Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی صفر المظفر 1431ھ

ہ رسالہ

19 - 19
***
علم کی حقیقی طلب کے چار بنیادی امور
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
اللہ کی صفات میں سے ایک صفت علم ہے، اللہ کی ذات ازلی تو اس کی صفت بھی ازلی، اس کا کچھ حصہ اللہ نے مخلوق کو عطا کیا اور اس میں انسان کو برتر رکھا، بلکہ بعض حضرات کی تحقیق کے بہ موجب صفت علم انسان کا خاصہ اور امتیاز ہے، لہٰذا علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا اور علم سے انسان کو متصف کرنے کی غرض عمدہ صفات، حسن اخلاق اور سیرت اور کردار میں خوبی اور بہتری پیدا کرنا ہے ، اللہ رب العزت کی ذات،تمام صفات حمیدہ کو جامع ہے ، اس لیے کہ اس کا علم ”علم محیط“ ہے، اللہ نے اپنی اس صفت کا پرتو انسان میں اسی لیے رکھا، تاکہ تخلقوا بأخلاق اللہ والی حدیث پر عمل در آمد ہو سکے اور بندہ اپنے اندر بھی کمال پیدا کرے ،حضرت آدم علیہ السلام کو جو برتری اورخصوصیت دی گئی اس کی وجہ بھی تو علم ہے لہذا علم کا تقاضہ یہ ہے کہ جتنا علم ہو انسان اتناہی بااخلاق ہو، حضرات انبیائے کرام علیھم الصلوة والسلام کو اللہ نے” علم وحی“ سے نوازا تو ساری انسانیت کے لیے نمونہ ثابت ہوئے۔
حضرات صحابہ بھی جب علم الہٰی اور علم نبوی سے سرشار ہوئے تو ان کی زندگیوں میں عجیب انقلاب بر پا ہوگیا اور وہ بھی رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے اُسوہ بن گئے،معلوم ہوا علم دین اپنے اندر انقلابی تاثیر رکھتا ہے،مگر آج کل ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے اہل علم حضرات بھی انتہائی نازک حالات کے شکار ہیں تو آییے! ہم معلوم کرنے کی کو شش کریں کہ اس بدترین صورت حال کے اسباب وعلل کیا ہیں؟
تعلیم کی موجودہ ابتر حالات کا ذمہ دار صرف کسی ایک طبقہ کو نہیں قرار دیا جاسکتا، بلکہ امت کا اجتماعی وانفرادی طور پر ہر طبقہ اس کا ذمہ دار ہے، مگرزیادہ ذمہ دار طلبہ ہیں، لہٰذا ہم چوں کہ انہی سے مخاطب ہے ،اس لیے انہی کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔
اخلاص وللہیت
آگے بڑھنے سے پہلے ہم چند سوالات جو ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، ان کی نشاندہی کرتے ہیں ، سب سے پہلے تویہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انحطاط علمی کا سبب کیا ہے؟ پھر سوال پیدا ہو تاہے کہ طلبہ کیوں محنت نہیں کرتے؟ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں زندگی میں علم پر عمل نہیں ؟ پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ طلبہ وعلماء کو کیوں آخرت کی فکر اور امت کا درد نہیں اور کیا ان سوالات کے جوابات ممکن ہیں تو آئیے! پہلے ہم اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔
ہمیں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ یہ دنیا دار الاسباب ہے اور اللہ کی ذات مسبب الاسباب ہے ،لہٰذا ہمارا یہ کہنا کہ اب قیامت قریب آگئی، حالات ایسے بدل گئے ہیں، اب محنت کرکے کوئی فائدہ نہیں، اس بات کو ذہن سے نکال دینا چاہیے، اور اسباب کی طرف توجہ دینی چاہیے کیوں کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: ﴿إن اللہ لا یضیع أجر المحسنین﴾ اللہ اخلاص کے ساتھ محنت کرنے والوں کی محنت ضائع نہیں کرتے۔ اب آپ ذرا غور کیجیے” محسنین “کا لفظ استعمال کیا ،” مجتہدین “یا ”عاملین “نہیں کہا، یا”مخیرین“ یا”ساعین“ یا ”شاغلین“ کا لفظ استعمال نہیں کیا ،آخر کیوں؟ اس لیے کہ یہ تمام الفاظ کسی ایک حقیقت اور معنی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،جب کہ” احسان “کا لفظ انتہائی معنی خیز اور جامع ومانع ہے ،کیوں کہ احسان کے لغوی معنی تو خوب اچھا کرنا ہے اور خوب اچھا کرنے کے لیے جہد وجہد، سعی عمل، شغل، سب ضروری ہے، اصطلاح ِ شرع میں” احسان“ کہتے ہے اخلاص اور للہیت کو ،اب محسنین کا معنی ہو ا” خوب جدوجہد اور سعی پیہم کے ساتھ محض اللہ کے لیے کرنے والے ۔“
اب آئیے! ہم اپنے طالب علمانہ کردار پر ایک نظر ڈالیں اور فیصلہ کریں، کہ کیا واقعتا ہم محسنین ہیں ؟کیا ہم محنت اور جد وجہد اور سعی پیہم میں لگے ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے اندر اخلاص و للہیت ہے؟توجواب نفی میں ہو گا۔ اولاً تو اکثر وبیشتر طلبہ میں محنت اورلگن کا جذبہ نہیں اور کچھ میں ہے تو عام طور پر محنت کے ساتھ جو مطلوبہ صفات ہیں، وہ نہیں، یعنی اخلاص ،تواضع، ادب، حسن ا خلاق، معصیت سے دوری، وغیرہ۔
لہٰذا طلبہ سے لجاجت کے ساتھ گذارش ہے کہ اللہ کے واسطے سستی اور غفلت کو پس پشت ڈال کر خوب لگن اور محنت سے تحصیل علم میں لگ جائیں، تاکہ دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل ہوسکے ، ساتھ تکبر سے، حسد سے، کذب بیانی سے، سوئے اخلاق سے، بے ادبی سے، چاہے کتاب کی ہو ، چاہے استاذ کی، چاہے درس گاہ کی ہو، چاہے ادارہ کی، اس سے مکمل اجتناب کریں۔
حاصل یہ کہ سب سے پہلے ضرورت ہے اخلاص اور للہیت کو پیدا کرنے کی ”إنما الأعمال بالنیات“ جب ہم یہ نیت کریں گے کہ اللہ کی رضا کے لیے علم حاصل کرنا ہے تو محنت کی توفیق کے راستے من جانب اللہ کھل جائیں گے، ہم آغاز سال میں یہ نیت کرلیں کہ ”اے اللہ! ہمارے یہاں آنے کا مقصد علم کو حاصل کرکے اس پر عمل کرنا اور تیری ذا ت اقدس کو راضی کرنا ہے“۔
مسلسل محنت
عزیز طلبہ! کیا آپ نے صحابہ کے حالات پڑھے اورسنے نہیں، ان پر کوئی نگراں اور ذمہ دار نہیں تھا، مگر ان میں اخلاص تھا تو ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں حاضر ہو کرحصول علم کی انہیں توفیق ہوتی تھی، کیا آپ نے اصحاب صفہ کے حالات نہیں پڑھے؟ بھوکے ہوتے، کپڑے نہ ہوتے، مگر برابر محنت میں لگے رہتے، حضرت ابوہریرہ بھی انہیں میں سے ایک تھے، اللہ نے انہیں کیسا چمکایا،حضرات تابعین کی زندگیوں کا مطالعہ کیجیے اس زمانہ میں کوئی درس گاہ ہوتی تھی نہ کوئی کمرہ، نہ کوئی ہاسٹل اور رہائش گاہ نہ لائٹ نہ کھانے پینے کاانتظام ، نہ کوئی زور زبردستی، وہ تو اپنا سب کچھ لگاکر اخلاص کے ساتھ تن، من، دھن کی بازی لگا دیتے تھے، انہیں کے مجاہدات کی برکت سے آج علوم اسلامیہ صفحات کتب کی صورت میں موجود ہیں، اگر وہ ہم لوگوں کی طرح راحت پسند اور عیش پرست ہوتے ، یقینا آج ہمارے پاس علمی ذخائر نہ ہوتے، نہ کتابیں ہوتیں اور نہ یہ مدارس ہوتے، دنیا کی تاریخ میں علمائے اسلام نے جتنا لکھنے پڑھنے کا کام کیا ، یقینا کسی نے نہیں کیا، شیخ عبد الفتاح ابو غدہ نے اس پر مستقل ایک تحریر مرتّب کی ہے، ”العلماء العذاب الذین آثرواالعلم الزواج“ یعنی وہ علماء جو علم کے خاطر شادی سے کنارہ کش رہے، جن میں مشہور یہ ہیں:
