***
والدہ صاحبہ مرحومہ (آخری قسط)
مولانا سید محمد شاہد
عالم اسلام کی مایہٴ ناز علمی ودینی درسگاہ جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور کے امین عام ( جنرل سکریٹری)حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب مدظلہ کی والدہٴ ماجدہ،حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ کی صاحبزادی محترمہ سیدہ شاہدہ صاحبہ کا مورخہ6جمادی الاولی 1430ھ مطابق2مئی2009ء ایک طویل علالت کے بعد دہلی میں انتقال ہوگیا ، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔تبلیغی جماعت کے امیر اور مرحومہ کے داماد حضرت مولانا زبیر الحسن صاحب مدظلہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور دہلی ہی میں قبرستان پنج ئیران میں تدفین عمل میں آئی۔
ذیل کا مضمون مرحومہ محترمہ کے سب سے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب مدظلہ کے قلم سے لکھا ہوا ایک تاثراتی اور تاریخی مضمون ہے،عملی بیداری کے بہت سارے سامان بھی اس مضمون میں ملتے ہیں۔
شیخین جلیلین سے قلبی ربط وا رتباط
والدہ مرحومہ اور ان کی چاروں بہنوں کا بچپن، ابتدائی نشوونما اور شادی وبیاہ یہ سب اس دور سے وابستہ ہے جب کہ دیوبند میں حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی اور رائے پور میں امام وقت حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب کے فیوض وبرکات اور رشد وہدایت کا ایک دریا موجزن تھا، ان دونوں مقدس وبابرکت ہستیوں کی مسلسل آمدورفت چوں کہ حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ کے دولت کدہ پر ہوتی رہتی تھی ا س لیے ان سب بہنوں کو حضرت کے توسط اور واسطہ سے دعائیں لینے اور خدمت کرنے کے مواقع کثرت سے حاصل ہوتے تھے اور خود حضرت کا معمول یہ رہا کہ وہ کسی بھی مسرت وخوشی یا رنج وغمی کے موقعہ پر اپنی جانب سے خطوط لکھ کر ان دونوں بزرگوں کو ادعیہ صالحہ کی طرف متوجہ فرماتے رہتے تھے اور پھر سب کے جواب میں رشد وہدایت کی ان دونوں بارگاہوں سے مادی ہدایا وتحائف کے ساتھ دعاؤں کی سوغات اور اوراد وظائف وتسبیحات جی لگا کر پڑھنے کی ہدایات بھی موصول ہوتی رہتی تھیں اور اس کے نتیجہ میں دینی تربیت واصلاح کی راہیں کشادہ ہوتی چلی جاتی تھیں۔
ان حضرات شیخین کی عنایات وشفقتوں اور فکری وقلبی توجہ و تعلق کا عالم یہ تھا کہ اگر صاحبزادیوں میں سے کوئی علیل ہوجاتی اور حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ کی جانب سے اس کو معمولی علالت سمجھ کر دیوبند یا رائے پور خبر نہ کی جاتی تو اپنے ذرائع سے اطلاع پاتے ہی یہ حضرات سہارنپور تشریف لاکر سب سے پہلے عدم اطلاع کا شکوہ کرتے اور پھر مریضہ کے لیے دعائے صحت فرماتے، خود میری والدہ مرحومہ کے حوالہ سے حضرت شیخ الاسلام کا ایسا ہی ایک محبت آمیز عتاب کا واقعہ حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ تاریخ کبیر میں اس طرح تحریر فرماتے ہیں!
