Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی صفر المظفر 1431ھ

ہ رسالہ

7 - 19
***
امت مسلمہ کے مسائل ومشکلات
از: ڈاکٹر مصطفی محمد طحان
ترجمہ:ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی
کوئی بھی اس بات سے اختلاف نہیں کرسکتاکہ ہماری قوم عالمی تہذیبی میدان میں پچھڑی ہوئی ہے، ہم صرف چیزوں کااستعمال کرتے ہیں، کسی چیزکی ہمارے یہاں پیداوار نہیں، ہم تقلیدکرتے ہیں، ایجادنہیں کرتے، ہم نے اپنے معاملات کو دوسروں کے حوالے کیاہے ، ہماری گاڑی چلانے والے دوسرے ہیں اور ہماری گاڑی ان کی مصلحتوں اورمفادات کے مطابق ہی چلتی ہے، اس تنزل کے اسباب کاتجزیہ کرنے والے دوگروہ میں تقسیم ہوگئے ہیں :
ؤایک گروہ سامراجیت کوہماری تمام تر پس ماندگی اورتنزل کاذمے دارٹھہراتاہے۔ 
ؤدوسرا گروہ امت کے تمام حلقوں پرچھائے ہوئے جہل ولاعلمی، اخلاقی گراوٹ اور علمی وفکری جمودکوہی حقیقی سبب گردانتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام نے سرداری کاتاج پہن لیاہے اورقیادت کی کمی کوپوراکیاہے۔ 
اس گروہ کاخیال ہے کہ اگریہ امت اپنے دین اوراخلاق کومضبوطی سے تھامے ہوئے سامراجی حملوں کے مقابلے پراتر آئے، اپنے علوم میں ندرت وتنوع اور ایجادواختراع سے کام لے، اپنی تہذیب اورفکرمیں ترقی کرے تو سامراج ناکام و نامراد ہوجائے گا، جس کے نتیجے میں میدان مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہوگا،سامراج خود اسلام سے متاثرہوگا، اس کاکوئی اثرامت پرنہیں پڑے گا، اس طرح کے واقعات اس امت کے ساتھ تاتاریوں اورصلیبیوں کے حملوں کے وقت پیش آچکے ہیں، جب یہ امت اپنی علمی وفکری جولانی اورجوانی کے دور میں تھی۔ 
آخری سامراجی حملے کی ابتدا دسویں صدی ہجری میں ہوئی اوریہ حملہ چار صدیوں تک چلتارہا،اخیرمیں پہلی جنگ عظیم کے بعدمسلمانوں کے علاقوں پر مکمل کنٹرول اوربالادستی حاصل کرنے میں سامراج کوکامیابی ملی، ان علاقوں میں مسلمانوں پر بے پناہ ظلم وستم ڈھایاگیا، سامراجی قبضے نے امت مسلمہ کومختلف قبیلوں، گروہوں اور چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں تقسیم کردیا اورامت مسلمہ کے اتحادووحدت کی بنیاد ”فکراسلامی“ سے نبردآزمائی کی، تعلیم یافتہ طبقے میں خصوصاً اورعوام کے ذہنوں میں عموماً اس فکرکو پیوست کردیاکہ مشرقی اسلامی علاقے اگراپنی غفلت سے بیدار ہونا چاہتے ہیں توان کے لیے ضروری ہے کہ دین کواسی طرح اپنی زندگی سے اتارپھینکیں، جس طرح ہم نے کیاہے اوریورپی علمی اور سائنسی تہذیب کی طرف متوجہ ہوں، کیوں کہ اس میں پہلے بھی اورآج بھی ان کا علاج اور تمام پچھڑی ہوئی قوموں کاعلاج ہے۔ 
دین کے ساتھ مغرب کے سلوک کی الگ ہی داستان ہے
