حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان نوّر الله مرقدہ کی چند یادیں
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب
ناظم تعلیمات جامعہ فاروقیہ کراچی
احقر کی حضرت اقدس نوّر الله مرقدہسے پہلی ملاقات 1964ء میں اس وقت ہوئی، جب احقر نے اسی سال جامعہ دارالعلوم کراچی میں درجہ خامسہ میں داخلہ لیا، اس کے بعد کبھی مسجد میں کبھی راستہ میں ملاقات ہو جاتی تھی، حضرت اقدس رحمة الله علیہ کو طلباء کرام دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ یہ ہیں جامعہ دارالعلوم میں بخاری پڑھانے والے شیخ الحدیث… اور اس طرح حضرت اقدس نوّر الله مرقدہ کے نام کے ساتھ احقر کے دل میں محبت رچ بس گئی، احقر کی انتہائی خواہش تھی کہ حضرت اقدس رحمة الله علیہ سے تلمذ کی سعادت حاصل ہو جائے، لیکن چہ نسبت خاک را با عالم پاک، احقر درجہ خامسہ کا طالب علم او رحضرت اقدس نوّر الله مرقدہ جامعہ کے شیخ الحدیث، لیکن الله تعالیٰ نے احقرکی مذکورہ خواہش درجہ کے تمام ساتھیوں کے ساتھ اس وقت پوری فرما دی جب جامعہ دارالعلوم کی انتظامیہ نے ہمارے درجہ کے لیے سابعہ اور دورہٴ حدیث سے پہلے تکملہ کرانے کا فیصلہ کیا، تکملہ میں ہر فن کی آخری مشکل ترین کتاب ہوتی ہے اور اس طرح قاضی، حمد الله، میرزاھد، ملا حسن، ملا جلال، صدرا، اقلیدس، تصریح ، مسامرہ اور شرح چغمینی وغیرہ کوئی بیس سے زیادہ کتابوں کا انتخاب ہوا او ران تمام کتابوں کو پڑھانے کے لیے شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب رحمةالله علیہ کا انتخاب ہوا ،اس طرح ہم تمام درجہ والوں کو حضرت اقدس نوّر الله مرقدہ سے شرف تلمذ کی سعادت نصیب ہوئی، اور اس طرح ہمیں پہلی مرتبہ حضرت اقدس رحمہ الله کے علمی تفوق ، گہرائی ،علمی رسوخ اور تفہیم کی اعلیٰ ترین صلاحیت کا علم ہوا کہ مشکل ترین کتابوں کے مشکل ترین مسائل چٹکیوں میں سمجھا دیتے اور ہمیں کسی بھی قسم کی کوئی دشواری محسوس تک نہیں ہوتی تھی۔
انتہائی تواضع
حضرت اقدس رحمة الله علیہ کی صفاتِ کمال بیش بہا اور بے شمار ہیں، لیکن ان صفات کمال میں صفت تواضع نہایت واضح اور وشن صفت تھی، اس بارے میں ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں، احقر ابھی جامعہ دارالعلوم کراچی میں دورہٴ حدیث میں پڑھ رہاتھاکہ ایک دن حضرت اقدس نوّر الله مرقدہ احقر کے کمرہ نمبر5 میں تشریف لائے، جس سے احقر کے علاوہ تمام طلبائے کرام کو بہت ہی تعجب ہواکہ جامعہ دارالعلوم کے سابق شیخ الحدیث او رجامعہ فاروقیہ کے مہتمم کا طلبہ کے کسی کمرہ میں آنا معمولی بات نہیں اور تمام حاضر طلبہ ہمہ تن گوش کہ حضرت کیا حکم فرماتے ہیں؟
حضرت اقدس رحمة الله تعالیٰ علیہ نے احقر کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے فرمایا تدریس کرنی ہے مولوی خلیل؟ آپ جب سالانہ امتحان سے فارغ ہو جائیں تو سیدھے جامعہ فاروقیہ آکر تدریس کرنی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب صدر احقر کے استاد محترم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ نے احقر کو حکم دیا تھا کہ آپ جب فارغ ہو جائیں تو آپ نے جامعہ دارالعلوم میں خدمات انجام دینی ہیں، لیکن اب صورت حال بدل گئی تھی، لہٰذا احقر نے استاذ الاساتذہ، رئیس المحدثین، بخاری زمان ،حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب قدس سرہ کے حکم کو ترجیح دی، چناں چہ جب شوال کے مہینہ میں احقر حضرت اقدس قدس سرہ کی خدمت میں جامعہ فاروقیہ حاضر ہوا تو آپ نے احقر کو درجہ رابعہ کی کتابیں پڑھانے کے لیے دیں او رجامعہ کی نظامت بھی حوالہ فرما دی، چناں چہ احقر1970ء سے سن1976ء تک جامعہ فاروقیہ میں استاذ رہا، جس کے بعد احقر پر دبئی جانے کا بھوت سوار ہوا، لیکن حضرت اقدس نوّر الله مرقدہ کی بے شمار شفقتوں کی وجہ سے حضرت اقدس سے براہ راست اس کا مشورہ نہ کر سکا، البتہ احقر نے حضرت اقدس رحمہ الله کے نام ایک طویل تفصیلی خط لکھ کر ایک طالب علم کے حوالہ کیا اور اس طالب علم سے یہ کہا کہ جب احقر جامعہ سے نکل جائے تب آپ یہ خط حضرت اقدس رحمة الله علیہ کے حوالہ کر دیں ۔اس طرح احقر دبئی چلا گیا اور احقر کا جامعہ فاروقیہ میں تدریس کا پہلا دور مکمل ہو گیا۔
احقر نے ابو ظہبی میں ایک طویل عرصہ گزارا، اس دوران احقرکوجب بھی پاکستان آنا ہوتا تو حضرت اقدس رحمة الله علیہ سے کئی مرتبہ ملاقاتیں کرتا، بلکہ حضرت اقدس کے درس میں شریک ہوتا، حضرت اقدس نوّر الله مرقدہ درس سے فارغ ہو کر جب احقر سے ملتے تو فرماتے کہ ناشتہ کریں گے ؟ تو احقر عرض کرتا کہ حضرت آپ کا ناشتہ تو ”خوردہ“ ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے؟ پھر حضرت اقدس احقر کو اپنے ساتھ گھر لے جاتے اور ناشتہ کی تمام ضروریات خود لے کر آتے اور باصرار احقر کو کھلاتے۔
اسی طرح حضرت جب بھی ابوظہبی تشریف لاتے تو احقر کے گھر پر ضرور رونق بخشتے، حضرت اقدس رحمة الله علیہ جب ابوظہبی تشریف لاتے تو احقر ابوظہبی میں موجود علماء کرام کو جمع کرتا اور حضرت اقدس نوّر الله مرقدہ اُن سے خطاب فرماتے، خطاب کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوتا اور حاضرین جامعہ فاروقیہ کے قواعد وضوابط کے بابت پوچھتے رہتے۔ حضرت اقدس رحمة الله علیہ ان سے فرماتے کہ آپ لوگ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟ احقر کی طر ف اشارہ فرما کر فرماتے کہ یہ جامعہ فاروقیہ کے اب بھی ناظم ہیں۔ ہم نے ان کا نام اب تک کاٹا نہیں ہے۔ لہٰذا جامعہ کے قواعد وضوابط کے بابت ان سے پوچھ لیا کریں۔
اسی قسم کی مجالس میں حضرت اقدس نوّر الله مرقدہ نے احقر سے کئی مرتبہ ارشاد فرمایا کہ جب آپ کو ابوظہبی چھوڑنا ہو تو سیدھے جامعہ فاروقیہ آنا ہو گا، احقر ”ضرور“ کہہ کر جواب دیتا، لیکن احقر دل ہی دل میں کہتا کہ ابوظہبی کو چھوڑنا کوئی آسان بات نہیں ہے، یعنی ابوظہبی کی سہولتوں اور آسانیوں کو چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں، لیکن مرد قلندر کی زبان سے نکلی ہوئی بات تھی کہ الله تبارک وتعالی نے ایسے اسباب پیدا فرما دیے کہ نہایت آسانی کے ساتھ احقر کا آنا ہوا او راس طرح2006ء سے احقر کا جامعہ فاروقیہ میں تدریس کا دوسرا دور شروع ہو گیا۔
اس سلسلے میں ایک ضمنی واقعہ یہ پیش آیا کہ احقر مولانا محمد عادل خان صاحب کے ساتھ شعبان 2005ء جامعہ دارالعلوم کراچی میں استاذ محترم حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات کرنے گیا، ظہر کی نماز کے بعد دفتر میں ملاقات ہو گئی، حضرت اقدس استاذ محترم نے احقر کو دیکھتے ہی پوچھا کہ آپ ابوظہبی سے کب آئے ؟ احقر نے عرض کیا کہ پانچ چھ ماہ ہوچکے ہیں، تو استاذ محترم نے فوراً دوسرا سوال فرمایا کہ کہیں کام شروع کیا ہے یا نہیں؟ احقر کے جواب دینے سے پہلے مولانا محمد عادل خان صاحب نے جواب دیا اور کہا کہ انہوں نے غیر رسمی طور سے تو کام ابھی سے جامعہ فاروقیہ میں شروع کر دیا ہے اور رسمی طور سے شوال میں شروع کریں گے۔
حضرت اقدس مولانا محمد اسعد مدنی امیر جمعیة علماءِ ہند رحمة الله علیہ کی وفات کے بعد احقر کو فکر لاحق ہوئی کہ اب اصلاح کا تعلق کس بزرگ سے قائم کیا جائے کہ احقراب تک حضرت اقدس مولانا محمد اسعد مدنی رحمہ الله سے بیعت تھا آخر کار احقر کی نظر حضرت اقدس، شیخ الحدیث، استاذ الاساتذہ، رئیس المحدثین پر پڑی اور پھر کئی سال تک درخواست کرتا رہا، دوسری طرف سے جواب نفی میں ملتا رہاتا ینکہ احقر کومایوسی ہونے لگی، اتنے میں ایک دن حضرت اقدس نوّر الله مرقدہ کی طرف سے احقر کو بیعت کرنے کی بشارت ملی اوراس طرح احقر کو حضرت اقدس رحمة الله علیہ سے تلمذ کے علاوہ اصلاح کا تعلق قائم کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ احقر کا حضرت اقدس رحمہ الله سے بیعت کا تعلق 13/ جمادی الاولی1436ھ5/مارچ2015ء کو قائم ہوا، اصلاحی تعلق کی مدت اگرچہ زیادہ لمبی نہیں رہی ،لیکن پھر بھی حضرت اقدس نوّر الله مرقدہ نے احقر کی زبانی اور تحریری طور سے کئی غلطیوں کی اصلاح فرمائی۔
چوں کہ احقر کو حضرت اقدس رحمہ الله کے ساتھ کئی مرتبہ شریک سفر ہونے کی سعادت نصیب ہوئی، جب نماز کا وقت ہوتا تو اقامت احقر کہتا ایک مرتبہ حضرت اقدس نوّرالله مرقدہ نے احقر کو تنہائی میں بٹھایا او رپھر اقامت مکمل طور سے سنائی اور فرمایا کہ اقامت کے ہر جملہ پر وقف ہوتا ہے اس طرح احقر کی غلطی کی زبانی طور سے اصلاح فرما دی۔
ایک مرتبہ حضرت اقدس نوّر الله مرقدہ نے احقر کے سب سے چھوٹے بیٹے محمد فاروق کا نکاح جامعہ فاروقیہ کی مسجد میں پڑھایا، احقر نے حضرت اقدس قدس سرہ کا شکریہ ادا کیا، اس تحریر میں جو غلطیاں تھیں حضرت اقدس رحمہ الله نے ان کی تحریری اصلاح فرمادی، حضرت کا اصلاح نامہ لف ہے۔
اس طرح حضرت اقدس نوّر الله مرقدہ احقر کی زبانی اور تحریری اصلاح فرماتے رہتے تھے۔