صبر ایمان کا سر ہے
حضرت مولانامفتی محمد شفیعؒ
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
حضرت قاری حارث محاسبی رحمہ الله حدیث وتفسیر کے امام ہیں اور صوفیا کرام میں اکثر ان کے شاگرد ہیں۔ آپ کے ملفوظات میں سے ہے۔ فرمایا:”ان الصبر من الایمان“
”صبر ایمان میں سے ہے۔“
صبر اور ایمان میں ایسی نسبت ہے جیسے سر کی سارے بدن میں۔ اگر سرکاٹ دیا جائے تو سارا بدن بے کار ہے۔ صبر نہ رہے تو ایمان نہ رہے۔ حدیث پاک ہے: دنیا میں کسی کو صبر سے زیادہ وسیع تر نعمت نہیں ملی۔ جب ایک دفعہ اس حدیث کا درس ہوا تو خیال ہوا ایمان سے بڑھ کر دین میں آخرت کے اعتبار سے کوئی نعمت نہیں۔ پھر ان دونوں میں ایسا اختلاف کیوں؟ پھر مندرجہ بالا قول سے حدیث کی شرح نکل آئی کہ صبر ایمان کا سر ہے۔ اب صبر کی جو معنی ہیں ا س پر تعجب ہوتا ہے کہ ہم نے سمجھ رکھا ہے صبر کہتے ہیں کسی کے مر جانے پر خاموش ہو جانے کو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ناجائز خواہشات سے رکنے کا نام صبر ہے۔ یہی قرآن کریم کی اصطلاح ہے اور مطلب یہ ہے کہ کسی کے مر جانے پر ہی صبر موقوف نہیں ہے، بلکہ ایمان بھی اس کی ایک فرع ہے۔
گھرو ں میں گم راہی ہو رہی ہے، ہمارا نفس تقاضا کرتا ہے کہ ان رسموں کو جاری رکھیں، خواہ حرام ہو ں یا حلال۔ عرب میں آخر تک بہت سے مشرکین اسی وجہ سے ایمان نہ لائے کہ رسموں کو چھوڑ نہ سکتے تھے۔ ابو طالب جن کی وفات شرک پر ہوئی ہے ، باوجود ایمان نہ ہونے کے ان کا نام عظمت سے لینے کو جی چاہتا ہے۔ اس لیے کہ ان کو پوری زندگی حضور صلی الله علیہ وسلم سے محبت رہی۔ آخر وقت میں انتقال کے وقت رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لو، آپ کی نجات ہو جائے گی۔ تمنا اس کی تھی وہ نہ مانے۔ ابوجہل ابولہب وغیرہ نے گھیراؤ ڈال رکھا تھا کہ کہیں آخر وقت میں اپنا آبائی دین نہ چھوڑ دیں، مگر چچا نے کہا میں جانتا ہوں آپ کے دین سے بہتر کوئی دین نہیں ہے۔ آپ سچ فرماتے ہیں ،مگر یہ لوگ گالی دیں گے کہ موت کے ڈر سے مسلمان ہو گیا۔ اس لیے ہمت نہیں۔ تو ایمان لانے کے لیے بھی صبر کی ضرورت ہے۔ اپنے نفس پر قابو پائے جب ہی ایمان لاسکتا ہے۔ اس لیے حدیث کی شرح بھی ہوگئی کہ سب سے بڑی نعمت صبر ہے۔ صبر کے معنی بُری خواہشات سے رکنے کے ہیں۔
چناں چہ بہت سے لوگ تیجہ، چہلم او ربہت سی رسموں کو جانتے ہیں کہ بُری ہیں ،مگر اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ انہیں چھوڑ دیں۔ اس لیے کہ برادری کے لوگ بُرا کہیں گے تو صبر حاصل نہیں ہے ،اس لیے مجبور ہیں۔
نفس کو قابو میں رکھنے کا نام صبر ہے
جب صبر کا یہ مقام ہے تو اگر اپنے کسی حریف مقابل سے ایسا کلمہ سنو جس سے آپ کو غصہ آجائے تو اس کو معاف کردو اور اس کا کوئی انتقام نہ لو، نفس کو قابو میں رکھنے کا نام صبر ہے۔ کہا ہوا تو گزر جائے گا معاف کر دو گے تو دنیا میں کوئی نقصان نہ ہو گا۔ آخرت میں درجات بڑھیں گے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا۔ اسلام کے لیے تو جذبہٴ انتقام ہوا، مگر اپنے لیے کبھی ایسا نہ کیا او رجن کو الله نے یہ مقام عطاکر دیا ہے ان کو ایسی بیہودہ باتوں کا کوئی خیال بھی نہیں ہوتا۔ کوئی بُرا کہے، بھلا کہے، دونوں یکساں ہیں ،کسی کی تعریف او ربرائی کا اثر نہیں ہوتا۔
حضرت گنگوہی رحمہ الله نے بہت دن سے خط نہیں لکھا حضرت حاجی صاحب رحمہ الله کو، حضرت حاجی صاحب رحمہ الله نے خود لکھا کہ خط نہ لکھنے کی کیا وجہ ہے؟ جواب میں فرمایا میں خطا وار ہوں۔ کسی قابل نہیں، کیا لکھوں؟ مگر حالت یہ ہے کہ لوگ مجھے برا ،کہیں بھلا کہیں مجھے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ یعنی مدح یابرائی میں کوئی خوشی یا غم اثر نہیں کرتا۔ یہ مقام اس کو ملتا ہے جس کا الله تعالیٰ سے تعلق ایسا ہو کہ ساری دنیا اس کی نظر میں کالعدم ہو۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے آپ نے جانو رپال رکھے ہیں۔ ایک جانور آپ کو برا کہہ رہا ہے، دوسرا اچھا۔ اگر آپ کو معلوم بھی ہو جائے تو آپ کو کیا فرق محسوس ہو گا ان کی برائی بھلائی سے؟! بس یہی حالت اس کی ہوتی ہے جس کو تعلق مع الله حاصل ہو جاتا ہے۔
ایک درویش کا واقعہ
گلستان میں واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ کے یہاں ایک درویش پہنچے۔ کوئی بات ان کو ناگوار گزری ، انہوں نے کہا بند کر دو۔ وہ ہنس پڑے، بادشاہ نے کہا۔ اچھا ہنستے ہو؟ ساری عمر جیل میں بند رکھو۔ پھر ہنسنے کی وجہ پوچھی۔ فرمایا کہ مجھے یہ نہیں معلوم کتنی عمر میری ہے؟ چاہے قید میں گزرے چاہے باہر گزرے، اس میں کیا فرق پڑتا ہے؟ مجھے اس میں کوئی خوشی یا غم نہیں اور فرمایا دنیاکی زندگی کے بعد آگے تیرے بس میں نہیں ہے، تو اتنی قلیل مدت کی کیا پروا ہے؟ جس طرح بھی گزر جائے۔ جیسے موسی علیہ السلام کے زمانے میں جب جادو گر ایمان لائے او رفرعون نے ان کو دھمکایا تو وہ کہنے لگے ہم کو کیا ہے ؟جو تیرا جی چاہے کر لے، ہم اس سے نہ پھریں گے۔ یہ جب ہوتا ہے جب آدمی عادی بنالے نفس کے خلاف سننے کو تو سارا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔
خوف وتقویٰ
فرمایا جو الله تعالیٰ سے ڈرا وہ اپنا غصہ پورا نہ کر سکے گا۔خدا کا خوف جب شامل ہوتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ فاروق اعظم رضی الله عنہ نے جو فرمایا وہ کبھی باوجود قادر ہونے کے اپنا غصہ پورا نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ اس نے یہ میری کوتاہی کی ہے ۔ میں نے کتنی خدا کی کوتاہی کی ہے ۔ آخرت میں میرا کیا حال ہو گا؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا۔ غصہ سے زیادہ کڑوا گھونٹ نہیں، لیکن الله کا اجر عظیم اس پر متوجہ ہوتا ہے۔
خیالات کا محاسبہ
آگے فرمایا، تمہارے دل میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں ان کا محاسبہ کرو۔ ان کی حفاظت کرو۔ کسی غلط راستہ میں نہ پڑ جاؤ۔ دیکھو! دل میں اور خیال میں لوگوں کے عیب آتے ہیں۔ فلاں میں یہ عیب ہے، اس میں یہ عیب ہے، مگر اپنے عیب کی خبر نہیں اور یہ عیب سب سے بڑا ہے۔ اس لیے کہ جو بیمار خود کو بیمار سمجھے وہ دوائی کرے گا، مگر جو خود کو بیمار نہ سمجھے وہ کتنی ہلاکت کی طرف جائے گا؟ جب خدا سے کسی کو تعلق ہو جاتا ہے نظر تیز ہو جاتی ہے، اپنے عیوب اس پر آشکارا ہو جاتے ہیں۔ الله پاک ان کی نظر کو خوردبین عطا کر دیتا ہے او روہ اپنے معاملہ میں اتنے باریک ہو جاتے ہیں کہ ذرا ذرا سی اپنی برائی ان کو نظر آئے گی اور دوسروں کے معاملہ میں وسیع نظر ہو جاتے ہیں۔
اپنے عیوب کی فکر کریں
فرمایا،دوسروں کے عیوب کو دیکھنے کے بجائے اپنے عیب کے دور کرنے کی فکر کرو، توبہ کر لو۔ اگر اپنے عیوب نظر آنے لگیں تو دوسروں کے عیب باوجود نظر آنے کے اس کی طرف نظر جاہی نہیں سکتی۔ کسی کا سارا بدن زخموں سے چور ہو تو دوسرے کی پھانس یا تراش اس پر کیا اثر کرے گی!!
