینی میں مبتلا رہا کہ کیا اب مسلمان اپنے مدارس ومکاتب میں اپنا دین اور صحیح اسلامی تعلیمات تک نہیں سیکھ سکتے؟ لیکن یورپ اوریہودیوں کی چلائی ہوئی اس تحریک کے کچھ مسلم ممالک حامی ہوگئے اور یہ مسئلہ بظاہر سرد پڑگیا۔ اس کے بعد جعلی قرآن ”الفرقان“ کی اشاعت کا مسئلہ کھڑا کردیا گیا اور شوروش نامی ایک یہودی نے قرآن کا متبادل (بزعم خود) دنیا کے سامنے پیش کردیا ، مسلمانوں کا ذہنی انتشار اور بڑھ گیا اور رات دن کا سکون غارت ہوگیا ،اس موضوع پر مضامین و مقالات شائع کیے جانے لگے،ہوتے ہوتے یہ مسئلہ ٹھنڈا ہوا، پھر پردہ نقاب اور اسکارف کو غیر مہذب طریقہ اور کم علمی کا شعار بتاکر مسلمانوں کو مشتعل کیا گیا۔ علمائے اسلام پردہ کی اہمیت اور ضرورت پر وعظ تقریر اور تحریر کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر میدان عمل میں آئے، پھر ہندوستان میں طلاق ثلاثہ اور تعدد ازواج کا مسئلہ چھیڑ دیا گیا،مسلمان اس کے پیچھے سالوں لگے رہے، پھر حرمت مصاہرت پر گرماگرم بحثیں شروع ہوئیں۔ ٹی وی کے جواز اور عدم جواز پر بحث کا دروازہ کھولا گیا اور چوں کہ یہ سب یہودی مشینریوں کی تخریب کار ذہنیت کی پیدا وار تھے، اس لیے انھیں مسلمانوں ہی میں سے کچھ کرائے کے مولوی اور ملا مل گئے اور یہ سب بحثیں خوب گرم رہیں۔پھر گذشتہ سال توہین رسالت کا مذموم عمل سامنے آیا اور اس کی خوب خوب تشہیر کی گئی اور پورے عالم اسلام کو مشتعل کیا گیا۔
ان سب واقعات کا اگر واقعی جائزہ لیا جائے تو صرف اور صرف یہی بات سامنے آئے گی کہ اس طرح کے اشتعال انگیز مسائل بشکل مصائب امت مسلمہ کے درمیان اٹھا کر دشمنان اسلام، اسلام کی شبیہہ کو داغ دارکرنا چاہتے ہیں اور حامیان اسلام کے دلوں سے اسلامی تہذیب ،اسلامی فکر کے ساتھ مسلمانوں کو غور و فکر اور تدبر کا موقع ہی نہیں دینا چاہتے، بلکہ اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ بقول انہیں کے ان کے پاس میڈیا کا سرکش گھوڑا ہے، اس کی باگ انہیں کے ہاتھ میں ہے، وہ جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں اس کو موڑ دیتے ہیں۔
ہوش مندی اور عقل و خرد کی بات تو یہ ہے کہ دشمن کی چال کو سمجھاجائے، اس کے پینتروں سے واقف ہوا جائے، اشتعال میں آنے کے بجائے سنجیدگی سے اس پر غور کیا جائے کہ یہ مسئلہ ہمارے درمیان اٹھاکر ہمارا دشمن ہم سے کیا چاہتا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ عقل مند آدمی ہمیشہ دشمن کی منشا کے خلاف ہی کرتا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ہم اشتعال میں آکراپنے دینی شعائر اور اسلامی احکام کو پس پشت ڈال دیں تو ہمیں چاہیے کہ دین اور اسلامی احکامات کی بجا آوری میں اور پختگی دکھائیں، دشمن غیر اسلامی نظریات اور دین و ایمان سوز تہذیب و تمدن کو خوش حال معاشرتی نظام باور کراتے ہیں،ہمیں چاہیے کہ ہم اسلامی معاشرتی نظام میں اور تصلب اختیار کریں، وہ تہذیب و تمدن جو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و تاریخ سے ہمارے درمیان موجود ہے، اس پر سختی سے جم جائیں۔ متاع دنیا کی حرص و ہوس کے ساتھ ظاہرسی بات ہے یہ چیزیں حاصل نہیں ہوسکتیں ،اس لیے دشمنان اسلام مال ومتاع کے جو خوش نما مناظر ہمیں دکھاکر اپنا شکار بناتے ہیں، ان سے بچنا ہوگا، آسائش دنیا کوترک کرنا ہوگا اور یہ دشمنان اسلام تو کبھی ہم سے خوش ہو ہی نہیں سکتے، ہاں! اگر ان کے افکار و نظریات کی پیروی کی جائے ،ان کا اتباع کیا جائے تو یہ خوش ہوں گے۔ قرآن میں رب العالمین نے فرمایا :﴿ولن ترضی عنک الیہود ولا النصاری حتی تتبع ملتہم﴾․
خدا را! اپنے حال کو درست کریں، دشمنان اسلام کی چالوں کو محسوس کریں ،ورنہ #
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

Flag Counter