Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی صفر المظفر 1431ھ

ہ رسالہ

4 - 19
***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
نیندرہ (نیوتہ) کی شرعی حیثیت اور اس قسم کی تقاریب میں عوام وخواص کے لیے شرکت کا حکم
سوال… نیندرہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ہمارے ہاں شادیوں میں نیندرہ کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے ، اب ایسے رشتہ داروں کے ہاں نکاح کی تقاریب اور کھانے میں شرکت کرنا کیسا ہے ؟ جب کہ بارہا مسئلہ سمجھانے کے باوجود وہ لوگ اس عمل کو ترک کرنے پر راضی نہیں۔
اگر علاقے کے علماء اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ آج کے بعد صرف ان کے نکاح پڑھا دیا کریں گے ، باقی کھانے میں شرکت نہیں کریں گے ، تو کیا ایسا کرنا درست ہے ؟جب کہ اس صورت میں اس بات کا بہت قوی اندیشہ ہے کہ وہ لوگ اہل باطل کے پاس جاکر ان سے اپنے مقاصد حل کرائیں گے جس سے علاقہ کی دینی فضا کے بھی خراب ہونے کا قوی اندیشہ ہے، یا اگر شرکت تو کریں لیکن کھانا کھا کر پیسے نہ دیں تو اس کو بھی انتہائی بُرا سمجھا جاتا ہے۔
جواب… مروّجہ نیندرہ ( نیوتہ) کی شرعی حیثیت قرض کی ہے ، ناکہ صلہ رحمی، کیوں کہ صلہ رحمی میں بدل وعوض کی قید نہیں ہوتی ، لیکن مروّجہ نیندرہ میں یہ قید صراحتاًیاتعاملاً ضرور موجود ہوتی ہے ، لہٰذا وہ احکام جو الله تعالیٰ نے عقدِ قرض پر مرتب کیے ہیں ، نیندرہ پر بھی مرتب ہوں گے جو کہ درج ذیل ہیں:۔
(الف) قرض بلاضرورت نہ لیا جائے ، جب کہ مروّجہ نیندرہ میں نیندرہ کی رقم دینے والے کے اپنے اختیار سے دی جاتی ہے ، جس کا لینا گویا ضروری سمجھا جاتا ہے اور نہ لینے کو برادری بُرا سمجھتی ہے۔
(ب) قرض کی واپسی سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے : ”وإن کان ذو عسرة فنظرة إلیٰ میسرة“․ (البقرة:28)
ترجمہ:اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے مہلت دے دینی چاہیے جب تک کہ وہ دے سکے“ جب کہ مروّجہ نیندرہ میں ادائیگی کا ایک خاص وقت مقرر ہوتا ہے یعنی دینے والے کے ہاں جب اس جیسی شادی بیاہ کی کوئی تقریب ہو گی ، تو ادائیگی ضروری ہو گی ، خواہ اس وقت کسی کے پاس دینے کو کچھ ہو یا نہ ہو ، حتی کہ بعض اوقات سودی قرض لے کر دینا پڑتا ہے جو کہ گناہ ہے۔
(ج) مقروض جس وقت چاہے ، قرض کی ادائیگی کر سکتا ہے حتی کہ اگر کوئی مدت بھی مقرر ہو اور وہ فی الفور ادائیگی کرنا چاہیے تو کر سکتا ہے ، مگر مروّجہ نیندرہ میں اگر کوئی بلا تقریب کے واپس کرنا چاہیے تو نہیں کر سکتا۔
مروّجہ نیندرہ کے مفاسد
(الف) نیندرہ لینے والا خوامخواہ بلا ضرورت کئی لوگوں کا مقروض بن جاتا ہے او رحدیث میں آیا ہے کہ ” مقروض جنت میں نہ جائے گا تاوقییکہ اہل حقِ کا حق ادا نہ ہو جائے۔“
(ب) نیندرہ چوں کہ قرض ہے اس لیے اس میں میراث بھی جاری ہونی چاہیے مگر اس کا کوئی اہتمام نہیں کرتا ، اس لیے یہ رسم در حقیقت دیگر احکام خداوندی کے ساتھ ساتھ میراث کے احکام کو بھی بدلنا ہے جس سے متعلق حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد پاک ہے :﴿تلک حدود الله، ومن یطع الله ورسولہ یدخلہ جنت تجری من تحتھا الانھار خلدین فیھا وذلک الفوز العظیم، ومن یعص الله ورسولہ ویتعد حدودہ یدخلہ نارا خالدا فیھا ولہ عذاب مھین﴾․
ترجمہ :یہ احکام میراث الله تعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں ، جو کوئی الله اور اس کے رسول کی مانے گا، الله اس کو جنت میں داخل کریں گے اور جو نہ مانے گا ، اس کو دوزخ میں ڈالیں گے۔“
