حضرت تھانویؒ کا تجدیدی مقام
علامہ سید سلیمان ندویؒ
عصر حاضر، یعنی چودھویں صدی کے مجدد کی تعیین کے لیے بھی وہی معیار ہو گا، جو اگلوں کے لیے تھا، یعنی ان کے کارنامے اس منصب جلیل پر سرفراز ہونے کی گواہی دیتے ہیں او راس تعین کے مسئلہ میں نیک نیتی سے دو شخصوں کی راہیں حسب عقیدت ومحبت مختلف ہو سکتی ہیں او ران میں سے کسی ایک پر اعتراض اور اِشکال نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ مسئلہ محض گمان وتخمین اور قیاس کا ہے۔
اس صدی کے بزرگوں میں سے مرشدنا حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله تعالیٰ کی ایک خاص ممتاز حیثیت ہے، علوم ظاہر وباطن کی یکجائی اور تمام کمالات علمی وعملی کا ان میں اجتماع ،ایک طرف فقہ وفتاویٰ کی مسند نشینی، دوسری طرف تصنیف وتالیف وتحریر ووعظ وتقریر سے ہدایت خلق، رد بدعات، دفع شبہات، ابطال رسوم اور تیسری طرف اپنے انفاس قدسیہ سے باطنی فیوض وبرکات کا اجراء اور اسلام کے عقائد واعمال کو زمانہ کے تہہ بہ تہہ ظلمات کے گردوغبار سے پاک کرنا، ایسے اوصاف ہیں جن کا اجتماع ان کے محبین ومعتقدین کے خیال میں اس درجہ پر ہے کہ وہ منصب تجدید کی حد تک پہنچتا ہے۔
حضرت والا کی ولادت1280ھ میں ہوئی، مراتب درس وتعلیم سے فراغت1300ھ میں ہوئی اور1301ھ میں قطب وقت مولانا رشید احمد گنگوہی کے مقدس ہاتھوں سے ہوئی اور اسی سال 1301ھ سے کان پور میں بیٹھ کر درس وتدریس اور وعظ وتقریر کا آغاز فرمایا او راسی سال قطب آفاق حضرت مولانا شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی کے فیض دیدار سے مسرور ہوئے اور اسی سال فریضہ حج سے مشرف ہوئے اور شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حاجی امداد الله مہاجر مکی سے بیعت ہو کر اور فیوض گونا گوں سے بہرہ اندوز ہو کر 1302ھ کو واپس ہوئے۔
ان تاریخوں کا ذکر اس لیے کیا گیا تاکہ ”علی رأس کل مأة“ کی ظاہری مطابقت بھی واضح ہو جائے، حضرت مولانا کے دینی وعلمی وروحانی واصلاحی کارناموں کو دیکھ کر خواص امت کو حضرت کے مجدد وقت ہونے کا گمان حضرت کی زندگی ہی میں ہو چکا تھا اور بعض صاحبوں نے ہمت کرکے آپ سے دریافت بھی فرمایا تو اس طرح اس کا جواب دیا جس طرح حدود شرع کے اندر احتیاط کے ساتھ کہا جاسکتا ہے، چناں چہ زبانی او رتحریری دونوں قسم کی روایات اس بندہ ہیچ مداں تک پہنچی ہیں، ” الافاضات الیومیہ“ سے مؤلف ہذا نے حضرت کے حسب ذیل ملفوظ کو اس کتاب کے مقدمہ( دیدہ کامل) میں نقل کیا ہے، ایک مولوی صاحب نے دریافت کیا:
” کیا حضرت مجدد وقت ہیں؟ فرمایا: احتمال تو مجھ کو بھی ہے مگر اس سے زائد نہیں، جزم اوروں کو بھی نہیں کرنا چاہیے، ظن کے درجہ میں گنجائش ہے، باقی قطعی یقین تو کسی مجدد کا نہیں ہوا، جس پر جتنا اور جس درجہ کا فضل ہو جائے، ”ذلک فضل الله یؤتیہ من یشاءُ والله ذوالفضل العظیم․“
