Deobandi Books

الفاروق رمضان المبارک 1438ھ

ہ رسالہ

10 - 18
حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوبؒ

(1301ھ/1884ء․․․․1362ھ/1944ء)

حضرت مولانا حکیم محمد اختر 

صحبت اہل اللہ کا کرشمہ
اللہ والوں کی صحبت کے بغیر عمل کی توفیق اور ہمت نہیں ہوتی، آدمی کمزور اور بزدل رہتا ہے، خواجہ صاحب کے یہاں ایک مرغا تھا، جو آدمیوں کو کاٹ لیتا تھا، خود ڈپٹی کلکٹر تھے، چپڑاسی کو بھیجا کہ مرغا بیچ آوٴ اور اُس سے کہا اس میں عیب ہے، وہ خریدار کو بتادینا۔ پھر یہ سوچا کہ پتا نہیں چپڑاسی عیب بتائے یا نہیں؟ قیامت کے دِن اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ تم نے عیب بتایا تھا کہ نہیں؟ چپڑاسی سے نہیں پوچھے گا۔ اس لیے ہاتھ میں خود مرغا دبایا اور لکھنوٴ کے نخاس بازار میں، جہاں کبوتر، چڑیاں اور پرندے فروخت ہوتے ہیں، پہنچ گئے #
        نہ لو نام اُلفت کا جو خود داریاں ہیں
        بڑی ذلتیں ہیں بڑی خواریاں ہیں
مگر:
        عشق کی ذلت بھی عزت ہوگئی
        لی فقیری بادشاہت ہوگئی

ڈپٹی کلکٹر ہوکر فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے۔ یہ تھا صحبت اہل اللہ کا کرشمہ کہ ڈپٹی کلکٹر اللہ کے خوف سے فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اب جو آتا ہے اُس سے کہتے ہیں کہ بھائی! اس مرغے میں عیب ہے، قیمت اس کی اتنی ہے، مگر میں کم میں دے دوں گا، بیچ کر آگئے۔ آج اُن کے تذکرے عزت سے ہورہے ہیں کہ اللہ کے نام پر اپنے آپ کو فدا کردیا، عزت اللہ کے لیے ہے، جب اس پر عزت فدا کروگے تو تمہیں بھی عزت مل جائے گی۔

دُنیا کا عارضی قیام
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ایک دن اس دُنیا سے جانا ہے یا نہیں؟ یا کہیں ایسا سوپ یا ایسا کوئی وٹامن یا کوئی آبِ حیات تو نہیں پیا کہ جانا ہی نہ ہو۔ پھر جب جائیں گے تو ہم اپنے ساتھ کیا کیا لے جائیں گے؟ ٹیلی ویژن کے کون کون سے پروگرام لے جائیں گے اور وی سی آر کے کتنے سیٹ لے جائیں گے اور موبائل فون بھی لے جائیں گے؟ کچھ نہیں لے جاوٴگے، کچھ نہیں لے جاوٴگے، کتنے ہی فیکٹری کے بڑے مالک بن جاوٴ، کروڑ پتی بن جاوٴ، مگر جانا ہے تو صرف کفن لے جاوٴگے، موت آنے سے پہلے ہی جب موت کی بے ہوشی آتی ہے، اُسی وقت سے فیکٹری مالکان اپنی فیکٹریوں سے بے خبر ہوجاتے ہیں، اُن کا اکاوٴنٹنٹ آکر بتاتا ہے کہ ابھی ابھی ایک کروڑ کا نفع ہوا، مگر سیٹھ صاحب سنتے ہی نہیں ،کیوں کہ موت کی بے ہوشی طاری ہے، آکسیجن لگی ہوئی ہے۔ اکبر الٰہ آبادی جج ہونے کے باوجود کیا پیارا شعر کہتا ہے:
        قضا کے سامنے بے کار ہوتے ہیں حواس اکبر
        کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں
یعنی موت آتی ہے تو زندگی ہی میں حواس بے کار ہوجاتے ہیں۔ کان سے کچھ سنائی نہیں دیتا، آنکھ موجود ہے، مگر دکھائی نہیں دیتا، نوٹ کی گڈیاں گن نہیں سکتا، شامی کباب اور پاپڑ نہیں کھاسکتا۔

صالحین کا اختلاف
بعض صالحین میں بھی آپس میں اختلاف رہتا ہے، ایک دوسرے سے مزاج نہیں ملتا۔ حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے دو خلیفہ تھے اور دونوں میں بول چال بند تھی، دونوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تھے، نہ ملتے جلتے تھے اور دونوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے، کسی نے لکھا کہ حضرت دونوں آپ کے خلیفہ ہیں، آپ دونوں میں میل ملاپ کیوں نہیں کرادیتے، حکم دے دیجیے کہ دونوں گلے مل لیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ان کا اِختلاف ان کے اِتفاق سے افضل ہے، اگر ملاوٴں گاتو اور لڑیں گے، اس لیے دور دور رہیں تو اچھا ہے۔ ایک کا نام ماسٹر ثامن تھا اور دوسرے کا نام ماسٹر کرم اِلٰہی تھا۔ دونوں بہت موٹے تھے، لکھیم پور کے رہنے والے تھے، جہاں جنگل بہت ہیں۔ شکار کرنے کے لیے حضرت خواجہ صاحب رحمة اللہ علیہ ایک ہاتھی پر بیٹھے اور یہ دونوں، جن میں بول چال بند تھی، لیکن جب کہیں مل جاتے تھے تو سلام کرلیتے تھے، یہ دونوں دوسرے ہاتھی پر بیٹھے۔ اِتفاق سے کیچڑ زیادہ تھی تو ہاتھی چلتے چلتے رُک جاتا، جیسے کیچڑ میں دھنس رہا ہو۔ خواجہ صاحب نے جو یہ منظر دیکھا تو اپنے ہاتھی پر سے زور سے فرمایا:
        ایک ہاتھی پر ہیں دو ہاتھی سوار
        کیوں نہ دھنس جائے ہاتھی بار بار

حسن فانی دل لگانے کے قابل نہیں
اس لیے اللہ کی محبت سیکھنے کے لیے اللہ والوں کی صحبت اِختیار کرو، اللہ والوں کے ناز اُٹھاوٴ، آج کل یہ نوجوان بچے بے پردہ اور ان انگریز (کرسچین) لڑکیوں کے چکر میں آکر ماں باپ کی محبت کم کردیتے ہیں اور ان چکروں میں پڑجاتے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ان کے چہرے کا جغرافیہ بدلے گا یا نہیں؟ آج اگر بیس سال کی لڑکی ہے تو ساٹھ سال کی بڈھی ہوگی تب اپنا مصنوعی دانت نکال کر برش کررہی ہوگی، بال کی چٹیا سفید ہوگئی ہوگی اور گردن بھی ہل رہی ہوگی، کمر جھک رہی ہوگی تو آپ کو عالمِ شباب پر رونا آئے گا یا نہیں؟ اب میرا شعر سنیے :
        کمر جھک کے مثل کمانی ہوئی
        کوئی نانا ہوا کوئی نانی ہوئی
اور:
        ان کے بالوں پہ غالب سفیدی ہوئی
        کوئی دادا ہوا کوئی دادی ہوئی
اور:
        یوں تو دُنیا دیکھنے میں کس قدر خوش رنگ تھی
        قبر میں جاتے ہی دُنیا کی حقیقت کھل گئی

خواجہ عزیز الحسن رحمة اللہ علیہ کا واقعہ میرے شیخ نے سنایا۔ علم سماعی بھی عجیب نعمت ہے۔ صحابہ کی سنت یہی ہے کہ ان حضرات کے کان براہِ راست زبانِ نبوت سے علم حاصل کرتے تھے۔ بزرگوں کی باتیں سن کر جو علم آتا ہے وہ بڑا موٴثر ہوتا ہے۔ وہ دِل ہوتا ہے، زبان دِل کا ترجمان اور کان دِل کا ترجمان، دِل سے جو بات نکلتی ہے دُوسرا دِل اُس کو کان کے ذریعہ سے کھینچ لیتا ہے، کان بھی قِیف کی طرح سے ہے۔

یہ خزاں ہے جو باندازِ بہار آئی ہے
تو فرمایا کہ میں لکھنوٴ گیا تو لکھنوٴ میں پورا شہر سجایا ہوا تھا۔ کیوں؟ وائسرائے کی آمد تھی، خواجہ صاحب بھی ساتھ تھے، خواجہ صاحب نے میرے شیخ کا بستر اپنے سر پر رکھا، جب کہ برابر کے خلیفہ وہ بھی تھے۔ حضرت حکیم الامت کے خلیفہ خواجہ عزیز الحسن صاحب نے حضرت سے فرمایا کہ میں خلیفہ تو ہوں، لیکن غیر عالم ہوں اور آپ عالم خلیفہ ہیں، اِس لیے آپ کا بستر سر پر رکھنے کو سعادت سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد تھوڑی دیر میں جلدی سے قلی کو بلاکر اُس کے سر پر رکھ دیا اور یہ فرمایا کہ حضرت! ایک سی آئی ڈِی آگیا ہے، کیوں کہ میں ڈِپٹی کلکٹر ہوں اور انگریز بڑا ظالم ہے، فوراً میرے خلاف کوئی رپورٹ لکھ دے گا تومیری نوکری خطرے میں پڑجائے گی کہ یہ ڈپٹی کلکٹر ہوکر قلی بن جاتا ہے۔

جگر مراد آبادی کی خواجہ صاحبسے ملاقات
یہاں ایک بات یاد آئی۔ جب اللہ تعالیٰ ہدایت کا دروازہ کھولتاہے تو جگر مراد آبادی جیسا شرابی توبہ کرتاہے۔ میر صاحب جو میرے رفیق سفر ہیں، اُنہوں نے جگر مراد آبادی کو دیکھا ہے ،اتنا پیتاتھاکہ دوآدمی اُٹھاکر اُس کو مشاعرہ میں لے جاتے تھے، مگر ظالم کی آواز ایسی غضب کی تھی کہ مشاعرہ ہاتھ میں لیتا تھا ،لیکن جب ہدایت کا وقت آگیا تو دِل میں اختلاج شروع ہوا۔ گھبراہٹ شروع ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دِکھاؤں گا؟ جب ہدایت کا وقت آیا تو دِل کو پتہ چل گیا کہ کوئی ہمیں یاد کررہاہے:
        محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی
        جسے خود یار نے چاہا اسی کویادِ یار آئی

حضرت بنانی تابعی ہیں، فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ مجھ کو یاد فرماتے ہیں تو مجھ کو پتہ چل جاتاہے کہ اللہ مجھے یاد فرمارہے ہیں۔ خادم نے پوچھا کہ اس کی کیا دلیل ہے؟ فرمایا کہ دلیل قرآن پاک کی ہے : ”تم مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا۔ “

بہرحال جب جگر صاحب کو اللہ نے جذب عطا فرمایا تو اس کے آثار ظاہر ہونے لگے:
        سن لے اے دوست! جب ایام بھلے آتے ہیں
        گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں

غرض اب جگر کی ہدایت کا آغاز ہوتاہے۔ آغازِ ہدایت اس شعر سے ملا:
        پینے کو تو بے حساب پی لی
        اب ہے روزِ حساب کا دھڑکا

یعنی اب دِل دھڑ ک رہاہے کہ قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دوں گا؟ جب وہ پوچھے گا کہ ظالم! میں نے شراب کوحرام کیا تھا اور تو اس قدر پیتا تھا، تجھے شرم نہ آئی، خیال نہ ہواکہ مجھے قیامت کے دِن پیش ہونا ہے؟ پس فوراً خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب (خلیفہ حکیم الامت، مجددُ الملّت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی، اور ان کے اشعار کا مجموعہ کلام ”کشکولِ مجذوب“ کے نام سے موجود ہے) سے مشورہ لیاکہ خواجہ! آپ کیسے اللہ والے ہوگئے؟ کس کی محبت نے آپ کو متبعِ سنت بنایا؟ آپ تو ڈپٹی کلکٹر ہیں۔ ڈپٹی کلکٹر اور گول ٹوپی اور لمبا کرتا اور عربی پاجامہ اور ہاتھ میں تسبیح!! میں نے دُنیا میں کہیں ایسا ڈپٹی کلکٹر نہیں دیکھاہے۔ یہ آپ کی ”ٹر“ کس نے نکال دِی اے مسٹر؟فرمایا: تھا نہ بھون میں حکیم الامت نے یہ ٹر نکالی، مسٹر کی ”ٹر“کو مس کردیا۔ تو کہا کہ مجھ جیسا شرابی بھی تھانہ بھون جاسکتاہے؟ شرط یہ ہے کہ میں وہاں بھی پیوں گا، کیوں کہ اس کے بغیر میرا گذارہ نہیں۔ خواجہ صاحب تھانہ بھون پہنچے اور کہاکہ جگر صاحب اپنی اِصلاح کے لیے آنا چاہتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ میں خانقاہ میں بھی بغیر پیے نہیں رہ سکتا۔ اور جگر کا لکھا ہوا رُقعہ جس پر صرف ایک شعر موجود تھا۔ حضرت مولانا تھانوی کی خدمت میں پیش کر دیا:
        بہ سرِ تو ساقی مستِ من آید سرورِ بے طلبی خوشم
        اگرم شراب نمی دھدبہ خمارِ تشنہ لبی خوشم
(”اے میرے مدہوش ساقی! تیرے دِل میں یہ بات ہے کہ میں تجھ سے کچھ نہ مانگوں۔ ٹھیک ہے اگر تو مجھے شراب نہیں دیتا تو میں اِسی تشنہ لبی کے خمار میں ہی خوش ہوں۔“) (جگر)

مولانا خود بھی فارسی شاعری کا درک رکھتے تھے، چناں چہ اُنہوں نے جگر کے خط کو پڑھا تو اُن کی مراد سمجھ گئے۔ اُس کے بعد اُنھوں نے کاغذ کے دُوسری جانب مندرجہ ذیل شعر لکھ کر جگر کو واپس بھجوا دیا:
        نہ بہ نثرِ نا تو بے بدل، نہ بہ نظم شاعر خوش غزل
        بہ غلامی شہہ عزوجل و بہ عاشقی نبی خوشم
(”اے جگر! تیرا تو یہ حال ہے، لیکن میرایہ حال ہے کہ نہ میرا کسی عظیم ادیب کی تحریر میں دِل لگتا ہے اور نہ ہی مجھے کسی بڑے شاعر کی شاعری خوش کرتی ہے۔ بلکہ میں تو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں اور اپنے پیارے نبی کی غلامی میں ہی خوش رہتا ہوں۔“)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے مسکرا کر کہا کہ جگر صاحب سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ: اشرف علی ان کو اپنے مکان میں ٹھہرائے گا ، خانقاہ تو ایک قومی اِدارہ ہے، اس میں تو ہم اِجازت دینے سے مجبور ہیں، لیکن ان کو میں اپنا مہمان بناؤں گا۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان میں جب کافر کو بھی مہمان بناتے تھے تو اشرف علی ایک گنہگار مسلمان کو کیوں مہمان نہ بنائے گا جو اپنے علاج اور اصلاح کے لیے آرہاہے؟ جگر صاحب نے جب یہ سنا تو رونے لگے اور کہاکہ آہ! ہم تو سمجھتے تھے کہ اللہ والے گنہگاروں سے نفرت کرتے ہوں گے لیکن آج پتہ چلا کہ اُن کا قلب کتنا وسیع ہوتاہے۔

بس تھانہ بھون پہنچ گئے اور عرض کیا کہ حضرت اپنے ہاتھ پر توبہ کرادیجیے اور چار باتوں کے لیے دُعا کیجیے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ میں شراب چھوڑ دوں ، پرانی عادت ہے:
       
چھٹتی نہیں منھ سے یہ کافر لگی ہوئی
اللہ تعالیٰ کے کرم سے اب مے نوشی چھوڑنے کا ارادہ کرلیااور دوسری درخواست دعا یہ کہ مجھ کو حج نصیب ہوجائے۔ تیسری درخواست کہ میں داڑھی رکھ لوں او رچوتھی درخواست کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو۔ حضرت نے دعا فرمائی۔ اور صاحبانِ مجلس نے آمین کہا۔

بعد ازاں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے جگر سے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ جگر نے محفل میں نہایت سوزوگداز سے اپنی یہ غزل سنائی:
        کسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی
        بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
        صداقت ہو تو دل سینوں سے کھینچنے لگتے ہیں واعظ
        حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی
        چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہیں گر گر کر
        حضورِ شمعِ پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
        وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
        وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
        محبت میں ایک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
        کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
        جگر وہ بھی سرتاپا محبت ہی محبت ہیں
        مگر اِن کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی

جگر تھانہ بھون سے واپس آئے تو شراب چھوڑ دی، توبہ کرلی شراب چھوڑنے سے بیمار ہوگئے۔ ڈاکٹروں کے بورڈ نے معائنہ کیا اور کہاکہ جگر صاحب! آپ کی موت سے ہم بے کیف ہو جائیں گے، آپ قوم کی امانت ہیں تو تھوڑی سی پی لیجیے، تاکہ آپ زندہ تو رہیں۔ جگر صاحب نے کہاکہ اگر میں تھوڑی تھوڑی پیتا رہوں گا تو کب تک جیتا رہوں گا؟ ڈاکٹروں نے کہاکہ پانچ دس سال اور چل جائیں گے۔ فرمایا کہ: دس سال کے بعد اگر میں شراب پیتے ہوئے اس گناہِ کبیرہ کی حالت میں مروں گا تو اللہ کے غضب او رقہر کے سائے میں مروں گا اور اگر ابھی مرتا ہوں جیسا کہ آپ لوگ مجھے ڈرا رہے ہیں کہ نہ پینے سے تم مرجاؤ گے تو میں اس موت کو پیار کرتاہوں۔ ایسی موت کو میں عزیز رکھتاہوں ،کیوں کہ اگر جگر کو شراب چھوڑنے سے موت آئی تو اللہ کی رحمت کے سائے میں جاؤں گا، کیوں کہ یہ موت خدا کی راہ میں ہوگی کہ میرے بندہ نے ایک گناہ چھوڑ دیا، اس غم میں یہ مراہے، میری نافرمانی چھوڑنے کے غم میں اسے موت آئی ہے، میرے قہروغضب کے اعمال چھوڑنے میں میرے بندہ نے جان دی ہے، یہ شہادت کی موت ہے۔

غرض جگر صاحب نے شراب چھوڑ دی اور جب حج کو جانے لگے تو داڑھی پوری ایک مشت رکھی۔ سوچاکہ اللہ کو کیا منھ دکھاؤں گا اور روضہٴ مبارک پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا منہ لے کر جاؤں گا!!

غالباً اسی زمانہ کی بات ہے کہ ایک مرتبہ تانگے میں سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے۔ تانگے والا باربار نہایت ترنم سے یہ شعر پڑھ رہا تھا:
        چلو دیکھ آئیں تماشا جگر کا
        سنا ہے وہ کافر مسلماں ہوا ہے

تھوڑی دیر بعد تانگے والے نے پچھلی نشست سے ہچکیوں کی آواز سنی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک مولوی صاحب رو رہے تھے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہی جگرمرادآبادی ہیں۔

حج کے متعلق دعا بھی قبول ہوئی۔ 1959ء میں جگر کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوگئی۔ حج کے ایام میں ایک اتفاقی حادثہ کے سبب جگر کو مدینہ منورہ میں زیادہ دنوں تک قیام کا موقع بھی مل گیا۔ حج کے بعد جگر صاحب اکثر بے تکلف احباب میں فرمایا کرتے تھے۔ ”میں نے دعائیں کروائیں تھیں۔ تین تو میری زندگی میں ہی پوری ہوگئیں اور چوتھی دعا کہ (خدا میری مغفرت کردے) بھی اِن شاء اللہ قبول ہوگی۔“ جگرصاحب کا اصل میدان غزل تھا۔ اسی میدان کے شاہ سوار تھے، لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جگر نے کچھ نعتیں بھی کہیں۔ شراب نوشی چھوڑنے کے بعد جگر نے جو پہلی نعت کہی وہ مکمل نعت اور واقعہ پہلے عرض ہو چکا ہے، اس کا مطلع یہ ہے:
        اِک رند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہ
        ہاں اِک نظرِ رحمت سلطانِ مدینہ

خواجہ صاحب کا غلبہ حال
ایک بار غلبہ حال میں خواجہ عزیز الحسن  نے یہ اشعار کہے:
        مجھے دوست چھوڑ دیں سب کوئی مہرباں نہ پوچھے
        مجھے میرا رب ہے کافی مجھے کل جہاں نہ پوچھے
        شب وروز میں ہوں مجذوب# اور یاد اپنے رب کی
        مجھے کوئی ہاں نہ پوچھے مجھے کوئی ہاں نہ پوچھے

خواجہ صاحب نے یہ اشعار غلبہ حال میں کہے ہیں، لیکن غلبہ حال وقتی ہوتا ہے، یہ کیفیت باقی نہیں رہتی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ خواجہ صاحب کا عمل ہمیشہ اس کے خلاف رہا ہے۔ خواجہ صاحب ہمیشہ اپنے اللہ والے دوستوں میں رہتے تھے اور اپنے اشعار سے خود بھی مست ہوتے تھے اور دوسروں کو بھی مست کرتے تھے اور اپنے شیخ کے عاشق تھے، حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کے انتقال کے بعد بھی گوشہٴ تنہائی میں نہیں بیٹھے، بلکہ اپنے دل کو بہلانے کے لیے اپنے پیر بھائیوں کے پاس چلے جاتے تھے۔ کبھی ایک پیر بھائی کے پاس، کبھی دوسرے پیر بھائی کے پاس۔ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھول پوری رحمة اللہ علیہ کے پاس بھی تشریف لاتے تھے۔ شیخ کی جدائی میں بے قرار رہتے تھے اور پیر بھائیوں کو دیکھ کر تسلی حاصل کرتے تھے۔ اِنسان انس سے ہے، اس لیے ایک دوسرے سے مل کر اس کو تسلی ہوتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ مناسبت ہو۔

خواجہ صاحب سے حضرت تھانوی کے متعلق سوال
کسی نے خواجہ صاحب سے پوچھا کہ:”آپ کے پیر بڑے لال وسرخ ہیں کون سا کشتہ کھاتے ہیں؟“ خواجہ صاحب نے جاکر تھانہ بھون میں حضرت سے عرض کردیا۔ حضرت ہنسے اور مزاحاً فرمایا کہ:”سائل خبطی معلوم ہوتا ہے ،مگر اس سے کہہ دینا کہ اشرف علی ایک بوٹی، ایک کشتہ کھاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ لال اور سرخ ہے اور اس کا نام ہے تعلق مع اللہ۔“

خواجہ صاحب کا اِخلاص
جب خواجہ صاحب سے مولانا ابرار الحق صاحب نے اپنا اِصلاحی تعلق قائم کیا تو ایک دعوت میں خواجہ صاحب خلافِ سنت کھانا کھلا رہے تھے، حضرت وہاں نہیں بیٹھے اور دوسرے کمرے میں اکیلے جاکر بیٹھ گئے، خواجہ صاحب نے پوچھا کہ مولانا ابرار الحق صاحب کہاں ہیں؟ کسی نے بتایا تو ان کے پاس گئے اور پوچھا کیا بات ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ: حضرت! یہ فلاں بات جو ہے اس کو میں منبرسے منع کرتا ہوں، اگر میں اس وقت شریک ہوجاوٴں تو کس منہ سے منبر پر منع کروں گا؟ خواجہ صاحب کا بھی اخلاص دیکھو، فرمایا: میں آپ کا شیخ اخلاق میں ہوں، مسائل میں نہیں ہوں، آپ عالم ہیں، ہم آپ کے غلام ہیں، اس معاملہ میں آپ ہم کو مسئلہ بتائیے، ہم اس پر عمل کریں گے۔ یہ ہمارے اکابر اور اللہ والے تھے لہٰذا اپنی اپنی مناسبت کا مربی رکھو، ورنہ مربہ نہیں بنوگے۔

جب حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی رحمة اللہ علیہ نے حضرت خواجہ عزیز الحسن رحمة اللہ علیہ کو خانقاہ سے نکالا تو اُنہوں نے یہ شعرلکھ کر حکیم الامت کو بھیجا:
        اُدھر وہ در نہ کھولیں گے اِدھر میں در نہ چھوڑوں گا
        حکومت اپنی اپنی ہے کہیں اُن کی کہیں میری

یعنی بھگانے کی حکومت اُن کی ہے اور نہ بھاگنے کی حکومت میرے اِختیار میں ہے، لہٰذا جب یہ شعر لکھ کر بھیجا تو اسی وقت معافی ہوگئی تھی اور حضرت خواجہ صاحب کو شیخ نے جو پیار دیا ہے پوری روئے زمین پر آپ حکیم الامت کے کسی خلیفہ سے پوچھ لیں کہ خواجہ صاحب کا کیا مقام تھا، خواجہ صاحب کو عقلی محبت کے ساتھ ساتھ طبعی محبت بھی تھی اور ایک راز کی بات بتادوں کہ اگر شیخ کے ساتھ عقلی محبت کے ساتھ ساتھ طبعی محبت بھی ہوجائے تو بے حد مفید ہے ورنہ عقلی محبت سے گاڑی ذرا مشکل سے چلتی ہے۔
(شائع شدہ ماہ نامہ الابرار کراچی، ربیع الثانی 1438ھ، بحوالہ: ”ذِکر رفتگاں)

Flag Counter