ان آیات سے مقصود سابقہ آیات میں بیان کردہ احکام میراث میں تشدید پیدا کرنا ہے، جب کہ مروّجہ نیندرہ میں ایسا بھی ہوتا ہیکہ اگر نیندرہ دینے والا نیندرہ چھوڑ کر مر جاتا ہے تو وہ نیندرہ بڑے بیٹے کی شادی میں ادا کیا جاتا ہے او راسی کی شادی میں صرف کیا جاتا ہے ، حالاں کہ یہ تو سب وارثوں کا حق ہے جو کہ ایک کے خرچ میں لایا جارہا ہے ، لہٰذا اس میں دوسرے وارثوں کی حق تلفی ہے ، پھر اگر ان وارثوں میں کچھ نابالغ بچے بھی ہوں، تو ان کی بھی حق تلفی ہوئی جن کی نسبت ارشاد باری تعالی ٰ ہے : ﴿إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما إنما یاکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیراً﴾․ ( النساء:10)
ترجمہ جو لوگ یتیموں کا مال بلاکسی حق کے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور عنقریب دوزخ میں جائیں گے ۔“
کیا کوئی مسلمان ان وعیدوں اور مروّجہ نیندرہ کے مفاسد اور ذکر کردہ نتائج کو سمجھنے کے بعد اس رسم بد کو جاری رکھنے کی جرات کرسکتا ہے؟ نیز یہ شبہ نہ ہو کہ اگر یہ بند کر دیا جائے تو دوری پیدا ہو گی اور تعلقات خراب ہو جائیں گے ، اس لیے کہ رسمی لین دین کے آثار ونتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محبت نہیں بڑھاتا، بلکہ کم کرتا ہے او رجو لوگ دیتے ہیں اکثر دباؤ اور شرما حضوری کی وجہ سے دیتے ہیں۔
مروجہ نیندرہ کے درج بالا مفاسد او رنتائج کی بنا پر اسے سرے سے ترک کر دینا چاہیے ، تاہم اس رسم کا اہتما م کرنے والے رشتہ داروں اور عزیزوں کے ہاں نکاح کی تقاریب اور ان کے کھانوں میں شرکت کرنے میں مضائقہ نہیں۔
علمائے کرام پر لازم ہے کہ وہ کسی صورت نہ ان کے نکاح پڑھانا ترک کریں اور نہ ان کی دعوتوں میں شرکت کرنا، بلکہ ساتھ ساتھ اس سلسلے میں امر بالمعروف اور نھی عن المنکر بھی کرتے رہیں، البتہ اس رسم سے بچتے ہوئے لین دین کامناسب اورصحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی عزیز کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنا ہو تو اس رسم کی صورت میں نہ دے ، بلکہ صلہ رحمی ، اخوت ومحبت اور رضائے الہٰی کے جذبے سے اسے لازم سمجھے بغیر یہ معاملہ کرے یا دوسری صورت یہ ہے کہ تقریبات کے موقع پر نہ دے وقت ٹال کر دے جب کہ توقع بھی نہ ہو، کیوں کہ بلاتوقع اگر چندروپے بھی ملتے ہیں تو بہت خوشی ہوتی ہے اور محبت بڑھتی ہے۔
سالگرہ کی دعوت میں شرکت کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں حضرا ت علماء کرام او رمفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آ ج کل سالگرہ منانا ایک سماجی تقریب کی شکل اختیار کر گیا ہے ، خاص طور پر پیارے بچوں کی تقریبات میں اگر بالکل قریبی عزیز واقارب شریک نہ ہو ں تو بچوں کے والدین بہت بُرا مناتے ہیں۔
براہ کرم قرآن اور احادیث کے حوالات سے مندرجہ بالا مسئلہ پر تفصیلی جواب عنایت فرمایا جائے آیا کہ ایسی تقریبات میں شرکت جائز ہے یا ناجائز؟ شکریہ
جواب… اعزہ واقارب کی دعوت قبول کرنا سنت ہے او رصلہ رحمی کا تقاضا بھی یہی ہے ، لیکن سالگرہ کی دعوت میں شرکت مندرجہ ذیل مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے درست نہیں :
خیر القرون میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ کفار کے ساتھ مشابہت ۔ اسراف وفضول خرچ۔ دکھاوا اور نام ونمود۔ فخروتکبر اور اپنی بڑائی جتلانا۔ تصویریں کھینچوانا او رمووی بنوانا۔ نامحرم مردوزن کا اختلاط ۔ تحفہ وتحائف جو کہ تبرع واحسان ہے ، اس کو لازمی سمجھا جاتا ہے ، یا کم از کم نہ دینے کو بُرا سمجھا جاتا ہے ۔ عموماً ایسے مواقع میں کئی کئی وقت کی نمازیں ضائع کر دی جاتی ہیں۔ تعاون علی المعصیة (گناہ کے کام میں تعاون) ہے۔
بارات کا شرعی حکم
سوال… بارات کا شرعی حکم کیا ہے بالکل ناجائز یا جواز کی بھی کوئی صورت ہے ؟ اور لڑکی والوں کا کھانا کھلانا کیسا ہے ؟ جائز یا ناجائز؟
جواب… انعقاد نکاح کے لیے بارات نہ تو سنت ہے اور نہ ہی واجب یا فرض ، بلکہ ایک امر مباح ہے بشرطیکہ ان مفاسد سے خالی ہو جو ذیل میں ذکر کیے جائیں گے، دولہا والوں کو چاہیے کہ چند افراد کو لے کر دلہن کے ہاں جائیں او رنکاح پڑھوا کر لے آئیں ، اسی طرح لڑکی والوں کے ذمے شرعا باراتیوں کو کھانا کھلانا فرض یا واجب نہیں ہے، البتہ اگرمہمانی کے طو رپر کھانا کھلائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
الغرض! موجودہ دور میں یہ امر ایک لعنت کے طور پر معاشرے کی گردن پر مسلط ہو چکا ہے، اگر جانبین متفق ہو کر ذیل کی خرابیوں سے بچتے ہوئے سادگی سے عمل نکاح کو سرانجام دے لیا کریں تو معاشرے کے غریب طبقہ کی جوان بیٹیاں بھی رخصت ہو سکیں گی جو محض اس خرافات بھرے عمل پر قادر نہ ہونے کے سبب گھر بیٹھی رہتی ہیں۔
دلہن والوں کی طرف سے باراتیوں کی مخصوص تعداد لانے کا مطالبہ ہوتا ہے اور عام طور پر دولہا والوں کی طرف سے بارات میں بلائے گئے افراد کی تعداد کئی گنازیادہ ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے میزبان بہت زیادہ پریشان ہو کر مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے او رمجبور ہو کر بعض اوقات قرض وغیرہ لے کر بندوبست کرتا ہے او راگر بندوبست نہ کرسکے تو ہمیشہ کے لیے لڑکے والوں کی نظر میں مطعون بن جاتا ہے۔
دوسری طرف اس طرح جانے والے افراد اس حدیث مبارکہ ”کہ جو شخص دعوت میں بن بلائے جائے وہ گیا تو چور بن کر اور نکلا لٹیرا بن کر “ کا مصداق بن جاتا ہے ( یعنی وہ ایسا گناہ لے کر لوٹتا ہے جو چوری اور لوٹ مار کرنے والے کو ہوتا ہے)
بارات میں نامحرم مرد او رعورتوں کا اختلاط ہوتا ہے جو ناجائز ہے۔ناچ گانے او رمختلف طرح کی موسیقی کا انتظام کیا جاتا ہے جو ناجائز ہے۔ تصویر اور وڈیو فلم بنائی جاتی ہے ، جو حرام ہے فخر ، ریا اور دکھلاوے کی خاطر جانبین ایک دوسرے کے مقابلے میں انتظامات کرتے ہیں حتی کہ بعض اوقات قرض بلکہ سودی قرض تک لینے کی نبوت آتی ہے، یہ بھی شرعاً ناجائز ہے۔ اس دوران کئی کئی وقت کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ جہیز کا سامان مجمع عام میں دکھایا جاتا ہے جس سے مقصود محض دکھلاوا نمائش اور اپنی مال داری کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس موقع پر دولہا والوں سے مختلف عنوانات اوررسوم کی ادائیگی کے نام پر دلہن والے رقم وصول کرتے ہیں او ر لینے دینے میں التزام اور زبردستی تک کی جاتی ہے اس طرح لینااور دینا جائز نہیں ہے۔ اس موقع پر دولہا والوں کے ساتھ کھانے وغیرہ کی رسموں میں ایسے مواقع پیدا کیے جاتے ہیں کہ ان افعال کو سر انجام دیتے وقت دولہا ان کو صحیح طریقے پر نہ کرنے کے باعث ہنسی ومذاق اور ملامت کا نشانہ بن جاتا ہے۔ الغرض یہ رسم ریا، دکھلاوا ، تکبر، اسراف ، کافروں کی مشابہت، بے پردگی ، گناہ میں تعاون ، نمازوں کی قضا، میزبان کی آبرو ریزی، انعام واحسان میں زبردستی ، ناچ گانا، تصویر وفلم سازی ، مباح امور کو دین کا لازمی حصہ سمجھنا اور دیگر کئی گناہوں کا مجموعہ ہے، لہٰذا اس رسم بد کو ترک کرنا از حد ضروری ہے۔
