Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی صفر المظفر 1431ھ

ہ رسالہ

15 - 19
***
زندگی کا کوئی لمحہ بے فائدہ نہ گزرے
مولانا نور عالم خلیل امینی
یہ جو کہا جاتا ہے کہ انسان کا دل آئینہ ہوتا ہے، سو فیصد صحیح ہے۔ آئینہ قلب اگر صاف ہو تو اس پر منعکس ہونے والی ہر شے خوب صورت اور شان دار لگتی ہے او راگر یہ آئینہ گدلا اور آلودہ ہو تو اس پر منعکس ہونے والی ہر شے گدلی او رمیلی محسوس ہوتی ہے ۔ آئینہ اگر کم گدلا ہو تو بالمقابل شے کم گدلی معلوم ہوگی اور اگر زیادہ آلوددہ ہو تو سامنے کی چیز زیادہ میلی نظر آئے گی۔ سوال ہے کہ انسان کا دل میلا کیوں ہوتاہے؟ تو جواب یہ ہے کہ الله تعالیٰ ہر انسان کو اس کی صحیح فطرت پر پیدا کرتاہے، اس لیے معصوم اور بے گناہ بچے کا دل صاف او ربے میل ہوتا ہے ، کیوں کہ اس نے ابھی زندگی کا تجربہ نہیں کیا ہوتا ہے اور زمانے کے نرم گرم سے ناواقف ہوتا ہے ۔ زندگی کو برتنے کا عمل جتنا دراز اور زندگی کا سفر جتنا طویل ہوتا ہے ، انسان کا تجربہ اسی قدر دراز اور پختہ ہو جاتا ہے، تجربے کی پختگی اور زندگی کی بصیرت آمیزآگہی کے ساتھ ساتھ لوح قلب ، زندگی کی متنوع نگارشات اوراس کی بے پناہ آڑی ترچھی لکیروں سے ہو جاتا ہے ۔ لوح قلب تو زندگی کے تجربات کی پیہم تحریریں اور ٹیڑھی میٹرھی لکیریں اس کی شفافیت کو ختم کر دیتی ہیں اور دل کی تختی میلی ہو جاتی ہے، بالآخر اس کے سامنے کی ہر شئے کا عکس اس پر میلا اور بھدالگتا ہے ، جب کہ اس سے قبل وہی شے اس پر انتہائی بھلی اور پرکشش لگتی تھی۔ 
زندگی کے تجربے او راس کی جان کاریاں، شے کی حقیقت کو عریاں کر دیتی ہیں ، لہٰذا ہر شئے کا حسن وقبح اپنے صحیح حجم میں نظر آنے لگتا ہے ، چوں کہ دنیا دنی ہے ، اس کی کمینگی، خست، فریب دہی اور ظاہر وباطن کا اختلاف، تمام ساکنان جہاں کے نزدیک متفق علیہ ہے ، اس لیے دنیا کی اکثر چیزیں بگاڑ کی کوئی نہ کوئی شکل ضرور رکھتی ہیں ، جو زندگی کے تجربے کے سفر کے ساتھ ساتھ انسان کے سامنے عیاں ہوتی جاتی ہے ، اسی لیے دنیا کی چیزوں کی بدصورتی اور بھداپن اس کے لوح قلب پر نمایاں ہوتا رہتا ہے ، جب کہ ناتجربہ کار اور سادہ لوح جس نے زندگی کے نرم وگرم کو ابھی برتانہ ہو، اس کے نزدیک دنیا کی چیزیں پاکیزہ اور عمدہ نظر آتی ہیں ، کیوں کہ ان کی حقیقت اس پر آشکارا نہیں ہوئی ہوتی ، معصوم بچے کے نزدیک شعلہ اور سرخ پھول میں کوئی فرق نہیں ہوتا، بلکہ شعلہ کا جمال اس کے لیے زیادہ دل فریب ہوتا ہے اور پھول کی سرخی اس کے لیے اتنی پُر کشش نہیں ہوتی۔
انسان کی عمر کے قافلے کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ تجربے کی پختگی بڑھتی جاتی ہے، اس لیے دنیا کی اکثر چیزیں اس کے خانہ خیال میں بری محسوس ہونے لگتی ہیں ، صرف وہی چیزیں اچھی رہ جاتی ہیں جن کے تعلق سے اس کا طویل اور پیہم تجربہ اس کو یقین دہانی کراتا ہے کہ یہ واقعی خوبصورت ہیں او ران کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف نہیں ہے ۔ تجربے کی گہرائی اور زندگی کی معرفت وبصیرت کے بعد ہر چیز اپنی سچائی کے ساتھ اس کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہے ، اس لیے اب اس کے لیے کسی چیز سے فریب کھانے، کسی انسان سے دھوکہ کھانے اور بقول صاحب مقامات حریری:” کسی ورم والے کو فربہ سمجھنے اور انگارہ جیسی کسی چیز کو انگارہ سمجھ کر آگ سلگانے کی غرض سے اس پر پھونک مارنے کی نامعقولیت کا شکار ہونے کا امکان باقی نہیں رہتا۔“