”آج 15/ ذی قعدہ 1367ھ/ 14/ جون 1975ء میں جمعہ کی صبح کو، جب کہ زکریا صبح کی نماز کے بعد مسجد سے گھر پہنچا تو دیکھا کہ شاہدہ گھر کے صحن میں ایک دم کھڑی گرگئی، بے ہوش گئی، بہت دیر میں ہوش آیا، 28/ ذی قعدہ پنجشنبہ کی شام کو حضرت مدنی مع ریحانہ دفعةً بلا اطلاع شاہدہ کی عیادت کے لیے آئے اور اطلاع نہ کرنے پر عتاب فرمایا، جمعہ کی شام کو واپس تشریف لے گئے۔ “
قرب وفات کے اشارے
طبیعت وصحت کی بہترئی کے زمانہ میں جب کہ علالت کی کوئی علامت بھی ظاہر نہیں ہوئی تھی، متواتر کچھ ایسے واضح اشارے اور منامات سامنے آئے جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ اب والدہ محترمہ کی زندگی کا چراغ زیادہ دن تک روشن نہیں رہ سکے گا اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ منامات اور اشارات آہستہ آہستہ واقعات اور مشاہدات بن کر سامنے آتے چلے گئے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے ان کی یہ کیفیت ہوچلی تھی کہ گھر میں جب بھی کسی کی موت وحیات کا تذکرہ چلتا تو بڑے وثوق سے کہہ دیا کرتی تھیں کہ ہم میاں بیوی میں پہلے میرا نمبر آئے گا اور پھر اس کی وضاحت اس طرح کرتیں کہ میری ساری بہنیں اپنے اپنے شوہروں کی زندگی میں ہی اللہ کو پیاری ہوئیں، پہلے آپا زکیہ گئیں، پھر بھائی یوسف گئے، پہلے آپا ذاکرہ گئیں، پھر بھائی انعام گئے، میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا کہ پہلے میں جاؤں گی۔
قرب وفات کی اطلاع کے طور پر متعدد منامات میں سے ایک منامی اشارہ تو یہ ہے کہ تقریباً ایک ماہ قبل اللہ کی ایک بندی نے خواب میں بہت خوبصورت سرخ رنگ کا قبہ نما ایک مکان دیکھ کر معلوم کیا کہ یہ کس کا ہے تو جواب ملا کہ یہ شاہدہ کا ہے۔ دیکھنے والی نے اپنا یہ خواب صبح کو والدہ مرحومہ کو سنایا تو بے ساختہ بولیں، بس میرا توقبہ تیار ہوگیا، میں تو اب جارہی ہوں۔
ایک اشارہ اس طرح سامنے آیا کہ وفات سے قبل خواب دیکھا گیا کہ حضرت شیخ والدہ مرحومہ کے گھر کے سامنے سے گزر کر تشریف لے جارہے ہیں، خواب دیکھنے والی نے سلام مسنون کے بعد درخواست کی کہ گھر میں تشریف لے آئیں تو فرمایا، ابھی نہیں، پچیس دن بعد آؤں گا اور پھر پورے پچیسویں دن والدہ مرحومہ نے وفات پائی۔
اسی طرح مرض وفات میں ان کے دہلی پہنچنے کے دوسرے ہی دن دیکھا گیا کہ کوئی صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہاں ان کو ان کی مٹی لے کر آئی ہے۔
علا لت اور وفات
والدہ محترمہ کو بفضلہ تعالی زندگی بھر کوئی قابل فکر وتشویش عارضہ لاحق نہیں ہوا، صحت ہمیشہ صاف وشفاف رہی، چلنے پھرنے میں کسی قسم کی کوئی محتاجی بھی نہیں تھی، اعزہ واقارب کے گھروں میں بے تکلف پیدل آیا جایا کرتی تھیں۔