حکومت چرچ کی تھی، تمام افرادبشمول حکام وقائدین اس کے تابع فرمان تھے، چرچ نے اپنے عقائدکی بنیادچند یونانی علمی اورفلسفیانہ نظریات پررکھی تھی، جب بیداری کادورشروع ہوااورسائنس دان تحقیق اورتجزیہ کرنے لگے توان کوچرچ کے علمی اور فلسفیانہ نظریات میں کمی نظرآنے لگی اورخلل کااحساس ہونے لگا، اہلِ کنیسہ کے لیے یہ بات برداشت سے باہرتھی کہ وہ اپنے عقائد ونظریات سے دست بردارہوجائیں،یاکسی قسم کی مفاہمت کرلیں،یاصاف اورواضح تنقیداورمسلمات کی صحیح تحقیق کوقبول کرلیں، بلکہ ان لوگوں کا خیال تھاکہ ان بنیادی نظریات کے کسی حصے میں،کسی بھی قسم کی تبدیلی یاکمی ہوجائے تو یقینی طورپرپورامحل ہی منہدم ہوجائے گااورپورے دین کاہی خاتمہ ہوجائے گا، اسی وجہ سے اہل کنیسانے اپنی پوری قوت کے ساتھ ان سائنس دانوں اور علماء کامقابلہ کیا، ان کوجیل کی کوٹھریوں میں ٹھونس دیا، قتل کیااورجلایا، روزبروزاس چیلنج میں اضافہ ہونے لگا (اسی میں بیداری کے قائدین اورسائنس دانوں کی بھلائی تھی) جس کے نتیجے میں اہل کنیسہ کی گوشہ نشینی میں اضافہ ہوتاگیا، یہاں تک کہ ان کامکمل زوال ہوگیا، یہ دشمنی چرچ اور نصرانیت کی حدتک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کادائرہ ہردین تک وسیع ہوگیا، دین ان کی نظروں میں دھوکہ اورفریب کا نام بن گیا،جس میں عقلی تجربات کے سامنیٹھہرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی، اس کے عقائدکی بنیاد(ان کے گمان کے مطابق)بلادلیل اندھی فرماں برداری اور تقلید پر ہوتی ہے، وہ علمی روشنی اورمعرفت کی ترقی سے گھبراتا ہے کہ کہیں اس کاپول نہ کھل جائے اور حقیقت لوگوں کے سامنے آشکارنہ ہوجائے۔ 
اس کے نتیجے میں رونماہونے والے برے نتائج
یہ مسئلہ مغربی تہذیب کورخ دینے میں بڑی اہمیت کاحامل ہے، یہیں سے علمی ونظریاتی اورمعاشرتی تبدیلی میں اس کے آثار نمایاں ہوگئے، جس سے ان لوگوں کی زندگی سے دین کے نکلنے کی وجہ سے پایاجانے والاعقلی اورنفسیاتی خلا پُر ہوگیا۔ 
ؤاس کانتیجہ یہ ہواکہ دین صرف ایک نفسیاتی اورشخصی مسئلہ بن کررہ گیا، اس کا تعلق صرف فردسے ہے، اس کے علاوہ معاشرتی، سیاسی اوراقتصادی مسائل کے ساتھ دین کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ 
ؤ اسی طرح دین اورعلوم وفنون اورآداب کے درمیان علمی بیداری کے ابتدائی زمانے ہی سے دشمنی شروع ہوگئی، جس نے اس تہذیب کوملحدانہ بنادیا اورتمام قیدوبند سے آزادکردیا۔ 
ؤجس طرح دین میں انسانی وجودکی تشریح متعین طورپرکی جاتی ہے، اسی طرح مادیت کے علاوہ کسی دوسری چیزپریقین نہ رکھنے والی نئی تہذیب نے بھی انسانی وجودکی تشریح کی کوشش کی اور کہا :
”انسان ایک حیوان ہے، اس کاوجوداس سرزمین پراچانک ہوا ہے، کسی کے سامنے وہ جواب دہ نہیں ہے اورنہ کسی سے اس کوکوئی رہنمائی ملے گی، اس کے اور اس سے پہلے والوں کے تجربات ہی رہنمائی کاواحدمنبع اورسرچشمہ ہیں “۔ 
انسانی وجوداورحیات وکائنات سے اس کے تعلقات کی تشریح میں موجودہ تہذیب نے چند فلسفیانہ نظریات اختیار کیے ہیں، جن کی بنیاددوچیزوں پر ہے :
زندگی مادیت کانام ہے، انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ آزمائش پرنہ اترنے والی کسی بھی چیزپریقین نہ کرے۔ 
زندگی کشمکش کامیدان ہے۔ 
ہیکل اس نظریے کاقائدہے
کشمکش کے بارے میں فلاسفرہیکل نے کہاہے : ”ہرزمانے کی الگ تہذیب ہوتی ہے اوریہ تہذیب دوسرے سابقہ اصول ومبادیات کے ساتھ کشمکش کے ذریعے اپنے آپ کوثابت کرتی ہے، چنداقدارراستے ہی سے نکل جاتے ہیں اورباقی رہنے کے لائق اقدارنئی تہذیب میں باقی رہتے ہیں، جب زمانے میں پختگی آجاتی ہے تواس میں مخالف افکارکاحامل ایک نیاگروہ سامنے آتاہے اورمقابلہ شروع ہوجاتاہے اور نئے زمانے کے لیے نئی تہذیب وجودمیںآ تی ہے “۔ 
یہ فلسفہ جوتمام مغربی افکارکی اصل بنیادہے، اس بات پرپوری توجہ دیتاہے کہ گذشتہ زمانوں کی کوئی بھی چیزقیمتی نہیں ہے اوراس کی کچھ بھی اہمیت نہیں ہے، دوسرے الفاظ میں کوئی شخص بھی ادیان میں رہنمائی کی امید نہ رکھے، کیوں کہ اس پر ایک طویل زمانہ گزرچکاہے۔ 
ڈارون کا نظریہ 
ڈارون کانظریہ یہ ہے کہ ”زندگی طاقتوراورکمزورکے درمیان کشمکش کامیدان ہے، طاقتورکامیاب ہوتاہے اورباقی رہتاہے، اس لیے کہ وہی زندگی کامستحق ہے، کمزورمرتاہے، کیوں کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے جینے کامستحق نہیں“۔ استعمار نے اپنے زیراقتدارسب ملکوں میں اسی سیاست اور پالیسی کونافذکیا، ان کے مفکرین، مصنفین اورادباء نے پورے زور کے ساتھ کہاکہ سفیدفام قوموں کے علاوہ دوسری قومیں سفیدفام شرفا اورسرداروں کی خدمت کے علاوہ کسی دوسری شرافت کی مستحق ہی نہیں ہیں۔ 
اس فلسفے اور نظریے کی وجہ سے وہ سبھی بلند اخلاق، اصول اور قدریں ختم ہوگئیں، جن کی دعوت تمام ادیان نے دی ہے اوراسلام نے بھی دی ہے اوراس شعارکو انصاف پسند حکومتوں نے پوری تاریخ میں بلندکیاہے۔ 
مارکس کا فلسفہٴ کشمکش
کارل مارکس نے کشمکش کے فلسفے سے تجاوزتونہیں کیاہے، البتہ اس کو”مادی مفادات کے لیے طبقاتی کشمکش“ میں منحصر کردیا ہے، کشمکش میں تیزی اوربہتے خون کی زیادتی کے اعتبارسے انقلاب میں گہرائی آتی ہے اوراس کی انسانی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے، یہی اس مغربی تہذیبی فلسفے کے اہم اور بنیادی منصوبے ہیں،جن کویورپین مشنری اپنے ساتھ ہمارے ملکوں پرمغربی فوجوں کی بالادستی کے دن ہی سے لے آئی ہے ۔ 
پوراکاپوراعالم اسلام غیرملکی قبضے میں چلاگیا، استعمارمسلمانوں کے ملکوں میں ایسے کام انجام دیناچاہتاہے جوکبھی نہ کبھی ختم ہونے والے عسکری اورفوجی قبضہ تک ہی محدودنہ ہو،بلکہ مسلمانوں کی تہذیب اورثقافت ہی تبدیل کردی جائے، اس کے لیے سیمنارمنعقدکیے جاتے ہیں اورفوجی ماہرین کے ساتھ ان سیمناروں میں منصوبہ بندی، تعلیم، قانون اورمشنری کے ماہرین کو بھی شریک کیاجاتاہے، مشنری کالشکرنئی تہذیب کو اپنے ساتھ لے کرفوجی لشکرکے ساتھ ساتھ چلتا ہے، جب وہ عالم اسلام کونصف صدی یااس سے زائدمدت کے بعد چھوڑدیں گے توایک نیامسئلہ پیدا ہوجائے گاکہ ان علاقوں کااسلام کے ساتھ صرف تاریخی ناموں کی حدتک تعلق باقی رہے گا۔ 
وہ اسلام کے ہرشعبے میں تبدیلی کرڈالیں گے، اس کی صورت مسخ کردیں گے اور اس کابدل بھی پیش کریں گے، وہ دعوی کریں گے کہ وہ تو ہمارے ملکوں کی ترقی کے لیے ہی استعماری نظام نافذکررہے ہیں اوروہ ہمارے دوست ہیں، لیکن ان دوستوں نے کیاکیا؟
سیاسی میدان 
سامراجی سیاست کی بنیادمندرجہ ذیل چیزوں پرہے :
تقسیم وفرقہ بندی
استعمارنے عالم اسلام میں سب سے پہلے یہ کام کیاکہ عالم اسلام کوچھوٹے چھوٹے حصوں اور ملکوں میں تقسیم کردیا، پہلے مرحلے میں عربوں کواس بات پرراضی کرلیاکہ وہ ترکوں کے خلاف اس دعوی کے ساتھ انقلاب برپاکردیں کہ عرب ہی خلافت کے زیادہ حق دار ہیں، کیوں کہ اسی صورت میں تمام عرب ملکوں پرمشتمل ا یک عظیم شہنشاہیت قائم ہوسکتی ہے، پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں ترکی ایک محدوداورچھوٹی سی مملکت بن کررہ گیااورعرب علاقہ بیس سے زائدچھوٹے اوربڑے ملکوں میں تقسیم ہوگیا،یہ ممالک مسلسل سرحدی مسائل سے دوچارہیں، استعمارنے ان میں ایسی چیز چھوڑی ہے جو مستقل کشمکش کے لیے ایندھن کارول ادا کررہی ہے، جب بھی سکون اورامن ہوتاہے توایندھن میںآ گ لگ جاتی ہے، عجیب وغریب بات یہ ہے کہ برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعدمنتشر رہنے کے باوجود اس کو متحد کیا، لیکن مسلمانوں کے ملکوں کو متحد رہنے کے باوجود منتشر کیااوراس کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ دیا۔ 
لادینیت
ملکی اورغیرملکی ادبا نے نئی تہذیب کی ترویج واشاعت شروع کی، ترکی میں کوک الپ، مصرمیں طہ حسین، قاسم امین اورعلی عبدالرزاق، احمدخان نے ہندوستان میں اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے دنیاکے دوسرے حصوں میں شروع میں، غیر واضح اندازمیں اوربعدمیں پوری وضاحت کے ساتھ کھلم کھلا لکھناشروع کیاکہ دین کا مطلب صرف فرداوراس کے خالق کے درمیان کاتعلق ہے، اس کے علاوہ فردکے ساتھ اس کاکوئی تعلق نہیں، اگرقوم جہالت اورپسماندگی کوختم کرناچاہتی ہے تواس کے لیے ضروری ہے کہ دینی مرحلہ یعنی خرافات کے مرحلے سے نکل کرمادی علمی یعنی تحقیق کے مرحلے میں منتقل ہوجائے، کوئی شخص نمازپڑھنا، دعاکرنااورالله سے مددطلب کرنا چاہے تووہ اس کاذاتی معاملہ ہے، اس کے علاوہ سیاست، معاشیات، معاشرت، علوم وفنون اور آداب و اخلاق میں دین کاکوئی رول نہیں ہے۔ 
نسل پرستی
جس قومیت کوانھوں نے ہمارے ملکوں میں رواج دیاہے، وہ نسل پرست اور لادینی قومیت ہے، شریف حسین اور انگریزوں کے درمیان مراسلت کے ذریعے طے شدہ معاہدوں سے پتہ چلتاہے کہ متوقع عربی حکومت قوم پرست اورلادین ہوگی، جب قوم دین سے عاری ہوجائے گی تووہ اپنے افرادکومربوط ومنسلک رکھنے کے لیے یقینی طورپردوسرے شعاراوررموزتلاش کرے گی، اسی کے نتیجہ میں مصرمیں فرعونیت، شام میںآ شوریت کاوجودہوا، پھرعلاقے ہی ایک مخصوص وجودپرمشتمل نشانات بن گئے، لبنانیت ایک تہذیب بن گئی، اردنیت اورشامیت الگ الگ تہذیبیں ہوگئیں۔ 
ظالمانہ جمہوریت
اس سے مراد”قوم کی حکومت قوم پر“ہے، یہ ایک طرزِحکومت ہے، مغرب نے اس نظام کونافذکرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اورلوگوں نے اس نظامِ حکومت سے بہت سی آزادیاں بھی حاصل کرلی ہیں، لیکن تیسری دنیامیں جمہوریت کے نام پرآزادی اور شرافت کاخاتمہ کرنے والا نظام نافذکیاجاتاہے۔ 
ان دوستوں نے دستوری میدان میں کیاکیا؟
سامراج نے دستوری پہلوپرسب سے زیادہ توجہ دی ہے، وہ کسی بھی ملک سے یہ اطمینان کیے بغیرنہیں نکلتے کہ اس ملک کی حکومت نے شریعتِ اسلامی کی جگہ مغربی قوانین کونافذکیاہے یانہیں، ”لوزان معاہدہ“ کے پچاس سال بعدترکی ٹیلی ویژن نے مذکورہ معاہدے پردستخط کرنے والے ترکی رہنماعصمت انینوکاایک انٹرویو نشر کیا تھا، اس میں ٹیلی ویژن نے معاہدہ پر پچاس سال گزرنے کے بارے میں پوچھاتو انینونے جواب میں کہا : مغرب نے ہماری آزادی اوراپنی فوجوں کے انخلا کے مطالبوں کو چند شرائط کے ساتھ قبول کیاتھا، ان میں سے اہم شرطیں مندرجہ ذیل ہیں :
خلافت کو ختم کرنا، ملک سے آل عثمان کے تمام افرادکی جلاوطنی، اسلامی قوانین کے بدلے مغربی قوانین کانفاذ، یہ شرط بھی رکھی گئی کہ ان شرائط کے آخری بندکے نفاذ کی نگرانی کے لیے ایک وفدبھیجاجائے گا۔ 
جن ملکوں نے سیاسی آزادی حاصل کی ہے، ان سبھوں نے شریعت اسلامی کوختم کیاہے اوراس کے بدلے مغربی قوانین کونافذکیاہے اورامورشرعیہ کوصرف پرسنل لاء کے قوانین تک محدود کیا ہے، یہ پہلامرحلہ تھا،پھراس کے بعدوالی نسل نے اور زیادہ جرأت سے کام لیاتوانھوں نے پرسنل لاء کوبھی ختم کردیا۔ 
”قانون کالوگوں اورمعاشرے کے ساتھ مضبوط اورگہراتعلق ہے، جب کوئی قانون بنایاجاتاہے تواس کے پیچھے اخلاق اورمعاشرے کاکوئی نہ کوئی فلسفہ کارفرما رہنا ضروری ہے، اسی طرح قانون بنانے والے کے سامنے کوئی نہ کوئی مقصداورشکل ہوتی ہے، جس کے قالب میں وہ پوری انسانیت کوڈھالناچاہتاہے، اسی طرح جب کوئی قانون منسوخ کیاجاتاہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ پہلے سے منظورشدہ اورمعتمدعلیہ اخلاقی نظریے اورتہذیبی فلسفے کومنسوخ اور اس قانون پرمنطبق زندگی کی شکل کوتبدیل کردیا گیاہے، جب استعمار نے ہمارے پاس موجود شرعی قوانین کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور اس کی جگہ اپنے تہذیبی قوانین کو نافذ کیاتواس کامطلب صرف اتناہی نہیں ہے کہ ایک قانون چلاگیااوراس کی جگہ دوسرے قانون نے لے لی، بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ اس ملک کی سرزمین سے اخلاق وتہذیب کا ایک نظام جڑسے اکھاڑکرپھینک دیا گیا اور اخلاق وتہذیب کے دوسرے نظام کی اس کی جگہ بنیادڈالی گئی “۔ (واقع المسلمین وسبیل النھوض بھم ص 177)
ان دوستوں نے تہذیبی میدان میں کیاکیا؟
جب سے استعمارنے مسلمانوں کے ملکوں میں اپناقدم رکھاہے، اس وقت سے انھوں نے مسلمانوں کی تہذیبی بنیاد کوبدلنے کی کوشش کی ہے، اکثرموروثی مدارس کو مقفل کیا گیا، اسلامی یونیورسٹیوں کی قیمت وحیثیت گھٹادی گئی، ان کے فضلاء سے بے توجہی برتی گئی اور ممتاز طلبہ کواپنی یونیورسٹیوں میں بھیجاگیا، تاکہ وہ پڑھ کرمغربی تہذیب وافکار کو اپنے معاشرے میں عام کریں، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ تقریباً ایک صدی گزرنے کے باوجود آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں قائم ادارے اورہمارے طلبہ (جوہمارا مستقبل ہیں)مغربی تہذیب کادرس لیتے ہیں اورحکومت، معاشیات، معاشرت، تاریخ اورکائنات وحیات میں انسانی وجود کی تشریح میں ان کے نظریات پڑھتے ہیں، جب کہ مغربی قائدین نے کئی مرتبہ صراحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ ہمارا اعتماد فوجوں سے زیادہ تعلیمی اداروں پرہے۔ 
ترکی کی رفاہ پارٹی کے سربراہ پروفیسرڈاکٹرنجم الدین اربکان نے ترکی کے یوم آزادی کے موقع پرکہاتھا کہ ”ہماری قوم نے یونان کے لشکروں کوشکست دی اور ان کو ہمارے ملک سے نکال دیا، ہم ہرسال آزادی کاجشن مناتے ہیں،لیکن ہمارے لیے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یونانی لشکرتونکل گیا،لیکن ہمارے طلبہ اب تک یونیورسٹیوں میں ان کے افکاروخیالات اورتہذیب کوسب سے عظیم اورترقی یافتہ سمجھ کرپڑھتے ہیں، امت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حقیقی آزادی ان کے لشکرکے ساتھ ساتھ، ان کے افکاروخیالات اورتہذیب وثقافت کے نکلنے سے حاصل ہوگی“۔ 
ان دوستوں نے اقتصادی میدان میں کیاکیا؟
مذکورہ طرز پر ہی ہم اپنے اقتصادی حالات کاجائزہ لے سکتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے معاشیات کوہمارے منافع اورمفادات سے ہٹاکراپنے منافع اورمفادات سے قریب کیاہے، ہمارے چاہنے یانہ چاہنے کے باوجودعالمی سامراجی نظام (گلوبلائزیشن) کی تیاری میں ہماری ہی دولت سے مدداورطاقت فراہم کی جاتی ہے، تیسری دنیاکا قرض اور اس کو ادا کرنے کی عدم استطاعت، یہاں تک کہ اس کے سود کو ادا کرنے کی عدم استطاعت بھی ان تمام ملکوں کواپنے چنگل میں جکڑے رہنے کے لیے جدید استعماری نظام کی ایک چال ہے، تیسری دنیاکے خزانے بھی ان کے پاس صرف محفوظ امانت کی شکل میں ہیں، بلکہ قائدین یعنی سامراجی ممالک (ان کے اپنے گمان کے مطابق) ان خزانوں کواستعمال کرنے کے زیادہ مستحق ہیں۔ 
یہاں تک کہ تیسری دنیاکے اسٹریٹیجک دولت مثلاً گیس اورپٹرول وغیرہ کوبھی استعمال کرنے اوراس کے ذریعے اپنی مال داری میں اضافہ کرنے کا حق بھی پہلی دنیا ہی کو ہے، بلکہ اس کے حقیقی مالک کو نگرانی کی تنخواہ اوراس کی قیمت کاتھوڑابھی حصہ نہیں دیا جاتا، گلوبلائزیشن کی وجہ سے اس معاملے کی سنگینی میں اوراضافہ ہوگیاہے، جس سے دنیا شطرنج کاایسامہرہ بن گئی ہے،جس سے سردار امریکہ کھیل رہاہے۔ 
ان دوستوں نے معاشرتی میدان میں کیاکیا؟
ہمارے معاشرتی حالات کا بھی یہی حال ہے، اس میں بھی خصوصیت کے ساتھ عورت کامسئلہ بڑا اہم ہے، مغرب والوں کی پوری کوشش ہے کہ عورت کواس کی فطرت سے بغاوت پر آمادہ کردیاجائے اوراس پرمعاش کا بوجھ ڈالاجائے، بڑے افسوس کی بات ہے کہ بہت سے ملکوں میں مسلمان مغرب کے پیچھے چلنے لگے ہیں اوراپنی معاشرتی زندگی میں ہر اعتبار سے ان کی تقلید کررہے ہیں۔ 
اس صورت حال میں کون تبدیلی لاسکتاہے ؟
ہماری زندگی کے صرف ان ہی پہلووٴں میں تبدیلی نہیںآ ئی ہے، بلکہ امت اپنے دین سے متنفرہورہی ہے، اس کے اخلاق میں گراوٹ آرہی ہے اورامت دوسروں میں اپنے لیے نمونہ تلاش کررہی ہے، اپنی زندگی کے تمام میدانوں میں شکست کھانے کے ساتھ ساتھ امت اندرون سے بھی شکست خوردہ اورکمزورہوچکی ہے، ممتازاسلامی شخصیت مسخ ہوکررہ گئی ہے، اب ضرورت ایسے افرادکی ہے جواس میں تبدیلی لاکر تشکیل نو کا کام انجام دے سکیں۔

Flag Counter