سن رسیدہ اور تجربہ کار انسان انتہائی خوش نصیب ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی تمام چیزوں کو ان کی حقیقت کے مطابق جان چکا ہوتا ہے۔ اس لیے ان سے دھوکا کھانے کا اس کے لیے امکان باقی نہیں رہتا، لہٰذا وہ زندگی میں اپنا کردار ایک صحیح او رمتوازن انسان کی طرح بخوبی انجام دے سکتا ہے اور انسانی برادری کے ایک ذمہ دار اور باشعور فرد کی طرح اپنے فریضے سے عہدہ برآہو سکتا ہے۔ تووہ کسی خلل، پھسلن او رگمراہی وبے ہمتی کا شکار نہیں ہوتا اور زندگی کے تمام گوشوں میں اور اس کی تمام راہوں پرعلیٰ وجہ البصیرت محو سفر اور سرگرم عمل رہتا ہے۔
لیکن مجھے اجازت دیجیے میں یہ کہہ سکوں کہ سن رسیدہ اور تجربہ کار انسان مذکورہ حوالے سے سعادت مند ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر حوالوں سے بد نصیب بھی ہوتا ہے، کیوں کہ وہ اشیاء کی حقیقت او رانسانوں کو ان کے خیر وشر کے پہلوؤں کے ساتھ جان چکا ہوتا ہے اور وہ انسانوں میں پائی جانے والی ان بگاڑ کی جگہوں سے واقف ہو چکا ہوتا ہے، جن کی تعداد اور جہتیں ان کے اندر پائی جانے والی خیر کی جگہوں کی تعداد سے زیادہ ہوتی ہیں کیوں کہ انسان کمزور اور خطا ونسیان سے مرکب پیدا ہوا ہے تو سن رسیدہ انسان کی انسانوں کے حوالے سے یہ معرفت اس کو انسانوں کے ساتھ سوئے ظن پر آمادہ کرتی ہے، اور زندگی کی اکثر چیزیں بے مزہ، بے کیف اور بد شکل نظر آتی ہیں، کائنات کا چہرہ بالعموم اس کے نزدیک سیاہ نظر آتا ہے ، جن انسانوں سے وہ گھلتا ملتا ہے ان میں سے اکثر لوگ اس کو بد اخلاق اور سیرت وکردار سے ناپاک محسوس ہوتے ہیں ، یعنی ان کے محاسن کم او رمعائب زیادہ نظر آتے ہیں ۔ ان میں خیر کا پہلو برائے نام اور شر کا پہلو قابل شمار نظر آتا ہے ۔ نتیجتاً یہ دنیا اپنی ساری چیزوں اور سارے انسانوں کے ساتھ قابل نفرت او رلائق ناپسندیدگی محسوس ہوتی ہے، کائنات کی کوئی شے اس کے لیے باعث انسیت نہیں ہوتی ، کسی چیز میں دل موہ لینے کی کیفیت نہیں ہوتی ، کسی چیز کو دیکھ کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں نہ دل مطئمن ہوتا ہے ۔ بلکہ ہر چیز میں بگاڑ، انتشار ،تباہی اور بربادی ،بے اطمینانی، بے حوصلگی اور بے ہنگمی کی ایک دنیا نظر آتی ہے ۔ سن رسیدہ انسان میں یہ سب کچھ محسوس کرکے زمین کی تعمیر ، دنیا کی آبادی اور کائنات کی بھلائی کے لیے مسلسل سر گرم عمل رہنے او رانسانوں کے لیے فائدہ مند اور کائنات میں دیرپا رہنے والے کاموں میں نسل انسانی کے ممبران کے ساتھ سنجیدہ مشارکت کی ہمت او رجذبہ یکسر فرو ہو جاتا ہے ۔ 