راقم سطور سے بقائمی ہوش وحواس ان کی آخری ملاقات 19/ ربیع الثانی 15/ اپریل بدھ میں مولانا مفتی خالد صاحب کے مکان پر بعد عصر مجلس درود شریف میں ہوئی، خاندان کی دیگر مستورات بھی اس میں شریک تھیں، اس وقت تک کسی خطرناک علالت کا کوئی اثر ان پر نہیں تھا…… تاہم شب میں کسی وقت بخار کی شدت کے ساتھ جسم پر ورم ہوکر سانس کی آمد ورفت میں دشواری محسوس ہوئی۔ ایک دن گھر پر رہ کر علاج ومعالجہ کیا گیا، ان کے قدیمی معالج ڈاکٹر محسن ولی سے دہلی میں رابطہ کرکے دوائیں تجویز کرالی گئیں، اس کے بعد سہارنپور کے مشہور معالج داکٹر سنجیو کمار متل کے زیر علاج رہیں، اسی عرصہ میں دہلی سے مولانا زبیر الحسن صاحب مع اہلیہ وعزیزان مولوی زہیر الحسن ومولوی صہیب الحسن وغیرہ عیادت کے لیے بھی آئے، دو دن تک کوئی فائدہ کی شکل نہ دیکھ کر 20/ اپریل /24/ ربیع الثانی دو شنبہ میں ایمبولینس گاڑی کے ذریعہ دہلی لے جاکر وہاں کے مشہور ومعروف ہسپتال ”رام منوہر لوہیا “ میں بغرض علاج رکھا گیا، وہاں بھی تین یوم ایمرجنسی وارڈ میں رہ کر آئی ، سی ، یو، میں منتقل کردی گئیں، ڈاکٹر محسن ولی صاحب کو اللہ جل شانہ بے حد جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے اپنے تمام تعلقات واثرات استعمال کرکے علاج ومعالجہ میں کوئی کمی وکوتاہی نہیں ہونے دی،، اس عرصہ میں صحت میں برابر اتار چڑھاؤ ہوتا رہا، جس کے لیے بہت سی تدبیریں اختیار کی جاتی رہیں، لیکن ہر تدبیر پر تقدیر غالب آتی گئی، یہاں تک کہ 6/ جمادی الاولی 1430ھ/2 مئی 2009ء بروز ہفتہ…… شام چار بجے داعی اجل کو لبیک کہہ کر عالم آخرت کو سدہار گئیں، اسی وقت جنازہ مرکز نظام الدین لایا گیا اور وہیں بعد نماز مغرب غسل وتکفین ہوکر بعد نماز عشاء 64/ کھمبہ میں حضرت مولانا محمد افتخار الحسن صاحب زیدمجدہ کے حکم پر مولانا زبیرالحسن صاحب کاندھلوی کی زیرامامت نماز جنازہ ہوکر بستی حضرت نظام الدین کے قدیمی قبرستان پنج پیران میں صبح قیامت تک کے لیے بطور امانت سپرد خاک کردی گئیں۔
سہارنپور، کاندھلہ،جلال آباد وغیرہ سے تمام اعزہ بروقت پہنچ گئے تھے،حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلہ سے، حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب سہارنپور سے اپنے ضعف وعلالت طبع کے باوجود تشریف لے آئے تھے۔رحمہا اللہ تعالی رحمةً واسعةً، اللہم اغفرلہا وارحمہا وأدخلہا في الجنة․
ہندوستان کے تقریباً تمام شہروں اور صوبوں میں اہل تعلق ومحبت نے اپنے اپنے مدارس اور تبلیغی مرکزوں اور مسجدوں میں جمع ہوکر یٰسین شریف اور کلمہ طیبہ وغیرہ بڑی مقدار میں پڑھ کر والدہ مرحومہ کو اس کا ثواب بخشا۔ حرمین شریفین، نیز ہندوستان، انگلینڈ، افریقہ، زامبیا، پاکستان، باربڈوز وغیرہ میں ہزار مرتبہ سے زائد کلام پاک ختم ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں، ہندوستان میں صرف ایک ہی صاحب نے اپنی نگرانی میں تیس کلام پاک اور مدینہ منورہ میں ایک ہی صاحب نے اپنی نگرانی میں چالیس کلام پاک ختم کیے اور کرائے، جنوبی افریقہ میں اسلامی ریڈیو کی نشریات میں ان کے انتقال کی خبر آجانے پر بڑی تعداد میں لوگوں نے تعزیتی فون کیے اور قرآن پاک ختم کیے۔
عادات و معمولات
روز مرّہ کی متعینہ تلاوت قرآن پاک اور نوافل وغیرہ کے ساتھ درود شریف ، منزل، حزب الاعظم اور حصن حصین کا خصوصی اہتمام تھا، تمام گھروں میں گاہ بگاہ ہونے والے درود ناریہ، درود تنجینا اور قرآن پاک وغیرہ کے ختمات میں اہمیت کے ساتھ شرکت کرتیں۔ اپنے گھر میں بھی وقتاً فوقتاً ان ختمات کا اہتمام کرکے امت محمدیہ مرحومہ پر آنے والے مصائب کے خاتمہ کے لیے دعائیں کرتیں۔
ئ ہمارے لمبے چوڑے خاندان میں ہونے والی شادیوں اور تقریبات میں بہتر سے بہتر تحفہ بھیجنے کی کوشش کرتیں، کبھی کبھی خاموشی سے معلوم بھی کرالیتیں کہ تمہارے یہاں کی شادی میں میرا ارادہ فلاں سامان یا فلاں زیور بھیجنے کا ہے، اگر یہ دلہن کے پاس موجود ہے تو ایسی دوسری چیز کوئی اور بتلادو جو اس کے پاس نہ ہو۔
ئ ماہ رمضان المبارک کی راتوں میں تمام شب بیدار رہ کر تراویح اور نوافل اور تلاوت قرآن پاک کا آخر تک وہی معمول رہا، جس کا تذکرہ حضرت نے اپنی تالیف فضائل رمضان میں کر رکھا ہے، اپنے چھوٹے چھوٹے نواسوں اور پوتوں سے باری باری نوافل پڑھواتیں اور خود اس میں شریک رہتیں۔
ئ ماہ رمضان المبارک میں عموماً عزیزان مولوی حافظ محمد سہیل سلمہ یا مولوی حافظ محمد ساجد سلمہ ان کو تراویح میں کلام پاک سنایا کرتے تھے، اگر کبھی یہ دونوں عمرہ پر ہوتے یا شہر کی مسجد میں تراویح کے لیے متعین ہوجاتے تو پھر ان ہی کے ذمہ ہوتا تھا کہ وہ گھر کے لیے کسی اچھے سے حافظ کا انتظام کریں اور والدہ صاحبہ مرحومہ پورے رمضان اس کی سحری وافطاری اور چائے کا نظم اپنے ذمہ رکھتیں، ختم قرآن پاک پر مٹھائی منگواتیں، حافظ کو نقد انعام کے ساتھ عید کے لیے نئے کپڑوں کا ایک جوڑا اس کے لیے تیار کراتیں۔
راقم سطور کی یادداشت میں ان کا کوئی رمضان ایسا نہیں ہے جو بغیرحافظ اور تراویح کے گذرا ہو۔
ئ ایک اہم بات (معلوم نہیں کہ اس کا لکھنا مناسب بھی ہے یا نہیں) یہ تھی کہ مخدومنا حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ سے رابطہ منامیہ بڑا قوی اور مضبوط تھا، بہت کثرت سے آپ کو خواب میں دیکھتیں اور ملنے والی ہدایات کی روشنی میں فیصلہ کرلیا کرتی تھیں، خو د راقم سطور کو جامعہ مظاہرعلوم کے سخت مشکل اور جاں گداز معاملات میں اس کا بارہا تجربہ ہوا کہ صبح کو بلا کر کہہ دیا کرتی تھیں کہ رات بھائی جی آئے تھے، وہ یہ فرما گئے ہیں ، کبھی اس طرح کہتیں کہ بھائی جی فرمارہے تھے کہ شاہد سے کہو فلاں جگہ کی خیر وخبر لے، وہاں گڑ بڑ ہورہی ہے۔
والدہ صاحبہ مرحومہ کو حق تعالی شانہ بے حد جزائے خیر عطا فرمائے، جنت کی بہاریں اور نعمتیں مرحمت فرمائے کہ انہوں نے ہم سب بہن بھائیوں کی بہتر سے بہتر طور پر تربیت ونگرانی فرمائی، ہمارے معاملات و مسائل کو بہت شوق اور ذوق کے ساتھ حل فرمایا، موقع بموقعہ بہتر سے بہتر نصیحتیں کرکے ہمارے شعور وآگہی کو پختگی بخشی، چنانچہ یہ احقر جب کبھی اپنے ماحول اور گردوپیش کی شاہ خرچیوں یا فضول خرچیوں پر اپنے چھوٹوں کو تنبیہ کرتا تو وہ بہت ہنس کر یہ جملہ کہہ دیا کرتی تھیں کہ!
”شاہد! تم اور زبیر دورفقر کی پیدا وار ہو، جب کہ یہ سب دور شاہی کی پیداوار ہیں ، اس لیے تم دونوں کے اور ان سب کے مزاج میں فرق ہے۔“
العظمة لله کہ ساری عمر ان کی محبت اور شفقت ہم بہن، بھائیوں کی اور عمر میں بڑے ہونے کے اعتبار سے راقم سطور کی سب سے زیادہ خدمت کرتی رہی، لیکن آہ کہ آج اس کے سوا کیا کہا جائے اور کیا لکھا جائے کہ !
عمر بھر تیری محبت میری خدمت کر چکی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی