Deobandi Books

الفاروق رمضان المبارک 1438ھ

ہ رسالہ

6 - 18
طلبہٴ کرام اور آج کا پُرفتن دور

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی
سال1437ھ کے اختتام پر حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم کا طلباء جامعہ سے فکر انگیز بیان

نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم، أما بعد! فقد قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ․

وقال رسول الله ا: خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم، أوکما قال علیہ الصلوٰة والسلام․

جامعہ فاروقیہ کراچی کے اساتذہ کرام او رعزیز طلبائے کرام!

ہم سب مل کر الله تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ الله تعالیٰ نے حصول علم کا ایک مرحلہ نہایت خیریت وعافیت کے ساتھ مکمل کروایا، یہ تعلیمی سال اپنے اختتام کی طرف آگیا ہے، دورہ حدیث کے طلباء یہاں موجود ہیں ، وہ اس کے گواہ ہیں کہ میں سال کے شروع سے یہ کہا کرتا ہوں کہ سا ل ختم ہو گیا ہے، تو اب وہ حقیقت آپ کے سامنے آگئی ہے، پیچھے مُڑ کر دیکھیں تو آپ کو ایسا لگے گا، جیسے کل آپ فارم بھر رہے تھے اور کل اور آج میں زیادہ فاصلہ آپ کو نظر نہیں آئے گا اور یہ صورت حال درجہ متوسطہ اوّل سے لے کر دورے تک کی ہے کہ ایک طویل زمانہ گزرا ہے لیکن وہ اس تیزی کے ساتھ گزرا کہ پتہ ہی نہیں چلا، ہم الله تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ الله تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے یہ وقت نہایت خیریت سے اختتام کو پہنچایا اور ہم علمی اعتبار سے ایک قدم ،ایک درجہ آگے بڑھ گئے۔

یہ اجتماع سال کے اختتام کے اعتبار سے ہے کچھ چیزیں لکھ کر دی گئی ہیں، جو آپ کے سامنے پیش کرنی ہیں، لیکن ان سے پہلے مجھے آپ سے چند باتیں عرض کرنی ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بار بار ، بار باراور پھر بار بار، اس بات کا استحضار کرنا چاہیے کہ ہم دینی علوم کے طالب علم ہیں، ہم مدرسے کے طالب علم ہیں ، ہم کسی اسکول، کالج، یونی ورسٹی کے طالب علم نہیں۔

ہماری اساس اور بنیاد صفہ ہے، جس کے معلم محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تھے او راس کے طالب علم او رشاگرد صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین، ہمارا تسلسل وہاں تک ہے ، آپ حضرات جو منتہی درجات کے ہیں، وہ تو خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور ابتدائی درجات کے طلباء بھی جانتے ہوں گے کہ ہمارے ہاں سند کاایک سلسلہ ہے کہ میں نے یہ حدیث فلاں استاد سے سنی، اور انہوں نے فلاں استاد سے او رانہوں نے فلاں سے اور یہ سلسلہ چلتے چلتے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔

چناں چہ میرے دوستو! بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ وابستگی کے حوالے سے بہت مضبوط ہوں، آپ جانتے ہیں کہ اس وقت فتنے بہت ہیں، پوری دنیا کا طاغوت اپنی تمام تر صلاحیتیں ، وسائل او راپنی تمام تر طاقت اس پر لگا رہا ہے کہ امت محمدیہ کا رشتہ، تعلق اور سلسلہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ٹوٹ جائے۔

آج طاغوت کے سامنے عبادات کے حوالے سے مشکلات نہیں، مثلاً نماز پڑھنا ، طاغوت ہمیں نماز پڑھنے سے نہیں روکتا، وہ یہ نہیں کہتا کہ نماز نہیں پڑھو، تہجد نہیں پڑھو، اشراق نہیں پڑھو، چاشت نہیں پڑھو، اوابین نہیں پڑھو، سب پڑھو۔