سن رسیدہ اور تجربہ کار انسان کے لیے یہ بڑی خسارے کی بات ہے۔ یہ خسارہ اس کی سن رسید گی، پختہ عقلی، بالغ نظری، زندگی کی بصیرت اورکائنات کی اشیا، حیوانات، نباتات، جمادات کی طویل صحبت کا یقینی نتیجہ ہوتا ہے ، جس سے اس کو مفر نہیں، کہا جاسکتا ہے کہ اس کو سن رسیدگی کی وجہ سے یہ خوش نصیبی تو ملی کہ اس نے تجربہ حاصل کر لیا ، ہر چیز کو اس کی حقیقت کے ساتھ جان لیا، لیکن اس کی بدنصیبی ہے کہ اس نے بچپن اور جوانی کو کھو دیا ، حالاں کہ یہ دونوں انسان کی زندگی کی دو بڑی قدریں ہیں ۔ دنیا کی اعلیٰ اور ارفع دیگر قدریں ان کی برابری نہیں کرسکتیں ۔ اسی لیے دنیا کے بہت سے دانش ور ، شعراء اور ادبا، بچپن اورجوانی کی حد سے نکل جانے کے بعد ان دونوں زمانوں کو یاد کرتے اور ان سے دوبارہ لطف اندوز ہونے کی تمنا کرتے رہے ہیں ۔ حوصلہ مندی کی علامت عزیز اور لذیذ آرزوؤں کی پرورش کے حوالے سے تاریخ میں اپنا امتیازی مقام ریکارڈ کروانے والے ایک قدر آور، انتہائی مشہور او رعربی زبان کے پیغمبر سخن شاعر متنبی ( ابوالطیب احمد بن الحسین الجعفی الکندی354-303ھ) نے تو یہ تک تمنا کی ہے کہ اس کو اس کی نو عمری وجوانی واپس کر دی جائے او را س کے بدلے میں جو پختہ کاری ، ہوشیاری اور زندگی کی آگہی اور بصیرت اس کو دی گئی ہے وہ اس سے واپس لے لی جائے ۔ اس کو یہ سودا کسی حال پسند نہیں کہ حوصلہ مند جوانی چھین کر بے فائدہ اور لایعنی عقل مندی وتجربہ کاری اس کے ہاتھ میں تھما دی جائے ۔ متنبی کہتا ہے۔
لیت الحوادث باعتنی الذی اخذت
منی بحلمی الذی اعطت وتجری
شاعر کہتا ہے: کاش حوادث زمانہ میرے ہاتھ اس جوانی کو بیچ دیتے، جو اس نے مجھ سے اپنی عطا کردہ عقل مندی اور تجربے کے بدلے میں لے لی تھی۔جہاں تک بچپن کا تعلق ہے تو وہ انسان کے لیے نیند سے زیادہ لذیذ خوابوں کا گہوارہ ہوتی ہے، وہ ساری دنیا کو اس کے لیے جنت ریز بنائے رکھتی ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے نزدیک انتہائی شوخ رنگ والی مٹھائی کی طرح پیارا محسوس ہوتا ہے او رایسا لگتا ہے کہ دنیا کی ہر شے بچپن ہی کے جیسی بے کدورت، معصوم اور گناہ نا آشنا ہے، وہ محض مسرتوں اور نغموں ، سحر خیز شادابیوں اور عطربیز کھلے ہوئے انتہائی خو ش نما پھولوں اور ناقابل شمار لذتوں اور کامرانیوں سے ہی عبارت ہوتی ہے ۔ دنیا کے سارے انسان پیکر محبت رشتے دار ، تعاون واشتراک کے لیے بے تاب دوست ، ہمہ وقت ہمدردی کے لیے آمادہ شریک کار نظر آتے ہیں ، نیز انسانی معاشرے کے سارے ارکان اپنے رنگ ونسل اور عمروں کے اختلاف کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ صرف بچوں پر رحم کھانے اور بڑوں کی عزت وتوقیر کا معاملہ کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ، اپنے لیے جو پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لیے پسند کرنا ان کی فطرت ہے، دشمنی ان کی زندگی کی لغت میں نامعلوم لفظ ہے اور تباغض وتحاسد اور ایک دوسرے کے پیچھے پڑنا حرف بے معنی، بلکہ ان کی زندگی میں پہلی مرتبہ سنا جانے والا لفظ ہے ، گویا سارا انسانی معاشرہ لامحدود بھلائیوں اور بے شمار اچھائیوں کا مجموعہ ہے اور وہ اس خیالی او رمثالی معاشرے جیسا ہے جو صرف ایک بار چشم کائنات نے دیکھا تھا ، یعنی نبی خاتم محمد صلی الله علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ اور ان کے بعد کے ان عہدوں میں، جس کے اچھا ہونے کی گواہی خود لسان نبوت نے دی تھی۔
اور رہی جوانی تو اس کا حال تو پوچھیے مت ،اپنی ساری خودرائیوں کے باوجود ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں سب سے زیادہ یہی یاد آتی ہے ۔ یہ زمانہ حوصلے کا زمانہ ہوتا ہے ۔ امنگوں کا عہد ہوتا ہے ، جوش وجذبے کی بے پناہی کے دن ہوتے ہیں ، صبر وتحمل سے انسان اس دور میں سر شار رہتا ہے ، محنت وسرگرمی سے کوئی لمحہ خالی نہیں ہوتا، انسان کے سارے قویٰ اس وقت مکمل طو رپر کام کرتے ہیں، انسان اس عمر میں ماضی ومستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے ، حالات کے جائزے میں لگا رہتا ہے، پیش قدمی کا خواب دیکھتا رہتا ہے ، اپنے کمال وبرتری کو اجاگر کرنے ، اپنی شخصیت کو مسلط کرنے ، اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینے، اپنی شناخت قائم کرنے ، بلندیوں کے حاصل کرنے کی دھن اسے لگی رہتی ہے اور شرف وعزت کا حصول، اونچے سے اونچے مقام ومرتبہ تک پہنچنے اور دنیا میں دھوم مچادینے کی خواہش انسان کو تڑپائے رکھتی ہے۔
لیکن دانش مندی او رتجربے کے حصول والی عمر میں ، جس میں انسان امور زندگانی کا ماہر ہوتا ہے ،انسان عموماً سارے حوصلہ مندانہ صفات اور ولولہ انگیز خوبیوں سے عاری ہو چکا ہوتا ہے،ہمت وتازہ دمی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اورتعمیر ذات وفروغ صفات کا جذبہ دغا دے جاتا ہے ۔ الغرض انسان بوڑھا ہو کر تجربے اور بصیرت کی دولت سے تو بہرہ یاب ہوجاتا ہے، لیکن اپنی حیات مستعار (جس کے لمحے گنے ہوتے ہیں) کی سب سے قیمتی اور عالی قدر نعمت سے محروم ہو جاتا ہے، یعنی معصوم ، پر سکون، لاپروا اور غم نا آشنا بچپن اور جوش عمل، جرأت مندی اورخواب وخیال سے شیریں تر،لذیذ اور برترجوانی سے، تہی دامن ہوجاتا ہے ۔
اسی کے ساتھ وہ قلب کی شفافیت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، جو اس کے بچپن کا نشان امتیاز ہوتی ہے اور جوانی میں بھی بڑی حد تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ کہا جاتا ہے کہ تجربہ زندگانی اور کائنات کی اشیاء کی بصیرت سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ملتا ہے، اس کے بعد میاں انسان کو سوائے اس کے کہ آئینہ قلب میلا ہو جاتا ہے او رعقل وخرد کی تخیل گاہ آلودہ اور ہر شے کو قبیح الشکل بنا دینے کے لائق ہو جاتی ہے۔
جب وہ بچہ اور جوان تھا، چہرہ تر وتازہ تھا، حسن وجمال کی چہرے پر آبکاری وتابانی تھی، دل سے امیدیں چھلکتی تھیں، اب کیا ہے ؟ چہرہ جھریوں والا، مرجھایا ہوا اور دل ڈوبا سا، سب کچھ ملا، لیکن سب کچھ کھو دینے کے بعد ، کیا یہ عظیم خسارہ نہیں، اسے آپ خوش نصیبی نام دیں گے یابدنصیبی؟!