اس سے زیادہ واضح عبارت کمالات اشرفیہ(ص300، ملفوظ/1187) میں ہے: ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مجدد وقت ہیں؟ فرمایا کہ چوں کہ نفی کی بھی کوئی دلیل نہیں، اس لیے اس کا احتمال مجھ کو بھی ہے، مگر اس سے زائد جزم نہ کرنا چاہیے، محض ظن ہے اور یقینی تعین تو کسی مجدد کا نہیں، الحمدلله حمداً کثیراً مبارکاً فیہ علی ہذا الاحتمال․
حضرت والا رحمہ الله تعالیٰ کی اصلاحات کی خاص شان یہ ہے کہ وہ ہمہ گیر ہیں، اصلاح امت کی کوشش میں علمی وعملی زندگی کے ہر گوشہ پر ان کی نظر تھی، بچوں سے لے کر بوڑھوں تک، عورتوں سے لے کر مردوں تک، جاہلوں سے لے کر عالموں تک، فساقوں سے لے کر صوفیوں اور درویشوں اور زاہدوں تک، غریبوں سے لے کر امیروں اور دولت مندوں تک ، خریداروں سے لے کر تاجروں تک، طالب علموں سے لے کر استادوں اور مدرسوں تک، غرض ہر صنف امت اور ہرجماعت کے کاموں تک ان کی نظر دوڑی، پیدائش، شادی بیاہ، غمی اور دوسری تقریبوں اور اجتماعوں تک کے احوال پر ان کی نگاہ پڑی اور شریعت کے معیار پر جانچ کر ہر ایک کا کھرا اور کھوٹا الگ کیا اوررسوم وبدعات اور مفاسد کے ہر روڑے اور پتھر کو صراط مستقیم سے ہٹادیا، تبلیغ، تعلیم ، سیاست، معاشرت، معاملات ،اخلاق، عبادات اور عقائد میں دین خالص کی نظر میں جہاں کوتاہی نظر آئی اس کی اصلاح کی، فقہ کے نئے نئے مسائل اور مسلمانوں کی زندگی کی نئی نئی ضرورتوں کے متعلق بھی اپنے جانتے پورا سامان مہیا کر دیا اور خصوصیت کے ساتھ اس فن احسان وسلوک کی، جس کا مشہور نام تصوف ہے، تجدید کی جو دنیا میں کس مپرسی میں اور ہندوستان میں بحالت غربت تھا اور جس کی تابانی پر بدعات کی ظلمت غالب آگئی تھی، جو دوکان دار صوفیوں کے ہاتھوں کسب معاش کے فنون میں سے ایک فن کی صورت بن گیا تھا او رجہاں اس کی تعلیم ہوتی تھی، وہاں وہ یا محض چند فلسفیانہ خیالات کا مجموعہ ہو کر رہ گیا تھا یا اوراد وظائف کے ایک نصاب کا۔ سلف صالح نے اس فن کے جو ابواب ومسائل منقح کرکے لکھے تھے وہ بالکل فراموش ہو گئے تھے اور خصوصیت کے ساتھ سلوک کی حقیقت اور غایت بالکل ہی چھپ گئی تھی او رجہاں کسی قدر اس کا نام ونشان تھا وہاں علم ونظر میں وحدة الوجود یا وحدة الشہود کی ناقص تعبیر پر اور اعمال میں صرف ذکر وفکر ومراقبہ کی چند تعلیمات پر بالکلیہ قناعت تھی، خانقاہوں میں سماع واعراس ومحافل کے سوا اس کا کوئی حقیقی مظہر باقی نہیں رہا تھا، طریقت وشریعت کو دو متقابل حریف ٹھہرا کر ان میں سے ایک کی توہین اور تحقیر کی جارہی تھی۔