روزے کے حوالے سے بھی وہ کوئی تعرض نہیں کرتے، فرض روزے بھی رکھو، نفل بھی رکھو، خوب رکھو، زکوٰة دینے سے نہیں روکتے، حج کرنے سے بھی نہیں روکتے۔

آج سے پچاس سال پہلے کتنے حج کرنے والے تھے، مجھے یاد ہے کہ حضرت زید مجدہم اسی جامعہ فاروقیہ سے( حضرت تو اس سے پہلے بھی حج کرچکے تھے) حج کے لیے تشریف لے گئے، کراچی سے جدہ پی آئی اے کا ٹکٹ گیارہ سو روپے کا تھا، حج کے لیے آنے جانے کا ٹکٹ گیارہ سو روپے، لیکن اس زمانے میں اتنے حاجی نہیں تھے۔

طاغوت کو ہمارے حج سے پریشانی نہیں ہے، پھر گزارش ہے کہ آپ اُمت کا قیمتی ترین اثاثہ ہیں، بہت قیمتی، طاغوت کی سب سے زیادہ توجہ آپ پر ہے، وہ آپ کے ان امور سے جن کا میں نے ابھی ذکر کیا، کوئی تعرض نہیں کرے گا، اس کا سارا زور، ساری محنت اور ساری کوشش، محمد رسول الله کے خلاف ہے۔

وہ کہتے ہیں محمدی معاشرت قبول نہیں سارا جھگڑا، پہلے دن سے ”محمد رسول الله “پہ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم محمدی ہیں، ہم کہتے ہیں کہ محمدرسول الله پر ہماری جان بھی قربان، ہمارے ماں باپ کی جان بھی قربان، ہماری اولاد کی جان بھی قربان، لیکن میرے دوستو! غور کرنا ذا سوچنا کہ کیا ہم نے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے وہ وابستگی جس کا ہم سے مطالبہ ہے ، اختیار کی ہے؟ آج یہ جو ذلت ہم پر مسلط ہے جس تباہی کی طرف ہم جار ہے ہیں اور جس طرح ہم اقوام عالم میں بے حیثیت ہو گئے ہیں، یہ سب اس وجہ سے کہ ہم نے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اپنا تعلق بہت کمزورکر لیا ہے۔

آپ دیکھیں گے کہ مسلمان ہے، مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا ہے، کلمہ پڑھتا ہے اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، میرے ماں باپ سب مسلمان ہیں، لیکن آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اسے یہودیوں جیسا بننے میں فخر محسوس ہوتا ہے ، نصرانیوں جیسا بننے میں فخر محسوس ہوتا ہے، اسے داڑھی رکھنے میں شرم آتی ہے، ٹخنے سے اونچی شلوار کرتے ہوئے شرم آتی ہے، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کرنے میں اسے شرم آتی ہے، لوگ کیا کہیں گے؟ میں داڑھی رکھوں گا تو شادی کیسے ہو گی؟ یہ وہ باتیں ہیں جو ہمارے اردگرد لوگ کرتے ہیں۔

میرے دوستو! میں اپنے دل کا درد آپ کے سامنے بیان کرنے کی کوشش کررہاہوں، صرف اس وجہ سے کہ آپ سے محبت ہے، تعلق ہے، آپ بالکل اسی طرح سے ہیں جیسے اولاد ، یہ بات آپ تک منتقل کرنا ہمارا فریضہ ہے، ذمہ داری ہے کہ غیرت مند مسلمان بنو، بے غیرت مسلمان مت بنو، آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہماری وابستگی آخری درجے کی ہو، حقیقتاً وابستگی ہو، یہ کیا بات ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت، ہم اس کو یہ کہہ کر چھوڑ دیں کہ یہ توصرف سنت ہے؟ إنا لله وإنا إلیہ راجعون، عجیب بات ہے۔

میرے دوستو! آج ہم بہت مشکل دور سے گذر رہے ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ اپنی حیثیت کا ادراک کریں، آپ کو اپنی قیمت کا اندازہ نہیں، آپ کو اپنی اہمیت کا اندازہ نہیں، آپ کو اپنی حیثیت کا اندازہ نہیں، اس وقت اگر اس پورے کرہ ارض پر طاغوت کے لیے سب سے بڑا کانٹا ہے تو وہ آپ ہیں او رکوئی نہیں اور اس کے لیے جو ہمیں تیاری کرنی چاہیے، ہماری وہ تیاری نہیں اور وہ تیاری کیا ہے؟ وہ تیاری ہے، ”محمد رسول الله“ ہم آپ صلی الله علیہ کے ساتھ مضبوط تعلق رکھیں، ایسی وابستگی جیسے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی تھی۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ آپ کے سامنے ہیں، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ آپ کے سامنے ہیں، حضرت عثمان ذوالنورین آپ کے سامنے ہیں، حضرت علی رضی الله عنہ آپ کے سامنے ہیں، جن ساتھیوں نے حدیث کی کتابیں پڑھی ہیں، اس میں ”کتاب الأذان“ہے اور ”اذان“ کے باب میں بہت سے صحابہ کے تذکرے آتے ہیں، حضرت بلال رضی الله عنہ کا تذکرہ آتا ہے، حضرت عبدالله بن أم مکتوم رضی الله عنہ کا تذکرہ آتا ہے، حضرت عبدالله بن زید رضی الله عنہ کا تذکرہ آتا ہے، یہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے خواب میں وہ فرشتہ دیکھا جو اذان لایا تھا۔ چناں چہ حضرت عبدالله بن زید نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اذان سنائی او رپھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”علّمہ بلال“ یہ اذان بلال کو سکھا دو۔

حضرت عبدالله بن زید رضی الله عنہ کا گھر مدینہ منورہ سے باہر تھا، کھیتی کرتے تھے، اپنے کھیت میں ہیں، باغ میں ہیں، کسی نے آکر اطلاع دی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوگیا، اسی وقت ہاتھ اٹھائے، اے الله! یہ آنکھیں تو اس لیے تھیں کہ ان سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کروں،دیدار کروں، اب جو آپ صلی الله علیہ وسلم نہیں رہے، اے الله! میری یہ دعا ہے کہ یہ امانت واپس لے لے، میں ان آنکھوں کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا، چناں چہ ان کی بینائی چلی گئی۔

میرے دوستو! آپ سے اُمّت کو بہت امیدیں وابستہ ہیں، آپ امت کا بہت قیمتی اثاثہ ہیں، لیکن آپ سے درخواست ہے کہ خالص رہیں، غیرت مند بنیں، آپ کے سامنے سیرت نبوی بہت واضح موجود ہے، صحابہ کرام کی زندگیاں بہت واضح ہیں اور اپنے اکابر اور اسلاف کی زندگیاں بہت واضح ہیں اور میں آپ سے پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تعلق کو مضبوط اور قوی رکھا، اپنے کو صحابہ کرام رضوا انلله علیہم اجمعین کے نہج پہ قائم رکھا ا ور اپنے اسلاف کے طریقے کے مطابق آپ چلے، تو آپ سے اُمت کو بہت فائدہ ہو گا۔

اس وقت بہت عجیب صورت حال ہے، جو دورہ حدیث کے طلباء ہیں، انہوں نے قریباً ایک سال پہلے حضرت (رحمة الله علیہ) کی صحبت حاصل کی، وہ حضرت کے مزاج سے، حضرت کے افکار سے، حضرت کے نظریات سے، حضرت کے خیالات سے خوب واقف ہیں۔

میرے دوستو! حضرت کی یہ حیات او رحضرت کی یہ زندگی بھی اُمّت کے لیے قیمتی ترین اثاثہ ہے۔

حضرت کی عمر آپ کے سامنے ہے، حضرت کا ضعف آپ کے سامنے ہے، حضرت کے اعذار آپ کے سامنے ہیں، روز کی بات ہے کہ صبح جب میں حضرت کے ناشتے اور دواؤں کے لیے جاتا ہوں، تو حضرت اپنی تلاوت، اذکار سے فارغ ہو کر آرام کر رہے ہوتے ہیں، حضرت خو داٹھ نہیں سکتے، ان کو بہت احتیاط کے ساتھ بٹھاتا ہوں او رجب بیٹھ گئے تو وہاں سے خود پیچھے نہیں ہو سکتے، تو ایک دفعہ، دو دفعہ، تین دفعہ اٹھا کے، پھر ان کو تکیے کے ساتھ بٹھا نا ہوتا ہے، یہ کیا ہے ؟ معذوری، معمولی درجے کی معذوری نہیں، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ حضرت یہاں بھی جارہے ہیں، وہاں بھی جارہے ہیں، کیوں؟ وہ بہت بڑے محاذ پر ہیں۔

میرے دوستو! آپ سے یہ گزارش ہے کہ بات حق اور سچ وہی ہے جو حضرت فرمارہے ہیں۔

آپ دیکھیں کہ باطل نے کتنی محنت کی، ہمارا طالب علم، مدرسے کا طالب علم، جو اُمّت کے خواص ترین طبقے میں سے ہے، اس کو اس کا خیال ہی نہیں کہ میں کیسی زندگی گزار رہا ہوں، مسنون زندگی گزارنا میری غیرت کا تقاضا ہے ، یہ میری وفا کا تقاضا ہے اور نہ صرف یہ کہ مجھے اس پہ عمل کرنا ہے، بلکہ پوری اُمّت کو اس پر لانا ہے، اس کے لیے مجھے قربانی دینی پڑے گی، اس کے لیے مجھے مجاہدہ کرنا پڑے گا۔

میرے دوستو! میں نے بات سمجھانے کی کوشش کی ہے، الله تعالیٰ سے دعا بھی ہے کہ الله تعالیٰ ہم سب کو یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے حقیقی وابستگی، تعلق او راتباع نصیب فرمائے۔

میری آپ سے دوسری گزارش یہ ہے کہ ہم مدرسے سے پڑھ کر جارہے ہیں، بہت سے ساتھی اپنے گھروں کو جائیں گے ،ہم نے کبھی اس کا خیال نہیں کیا کہ میرے والد، میری والدہ، جنہوں نے میرے حصول علم کے لیے کتنی قربانیاں دیں، ایک بڑی قربانی تو یہ کہ جدائی برداشت کی، معمولی قربانی نہیں ہے، پھر جو بھی ان کے وسائل تھے انہیں خرچ کرکے میرے لیے علم کا حصول آسان بنایا اور میرے لیے سہولتیں فراہم کیں۔

لیکن کبھی آپ نے غور کیا کہ میرے والد، والدہ کا کلمہ درست ہے یا نہیں؟ کبھی غور کیا کہ میرے والد کی سورہ فاتحہ درست ہے یا نہیں؟ میرے والد جو نماز پڑھتے ہیں وہ نمازصحیح ہے یا نہیں؟ جو بالکل بنیادی چیزیں ہیں وہ میرے والد، والدہ کو آتی ہیں یا نہیں؟

میرے دوستو! میری آپ سے درخواست ہے کہ وہ ساتھی جو گھروں کو جارہے ہیں ،خواہ وہ متوسطہ اوّل کے طالب علم ہوں ، خواہ دورہ حدیث یا تخصصات کے طالب علم ہوں، یہ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی ماں کے پاس جائیں، ان کا ماتھا چومیں، ان کے ہاتھ چومیں، ان کے پا س بیٹھیں، ان کی خدمت کریں او ران کا کلمہ سنیں ،ان کی نماز درست کرائیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے تدریس شروع کی تو میری دادی جان رحمہا الله نے مجھ سے پوچھا کہ کیا پڑھاتے ہو؟ اور فرمایا کہ تم جو سبق درس گاہ میں جاکے پڑھاتے ہو وہ واپس آکر مجھے بھی پڑھایا کرو، میں واپس آتا تو وہ بڑی دل چسپی اور بڑی محبت سے پورا سبق مجھ سے سنتیں۔

