Deobandi Books

الفاروق رمضان المبارک 1438ھ

ہ رسالہ

9 - 18
سیرت نبوی کا تجارتی پہلو

مولانا محمد حذیفہ ہردے پوری
	
جزیرہٴ عرب ایک بالکل بے آب و گیاہ علاقہ ہے، جہاں کھیتی باڑی کرنے یا مویشی پالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور چوں کہ اس دور میں اہلِ عرب علم وہنر اور فنون سے بھی نا آشنا تھے، اس لیے ان کے لیے معاش کے طور پر ایک پیشہ تجارت ہی بہترین قرار پاسکتاتھا، ویسے بھی جزیرہٴ نما عرب دنیا کے عین وسط میں ہونے کی بنا پر مختلف ملکوں کے درمیان ایک بہترین مقام اتصال تھا، اس لیے یہاں کے باشندوں کا عام پیشہ تجارت تھا اور وہ تجارت کے سلسلے میں دور دراز کے ممالک کی طرف سیاحی کرتے رہتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے ایک جانب تو بحر ہند سے لے کر بحیرہٴ روم تک اور دوسری جانب جنوبِ عرب میں عمان ویمن سے لے کر شمال میں فلسطین وشام تک چلتے رہتے تھے۔ اس طرح یہ بڑی بڑی تجارتی شاہ راہیں انہیں کے قبضے میں تھیں او ران کے بڑے بڑے تجارتی کارواں مال واسباب سے لدے ہوئے آتے جاتے رہتے تھے۔ موسم گرما میں ان کے سفرشمال میں شام کی طرف ہوتے اور موسم سرما میں جنوب میں عمان ویمن کی طرف ۔ آبادی کا بیشتر حصہ اسی تجارت پر گذر بسر کرتا، اپنا بیشتر سرمایہ تجارتی کاموں میں لگائے رکھتا، قافلوں کی واپسی پر منافع آپس میں تقسیم ہوتے۔

یہ تاجر پیشہ لوگ دوسرے باشندوں کی بہ نسبت آسودہ تھے، ان میں سے قبیلہٴ قریش کا تجارتی مقام تو بہت بلند تھا، بلکہ وہ عرب کی پوری تجارت پر حاوی تھے جس کی شہادت خو دالله جل شانہ نے اپنے کلام مقدس میں دی ہے ﴿لِإِیْلَافِ قُرَیْْشٍ،إِیْلَافِہِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاء وَالصَّیْْفِ﴾․(القریش، آیت:2-1)

ماضی قریب کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمید الله اپنی تصنیف ”رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیاسی زندگی“ میں لکھتے ہیں”چین وعرب کی تجارت عرب سے ہو کر یورپ جاتی تھی، قریش کا عرب کی تجارت پر حاوی رہنا، مصر وشام، عراق وایران، یمن وعمان، حبش وسندھ وغیرہ سے انہوں نے جو تجارتی معاہدے کر رکھے تھے اوررحلة الشتاء والصیف کے باعث شمال وجنوب کے جس طرح قلابے ملاتے رہتے تھے وہ سب جانتے ہیں۔“ ( ص:37)

حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے خانوادہٴ قریش میں ہی آنکھیں کھولیں او راسی تجارتی ماحول میں نشو ونما پائی، لہٰذا آپ تجارت جیسے مقدس پیشے سے الگ کیسے رہ سکتے تھے؟! آپ کے چچا ابو طالب بھی تاجر تھے اورتجارت کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کیا کرتے تھے، دادا کی وفات کے بعد انہوں نے آپ کی پرورش کا ذمہ اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آپ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب رکھا، اسی محبت کی بنا پر آپ کو اپنے ساتھ سفر پر بھی لے جانے لگے۔

آپ کا پہلا تجارتی سفر
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک12 سال دو ماہ ہوچکی تھی کہ آپ کے چچا ابو طالب نے قریش کے قافلہٴ تجارت کے ساتھ شام کا ارادہ کیا، مصائبِ سفر کے خیال سے ابو طالب کا ارادہ آپ کو ہم راہ لے جانے کا نہ تھا، عین روانگی کے وقت آپ کے چہرے پر حزن وملال کے آثار دیکھے، اس لیے آپ کو اپنے ہم راہ لے لیا اور روانہ ہوئے، جب شہر بُصریٰ کے قریب پہنچے تو وہاں ایک نصرانی (بقول بعض یہودی) راہب تھا، جس کا نام جرجیس تھا اور بحیرا راہب کے نام سے مشہو رتھا۔ بحیرا کی آپ سے ملاقات ہوئی، اس نے حضور صلی الله علیہ وسلم کے پر نور چہرے پر علاماتِ نبوت دیکھیں اور آپ کو آنے والے نبی کی پیشن گوئی کا مصداق پایا تو حضرت ابو طالب کو تاکید کی کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر عظیم الشان بنے گا، لہٰذا اسے شام کے یہودی دشمنوں سے بچایا جائے، چناں چہ حضرت ابو طالب نے فی الفور آپ کو مکہ واپس بھیج دیا۔

کاروباری مشاغل
جیسا کہ اوپر گذرا کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا اصلی خاندانی پیشہ تجارت تھا اور آپ بچپن ہی میں ابو طالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرماچکے تھے، جس سے آپ کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہو چکا تھا، اس لیے آپ کو تجارت سے بڑی دلچسپی تھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے پیارے چچا ابو طالب کے کندھوں کو جو پہلے سے ہی کثیر العیال تھے، مزید گراں بار کرنا نہیں چاہتے تھے، اس لیے آپ نے تجارت کوجاری رکھتے ہوئے ذریعہٴ معاش کے لیے اسی پیشہ کو اختیار فرمایااور تجارت کی غرض سے شام وبصری اور یمن کا سفر فرمایا اور ایسی راست بازی او رامانت ودیانت کے ساتھ آپ نے تجارت کا کاروبار کیا کہ آپ کے شرکا او رتمام اہل بازار آپ کو امین کے لقب سے پکارنے لگے۔ ایک کام یاب تاجر کے لیے امانت ، سچائی، وعدہ کی پابندی اور خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں، ان خصوصیات میں مکہ کے تاجرامین نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے، اس کی مثال تاریخِ عالم میں نادرِ روز گار ہے۔ آپ جلد ہی اپنے ان اوصاف کی وجہ سے مکہ کے کام یاب ترین تاجر ثابت ہو گئے اور پوری قوم میں آپ کا نام صادق اور امین مشہور ہوگیا، آپ کی راست بازی او رحسنِ کردار کا سکہ ہر فردِ بشر کے دل پر بیٹھ گیا او رمکہ کے بڑے بڑے تاجر او رمال دار یہ خواہش کرنے لگے کہ آپ ان کا سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے کاروبار چمکائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کچھ دنوں تک سائب بن قیس مخزومی کے سرمایہ سے تجارت کرتے رہے، بلکہ انہوں نے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کو تاجرِ امین کے لقب سے نوازا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کے کاروبار کا طریقہ کار
آپ صلی الله علیہ وسلم ہر معاملہ سچائی او رامانت داری سے کرتے اور ہر معاملے میں سچا وعدہ کرتے اور جو وعدہ کرتے اس کو پورا ہی کرتے۔ آپ کے تجارتی ساتھی عبدالله بن ابی الحمساء بیان کرتے ہیں کہ میں نے بعثت سے پہلے ایک بار نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے ایک معاملہ کیا، میرے ذمے کچھ دینا باقی تھا، میں نے عرض کیا کہ میں ابھی لے کر آتا ہوں۔ اتفاق سے گھر جانے کے بعداپنا وعدہ بھول گیا، تین روز بعد یاد آیا، میں آپ سے واپسی کا وعدہ کرکے آیا تھا، یاد آتے ہی فوراً آپ صلی الله علیہ وسلم کے مکان پر پہنچا ،معلوم ہوا کہ دو روز گذر گئے، آج تیسرا دن ہے، وہ مکان پر نہیں آئے، گھر والے خود پریشان ہیں، میں یہاں سے روانہ ہوا او رجہاں جہاں خیال تھا، سب جگہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو تلاش کیا، کہیں نہیں ملے تو احتیاطاً وعدہ گاہ پر پہنچا میری حیرت کی انتہا نہ رہی، جب دیکھا کہ آپ اسی مقام پر موجود ہیں اور میرا انتظار کر رہے ہیں اور زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مسلسل تین دن انتظار کی زحمت اٹھانے کے بعد بھی جب میں نے معذرت کی تو آپ نہ ناراض ہوئے، نہ لڑائی جھگڑا کیا اور نہ ڈانٹ ڈپٹ کی، صرف اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے اور وہ بھی دھیمی آواز میں”یا فتی! لقد شققت علي، أنا ھھنا منذ ثلاث انتظرک․“ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:4996)

کہ ارے بھائی! تونے مجھے زحمت دی، میں تین دن سے اسی جگہ تمہارا انتظار کر رہاہوں۔ (ماخوذ از سیرة المصطفی96/1، سیرة النبی129/1)

تجارت کے کاروبار میں آپ صلی الله علیہ وسلم اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔ عبدالله بن سائب  فرماتے ہیں کہ میں زمانہٴ جاہلیت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا شریک تجارت تھا، جب مدینہ منورہ حاضر ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو پہچانتے بھی ہو؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! کنت شریکي، فنعم الشریک، لاتداری ولا تماري آپ تو میرے شریک تجارت تھے او رکیا ہی اچھے شریک تھے، نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے۔ (سیرة المصطفی:96/1)

قیس بن سائب مخزومی فرماتے ہیں کہ زمانہٴ جاہلیت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم میرے شریک تجارت تھے”وکان خیر شریک، لا یماري ولا یشاري“ آپ بہترین شریک تجارت تھے، نہ جھگڑتے تھے اور نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے۔ (حوالہ بالا)

آپ صلی الله علیہ وسلم کے کاروبار کے ایک ساتھی کا نام ابوبکر بھی تھا، وہ بھی مکہ ہی میں قریش کے ایک سوداگر تھے، وہ کبھی کبھی سفر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔ (سیرة النبی126/1)

عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے تو حضور صلی الله علیہ وسلم بھی اپنا سامانِ تجارت ان میلوں میں لے جایا کرتے، آپ کی دیانت داری کی بنا پر آپ کا سامان میلے میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا۔ ایک دفعہ ایک میلے میں آپ بیس اونٹ لائے، مگر اسی وقت کسی کام سے باہر جانا پڑ گیا تو اپنے غلام کو تاکید کر گئے کہ ان اونٹوں میں سے ایک لنگڑا ہے، اس کی نصف قیمت وصول کی جائے۔ فارغ ہو کر آپ واپس تشریف لائے تو اونٹ فروخت ہو چکے تھے۔ غلام سے دریافت کیا تو اس نے معذرت کی کہ مجھے خریداروں کو لنگڑے اونٹ کی بات بتانا یادنہ رہا اور میں نے اس کی بھی پوری قیمت وصول کر لی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خریداروں کا پتا دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ یمن کی طرف سے آتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس واقعے پر بڑا ملال تھا، فوراً غلام کو ساتھ لیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر ان کی تلاش میں چل دیے، ایک دن او رایک رات کی مسافت طے کرنے کے بعد ان کو پالیا او ران سے پوچھا کہ تم نے یہ اونٹ کہاں سے خریدے ہیں؟ وہ بولے کہ ہمارے مالک نے ہمیں یمن سے میلے میں محمد بن عبدالله کے تمام اونٹ خریدنے کے لیے بھیجا تھا ااور تاکید کی تھی کہ اس کے سوا کسی اور سے کچھ سامان نہ خریدنا، ہم وہاں تین دن تک محمد صلی الله علیہ وسلم کے مال کو تلاش کرتے رہے، آخر تین دن کے بعد ان کا مال منڈی میں آیا تو ہم نے اطلاع پاتے ہی خرید لیا، آپ نے فرمایا بھائیو! ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ لنگڑا ہے، سودا کرتے ہوئے میرا ملازم بتانا بھول گیا، اب وہ اونٹ مجھے دے دو اوراس کی قیمت واپس لے لو، یا پھر اس کی آدھی قیمت مجھ سے وصول کر لو۔ اتفاق سے ابھی تک انہیں اونٹ کے لنگڑے پن کا علم نہ ہوا تھا، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہ اونٹ دیکھتے ہی فوراً پہچان لیا او روہ اونٹ ان سے لے کر اس کی قیمت واپس کر دی۔ بعد میں جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو انہوں نے کہا ہم تو پہلے ہی سوچتے تھے کہ ایسا شخص کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا، فوراً خدمتِ اقدس میں پہنچے اور شرفِ اسلام سے بہرہ مند ہوگئے۔ (محدث میگزین، رسول مقبول نمبرص:188)

ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ نے بیرونی تجارت میں بھی حصہ لیا اور آپ مکہ میں گھوم پھر کر بھی کاروبار کیا کرتے تھے۔

الغرض ابوطالب کے ساتھ آپ بچپن ہی میں بعض تجارتی سفر کرچکے تھے۔ ہر قسم کا تجربہ حاصل ہو چکا تھا اور آپ کے حسنِ معاملہ کی شہرت ہر طرف پھیل چکی تھی۔ نوخیز ونوجوان محمد صلی الله علیہ وسلم گلہ بانی سے آگے بڑھ کر میدانِ تجارت میں آئے تو آپ کے تعلقات وسیع ہوئے۔ لوگوں کو آپ کو آزمانے اور پرکھنے کا موقع ملا، مگر یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو زیادہ قریب سے دیکھا وہی آپ کے سب سے زیادہ گرویدہ ہوئے او رایک عجیب بات یہ ہے کہ صرف دس بارہ سال کے عرصے میں آپ کی غیر معمولی امانت داری ، راست بازی اور سچائی نے سب ہی مکہ والوں کو یہاں تک موہ لیا کہ وہ آپ کا نام لینا بے ادبی سمجھنے لگے، یہی مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور سیٹھ، جن کو اپنی دولت پر ناز تھا، جن کو اپنے بین الاقوامی تعلقات پر فخر تھا کہ ان کے تجارتی قافلے شام، یمن اور فارس وغیرہ جاتے ہیں، افریقہ کے بازاروں میں ان کا لین دین ہوتا ہے، ان ملکوں کے امیروں اور بادشاہوں سے ان کی راہ ورسم ہے، ان سے اپنی بات منواسکتے ہیں، یہی رؤسائے قریش، جو اپنے سوا کسی کو نظر میں نہیں لائے تھے، جو دوسروں کی گردنیں اپنے سامنے جھکوانا چاہتے تھے، جن کے مشاعروں کی جان ان کے وہ فخر یہ قصیدے ہوا کرتے تھے، جن میں وہ اپنی عظمت اور بڑائی کے ترانے گاتے اور کوئی ان کاتوڑ کرتا تو لڑ پڑتے تھے، یہاں تک کہ خوں ریز جنگ کی نوبت آجاتی تھی۔ دنیا جانتی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ یتیمِ عبدالله کی غیر معمولی سچائی اور امانت داری نے ان سیٹھوں اور رئیسوں کو اس حدتک متاثر اور گرویدہ بنا دیا تھا کہ وہ آپ کو ”الصادق“ یا ”الامین“ ہی کہتے تھے، نام لینا بے ادبی سمجھتے تھے، یہ دو لفظ یہاں تک زبانوں پر چڑھ گئے کہ انہوں نے قومی لقب کی حیثیت اختیار کر لی۔

آپ  صلی الله علیہ وسلم  کا شام کا دوسرا سفر، نیز حضرت خدیجہ سے نکاح
ان دنوں مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ایک معزز خاتون سیدہ خدیجہ بنت خویلد  تھیں، جو دوبار بیوہ ہو چکی تھیں، انہوں نے باپ سے کثیر جائیداد پائی تھی او راب تمام تر توجہ تجارت کی طر ف مبذول کر رکھی تھی اور اپنی تجارت کوباقی رکھنے کے لیے انہیں کسی ایسے امانت دار شخص کی ضرورت تھی جو کاروباری سلیقہ اور تجارتی تجربہ بھی رکھتا ہو۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی عمر اگرچہ تقریباً 23 سال تھی، مگر آپ کے اوصافِ حمیدہ کے چرچے شروع ہو گئے تھے، کاروباری سلیقے کی بھی شہرت ہو چکی تھی اور تجارتی قافلے کے ساتھ شام جاکر بیرونی تجارت کا بھی آپ کو تجربہ ہو چکا تھا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ حضور صلی الله علیہ وسلم ان کا سامانِ تجارت سر زمینِ شام کی طرف لے جائیں اور معاملہ یہ طے ہوا کہ وہ آپ کو دوسرے لوگوں کی بہ نسبت دوگنا منافع دیں گی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب سے مشورہ کرنے کے بعد یہ پیش کش قبول فرمالی اور 23 یا 24 برس کی عمر میں دوسری بار شام کی طرف روانہ ہوئے، واپسی پر آپ نے ایسا مال تلاش کیا جس کا مکہ میں فوراً نکاس ہو جائے، آپ نے شام سے یہ مال لاکر مکہ معظمہ میں فروخت کیا تو کافی نفع ہوا۔ حضرت خدیجہ نے شام جاتے وقت جب مال سپرد کیا تو اپنے بھروسے مند غلام میسرہ کو بھی ساتھ کر دیا۔ بہانہ یہ تھا کہ وہ خدمت کرتے رہیں گے او رمقصد یہ تھا کہ مال کی نگرانی بھی رکھیں او رحضور صلی الله علیہ وسلم کے عادات واخلاق کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرتے رہیں۔ سفر شام سے واپسی پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے مال کا نفع حضرت خدیجہ  کے سپرد کیا او رمیسرہ نے نہ صرف امانت داری، بلکہ آپ کے عام اخلاق کی بھی ایسی تعریف کی کہ خدیجہ، جو اپنی زندگی کا یہ آخری دور کسی راست باز کے حوالے کرنا چاہتی تھیں دامانِ محمد صلی الله علیہ وسلم میں ان کو گوہرِ مراد نظر آنے لگا، چناں چہ سفرِ شام سے واپسی کے دوماہ پچیس روز بعد حضرت خدیجہ نے آپ کو نکاح کا پیام دیا، آپ نے اپنے چچا کے مشورے سے اس کو قبول فرمایا او رپچیس برس کی عمر میں اپنے سے پندرہ برس بڑی اور دوبار بیوہ ہو چکی خاتون کے ساتھ نکاح کیا۔ نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے اپنا مال حضور صلی الله علیہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کر دیا، مگر آپ نے ان کا سارا مال غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی امداد پر صرف کر دیا اوراپنی معاش تجارت کو باقی رکھا، اسی سے اپنے کنبے کی گزر بسر کرتے۔

تجارت کی خاطر آپ نے بصری او رمدینہ کی جانب کے تجارتی سفر کیے اور انہیں سفروں کے درمیان آپ قریش کے تجارتی شاہ راہوں کے ہر پیچ وخم سے آگاہ ہو گئے، خصوصاً مدینہ کی سیاسی او رجغرافیائی حیثیت اچھی طرح سمجھ لی۔

چند ارشادات نبوی او رنقل کر دینا مناسب سمجھتا ہوں جن سے تجارت او رتجارت پیشہ لوگوں کی عظمت واضح ہو، نیز تجارت میں امت کے لیے آپ کا مقرر کردہ اصول بھی سامنے آسکے:

آپ صلی الله علیہ وسلم سے ایک بار سوال کیا گیا کہ کون سی کمائی پاکیزہ ترین ہے ؟ فرمایا: اپنے ہاتھوں سے کام کرنا اور ہر حلال وجائز خرید وفروخت۔ (السنن الکبری للبیھقی263/5)

تجارت میں حسنِ معاملہ، صداقت، ودیانت او رراست بازی کی ہر دم تاکیدی نصیحت فرماتے رہے، فرمایا: قیامت کے روز تاجر فجار کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے، بجز اس تاجر کے جو اپنے معاملات میں خدا ترس رہا ہو، لوگوں سے حسنِ سلوک کیا ہو اور ہر معاملے میں سچائی کا دامن تھامے رکھا ہو۔ ( ترمذی شریف ،حدیث:1210)

اسی طرح فرمایا: امانت دار اور راست باز تا جر قیامت کے دن صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ (ترمذی شریف حدیث:1209)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے منع فرمایا: بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے احتیاط برتو، کیوں کہ اس طرح مال تو بک جاتا ہے، مگر برکت جاتی رہتی ہے۔ (مسلم شریف، حدیث:4123)

آخری بات یہ ہے کہ بیع کرنے والوں کا سب سے پہلے آپ نے ”تاجر“ نام رکھا، پہلے انہیں”سماسِر“ کہا جاتا تھا اور اس نئے نام کو تمام لوگوں نے بہت پسند کیا۔

Flag Counter