یہ تو ان کا حال تھا جو دین کے مدعی تھے، باقی عوام تو ان کی زندگی دین سے خالی ہو کر رسوم وبدعات کی نذر ہو گئی تھی، مسلمان کی زندگی کے کسی گوشہ میں بھی دین اور خالص دین کا تخیل نہ تھا، اخلاق کی تعلیم او رمعاملات معاشرات کی تصحیح دین کامل کے دائرہ سے باہر ہو گئی تھی۔
تعلیم جدید کی نئی آب وہوا نے تفرنج اور فرنگی مآبی کا وہ زہر پھیلا دیا تھا جس سے دینی عقائد واعمال کی ہر چیز پر مردنی چھا گئی تھی اور جہاں دین کا کچھ خیال زندہ بھی تھا شکوک وشبہات کی کثرت اور شدت نے اس پر عرصہٴ حیات تنگ کر رکھا تھا۔
ایک پرانے قصبہ کی ایک کہنہ مسجد کے ایک گوشہ میں ایک دور بین زندہ دل مرد درویش بیٹھا ہوا مسلمانوں کے سارے احوال اور ان کی زندگی کے ہر شعبہ پر نظر ڈال کر حق وباطل، نیک وبد اور صحیح وغلط کے درمیان تفرقہ کی لکیر بنانے میں مصروف تھا، اس کے سامنے دین کی صحیح تمثال تھی اور اس کو دیکھ دیکھ کر موجودہ مسلمانوں کی زندگی کی تصویر میں جہاں جہاں غلطیاں تھیں وہ ان کے درست کرنے میں مشغول تھا، اس نے پوری زندگی اس میں صرف کی کہ مسلم کی تصویر حیات کواس شبیہ کے مطابق بنا دے جو دین حق کے مرقع میں نظر آتی ہے۔
اس یقین کو جو مسلمانوں کے سینوں میں چودہ سو برس سے نقش تھا کہ دین ہی ان کی دینی ودنیاوی ترقیوں کا کفیل ہے، لیکن جس کو تعلیم جدید نے یورپ کی نقالی میں شک سے بدل دیا تھا، اس حکیم الامت نے دوبارہ پیدا کیا اور بتایا کہ حقیقت میں ترقی جس کی اس وقت دم بدم پکار ہے، اونچے محلوں ، بھرے خزانوں ، بیش قیمت لباسوں، گراں بہا سامانوں، بڑی بڑی تجارتوں، اعلیٰ ملازمتوں، اونچی تنخواہوں، شاہانہ احتراموں، اعزازوں او رخطابوں کا نام نہیں، بلکہ الله تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کے ساتھ بلنداخلاقی، شریف عادات اورپاک و صفا قلب کا نام ہے، جو آب وگل سے وابستہ اور فانی کا طالب نہ ہو اور حرص وہوا، حب مال اور حب جاہ کا گرویدہ نہ ہو، جس میں اخلاص کے ساتھ خالق کی رضا کے لیے خلق کی خدمت کا جذبہ ہو۔
فقر وتصوف، علم وفن او رتمدن وسیاست زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمان اپنی غرض وغایت اور اصول ومبادی کو چھوڑ کر ہندی وعجمی ویونانی وافرنگی تصورات کی تقلید میں مصروف ہو گئے او راب تک مصروف ہیں او راسی کی رونق کو اپنے کاشانہ کی عظمت جانتے ہیں، فقرو تصوف میں ہندی ویونانی تصورات جوگ واشراق کی تقلید ہے، علم وفن میں عجمی ویونانی مذاق کی پیروی ہے، تمدن وسیاست میں ایرانی ورومی رنگ کی آمیزش ہے، کیا عجیب بات ہے کہ وہ دین جو قیصریت وکسروانیت کے رنگ کو مٹانے آیا تھا اسی کے نام لیوا چالیس بر س کے بعد خود ہی قیصریت وکسروانیت کے رنگ میں آہستہ آہستہ ایسے رنگ گئے، اس کے امراء و حکام خلفائے راشدین کی نیابت کی جگہ قیصر وکسریٰ کی جانشینی پر فخر کرنے لگے، وہی تعیش، وہی سونے چاندی اور ریشم وحریر اور طاؤس ورباب کی زندگی مسلمان امراء وحکام کی زندگی کا مقصد بن گیا، بیت المال ان کا ذاتی خزانہ ہو گیا اور سلطنت ان کی مورثی ملکیت وجاگیرداری اور زمین داری، وہاں اسلامی اصول کے بجائے قیصر وکسریٰ کے طرز کی پیروی جاری ہو گئی۔
یہ تو عہد گزشتہ کا حال تھا، عہد حال میں یورپ کے تمدن اورسیاست کی نقالی ہماری اسلامی سلطنتوں کا فخر ہے، ہمارے دارالسلطنتوں کے سامنے پیرس کے خاکے ہیں، ہماری خواتین کے سامنے انگلستان وفرانس کی عریانی اور رنگینی او ربے حجابی ہے، ہمارے نوجوانوں کی نگاہوں میں رقص وسرود اور ظاہری پوشاک ووضع کی اور طرز ماندوبود میں فرنگی مآبی زندگی کی کام یابی کا سب سے اعلیٰ تخیل ہے، غرض مسلمانوں کے دل ودماغ او رذہن وتصور سے زندگی کی وہ غایت وحیات کا وہ مقصد جو اسلام نے پیش کیا تھا، یکسر مخفی اور پوشیدہ ہے۔
علم وفن پر غور کیجیے تو ہمار ی قدیم تعلیم اب تک یونان کی تقویم پارینہ کی پرستش میں اور تعلیم جدید یوروپین ضلالت و گم راہی خیال کی عکاسی میں مصروف ہے اور سوائے تقلید ونقالی کے، کوئی مجتہدانہ تصور ہمارے سامنے نہیں ہے، ہمارے سامنے جب اعلیٰ تمدن او راعلیٰ سلطنت داری کا تخیل آتا ہے تو یورپ کی ایک ایک سلطنت اپنی پوری ہو ش ربائی اور باطل آرائی کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے اور یہ حقیقت ہمارے سامنے سے گم ہو جاتی ہے کہ اسلام کا تصور سیاست اور تصور تمدن او رتصور علم وفن اپنا خاص ہے اور اسی کو دوبارہ پیدا کرنا اور دنیا کے سامنے لانا ہماری قومی وملی غرض وغایت ہے۔
سلوک اور فقر وتصوف جو در حقیقت اعلیٰ دین او راعلیٰ اخلاق کا اصطلاحی نام تھا وہ ترک عمل اور چندرسوم ورواج کا مجموعہ ہو کر رہ گیا اور پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام طرق حیات پر بدعات اور رسوم شرک وکفر کے تو برتو پردے پڑے ہیں، جن کی بزرگوں کی متروکہ وراثت کے نام سے ہم اب تک بقا کے درپے ہیں۔
مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله کے تجدیدی کارناموں پر مشتمل کتابیں ( جدید دین کامل، تجدید تصوف وسلوک ، تجدید تعلیم وتبلیغ، تجدید معاشیات) مسلمانوں کی حقیقی اصلاح ترقی کے متعلق حرف اخیر کی حیثیت رکھتی ہیں، دل سر بسجود ہے او رہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہیں کہ الله تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دیں کہ وہ اس آئینہ میں اپنے خط وخال کو دیکھ کر اپنی شکل کو پہچانیں اور غلط اور گم راہ دنیا کے پیرو اور مقلد بننے کے بجائے دنیا کے امام اور پیشوا بنیں اور ایک نئے تمدن، نئے طرز حیات، نئے مقصد زندگی اور نئے آئین سلطنت کی بنیاد ڈالیں #
بیا تا گل بر افشانیم ومے در ساغر اندازیم
فلک را سقف بشگافیم وطرح نو دراندازیم