میرے دوستو! اس میں شرم کی با ت نہیں ،اس میں کوئی تکلف کی بات نہیں، آپ اپنے والد صاحب سے محبت سے، احترام سے، اپنے بھائی سے، سب رشتہ داروں سے، جن سے قریبی رشتہ ہے، ان کو یہ چیزیں سکھائیں، ان تعطیلات میں آپ یہ کام ضرور کریں۔

تیسری گزارش یہ ہے کہ ہر ساتھی دعوت وتبلیغ میں وقت ضرور لگائے۔

یہ جو دعوت وتبلیغ کے نام سے محنت ہو رہی ہے، اس راستے میں مجاہدے آئیں گے، مشقتیں آئیں گی پھر آپ کی نماز کا قیام ، رکوع، سجدے ، آپ کی دعائیں، آپ کا لوگوں سے ملنا، آپ اتنے قیمتی بن جائیں گے، اپنی ذات کے لیے بھی او رامت کے لیے بھی کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

میری آپ سے گزارش ہے، درخواست ہے، اصرار کے ساتھ ہے اور یہ اس لیے ہے کہ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر آپ نے اس طرح وقت گزار لیا، تو آپ بہت مبارک بن جائیں گے ، اپنی ذات کے لیے بھی اورپوری امت کے لیے بھی ،آپ کا یہ علم اتنا منور ہو گا، اتنا مبارک ہو گا، اتنا قیمتی ہو گا کہ آپ تصور نہیں کرسکتے۔

اس کے علاوہ گزارش یہ ہے کہ پورا سال ہو گیا، آپ کے گھر والے آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے، آپ کے گاؤں والے بھی آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے، آپ کے شہر والے بھی آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے، میری یہ بات توجہ سے سنیے گا کہ آپ اپنے گاؤں ،شہر پہنچیں گے، تو لوگ آپ کو مختلف نظروں سے دیکھیں گے۔

چناں چہ ایک طالب علم ہے ،وہ گھر جائے گا ،وہ فوراً گھر نہیں جائے گا، بلکہ سیدھا مسجد میں جائے گا، جماعت کے ساتھ نماز پڑھے گا او رنماز کے بعد سب سے ملاقات کرے گا، لوگ جمع ہو جائیں گے، فلاں کا بٹیا آیا ہے، فلاں کا بھتیجا آیا ہے، آپ سب سے حال احوال پوچھیں گے، خیریت دریافت کریں گے، اپنے حالات بتائیں گے، اپنے جامعہ کے حالات بتائیں گے، پھر حال احوال میں فلاں فوت ہو گیا، فلاں پیدا ہو گیا، فلاں کی شادی ہو گئی، سب باتوں کا علم ہو جائے گا اور پھر سب سے خوش دلی سے ملاقات کرکے گھر جائیں گے، تو پورے گاؤں میں چرچہ ہو گا کہ فلاں کا بیٹا آیا ہے، کراچی سے آیا ہے، جامعہ فاروقیہ سے آیا ہے، ماشاء الله کیا اس کے اخلاق ہیں! مسجد میں آیا، سب سے ملا، سب کا حال احوال پوچھا، اپنے احوال بتائے، آپ مجھے بتائییکہ اس سے پورے علاقے میں کتنا مبارک پیغام جائے گا۔

دوسرا طالب علم ہے جو گاڑی سے اترا، سیدھا گھر گیا، کسی سے نہیں ملا، ماں سے ملا، باپ سے ملا، بھائیوں سے ملا، بہنوں سے ملا، مغرب کی اذان ہوئی، ماں نے کہا اذان ہو گئی ،ہاں! ہاں! جارہا ہوں! ابھی بہت ٹائم ہے ،ابھی تو اذان ہوئی ہے، آپ بتائیے مغرب کی اذان اور جماعت میں وقت ہوتا ہے ؟ بھائی سے بات کر رہا ہے، بہن سے بات کر رہا ہے، اسی میں جماعت کا وقت ختم ، عشاء میں بھی یہی ہوا، رات کو دیر تک جاگا، فجر کی نما زمیں بھی نہیں پہنچا، آپ مجھے بتائیے کہ گاؤں والوں کو پتہ نہیں چلے گا کہ فلاں آیا ہے؟ پتہ چلے گا، کیا تبصرہ کریں گیکہ فلاں کا بیٹا آیا ہے، لیکن مسجد میں نظر ہی نہیں آتا، یہ کیسا طالب علم ہے، یہکیسا عالم ہے؟

میرے دوستو! آپ اگر چاہیں تو خیر کی چابی بن سکتے ہیں، آپ کی عملی زندگی اعلان کرے گی، لوگ کہیں گے، ماشاء الله کتنا اچھا طالب علم ہے؟ ابھی کل پرسوں ایک رسالے میں پڑھاکہ گاؤں میں ایک کنویں کے کنارے تین عورتیں پانی بھرنے کے لیے بیٹھی تھیں، ایک بچہ گزرا، تو ان تین میں سے ایک نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے، یہ فلاں اسکول میں پڑھتا ہے، فلاں کلاس میں پڑھتا ہے، ایسا ہے، ایسا ہے۔

تھوڑی دیر کے بعد ایک او ربچہ گزرا، تو دوسری نے کہا یہ میرا بیٹا ہے، یہ فلاں اسکول میں پڑھتا ہے، وہ بھی چلا گیا او راس نے بڑے فخریہ انداز میں اس کا تعارف کرایا، تھوڑی دیر گزری تھی کہ ایک تیسرا بچہ وہاں آیا جیسے ہی اس نے اپنی ماں کو دیکھا، اس نے زور سے کہا السلام علیکم اور دوڑتے ہوئے ماں کے پاس آیا ، پانی کا برتن اٹھایا اور ماں کا ہاتھ پکڑا او رکہا چل ماں! گھر چلتے ہیں تو اس نے کہا یہ میرا بچہ ہے اور مدرسے میں پڑھتا ہے۔

میرے دوستو! آپ جب اپنے گاؤں میں جائیں، تو آپ کا کردار، آپ کے اخلاق نہایت بلند ہونے چاہییں۔

جلدی مسجد جائیں، دیر تک مسجد میں رہیں، جو بیمار ہو اس کی عیادت کریں، جو فوت ہوا ہو اس کی تعزیت، لوگ یہ سوچنے لگیں کہ ہم بھی اپنے بچے کو مدرسے بھیجیں گے، فلاں کا بیٹا مدرسے میں پڑھتا ہے اورماشاء الله کتنا بااخلاق، فرماں بردار ہے۔

آپ یا تو دعوت وتبلیغ میں جائیں او راگر وہاں نہیں جارہے تو اپنے گھر جائیں، اپنے ماں باپ کی خدمت کریں اور گاؤں میں علاقے میں ایسا پیغام دیں کہ جس سے باطل کی جو کوشش ہے وہ کام یاب نہ ہو او راگر خدانخواستہ آپ نے اس کااُلٹ کیا کہ آپ مسجد میں بھی نظر نہیں آرہے اورکوئی دینی کام بھی نہیں کررہے، کوئی دینی بات بھی نہیں کررہے، دینی باتوں سے زیادہ آپ دنیاوی باتیں کر رہے ہیں اور لغویات میں اپنے آپ کو لگایا ہوا ہے تو میری بات یاد رکھناکہ اس سے بہت نقصان ہو گا، آپ کو بھی نقصان ہو گا اور دینی خدمات کو بھی نقصان پہنچے گا، لوگ مدرسے سے بدظن ہوں گے۔

الله تعالیٰ ہم سب کوصراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم․

Flag Counter