اس رسم کو ترک کرنے کے لیے اور سنت زندگی کو رواج دینیکے لیے اگر طلبہ ، علماء اور صاحب ثروت طبقہ ہمت کر لے اور شادی کو سادی بنا کر معاشرے کے سامنے مثال قائم کردے تو معاشرہ اس لعنت سے پاک ہو سکتا ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے بہشتی زیور اور اسلامی شادی ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی  کا مطالعہ فرمائیں۔
ماہ صفر کو منحوس سمجھنا
سوال… صفر کو منحوس سمجھنا اورا س میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات سے پرہیز کرنا یا اس مہینے میں کچھ پکاکر اس نیت سے تقسیم کرنا کہ اس کی نحوست سے حفاظت ہوجائے، درست ہے یا نہیں؟
جواب… اسلام جس طرح بت پرستی کا مخالف ہے، اسی طرح توہم پرستی کا بھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو جس طرح باطل خیالات اور غلط نظریات و عقائد سے منع فرمایا،اسی طرح توہم پرستی سے بھی لوگوں کو منع فرمایا۔
موجودہ دور میں ماہ صفر کے متعلق کچھ غلط نظریات و خیالات پائے جاتے ہیں، اسی طرح کے خیالات زمانہ جاہلیت میں بھی لوگوں کے اذہان میں موجود تھے جن کو حضرات محدثین نے بیان فرمایا ہے، چناں چہ صاحب مظاہر حق لکھتے ہیں:
”صفر سے متعلق متعدد اقوال بیان کیے گئے ہیں، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے تیرہ تیزی کا مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے اور جس کو صفر کہتے ہیں، کمزور عقیدے والے لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مہینے میں آفات و بلا اور حوادث و مصائب کا نزول ہوتا ہے، ارشاد نبوی کے ذریعے اس کو باطل بے اصل قرار دیاگیا ہے۔
صفر سے متعلق زمانہ جاہلیت میں ایک خیال یہ بھی تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے جس کو صفر کہا جاتا ہے اور بقول ان کے جب پیٹ خالی ہو اور بھوک لگی ہو تو و ہ سانپ کاٹتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بھوک کے وقت پیٹ میں جو بے چینی پیدا ہوتی ہے وہ اسی سانپ کے سبب ہوتی ہے۔
علامہ نووی نے مسلم شریف کی شرح میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا گمان تھا کہ صفر ان کیڑوں کا نام ہے جو پیٹ میں ہوتے ہیں اور بھوک کے وقت کاٹتے ہیں، ان کے سبب سے آدمی کا رنگ فق ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ ختم ہو جاتا ہے، یہ سب بے اصل توہمات ہیں جن کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں۔“(مظاہر حق، ج:4،201)
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سب توہمات کی تردید فرمائی، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”لاطیرة ولاھامة ولاصفر“۔ یعنی بدشگونی اور پرندوں سے فال لینا اور صفر کے بارے میں غلط خیالات یہ سب باتیں بے بنیاد ہیں۔(بخاری شریف)
دوسری روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لاصفر ولاغول“ ۔ یعنی صفر اور غول بیابانی سب فاسد خیالات ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں۔(مسلم شریف)
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ماہ صفر کو منحوس سمجھنایا اس میں شادی وغیرہ نہ کرنا سب فاسد خیالات ہیں ان کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں اور اسلام اس قسم کی فضول باتوں سے برأت کا اظہار کرتا ہے، لہٰذا جو لوگ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں ان کو توبہ کرنی چاہیے، الله تعالیٰ ہمیں ان توہمات وخرافات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Flag Counter