Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی صفر المظفر 1431ھ

ہ رسالہ

17 - 19
***
میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
کالم کے عنوان کو دیکھتے ہی آپ یہ سمجھیں گے کہ میں شاید منافقوں، راشیوں، زانیوں، چوروں، قاتلوں وغیرہ کے بارے میں بات چیت کروں گا اور پھرگھوم پھر کر ملک وقوم دشمن عناصر کی نشان دہی کروں گا۔ نہیں میرا مقصد آج ہر گز ان لوگوں کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنا نہیں ہے میں آج آپ کو ایک نہایت اہم عبرت انگیز واقعہ سنانا چاہتا ہوں جس کی جانب میری توجہ میرے عزیز دوست، یونیورسٹی آف بحرین کے سول انجینئرنگ اور آرکٹیکچر کے شعبہ میں تعلیم دینے والے پروفیسر ڈاکٹر شمس الحق علوی نے دلائی ہے۔
ہم کو علم ہے ( یا ہونا چاہیے) کہ اسلام میں چار جید امام گزرے ہیں جن کے فقہ کی پیروی کرنے والے کروڑوں مسلمان ہیں ۔ یہ حضرت امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام مالک ہیں ۔ شیعہ حضرات کی اکثریت عموماً امام جعفر صادق کی پیروکار ہے۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد تھے اور ان کے شاگرد امام شافعی تھے اور ان کے شاگرد امام احمد بن حنبل تھے۔ امام مالک مدینہ میں مسجد نبوی میں درس دیا کرتے تھے اور امام شافعی نے ان سے بھی استفادہ کیا تھا۔ ان چاروں اماموں کی تعلیم کا مقصد فرمان الہٰی اور سول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت وتعلیم پر عمل کرانا تھا۔ یوں یہ سب حضرات اسلامی علوم کی ترویج اور ترقی کے ایک ہی سلسلہ سے وابستہ تھے۔
اب میں اصل واقعے کی طرف آتا ہوں : مشہور محدث اور امام احمد بن حنبل  کے شاگرد رشید شیخ الاسلام ابو عبدالله محمد بن نصر مروزی بغدادی (202…294ھ) نے اپنی کتاب ” قیام اللیل“ میں ایک عبرت انگیز قصہ نقل کیا ہے جس سے اس آیت کے فہم میں مدد ملتی ہے اور سلف کے فہم قرآن اور تدبر قرآن پر روشنی پڑتی ہے۔ جلیل القدر تابعی اور عرب سردار احنف بن قیس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہ آیت پڑھی: ترجمہ : ” ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے، کیا تم نہیں سمجھتے ہو۔“ ( سورة الانبیاء، آیت:10) وہ چونک پڑے او رکہا کہ ذرا قرآن مجید تولانا، میں اس میں اپنا تذکرہ تلاش کروں اور دیکھوں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟ انہوں نے قرآن مجید کھولا، کچھ لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا ، جن کی تعریف یہ کی گئی تھی ترجمہ:”یہ لوگ رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے اور ان کے مال میں مانگنے والے اورنہ مانگنے والے دونوں کا حق ہوتا تھا۔“ (سورة الذاریات آیات:19-17) مزید ورق گرانی کی تو کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا، ترجمہ” ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں ( اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو ( مال) ہم نے ان کو دیا ہے ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“ ( سورة السجدہ آیت:16) اس کے بعد کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا، ترجمہ” اور ( یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور ( عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں ۔“ (سورة الفرقان، آیت:46)
اور کچھلوگ نظر آئے جن کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے، ترجمہ” جو آسودگی اورتنگی میں ( اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے ۔“ (سورة آل عمران، آیت:134) اور کچھ لوگ ملے جن کی حالت یہ تھی ، ترجمہ”(اور) دوسروں کو اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود شدید ضرورت ہی کیوں نہ ہو اور جو شخص حرص نفس سے بچالیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہوتے ہیں ۔“ سورة الحشر، آیت:9) کچھ اور لوگوں کی زیارت ہوئی جن کے اخلاق یہ تھے ترجمہ” اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں او رجب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں ۔“ (سورة الشوری) اس کے بعد جن لوگوں کا تذکرہ ہو اوہ یہ تھے ، ترجمہ ” اور جو اپنے پرورد گار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں او رجو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔“ (الشوری ، آیات:38-37)
وہ یہاں پہنچ کر ٹھٹک کر رہ گئے اور کہا اے الله میں اپنے حال سے واقف ہوں ، میں ان لوگوں میں نظر نہیں آتا! پھر انہوں نے ایک دوسرا راستہ لیا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے ، جن کا حال یہ تھا ، ترجمہ ” ان کا یہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو غرور کرتے تھے اور کہتے تھے بھلا ہم ایک دیوانہ شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں؟ ( سورة صافات، آیات:36-35) پھر ان لوگوں کا سامنا ہوا جن کی حالت یہ تھی ، ترجمہ ” اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیں او رجب اس (الله تعالیٰ) کے سوا اوروں کا ذکرکیا جاتا ہے تو ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں۔“ (سورة الزمر، آیت:45) کچھ اور لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گیا ، ترجمہ ” کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتیں بنانے والوں کے ساتھباتیں بنایا کرتے اور روز جزا کوجھوٹ قرار دیتے تھے ، یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا۔“ ( سورة المدثر، آیات:47-42)
یہاں پہنچ کر بھی ابوعبدالله محمد بن نصر مروزی تھوڑی دیر کے لیے دم بخود کھڑے رہے پھر کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا ، اے الله! ایسے لوگوں سے تیری پناہ! میں ان لوگوں سے بری ہوں۔ اب وہ قرآن مجید کے صفحات کو الٹ رہے تھے اور اپنا تذکرہ تلاش کررہے تھے، یہاں تک کہ اس آیت پر جاکر ٹھہر گئے ، ترجمہ” اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنے گناہوں کا ( صاف) اقرار ہے انہوں نے اچھے اور برے اعمال کو ملا جلا دیا تھا قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے ، بے شک خدا بخشنے والا بڑا مہربان ہے ۔“ ( سورة التوبة، آیت:102) اس موقع پر ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ہاں ہاں! بے شک یہ میرا حال ہے۔
اس واقعے میں ہمارے لیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جب ہم احکم الحاکمین کی عدالت میں پیش ہوں گے تو ہمارا کیا حال ہو گا؟ ہم کس طرح کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے ؟ کیا ہم نے اس کلام الہٰی پر اسی ذوق وشوق سے غورو فکر کیا جو ہمارے ان عظیم بزرگان دین کا طریقہ تھا ؟ واقعہ یہ ہے کہ ہم اس کتاب کو کبھی کبھار پڑھ تو لیتے ہیں لیکن اپنے دل ودماغ کی صلاحیتوں کو اس پر صرف نہیں کرتے نہ پوری توجہ کے ساتھ یہ سمجھ کر اسے دیکھتے ہیں کہ اس میں ہمارے لیے امید کا کیا پیغام ہے ۔ ذرا اس نظر سے قرآن کو پڑھنے کی کوشش کریں پھر دیکھیں کیسے کیسے دروازے علم وحکمت کے ترقی اور عروج کے ہم پر کھلتے چلے جائیں گے۔
آئیے فرمان الہٰی کے ہی سکھائے ہوئے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنے رب العالمین سے یہ دعا مانگیں: ” اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری خطاؤں( کے اثرات بد) کو ہم سے دور فرما۔ اور ہمیں نیک بندوں کے ساتھ موت دے۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں وہ چیز عطاکر جس کا تو ہم سے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ وعدہ کر چکا ہے اور ہمیں قیامت کے دن ذلیل نہ کرنا۔ بلاشبہ تووعدہ خلافی نہیں کرتا۔ ( سورة آل عمران، آیات:194-193) 
(بشکریہ روز نامہ جنگ کراچی)

Flag Counter