ایسا لگتا ہے کہ الله کی کائنات کا یہی اصول ہے، الله کی یہی سنت ہے کہ انسان کسی چیز کو پانے کے لیے کسی چیز کو کھونے پر مجبور ہوتا ہے ، دنیا کی ہر سچائی کسی قیمت کی متقاضی ہوتی ہے ، آپ کو ایک چیز تب ملے گی جب آپ ایک چیز اپنے ہاتھ سے جانے دیں گے، بلندی چاہتے ہیں تو راتوں رات جاگنا ہو گا، موتیوں کی طلب ہے تو بحرکی غواصی کرنی پڑے گی، الله کی خوش نودی عزیز ہے تو اس کے اوامر ونواہی پر مکمل طور پر کار بند ہونا پڑے گا، علم کی چاہت ہے توپرہیز گاری سے پیار کرنا ہو گا اور دنیا داری کو لگام دینی ہو گی اور بقدر ضرورت سونا ہو گا ، بلکہ بے خوابی کو گلے لگانا ہو گا ، نیز آسودگی شکم سیری کو خیر باد کہناہو گا او رمطالعہ، مذاکرہ اور کتابوں کی دنیا کی ہمہ وقت سیری کو ہی اوڑھنا بچھونا بنانا ہو گا ، مختصریہ کہ لذت اندوزی کو بالکل تیاگ دینا ہو گا۔ اگر یہ سب کچھ منظور ہے تو پھر علم کا دروازہ آپ کے لیے کھلا ہوا ہے او راس کے حصول کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں، جتنا چاہیے اس دولت کو اپنی جھولی میں ڈال لیجیے ۔ آپ کے عالم بننے کے لیے اب سارے اسباب مہیا ہیں ۔ یہاں یہ یادر کھنے کی ضرورت ہے کہ بچپن،جوانی اور بڑھاپا زندگی کی ہر منزل کی اپنی خصوصیت ہے ، جو دوسری میں نہیں پائی جاتی اور ہر ایک میں ایسا فائدہ ہے جو دوسری میں نہیں ، پھر بعض کے فائدے بعض سے بڑھے ہوئے ہیں ، نیز بعض کے فائدے بے پناہ متنوع اور ہمہ گیر ہیں ، جب کے بعض بعض کے فائدے اتنے او رایسے نہیں ہیں ، اس طرح زندگی کی بعض منزلیں بعض منزلوں کے لیے قابل رشک، بلکہ لائق حسد ہیں ۔
ایک مسلمان اپنی شریعت کی طرف سے اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام مراحل کی غیر معمولی قدر کرے، تاکہ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے کی طرف سفر کر لینے کے بعد، اس کو پہلے مرحلے کی ناقدری پر افسوس نہ ہوں ۔ حدیث میں کہا گیا ہے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جاننا چاہیے ، زندگی کو موت سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مال داری کو غربت سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے۔ ہر مسلمان کو اس نبوی نصیحت کو حرز جاں بنا لینا چاہیے، بلکہ اپنی زندگی کو جینے اور برتنے کے لیے کلید کے طور پر اس نصیحت کو استعمال کرنا چاہیے۔ لہٰذا کوشش کرنی چاہیے کہ زندگی کا کوئی لمحہ دنیا اور آخرت کے حوالے سے خیر اندوزی کے بغیر نہ گزرے۔

Flag Counter