Deobandi Books

الفاروق رمضان المبارک 1438ھ

ہ رسالہ

17 - 18
ایمان، اعمال او راخلاق

محترم محمد ضمیر رشیدی
	
انڈادو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے ، ایک باہری سفید خول اور دوسرا اندرونی مادّہ گیروی۔ انڈے کو جب مرغی کے پَروں کے نیچے بیس یا اکیس دنوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے تو اُس کے اندرون میں ایک چوزہ بن جاتا ہے۔ انڈے کے اندرون میں یہ صفت ہے کہ وہ ایک جان دار چوزہ میں تبدیل ہو جائے، جب کہ اُس کے خول میں یہ صفت نہیں ہے، چوں کہ اندرونی بے جان سیّال مادّہ نشو ونما پا کر ایک جان دار چُوزہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور بے جان خول اندر بنے ہوئے جان دار چُوزے کی راہ میں رکاوٹ اور آڑ بنتا ہے، لہٰذا جان دار چُوزہ اس بے جان خول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے ، تاہم اگر کسی انڈے کو سَینے میں کچھ کسر باقی رہ جائے تو وہ گندا ہو جاتا ہے اور چوں کہ وہ آس پاس کے دوسرے انڈوں کی خرابی کا باعث بن سکتا ہے، لہٰذا ایسے گندے انڈے کو کوڑا دان میں پھینک دیا جاتا ہے، مگر انسانوں کا معاملہ مختلف ہے۔ مالکِ کائنات نے ہر انسان کے اندر کام یاب ہونے کی صلاحیت و استعداد رکھی ہے۔ ایک حدیث میں انسانوں کوسونے چاندی کی کانوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔

”لوگ کانوں کی طرح ہیں، جس طرح سونے چاندی کی کانیں ہوتی ہیں۔“ ( مسند احمد 539/2) مزید یہ کہ قرآن مجید میں صاف اعلان کردیا گیا ہے کہ انسان کو وہ ضرور ملے گا جس کی وہ کوشش کرے۔

”اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ، مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے۔“ (سورة النجم:39)

اس کے ساتھ ہی انسانوں کی کام یابی وترقی کے لیے ظاہر وباطن میں ہدایت کا زبردست انتظام کیا گیا ہے ۔ ظاہری وبیرونی انتظام میں آسمانی کتاب ” قرآن مجید“ کی ہدایت، نبی رحمت ”حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم“ کی سیرت، ہر دو رمیں صدیقین، شہداء وصالحین کی صحبت وغیرہ شامل ہیں، جب کہ اندرونی وباطنی انتظام میں انسان کو دین فطرت پر پیدا کیا جانا، نیکی وبدی کی تمیز اس کی سرشت میں رکھنا، حق کی طلب کا فطری طور پر متلاشی ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ رب تعالیٰ کا کس قدر منصفانہ اور کریمانہ معاملہ ہے کہ اُس نے دین کے نام پر بندوں سے کسی مشکل چیز کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ جس فطرت یعنی ”فطرت الله“ پر اُن کو پیدا کیا ہے، اُسی دین فطرت، دینِ حنیف اور دینِ قیم کی طرف اپنا رخ سیدھا رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کے مطابق تعمیر وتشکیل کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

”اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔“ (سورہ حج:78)

”پس تم یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین حنیف کی طرف رکھو، الله کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو بنایا ہے۔“ ( سورہ الروم:30)

”پس اپنا رخ دینِ قیم کی طرف سیدھا رکھو۔“ (سورہ الروم:43)

”یقینا تمہارے لیے ہے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم میں ایک بہترین نمونہ۔“ (سورہ احزاب:21)

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے مکہ میں انذار وتبشیر کے ذریعہ اپنی دعوتی مہم کا آغاز کیا۔ قوم کو فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر دعوت پیش کی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب ایسے ہی مردہ تھے، جیسے کوئی بے جان انڈا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبردست محنت اور تربیت نے مُردوں کو زندہ کر دیااو رجنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت سے اعراض کیا اور وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے جاں نثار صحابہ  کی راہ میں رکاوٹ اورآڑ بنتے رہے، الله تعالیٰ نے8ھ میں انہیں فیصلہ کن شکست سے دو چار کیا۔ یوں مکہ میں کفر وشرک کا عظیم قلعہ اس طرح ٹوٹ کر پارہ پارہ ہو گیا، جیسے انڈے کا چھلکا ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے، جب کہ وہ اندر بنے ہوئے چوزہ کی راہ میں رکاوٹ اور آڑ بنتا ہے۔

اہل ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمائے حق ، حکمائے اُمت، صلحاء واکابرین او ربزرگانِ دین کی را ہ بری، قیادت ،امامت وصحبت میں اپنی زندگی کو الله کے مطلوب ایمان، اعمال اور صفات سے مُزین کرتے ہوئے انہیں مرتبہٴ کمال تک پہنچائیں کہ یہی اُن کا اصل نشانہ ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کام یاب ہو جائیں تو نصرت ایزدی کے مستحق قرار پائیں گے، کیوں کہ اسی گروہ، ”حزب الله“ کے لیے غلبہ اور فلاح موعود ہے، اگرچہ وہ عددی اقلیت میں ہوں۔

”الله کا گروہ ہی غالب رہنے والا ہے۔“ (سورہ المائدہ:56)

”الله کا گروہ ہی فلاح پانے والا ہے۔“ (سورہ الحشر:22)

”ہارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ الله کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔“(سورہ البقرہ:249)

انڈادو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے ، ایک باہری سفید خول اور دوسرا اندرونی مادّہ گیروی۔ انڈے کو جب مرغی کے پَروں کے نیچے بیس یا اکیس دنوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے تو اُس کے اندرون میں ایک چوزہ بن جاتا ہے۔ انڈے کے اندرون میں یہ صفت ہے کہ وہ ایک جان دار چوزہ میں تبدیل ہو جائے، جب کہ اُس کے خول میں یہ صفت نہیں ہے، چوں کہ اندرونی بے جان سیّال مادّہ نشو ونما پا کر ایک جان دار چُوزہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور بے جان خول اندر بنے ہوئے جان دار چُوزے کی راہ میں رکاوٹ اور آڑ بنتا ہے، لہٰذا جان دار چُوزہ اس بے جان خول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے ، تاہم اگر کسی انڈے کو سَینے میں کچھ کسر باقی رہ جائے تو وہ گندا ہو جاتا ہے اور چوں کہ وہ آس پاس کے دوسرے انڈوں کی خرابی کا باعث بن سکتا ہے، لہٰذا ایسے گندے انڈے کو کوڑا دان میں پھینک دیا جاتا ہے، مگر انسانوں کا معاملہ مختلف ہے۔ مالکِ کائنات نے ہر انسان کے اندر کام یاب ہونے کی صلاحیت و استعداد رکھی ہے۔ ایک حدیث میں انسانوں کوسونے چاندی کی کانوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔

”لوگ کانوں کی طرح ہیں، جس طرح سونے چاندی کی کانیں ہوتی ہیں۔“ ( مسند احمد 539/2) مزید یہ کہ قرآن مجید میں صاف اعلان کردیا گیا ہے کہ انسان کو وہ ضرور ملے گا جس کی وہ کوشش کرے۔

”اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ، مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے۔“ (سورة النجم:39)

اس کے ساتھ ہی انسانوں کی کام یابی وترقی کے لیے ظاہر وباطن میں ہدایت کا زبردست انتظام کیا گیا ہے ۔ ظاہری وبیرونی انتظام میں آسمانی کتاب ” قرآن مجید“ کی ہدایت، نبی رحمت ”حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم“ کی سیرت، ہر دو رمیں صدیقین، شہداء وصالحین کی صحبت وغیرہ شامل ہیں، جب کہ اندرونی وباطنی انتظام میں انسان کو دین فطرت پر پیدا کیا جانا، نیکی وبدی کی تمیز اس کی سرشت میں رکھنا، حق کی طلب کا فطری طور پر متلاشی ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ رب تعالیٰ کا کس قدر منصفانہ اور کریمانہ معاملہ ہے کہ اُس نے دین کے نام پر بندوں سے کسی مشکل چیز کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ جس فطرت یعنی ”فطرت الله“ پر اُن کو پیدا کیا ہے، اُسی دین فطرت، دینِ حنیف اور دینِ قیم کی طرف اپنا رخ سیدھا رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کے مطابق تعمیر وتشکیل کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

”اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔“ (سورہ حج:78)

”پس تم یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین حنیف کی طرف رکھو، الله کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو بنایا ہے۔“ ( سورہ الروم:30)

”پس اپنا رخ دینِ قیم کی طرف سیدھا رکھو۔“ (سورہ الروم:43)

”یقینا تمہارے لیے ہے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم میں ایک بہترین نمونہ۔“ (سورہ احزاب:21)

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے مکہ میں انذار وتبشیر کے ذریعہ اپنی دعوتی مہم کا آغاز کیا۔ قوم کو فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر دعوت پیش کی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب ایسے ہی مردہ تھے، جیسے کوئی بے جان انڈا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبردست محنت اور تربیت نے مُردوں کو زندہ کر دیااو رجنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت سے اعراض کیا اور وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے جاں نثار صحابہ  کی راہ میں رکاوٹ اورآڑ بنتے رہے، الله تعالیٰ نے8ھ میں انہیں فیصلہ کن شکست سے دو چار کیا۔ یوں مکہ میں کفر وشرک کا عظیم قلعہ اس طرح ٹوٹ کر پارہ پارہ ہو گیا، جیسے انڈے کا چھلکا ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے، جب کہ وہ اندر بنے ہوئے چوزہ کی راہ میں رکاوٹ اور آڑ بنتا ہے۔

اہل ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمائے حق ، حکمائے اُمت، صلحاء واکابرین او ربزرگانِ دین کی را ہ بری، قیادت ،امامت وصحبت میں اپنی زندگی کو الله کے مطلوب ایمان، اعمال اور صفات سے مُزین کرتے ہوئے انہیں مرتبہٴ کمال تک پہنچائیں کہ یہی اُن کا اصل نشانہ ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کام یاب ہو جائیں تو نصرت ایزدی کے مستحق قرار پائیں گے، کیوں کہ اسی گروہ، ”حزب الله“ کے لیے غلبہ اور فلاح موعود ہے، اگرچہ وہ عددی اقلیت میں ہوں۔

”الله کا گروہ ہی غالب رہنے والا ہے۔“ (سورہ المائدہ:56)

”الله کا گروہ ہی فلاح پانے والا ہے۔“ (سورہ الحشر:22)

”ہارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ الله کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔“(سورہ البقرہ:249)

Flag Counter