Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی صفر المظفر 1431ھ

ہ رسالہ

16 - 19
***
مفلسی کے خوف سے اولاد کا قتل
مولانا مفتی محمد شفیع 
﴿ولا تجعل یدک مغلولة الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط فتقعد ملوماً محسورا ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدرانہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا﴾․ (بنی اسرائیل:33-29)
ترجمہ: اور نہ رکھ اپنا ہاتھ بندھا ہوا اپنی گردن کے ساتھ اور نہ کھول دے اس کو بالکل کھول دینا، پھر تو بیٹھ رہے الزام کھایا ، ہارا ہوا، تیرا رب کھول دیتا ہے روزی، جس کے واسطے چاہے اور تنگ بھی کرتا ہے، اپنے بندوں کو جاننے والا، دیکھنے والا۔
خلاصہ تفسیر
اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن ہی سے باندھ لو ( کہ انتہائی بخل سے بالکل ہاتھ خرچ کرنے سے روک لو ) اور نہ بالکل ہی کھول دینا چاہیے ( کہ ضرورت سے زائد خرچ کرکے اسراف کیا جائے ) ،ورنہ الزام خوردہ ( اورتہی ست ہو کر بیٹھ رہو گے اور کسی کے فقرواحتیاج پر اتنا اثر لینا کہ اپنے کو پریشانی میں ڈال لو کوئی معقول بات نہیں کیوں کہ ) بلاشبہ تیرا رب جس کو چاہتا ہے زیادہ رزق دیتا ہے اور وہی (جس پر چاہے) تنگی کر دیتا ہے ۔ بے شک وہ اپنے بندوں (کی حالت اور ان کی مصلحت) کو خوب جانتا ہے، دیکھتا ہے ( سارے عالم کی حاجات پورا کرنا تو رب العالمین ہی کا کام ہے تو اس فکر میں کیوں پڑے کہ اپنے سے ہو سکے یا نہ ہو سکے،اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال کر سب کی حاجتیں پوری ہی کرو یہ صورت اس لیے بے کار ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی سب کی حاجتیں پوری کر دینا تمہارے بس کی بات نہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی کسی کا غم نہ کرے ،اس کے لیے تدبیر نہ کرے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ حاجتیں پوری کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں ، خواہ وہ اپنے اوپر کتنی ہی مصیبت برداشت کرنے کے لیے تیار بھی ہو جائے ۔ یہ کام تو صرف مالکِ کائنات ہی کا ہے کہ سب کی حاجتوں کو جانتا بھی ہے اور سب کی مصلحتوں سے بھی واقف ہے کہ کس وقت، کس شخص کی، کس حاجت کو، کس مقدار میں پورا کرنا چاہیے ۔ اس لیے انسان کا کام تو صرف اتنا ہی ہے کہ میانہ روی سے کام لے ۔ نہ خرچ کرنے کے موقع میں بخل کرے اور نہ اتنا خرچ کرے کہ کل کو خود ہی فقیر ہو جائے او راہل وعیال، جن کے حقوق اس کے ذمہ ہیں، ان کے حقوق ادا نہ ہو سکیں اور بعد میں پچھتانا پڑے۔
خرچ کرنے میں اعتدال کی ہدایت
اس آیت میں بلاواسطہ مخاطب خود نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہیں اور آپ کے واسطے سے پوری ا مت مخاطب ہے اور مقصود اقتصاد کی ایسی تعلیم ہے جو دوسروں کی امداد میں حائل بھی نہ ہو اور خود اپنے لیے بھی مصیبت نہ بنے اس آیت کے شان نزول میں ابن مردویہ نے بروایت حضرت عبدالله بن مسعود اور بغوی نے بروایت حضرت جابر  ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ سلم کی خدمت میں ایک لڑکا حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری والدہ آپ سے ایک کرتے کا سوال کرتی ہیں ۔ اس وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس کوئی کرتا اس کے سوانہ تھا، جو آپ کے بدن مبارک پر تھا۔ آپ نے لڑکے کو کہا کہ پھر کسی وقت آؤ جب کہ ہمارے پاس اتنی وسعت ہو کہ تمہاری والدہ کا سوال پورا کر سکیں ۔ لڑکا گھر گیا اور واپس آیا او رکہا کہ میری والدہ کہتی ہیں کہ آپ کے بدن مبارک پر جو کرتا ہے وہی عنایت فرما دیں ۔ یہ سن کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے بدن مبارک سے کُرتا اتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ آپ ننگے بدن رہ گئے ، نماز کا وقت آیا، حضرت بلال  نے اذان دی، مگر آپ حسب عادت باہر تشریف نہ لائے تو لوگوں کو تشویش ہوئی ، بعض لوگ اندر حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ کرتے کے بغیر ننگے بدن بیٹھے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
الله کی راہ میں اتنا خرچ کرنا کہ خود مصیبت میں پڑ جائے
اس آیت سے بظاہر اس طرح خرچ کرنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے جس کے بعد خود فقیر ومحتاج ہو جائے او رپریشانی میں پڑ جائے۔ امام تفسیر قرطبی نے فرمایا کہ یہ حکم عام مسلمانوں کے عام حالات کے لیے ہے، جو خرچ کرنے کے بعد تکلیفوں سے پریشان ہو کر پچھلے خرچ کیے ہوئے پر پچتا ئیں اورافسوس کریں ۔ قرآن کریم کے لفظ محسورا میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے (کما قال المظہری) اور جو لوگ اتنے بلند حوصلہ ہوں کہ بعد کی پریشانی سے نہ گھبرائیں او راہل حقوق کے حقوق بھی ادا کر سکیں اُن کے لیے یہ پابندی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عام عادت یہ تھی کہ کل کے لیے کچھ ذخیرہ نہ کرتے تھے، جو کچھ آج آیا آج ہی خرچ فرما دیتے تھے اور بسا اوقات بھوک اور فاقہ کی تکلیف بھی پیش آتی تھی، پیٹ کو پتھر باندھنے کی نوبت بھی آجاتی تھی او رصحابہٴ کرام میں بھی بہت سے ایسے حضرات ہیں جنہوں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنا سارا مال الله کی راہ میں خرچ کر دیا۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے نہ ان کو منع فرمایا نہ ان کو ملامت کی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کی ممانعت اُن لوگوں کے لیے ہے جو فقرو فاقہ کی تکلیف برداشت نہ کرسکیں اور خرچ کرنے کے بعد ان کو حسرت ہو کہ کاش! ہم خرچ نہ کرتے، یہ صورت ان کے پچھلے عمل کو فاسد کر دے گی، اس لیے اس سے منع فرمایا گیا ہے۔
خرچ میں بد نظمی ممنوع ہے
اور اصل بات یہ ہے کہ اس آیت نے بد نظمی کے ساتھ خرچ کرنے کو منع کیا ہے کہ آگے آنے والے حالات سے قطع نظر کرکے جو کچھ پاس ہے اُسے اُسی وقت خرچ کر ڈالے، کل کو دوسرے صاحبِ حاجت لوگ آئیں اور کوئی دینی ضرورت اہم پیش جائے تو اب اس کے لیے قدرت نہ رہے (قرطبی) یا اہل وعیال، جن کے حقوق اس کے ذمہ واجب ہیں، اُن کے حق ادا کرنے سے عاجز ہو جائے ۔ (مظہر) ﴿ملوما محسورا﴾ کے الفاظ کے متعلق تفسیر مظہری میں ہے کہ ملوم کا تعلق پہلی حالت یعنی بخل سے ہے، اگر ہاتھ کو بخل سے بالکل روک لے گا تو لوگ ملامت کریں گے اور محسور کا تعلق دوسری حالت سے ہے کہ خرچ کرنے میں اتنی زیادتی کرے کہ خود فقیر ہو جائے تو یہمحسور یعنی تھکا ماندہ عاجز یا حسرت زدہ ہو جائے گا۔ 
﴿ولا تقتلوا اولادکم خشیة املاق نحن نرزقھم وایاکم ان قتلھم کان خطأ کبیرا﴾․
ترجمہ: اور نہ مارڈالو اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے، ہم روزی دیتے ہیں ان کو ۔اور تم کو بے شک ان کا مارنا بڑی خطا ہے ۔
خلاصہ تفسیر
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشہ سے قتل نہ کرو ( کیوں کہ سب کے رازق ہم ہیں )، ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی ( اگر رازق تم ہوتے تو ایسی باتیں سوچتے)، بے شک ان کا قتل کرنا بڑا بھاری گناہ ہے۔
معارف ومسائل
سابقہ آیت میں انسانی حقوق کے متعلق ہدایات کا ایک سلسلہ ہے، یہ چھٹا حکم اہل جاہلیت کی ایک ظالمانہ عادت کی اصلاح کے لیے ہے، زمانہ جاہلیت میں بعض لوگ ابتدائے ولادت کے وقت اپنی اولاد خصوصاً بیٹیوں کو اس خوف سے قتل کر ڈالتے تھے کہ ان کے مصارف کا بار ہم پر پڑے گا ۔ آیت مذکورہ میں حق تعالیٰ نے ان کی جہالت کو واضح کیا ہے کہ رزق دینے والے تم کون، یہ تو خالص الله تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، تمہیں بھی تو وہی رزق دیتا ہے، وہی ان کو بھی دے گا، تم کیوں اس فکر میں قتل اولاد کے مجرم بنتے ہو ۔ بلکہ اس جگہ الله تعالیٰ نے رزق دینے میں اولاد کا ذکرمقدم کرکے اس طرف اشارہ فرما دیا ہے، ہم پہلے ان کو، پھر تمہیں دیں گے۔ جس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ الله تعالیٰ جس بندہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اہل وعیال کا تکفل یادوسرے غریبوں ضعیفوں کی امداد کرتا ہے تو اس کو اسی حساب سے دیتے ہیں کہ وہ اپنی ضروریات بھی پوری کرسکے اور دوسروں کی امداد بھی کر سکے۔ ایک حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”انما تنصرون وترزقون بضعفائکم“ یعنی تمہارے ضعیف او رکمزور طبقہ ہی کی وجہ سے الله تعالیٰ کی طرف سے تمہاری امداد ہوتی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل وعیال کے متکفل والدین کو جو کچھ ملتا ہے ۔ وہ کمزور عورتوں بچوں کی خاطر ہی ملتا ہے ۔
مسئلہ: قرآن کریم کے اس ارشاد سے اُس معاملے پر بھی روشنی پڑتی ہے جس میں آج کی دُنیا گرفتار ہے کہ کثرت آبادی کے خوف سے ضبط تولید او رمنصوبہ بندی کو رواج دے رہی ہے ۔ اس کی بنیاد بھی اُسی جاہلانہ فلسفہ پر ہے کہ رزق کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھ لیا گیا ہے، یہ معاملہ قتل اولاد کے برابر گناہ نہ سہی ،مگر اس کے مذموم ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
﴿ولاتقربوا الزنیٰ انہ کان فاحشة وساء سبیلا﴾․
اور پاس نہ جاؤ زنا کے، وہ ہے بے حیائی اور بری راہ ہے۔
مختصر تفسیر
اور زنا کے پاس بھی مت پھٹکو ( یعنی اُس کے مبادی اور مقدمات سے بھی بچو)، بلاشبہ وہ ( خود بھی ) بڑی بے حیائی کی بات ہے اور ( دوسرے مفاسد کے اعتبار سے بھی) بری راہ ہے، ( کیوں کہ اس پر عداوتیں اور فتنے اور تضیع نسب مرتب ہوتے ہیں )۔
معارف ومسائل
یہ ساتواں حکم زنا کے متعلق ہے، جس کے حرام ہونے کی دو وجہ بیان کی گئی ہیں، اول یہ کہ وہ بے حیائی ہے او رانسان میں حیاء نہ رہی تو وہ انسانیت ہی سے محروم ہو جاتا ہے، پھر اس کے لیے کسی بھلے برُے کام کا امتیاز نہیں رہتا ۔ اسی معنی کے لیے حدیث میں ارشاد ہے۔ ”اذا فاتک الحیاء فافعل ماشئت“ یعنی جب تیری حیا ہی جاتی رہی تو کسی برائی سے رکاوٹ کا کوئی پردہ نہیں رہا جو چاہو گے کروگے۔ اور اسی لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حیا کو ایمان کا ایک اہم شعبہ قرار دیا ہے ”والحیاء شعبة من الایمان“․ ( بخاری) دوسری وجہ معاشرتی فساد ہے جو زنا کی وجہ سے اتنا پھیلتا ہے کہ اس کی کوئی حد بندی نہیں رہتی اور اس کے نتائج بد بعض اوقات پورے قبیلوں اور قوموں کو برباد کر دیتے ہیں ۔ سارے فتنے چوری ، ڈاکہ، قتل کی جتنی کثرت آج دنیا میں بڑھ گئی ہے اس کے حالات کی تحقیق کی جائے تو آدھے سے زیادہ واقعات کا سبب کوئی عورت ومرد نکلتے ہیں، جو اس جرم کے مرتکب ہوئے۔ اس جرم کا تعلق اگرچہ بلاواسطہ حقوق العباد سے نہیں، مگر اس جگہ حقوق العباد سے متعلقہ احکام کے ضمن میں اس کا ذکر کرنا شائد اسی بنا پر ہو کہ یہ جرم بہت سے ایسے جرائم ساتھ لاتا ہے جن سے حقوق العباد متاثر ہوتے ہیں۔ اور قتل وغارت گری کے ہنگامے برپا ہوتے ہیں ۔ اس لیے اسلام نے اس جرم کو تمام جرائم سے اشد قرار دیا ہے، اس کی سزا بھی سارے جرائم سے زیادہ سخت رکھی ہے، کیوں کہ یہ ایک جرم دوسرے سینکڑوں جرائم کو اپنے میں سموئے ہوئے ہے۔
حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں او رجہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبوپھیلے گی کہ اہل جہنم بھی اُس سے پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں بھی ہوتی رہے گی۔ (رواہ البزار عن بریدہ۔ مظہری)
ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ زنا کرنے والا زنا کرنے کے وقت مؤمن نہیں ہوتا۔ چوری کرنے والا چوری کرتے وقت مومن نہیں ہوتا اور شراب پینے والا شراب پیتے وقت مؤمن نہیں ہوتا۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں ہے ۔ اس کی شرح ابوداؤد کی روایت میں یہ ہے کہ ان جرائم کے کرنے والے جس وقت مبتلائے جرائم ہوتے ہیں تو ایمان ان کے قلب سے نکل کر باہر آجاتا ہے اور جب پھر اس سے لوٹ جاتے ہیں تو ایمان واپس آجاتا ہے ۔ (مظہری)

Flag Counter