(1) ہناد بن سری کوفی، محدث تھے۔ (2) ابوجعفر محمدبن جریر طبری، مفسر محدث اور موٴرخ تھے، بے شمار ضخیمکتابیں تصنیف فرمائیں۔ (3)ابوبکر ابن الانباری، نحوی اور مفسر تھے۔ (4) ابو علی الفارسی، جلیل القدر امام النحو تھے۔ (5)ابوبکر الأندلسی، محدث تھے۔(6)محمود بن عمر زمخشری، مفسر تھے۔(7)محی الدین زکریا النووی فقیہ محدث تھے، مسلم شریف کے مشہور شارح اور بے شمار کتابوں کے مصنف تھے۔ (8)ابوالحسن ابن النفس دمشقی۔ (9)ابن تیمیہ حرانی، محدث، فقیہ، مفسر اور بے شمار کتابوں کے مصنف تھے۔ (10)عز الدین محمد بن جماعة، مصری، فقیہ اور اصولی تھے۔(11)محمد بن طولون، مشہور موٴرخ گذرے ہیں۔(12)سلیمان بن عمر الجمل، جلالین کے مشہور شارح۔ (13)ابوالمعالی محمود شکری آلوسی، بہت بڑے ادیب تھے۔(14)ابوالوفاء ا لافغانی ہندی، فقیہ اور محدث تھے ۔ وغیرہ بے شمار ایسے علماء گذ رے ہیں۔ اللہ امت مسلمہ کی جانب سے انہیں بہترین بدلہ عطا فرمائیں۔
ان لوگوں نے اپنا مال، اپنا وقت، اپنی خواہشات سب کچھ علم دین کے لیے قربان کردیا، تو آج اللہ نے یہ مقام دنیاہی میں عطا کیا، صدیاں گذ ر جانے کے باوجود آج بھی جب ان کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہر مسلم عقیدت سے رحمة اللہ علیہ کہتاہے۔
ہمارے متقدمین ومتأخرین علماء نے اتنی جدوجہد اور محنت کی کہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کو اپنی بے مثال تالیف ”صَفَحَاتٌ مِنْ صَبْرِ العُلَمَاءِ عَلٰی شَدَائِدِ العِلْمِ وَتَحْصِیْلِہِ،، کے مقدمہ میں لکھنا پڑا۔
”اگر تم ہمارے علماء کے احوال کا تتبع اور مطالعہ کروگے تو اندازہ ہوگا وہ کیا تھے؟ اورانہوں نے کیا کیا؟ وہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے محض علم کی خاطر لمبے لمبے اسفار کیے بھوک اور پیاس پر صبر کیا، راتوں کو سونا چھوڑ دیا، اپنے آپ کو خوب مشقت میں ڈالا ،یہاں تک کہ تاریخ ان کی قربانیوں کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ میں اپنی کتاب میں اس کااحاطہ اور استیعاب کرنا نہیں چاہتا ہوں، بلکہ نمونے کے طور مشت از خروارے کے، ہر پہلو سے متعلق چند واقعات بیان کروں گا، کیوں کہ ان کی قربانیاں اتنی ہیں کہ اس کو یکجا کرنا دشوار ہے، علم کی خاطر صبر آزمائی کے ایسے حیرت انگیز واقعات ہیں کہ انسان کا ذہن انہیں قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہ ہو، مگرحقیقت یہ ہے کہ یہ تمام واقعات سو فیصدی صحیح ہیں ، کیوں کہ سندوں کے ساتھ معتبر کتابوں میں منقول ہیں ، اگر آپ کو و ہ سمجھ میں نہ آئیں تونہ آئیں ، بعض حیرت انگیز عجائبات میں آپ کے سامنے بیان کرتاہوں، آپ کی عقل اس کو تسلیم کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوگی ، مگر وہ اتنی مستند اور صحیح روایات اور معتبر لوگوں سے مروی ہیں کہ آپ کو صحیح ماننا ہی پڑے گا، مثلاً محدث عظیم امام ابوداوٴد سلیمان بن الاشعث السجستانی اپنی کتاب ”سنن أبی داوٴد“ کے باب ”صدقة الزرع“ میں خود اپنا مشاہدہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے مصر کے سفر کے دوران ایک ککڑی دیکھی، جس کی لمبائی تیرہ بالشت تھی اور ایک اتنی بڑی نارنگی دیکھی کہ اس کو کاٹ کر اونٹ پر اس طور لادا گیا تھا کہ ایک حصہ اونٹ کی کوہان کی دا ہنی جانب اوردوسرا بائیں جانب۔ کیا کوئی اس کی تصدیق کرسکتا ہے؟ مگر ایک ایسے محدث اس کو بیان فرمارہے ہیں جن کی صداقت پر امت کا اجماع ہے، لہٰذا عجوبہ سمجھ کر ماننا پڑے گا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ محمد بن رافع نے ذکر کیا ہے، جو امام بخاری، مسلم، ابوداوٴد، ترمذی،نسائی، ابوزرعہ، تمام کبار محدثین کے استاذ اور شیخ ہیں کہ میں نے انگور کا ایک گچھا دیکھا، جوایک خچر کے برابر تھا۔
اسی طرح کے دسیوں عجائبات کو شیخ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں ذکر کیا اور پھر کہا کہ جس طرح ان واقعات کے حیرت انگیز ہو نے کے باوجود آپ کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ صحیح ہیں ، بس بالکل اسی طرح ہمارے اسلاف کی علم کی خاطر صبر آزمائی کے حیرت انگیز واقعات کو بھی آپ کو تسلیم کرنا ہوگا۔
طلب علم کیے لیے اسلاف کی قربانیاں
اسلام نے انسان کو پہلا درس ہی علم کا دیا ، اللہ نے آدم علیہ السلام کو علم عطا کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پہلی وحی علم سے متعلق نازل کی گئی، اس کا اثر یہ ہواکہ اس امت کے افراد نے اپنے آپ کو علم کے لیے کھپادیا، شیخ عبد الفتاح ابوغدہ فرماتے ہیں: ہمارے علمائے اسلاف میں اکثر وبیشتر فقر وفاقہ کے شکار تھے ، مگر ان کا فقر تحصیل علم کے لیے کبھی رکاوٹ نہ بنا، اور انہوں نے کبھی کسی کے سامنے اپنی محتاجی کو ظاہر بھی نہیں کیا۔
انہوں نے علم کی خاطر نہایت جاں گسل اور ہولناک مصائب وآلام جھیلے اور ایسے صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان کی طاقت اور برداشت کے سامنے خود ”صبر“ بے چین اور بے قرار ہوگیا۔
اسی کے ساتھ وہ اپنی دل کی گہرائیوں کے ساتھ خداکی خوش نودی حاصل کرنے اورحمد وثنا میں مصروف رہتے ، ہر وقت شکر گذاری ا ن کا امتیازی وصف تھا، ان کی قربانیوں نے انہیں دنیا میں بھی سرخ رو کیا اور قیامت تک آنے والے طالبان علوم کے لیے بہترین نمونہ بنادیا، سب کچھ انہوں نے صرف اور صرف کتاب وسنت کی خدمت اور اللہ کی رضاء کے لیے کیا ۔
ان کی قربانیوں سے یہ بات عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ اسلامی علوم کی تدوین و تالیف ،پر فضا وشاداب مقامات، نہروں کے کناروں اور سایہ دار درختوں کے چھاوٴمیں بیٹھ کر نہیں ہوئی، بلکہ یہ کام خون وجگر کی قربانی دے کر ہواہے، اس کے لیے سخت گرمیوں میں پیاس کی ناقابل برداشت تکالیف اٹھانی پڑیں اور رات رات بھرٹمٹماتے چراغ کے سامنے جاگنا پڑا، بلکہ طلب علم کی راہ میں جان عزیز کی قربانی کوبھی انہوں کوئی بڑا کام تصور نہ کیا،آیے! اب میں ان کی جدوجہد اور قربانیوں کے چند نمونے آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں،تاکہ ہمیں بھی ان کی راہ پرچلنے کا شوق پیدا ہو۔
حضرت عبداللہ بن عباس، جو ترجمان القرآن کے نام سے جانے جاتے ہیں، وہ ایسے ہی قرآن کے عظیم مفسر نہیں بن گئے، بلکہ اس کے لیے خوب محنت اور جدوجہد کی، وہ خود فرماتے ہیں:
” میں صحابہ کرام سے پوچھنے اور احادیث معلوم کرنے میں لگ گیا، مجھے(کبھی) پتہ لگتا کہ فلاں صحابی کے پاس حدیث موجود ہے تو میں ان کے مکان پر پہنچتا، وہاں آکر معلوم ہوتا کہ وہ آرام کررہے ہیں، تو میں اپنی چادر ان کے دروازہ کے سامنے بچھاکر لیٹ جاتا، دوپہر کی گرمی میں ہوا چلتی تو تمام گردوغبار میرے اوپر آتا۔
جب صاحب خانہ باہر آکرمجھے دیکھتے توحیرت زدہ ہو کر استفسار کرتے، عم زادہٴ رسول! (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی) کیسے آناہوا اور آپ نے یہ زحمت کیوں فرمائی، کسی کو بھیج کر مجھے کیوں نہ بلوالیا؟ میں کہتا: نہیں جناب! مجھے ہی آنا چاہیے تھا، پھر میں ان سے حدیث معلوم کرتا۔(صبر واستقامت ، ص:50)
عبد الرحمن بن قاسم، جوامام مالک کے ممتاز شاگر د تھے، وہ کیسے اتنے بڑے فقیہ اور محدث ہوئے؟ 
قاضی عیاض نے ”ترتیب المدارک“ میں عبدالرحمن بن قاسم عُتقی (متوفی 191 ھ)کے حالات میں لکھا ہے (یا د رہے موصوف کا شمار امام مالک  اور لیث  وغیرہ کے مایہٴ ناز شاگردوں میں ہوتا ہے)۔
”ابن قاسم کہتے تھے: میں امام مالک کے پاس، آخر شب کی تاریکی میں پہنچتااور کبھی دو، کبھی تین یا چار مسئلے دریافت کرتا، اس وقت امام محترم کی طبیعت میں کافی انشراح محسوس ہوتا، ایک دفعہ ان کی چوکھٹ پر سر رکھے سوگیا، امام مالک نماز کے لیے مسجد تشریف لے گئے، لیکن مجھے نیند کے غلبہ میں کچھ بھی پتہ نہ چل سکا، آنکھ اس وقت کھلی جب ان کی ایک کالی کلوٹی باندی نے میرے ٹھوکر مارکر یہ کہا: تیرے آقا چلے گئے، وہ تیری طرح غافل نہیں رہتے، آ ج 49 سال ہونے کوآئے، انہوں نے فجر کی نماز کبھی کبھار کے علاوہ ہمیشہ عشاء ہی کے وضو سے پڑھی ہے۔
امام مالک کے پاس 17 سالہ قیام
ابن قاسم کہتے ہیں:میں امام مالک کے پاس مسلسل سترہ سال رہا، لیکن اس مدت میں نہ کچھ بیچا اور نہ کچھ خریدا۔(ذرا ہمارے وہ طلبہ غور کریں جو اکثر وبیشتر بازاروں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں، کہ سترہ سال میں کبھی خرید وفروخت نہیں کی)۔
باپ اور بیٹے کی ملاقات
وہ کہتے ہیں: ایک روز میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، اچانک ایک نقاب پوش نوجوان، جو مصر سے حج کرنے کے لیے آیا تھا، مجلس میں پہنچا اور امام مالک کو سلام کرکے پوچھا، کیا آپ کے یہاں ابن قاسم موجود ہیں؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، وہ آیا اور اس نے میری پیشانی کا بوسہ لیا، میں نے اس میں ایک نہایت عمدہ خوش بو محسو س کی،(جس کا بیان لفظوں میں کرنا مشکل ہے) در حقیقت وہ میرا بیٹا تھا اور یہ خوشبواسی سے آرہی تھی، میں جس وقت گھر سے چلا تو وہ رحم مادر میں تھا، میں اس کی ماں سے، جو میری بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ چچیری بہن بھی ہوتی تھی، یہ کہ کر آیا تھا کہ لمبی مدت کے لیے جارہا ہوں، واپسی کا کچھ پتہ نہیں کہ کب ہو، اس لیے تمہیں اختیار ہے چاہے میری ہی نکاح میں رہنا ،چاہے آزاد ہوکر دوسری جگہ چلی جانا․․․․․․․․لیکن اس اللہ کی بندی نے آزاد ہونے کے بجائے، میرے ہی نکاح میں رہنے کو اختیار کیا۔“(صبر واستقامت کے پیکر، ص:51 تا 52)
3/ محمدبن طاہر مقدسی کے بارے میں آتا ہے کہ طلب حدیث کی خاطر سخت گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں لمبی لمبی مسافت طے کرنے کی وجہ سے بارہا خون کا پیشاب ہو گیا۔(وفیات الاعیان)
ابونصر سنجری کا مخلصانہ طلب علم کا دور
حافظ ذہبی ”تذکرة الحفاظ“ میں ابو نصر سنجری کے بارے میں فرماتے ہیں ”عبد اللہ بن سعید بن حاتم، ابونصر سنجری(متوفی 444ھ) فن حدیث میں ”حافظ“ کے مرتبہ پر پہنچے ہوئے ہیں، (یہی نہیں، بلکہ) آپ اپنے دور میں حدیث پاک کے سب سے بڑے حافظ،امام وقت اور مینارہٴ سنت کی حیثیت رکھتے تھے، موصوف حدیث کی طلب میں زمین کے اس کنارہ سے اس کنارہ تک چکر لگاکر آئے “۔
ایک عورت کی پیشکش
ابو اسحاق حبال کہتے ہیں: ”میں ایک روز ابونصر سنجری کے پاس بیٹھا ہو اتھا، کسی نے دروازہ کھٹکھٹا یا، میں نے دروازہ کھول دیا، اب میں نے دیکھا کہ ایک عورت مکان میں داخل ہوئی اور اس نے آکر ایک تھیلی نکالی جس میں ایک ہزار دینار تھے اور اسے شیخ کے سامنے رکھ کر بولی: “ انہیں جس طرح آپ کا دل چاہے خرچ فرمائیں۔ شیخ نے پوچھا آخر مقصد کیا ہے؟ اس نے کہا میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ مجھ سے نکاح کرلیں ،اگرچہ مجھے شادی بیاہ کی کوئی خواہش نہیں،لیکن اس طرح میں آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔
آپ نے کہا: تھیلی اٹھاکر یہاں سے چلی جاوٴ․․․․․․․․․جب وہ چلی گئی تو انھوں نے مجھ سے کہا: میں اپنے ملک سجستان سے صرف حصول علم کی نیت سے نکلا ہوں،اب اگر میں اس سفر میں شادی بیاہ کے جھمیلے میں پڑوں تو پھر میں ”طالب علم“ کہاں رہو گا․․․․؟ اللہ نے طلب علم پر جو اجر وثواب رکھا ہے اس پر میں کسی بھی چیز کو ترجیح نہیں دینا چاہتا۔“(صبر واستقامت کے پیکر،ص:44)
حافظ ابن مندہ اپنے وطن عزیز سے بیس سال کی عمر میں طلب علم کے لیے نکلے اور مسلسل 45 سال تک سفر کرتے رہے اور علم حاصل کرتے رہے ،65 سال کی عمر میں اپنے وطن واپس ہوئے، جب گھر سے نکلے تو چہرہ پر ایک بال نہ تھا اور جب لوٹے تو داڑھی کے بال سفید ہو چکے تھے، مگر اتنے عرصے میں کتنا علم حاصل کیا ، تو جعفر مستغفری فرماتے ہیں کہ میں نے حافظ محمد بن اسحق ابن مندہ سے، ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ نے کتنا علم حاصل کیا؟ تو کہا پانچ ہزار من وزن کے برابر، اللہ اکبر۔(تذکرہ الحفاظ)۔
امام شعبی کوفی ہمدانی بڑے پائے کے محدث گذرے ہیں، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو اتنا سب علم کیسے حاصل ہوا؟تو فرمایا، چار باتوں کے التزام کی وجہ سےکبھی کسی کتاب یا کاپی کے بھروسہ پر نہ رہا، یعنی جو سنا سب یاد کرلیا۔طلب علم کے لیے در،بہ در سفر کرتا رہا۔جمادات کی طرح صبر کرتا رہا یعنی جمادات کو پانی دو یا نہ دو، کھانادو یا نہ دو خاموش رہتا ہے، میں بھی بھوک اور پیاس پر صبر کرتا رہا۔ کوّے کی مانندصبح سویرے اٹھتا رہا، یعنی بہت کم سوتا ، تب جاکر اتنا علم حاصل ہوا۔ (تذکرة الحفاظ)
بلند ہمتی
میرے عزیز طالب علم ساتھیو! یہ تھا ہمارے اسلاف کا بے مثال مجاہدہ معلوم ہوا علم دین کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد اور محنت اور بلندہمتی ضروری ہے، علامہ زرنوجی فرماتے ہیں کہ اگر” محنت خوب“ ہو اور ”بلند ہمتی “نہ ہو تو بھی علم زیادہ حاصل نہیں ہوتا اور” ہمت“ توہو مگر”محنت “نہ ہو تو بھی علم حاصل نہیں ہوتا، آج ہمارے طلبہ میں یہی بیماری ہے، کسی میں ”محنت“ کا جذبہ نہیں اور اگر” محنت“ کا جذبہ ہے تو” بلند ہمتی“ نہیں، یعنی کسی بھی کتاب کو جب کچھ محنت کے بعد سمجھ میں نہ آئے تو مشکل سمجھ کر نا امید ہو جاتے ہیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے، جیسا کہ ابھی آپ نے ہمارے اسلاف کی محنت اورجدوجہد پرچند حیرت کن حالات پڑھے، ان کی بلند ہمتی کے بھی دو تین نمونے پیش خدمت ہیں:
امام ابن القیم فرماتے ہیں: مجھے تعجب ہے طلبہ پر، ا س لیے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ہر قیمتی چیز کو حاصل کرنے کے لیے بلند ہمتی وجدوجہد در کار ہوتی ہے ،مگر علم کے بارے میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ا یسے ہی حاصل ہو جائے گا تویہ کیسے ممکن ہیجب کہ علم دین تو دنیا کی چیزوں میں سب سے زیادہ قیمتی ہے؟ تو ذرا غور کیجیے اس کے لیے کتنی ہمت اور محنت درکار ہوگی!؟ مسلسل محنت مسلسل تکرار راحتوں اور لذتوں کوچھوڑنے سے علم حاصل ہوتا ہے۔
ایک فقیہ فرماتے ہیں: میں ایک مدت تک ہر یسہ(عربوں کاایک لذیذ کھانا) کھانے کی تمنا کرتا رہا، مگر کبھی نہ کھا سکا، اس لیے کہ ہریسہ اس وقت بازار میں فروخت ہوتا تھا، جب درس کا وقت ہوتا تھا، میں نے کبھی بھی درس چھوڑنے کو پسند نہیں کیا۔
ابن کثیر فرماتے ہیں جسم کی راحت کے ساتھ علم حاصل ہوہی نہیں سکتا۔
امام مزنی فرماتے ہیں کہ کسی نے امام شافعی سے دریافت کیا ، آپ کے حصول علم کی خواہش کیسی ہے؟ تو فرمایا جب میں کوئی نیا علمی نکتہ یا نئی علمی بات سنتا ہوں تو مجھے اتنی خوشی ہوتی اور لذت ہوتی ہے کہ میری خواہش ہوتی ہے کہ میرے بدن کے ہر عضو کو قوت سماعت حاصل ہو اور وہ بھی لذت محسوس کرے۔
پھر کسی نے پوچھا آپ علم پر کتنی حرص رکھتے ہیں؟ فرمایا جس قدرایک مال و دولت کو جمع کرنے والا مال کوحاصل کرنے کی حرص رکھتا ہے۔
پھر پوچھاکہ آپ کے علم کی طلب کی کیفیت کیا ہے؟ تو کہا اس ماں کی مانند جو اپنے گمشدہ بچے کی تلاش میں ہوتی ہے اور اسے اس کے علاوہ کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی۔
امام ثعلبہ فرماتے ہیں کہ میں علم کی خاطر ابراہیم حربی کے پاس پچاس سال مسلسل قیام کیے رہا۔
امام النحوخلیل فراہیدی فرماتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ شاق وہ وقت لگتاہے جب میں کھارہاہوتا ہوں، کیوں کہ اس وقت کوئی علمی فائدہ نہیں ہوتا۔
عمار ابن رجا فرماتے ہیں کہ تیس سال تک میں اپنے ہاتھ سے کھانا نہ کھاسکا، میں حدیث لکھتا تھااور میری بہن میرے منہ میں لقمے دیتی تھی۔
بقی بن مخلد کا حیرت انگیز واقعہ
یہ واقعہ ایک ایسے علم کے شیدائی کا ہے جس نے مغرب بعید سے مشرق تک کئی ہزار میل کا پیدل سفر محض اس لیے طے کیا کہ وہاں کے مسلمانوں کے ایک زبردست امام اور عالم جلیل کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے دامن کو ”علم حدیث“ کی دولت سے بھرے، لیکن جب وہ علم کا جویا وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ جس کی خاطر اس نے یہ طویل وعریض سفر پیدل چل کر کیا ہے، وہ ایک سخت آزمائش میں مبتلا ہے اور درس وتدریس اور لوگوں سے ملنے جلنے پر حکومت کی جانب سے اس پر کڑی پابندی عائد ہے، مگر وہ بھی علم کا متوالا اور طالب حقیقی تھا، اس نے حصول علم کے لیے ایک ایسی راہ اختیار کی جس کا تصور بھی ہر کس وناکس کے لیے مشکل ہے ۔
بقی بن مخلد کا پیادہ پا سفر بغداد: علمی دنیا کی قابل قدر تصنیف ”منہج احمد فی تراجم اصحاب الامام احمد“ میں امام بقی بن مخلد اندلسی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”حافظ حدیث ابو عبد الرحمن بقی بن مخلد اندلسی،201 ھ میں پیدا ہوئے، آپ نے اندلس سے بغداد تک سفر پیدل چل کر طے کیا ،مقصد امام احمد بن حنبل  کی خدمت میں حاضر ہوکر علم حدیث حاصل کرنا تھا۔
وحشت ناک خبر: خود موصوف سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
”جب میں بغداد کے قریب پہنچا، اس آزمائش اور امتحان کی خبر ملی، جس سے ان دنوں امام احمد بن حنبل دو چار تھے، یہ بھی معلوم ہواکہ ان سے ملنے اور حدیث سننے کی سرکاری طورپر پابندی ہے، یہ سننا تھا کہ رنج وملال کا پہاڑ میرے اوپر ٹوٹ پڑا، میں وہیں رک گیا اور سامان ایک سرائے کے کمرے میں رکھ کر بغداد کی عظیم الشان جامع مسجد پہنچا، میں چاہتا تھا کہ لوگوں کے پاس جاکر دیکھوں کہ وہ آپس میں امام موصوف کے بارے میں کیا کیا تبصرے کر رہے ہیں؟ اور ان میں کیا کیا چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں؟؟۔
ایک مہذب حلقہ: اتفاق سے وہاں بہت ہی عمدہ او رمہذب حلقہ لگا ہوا تھا، اور ایک شخص راویان حدیث کے حالات بیان کررہا تھا، وہ بعض کو ضعیف اوربعض کو قوی قرار دیتا، میں نے اپنے پاس والے آدمی سے پوچھا: یہ کون صاحب ہیں؟ اس نے کہا: یحییٰ بن معین! مجھے آپ کے قریب تھوڑی سی خالی جگہ نظر آئی، میں وہاں جاکر کھڑا ہو گیا اور عرض کیا: شیخ ابوزکریا! میں ایک پردیسی آدمی ہوں، جس کا وطن یہاں سے بہت دورہے، میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، آپ میری خستہ حالی کی بنا پر مجھے جواب سے محروم نہ فرمائیں۔ انہوں نے کہا: پوچھو، کیا پوچھنا ہے؟
چند سوالات: میں نے چند ایسے محدثین کے بارے میں دریافت کیا جن سے میر ی ملاقات ہو چکی تھی، انہوں نے بعض کو صحیح اور بعض کو مجروح بتایا، آخر میں ہشام بن عمار کے متعلق پوچھا، موصوف کے پاس میری حاضری بار ہا ہوئی ہے اور ان سے حدیث کا ایک بڑا حصہ حاصل کیا ہے، آپ نے موصوف کا نام سن کر فرمایا: ابوالولید ہشام بن عمار، دمشق کے رہنے والے، بہت بڑے نمازی، ثقہ بلکہ اس سے بڑھ کر ہیں۔
میرا اتنا پوچھنا تھا کہ حلقہ والے چیخ پڑے جناب بس کیجیے دوسروں کو بھی پوچھنا ہے۔ میں نے کھڑے کھڑے عرض کیا میں آپ سے احمد بن حنبل کے بارے میں پوچھنا چاہتاہوں۔ ”یہ سن کر یحییٰ بن معین نے بڑی حیرت سے مجھے دیکھا اورکہا: ”ہم جیسے احمد بن حنبل کے بارے میں تنقید کریں گے؟ وہ مسلمانوں کے امام، ان کے مسلمہ عالم اور صاحب فضل وکمال، نیز ان میں سب سے بہتر شخص ہیں“۔
امام احمد بن حنبل کے مکان پر: اس کے بعد میں و ہاں سے چلا آیا اورپوچھتے پوچھتے امام احمد بن حنبل کے مکان پر پہنچ گیا، میں نے دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹائی، آپ تشریف لا ئے اور دروازہ کھول دیا، انہوں نے مجھ پر نظر ڈالی ،ظاہر ہے میں ان کے لیے ایک اجنبی تھا، اس لیے میں نے کہا:حضرت والا! میں ایک پردیسی آدمی ہوں، اس شہر میں پہلی بار آنا ہوا ہے، طالب حدیث ہوں اور یہ سفر محض آپ کی خدمت میں حاضری کے لیے ہوا ہے!! انہوں نے فرمایا:”اندر آجاوٴ، کہیں تمہیں کوئی دیکھ نہ لے“۔(جاری ہے)

Flag Counter