اور اس وقت کی غم زدہ او رمصیبت سے بھری ہوئی امن کی جویا اور سکینت کی پیاسی دنیا کو امن وسلامتی کا پیغام دیں او رانفرادی واجتماعی زندگی کی تکمیل کریں، جو دنیا وآخرت کی صلاح وفلاح کی کفیل ہو اور سیاست او رملک داری کو حرص وہوا، جھوٹ اور دغا او رمکروفریب سے آزاد کریں #
اگر غم لشکر انگیزد کہ خونِ عاشقاں ریزد
من وساقی بہم سازیم وبنیادش بر اندازیم
اسلام نے ببانگ دہل بتایا ہے او رتاریخ نے اس کی تایید کی ہے کہ حکم رانی کے استحقاق کے لیے اخلاقی جوہر لازم ہے، حب مال اور حب جاہ یہ دولبالب زہر کے پیالے ہیں، جو شریعت زلال کی شکل میں حکام اور لیڈران کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، اگر کسی نے اس کی طمع میں آکر ان کوپی لیا تو نہ صرف ان کی، بلکہ پوری ملت کی موت کا باعث بن جاتے ہیں، اس لیے کہ وہ حکومت صالحہ جس کی دعوت اسلام کا آئین دیتا ہے ، وہ ایثار واخلاص اور خدمت خلق کے للہی جذبات سے تعمیر پاتی ہے، لیکن ان جذبات کی آفرینش اورمال وجاہ کی محبت سے قلوب کی حفاظت اس تقویٰ کے بغیر ممکن ہی نہیں جو قرآن سے ہدایت یابی کی پہلی شرط ہے۔﴿ھدی للمتقین﴾ بے انصافی کینہ پروری، رشوت خوری ، پرمٹ فروشی، دوست نوازی، بلیک مارکیٹنگ، جن کی بدولت ہندوستان وپاکستان کی بنیادیں ہل رہی ہیں، وہ حاکموں اور عہدہ داروں اور وزیروں اور سودا گروں اور تاجروں اور زمین داروں اور کسانوں کی انہیں اوصاف عالیہ سے خالی اور محروم ہونے کے سبب سے ہیں اور اس کا اصل سرچشمہ اس خشیت الہی اورجزائے ”یوم الدین“ سے بیگانگی ہے، جس سے قلوب تزکیہ وتصفیہ کے آب صافی سے پاک وصاف ہوتے ہیں۔
اجتماعی کاموں کو چھوڑ کر انفرادی کام بھی تزکیہ قلوب اور تصفیہ اخلاق کے بغیر فوز حقیقی سے محروم رہتے ہیں، افراد کے قلوب جب تک عناد وحسد، بغض وکینہ، عجب وغرور، ریاونمائش سے خالی اور اخلاص وایثار ، توکل واعتماد علی الله اور صبر وثبات سے معمور نہیں ہوتے، دنیا میں کام یابی سے اور آخرت میں اجر وثواب سے ہم کنار نہیں ہوتے اور یہ ایسے اصول ہیں جو ایک طرف اصول وتعلیمات دین اور دوسری طرف جماعت اجتماعی وانفرادی مبادی نفسیات سے ثابت اور مؤید ہیں۔
شخصی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، اس کے کاموں کی غایت رضائے الہٰی کی طلب اور احکام الہیٰ کی تعمیل اور اعلائے کلمة الله کے بلند تخیل کے سوا اورکچھ ہو ہی نہیں سکتی، غیر فانی ملت کا مقصد حیات ایسے ہی غیر فانی مقاصد ہو سکتے ہیں، ورنہ محض دنیاوی فوز وفلاح، یعنی دولت وحشمت ، عیش کی زندگی اوراسباب راحت کی فراوانی اور بلند محلات اور خدم وحشم کی کثرت تو وہ پست ومبتذل مقاصد ہیں جو زندگی کا فریب او رحیات انسانی کا سراب ہے:﴿ذلک بان الله ھو الحق وان ما یدعون من دونہ الباطل﴾اور﴿کل شیءٍ ما خلا الله باطل﴾․