بہادر شاہ ظفر نے لکھا ہے #
تھے جو اپنے عیب سے بے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
پڑی اپنی برائیوں پہ جو نظر تو جہاں میں کوئی برا نہ رہا
ایک شاعر کا قصہ ہے، جو آزاد منش آدمی تھا، دین داری کی بھی پروا نہ تھی؟ انتقال ہوا۔ خواب میں دیکھا جنت میں ٹہل رہے ہیں۔ پوچھا تم کہاں؟ کہنے لگے تم کومعلوم ہے کہ میں کیسا آدمی تھا، مگر مرنے سے پہلے چند شعر کہے۔ یا الله! تجھ کو معلوم ہے ساری عمر آوارہ رہا۔ کوئی نیک کام نہیں کیا۔ ہاں! ایک تیری ذات پرایمان ضرور ہے اور تیرے رسول صلی الله علیہ وسلم پر ایمان ہے۔ پھر میں نے چند اشعار کہے، جو کسی کو سنائے بھی نہیں۔ بس مالک کاکرم ہو گیا، بعض اوقات یہ بھی کام آجاتا ہے #
جسے عشق میں یادِ خدا نہ رہی
جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
توکل اور کمانے میں اعتدال
ایک جملہ ان کا یہ ہے:
”اپنی عقل کو کام میں لاؤ کہ تدبیر چھوڑ دو، الله کے حوالہ کرو۔“
مراد اس کی یہ ہے دوائی پاس رکھی ہے، کھاتا نہیں۔ وہ گنہگار ہے، کما کر لانا یہ بھی فرض ہے، ضروریات زندگی حاصل کرنا فرض ہے، ان کو چھوڑنا گناہ ہے، اسباب تو اختیار کرنا ضروری ہے۔ یہ مطلب ہے کہ جتنے اختیار اوراسباب تم کو ملے ہیں وہ کرلو ،پھر رضائے الہٰی کا انتظار کر و،جو الله نے کیا ملے یا نہ ملے، آدھا ملے، پورا ملے ،اسی پر راضی رہو۔ پلے باندھنے کی چیز ہے۔
فرمایا:
اجملوا فی الطلب وتوکلوا علیہ․
اختصار کرو طلب میں اور توکل کرو الله پر، یہ ہے اصل توکل۔
جتنے اسباب اپنے اختیار میں ہیں ان کو استعمال کرو، مگر تھکو نہیں۔ اس میں اختصار کرو۔ پھر الله پر توکل کرو۔ ایک بیمار ہے، اس کا علاج موجود ہے۔ اس کا علاج نہ کرنا جائز نہیں ہے۔ ڈاکٹر کے پاس جائے، دوالے، پرہیز کرے، مگر اس کے بعد ایک قدم مومن کا ہے کہ ڈاکٹر یا دوا کو شفا نہ سمجھے، بلکہ الله پاک کی طرف سے شفا ہے۔ جب ا لله تعالیٰ کو منظور نہیں ہوتا تو بڑے سے بڑا ڈاکٹر ایسی لغو غلطی کرتا ہے کہ مریض بچتا نہیں۔ تو اختصار رہے تدبیر میں۔
یہ نہیں کہ فلاں جگہ جوتمہاری فی الحال پہنچ سے باہر ہے اس کا بڑا نام ہے، وہ ماہر ہے اس کا کام بڑا ہے، زیادہ لمبی فکروں میں نہ جاؤ۔ قریب قریب کی تدابیر کرو، تھکو نہیں، علاج ہو، مقدمہ ہو، تجارت ہو، ظاہری آسانیوں سے ہونے والی تدبیریں اکٹھی کرکے دماغ پر بوجھ نہ ڈالو۔ آسانی سے ہونے والی تدبیر حاصل نہ کرنا تو کفر ہے ،مگر جان کھپا دینا اپنی اس کے اندر، یہ اس توکل کے خلاف ہے۔
دنیا میں جان مت کھپاؤ
جن پر الله پاک حقیقت کھول دیتے ہیں، یہ کہاں کا فسانہ سو دوزیاں جو گیا سو گیا، جو ملا سو ملا، کہو ذہن سے فرصت کم ہے، کچھ یاد دلا تو خدا ہی کی یاد دلا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان تدبیروں میں اتنی جان کھپا دینا کہ اصل دینے والے کو بھول جائے یہ مومن کا کام نہیں ہے۔ بس مختصر اسباب کرے، پھر الله کے حوالہ کر دے، نقصان پہنچ جائے تب بھی راضی رہے، نفع ہو تب بھی راضی رہے۔ آخر لوگ باوجود لاکھ کوششوں کے بھی ہار جاتے ہیں۔ جرمنی او رامریکا میں علاج کرانے والے بھی مر جاتے ہیں، یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ اس پر جان کھپا دو؟ عقل کا مقتضی ٰیہ ہے کہ ہماری بصیرت محدود ہے۔ کرنے والا تو وہ ہے، ہم نے جواختیار میں تھا وہ کر لیا۔
حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا اے آدم کے بیٹے! مال داری پر بہت خوش نہ ہو اور فقر وفاقہ آگیا تو بہت مایوس مت ہو۔ دونوں حالتیں ہمیشہ قائم رہنے والی نہیں۔ اس پر عمل کا کھپانا عقل مندی نہیں ہے او ربیماری یا نقصان یا کچھ اور حادثہ ہو جائے اس پر زیادہ غمگین نہ ہو۔
تکالیف گناہوں کا کفارہ ہیں
جب سونا نکھارا جاتا ہے آگ میں ڈال کر، الله تعالیٰ کے نیک بندوں کو بھی دنیا میں ایسی تکلیف دے کر ان کے گناہوں کو دھویا جاتا ہے اور یہ سمجھ لو گے تو گناہوں کا کفارہ بھی ہو جائے گا، ورنہ تکلیف تو یوں بھی آنی ہے جو اہل جنت ہیں ان کو دنیا میں تکالیف پہنچتی ہیں ،کیوں کہ یہ جنت کے تحفے ہیں اوراہل جہنم کو دنیا میں راحت اور عیش ملتا ہے کہ یہ جہنم کے پھل ہیں۔
فرمایا حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہ الله تعالیٰ نے جنت نعمتوں کی جگہ بنائی او رجہنم تکالیف کی جگہ بنائی، مگر ان کے گرد ایک باڑ لگائی۔ جہنم کے گرد لذت او رعیش اور راحت، شہوات، دل لبھانے والی چیزوں کی باڑ لگائی ہے۔ جنت کے گرد محنت، تکلیف اور مشقت کی باڑ لگی ہوئی ہے۔ لہٰذا کانٹے، مصیبت او رتکلیف اٹھانے کے بعد ہی جنت میں داخلہ ہو گا۔
جنت کے تحفے
مومن کا ایمان سلامت رہے تو یہ تکالیف، غم، بیماری او رمصیبت یہ تحفے ہیں، جنت کے، یہ کانٹا ہٹا جنت کا راستہ ملا۔ جو لذائذ میں مبتلا ہیں وہ سوچ سمجھ کر قدم رکھیں کہ اس میں کہیں خلافِ شرع تو کچھ نہیں کہ یہ جہنم کا تحفہ ہو؟ الله پاک ہر مومن کو اس سے بچائے۔
عقل مند اور متقی کی دوستی او راس کا معیار
فرمایا: مجلس رکھو عاقل او رمتقی سے، بیوقوف سے آرام کے بجائے تکلیف پہنچ جاتی ہے او رغیر تقویٰ والا جو خدا کا خوف نہ رکھے اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ حدیث میں ہے سوال کیا گیا ہم کن لوگوں کے پا س بیٹھیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جن میں تین وصف ہوں۔ آج سمجھ لو، یہ شیطان کا دھوکا ہے، جو ہم کو بتاتا ہے کہ کوئی عالم بھی خالص نہیں، کہاں بیٹھیں؟ شیخ پیر کہاں ہیں آج کل؟ تو یہ غلط ہے۔ بے شک جنید رحمہ الله اور شبلی رحمہ الله تو نہ ملیں گے، مگر ایک کسوٹی ہے، اس پر شیخ کو دیکھو، کوئی کہے میں تو افلاطون سے علاج کراؤں گا تو مر جائے گا بوعلی سینا نہ ملے گا۔
1..جس کو دیکھ کر خدا یاد آئے اس کی یاد کانور ایسا ہے جو چہرہ سے فوراً عیاں ہوتا ہے۔
2..جب وہ بولے تو علم کی بات کہے، فضولیات میں وقت برباد نہ کرے۔
3..اس کے عمل سے آخرت کی یاد آئے، قول سے نہیں، بلکہ اس کے عمل سے تم کو آخرت کی فکر غالب ہو۔ نہ وہ آسمان پر اڑے ، نہ کوئی کرامت ضروری ہے۔ بس یہ تین صفات دیکھ لو اور وہ ان ہی لوگوں میں ہوگا۔
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین․