طالب علم او روقت کی قدر وقیمت
مولانا حفظ الرحمن پالن پوری
طالبانِ علوم نبوت کے لیے خصوصاً اپنے دور طالب علمی میں وقت کی حفاظت نہایت ضرور ی ہے، وقت الله تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں ایک گراں قدر نعمت ہے، پگھلتے برف کی طرح آناً فاناً گذرتا رہتا ہے ، دیکھتے ہی دیکھتے تیزی کے ساتھ مہینے اور سال گذر جاتے ہیں #
صبح ہوئی شام ہوئی
عمر یونہی تمام ہوئی
پس وقت کی قدر دانی بہت ضروری ہے، وقت کو صحیح استعمال کرنا، بے کار اور فضول ضائع ہونے سے بچانا از حد ضروری ہے، وقت کو فضول ضائع کر دینے پر بعد میں جو حسرت وپچھتاوا ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ سوائے ندامت کے اس کے تدارک کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ جو لمحہ او رگھڑی ہاتھ سے نکل گئی وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آسکتی، لہٰذا عقل مندی کا کام یہ ہے کہ آغاز ہی میں انجام پر نظر رکھے، تاکہ حسرت وپچھتاوے کی نوبت نہ آئے #
ہے وہ عاقل جو کہ آغاز میں سوچے انجام
ورنہ ناداں بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے
حدیث میں ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں کہ جب وہ طلوع ہوتا ہو مگر یہ کہ وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے ! میں ایک نو پید مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہو تو کر لے، میں قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا۔ دنیا کی تمام چیزیں ضائع ہو جانے کے بعد واپس آسکتی ہیں۔ لیکن ضائع شدہ وقت واپس نہیں آسکتا۔
کہنے والے نے صحیح کہا ہے :”الوقت أثمن من الذھب“ وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے #
حیاتک أنفاس تعد فکلما
مضی نفس منھا انقضت بہ جزء
تیری زندگی چند محدود گھڑیوں کا نام ہے، ان میں سے جوگھڑی گذر جاتی ہے، اتنا حصہ زندگی کا کم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا وقت کی پوری نگہ داشت کرنا چاہیے، کھیل کود میں خرافات میں ، اِدھر اُدھر کی باتوں میں اور لغویات میں قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی کو چھوڑ دے۔
اس حدیث میں لطیف پیرایہ میں اضاعت اوقات سے ممانعت اور حفاظت اوقات کے اہتمام کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی ہر ایسے قول وعمل اور فعل وحرکت سے احتراز کرے جس سے اس کا خاطر خواہ اور معتدبہ دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو۔
وقت ایک عظیم نعمت ہے
وقت الله تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی ایک ایک گھڑی اور ہر سیکنڈ اور منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتی، لیکن آج ہم وقت کی کوئی قدر نہیں کرتے یونہی فضول باتوں میں اور لغو کاموں میں ضائع کر دیتے ہیں۔
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک برف فروش سے مجھ کو بہت عبرت ہوئی، وہ کہتا جارہا تھا کہ اے لوگو! مجھ پررحم کرو، میرے پاس ایسا سرمایہ ہے جو ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہماری بھی حالت ہے کہ ہر لمحہ برف کی طرح تھوڑی تھوڑی عمر ختم ہوتی جاتی ہے۔ اسے پگھلنے سے پہلے جلدی بیچنے کی فکر کرو۔
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب رحمہ الله کے پاس ایک طالب علم نے آکر کھیل کے متعلق سوال کیا، حضرت نے فرمایا کیوں کھیلتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ وقت پاس کرنے کو کھیلتے ہیں، اس پر فرمایاکہ وقت پاس کرنے کے لے یہاں آجایا کریں، وقت گزارنے کا طریقہ بتلا دوں گا۔ کتاب دے دوں گا کہ یہاں سے یہاں تک یاد کرکے سنائیں، اس کے بعد فرمایا وقت حق تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اسے غبار سمجھ کر پھینک دینا بڑی ناقدری ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے اشرفیوں کا ڈھیر کسی کے سامنے ہو اور وہ ایک ایک اٹھا کر پھینکتا رہے #
تیرا ہر سانس نخل موسوی ہے
یہ جزر ومد جواہر کی لڑی ہے
ہمارے اسلاف اور حفظ اوقات
ہمارے اسلاف کی زندگی میں اوقات کی اہمیت اور قدر دانی نمایاں طریقہ پر تھی، کوئی گھڑی اور لمحہ ضائع نہیں ہوتاتھا۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ان کو اعلی درجہ کمال پر پہنچایا تھا۔
امام محمد علیہ الرحمہ کے حالات میں لکھا ہے کہ دن ورات کتابیں لکھتے رہتے تھے۔ ایک ہزار تک ان کی تصانیف بتائی جاتی ہیں ۔ اپنے تصنیف کے کمرے میں کتابوں کے ڈھیر کے درمیان بیٹھے رہتے تھے۔ مشغولیت اس درجہ تھی کہ کھانے او رکپڑے کا بھی ہوش نہ تھا۔ ( انوار الباری)
حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کی جو مطالعہ گاہ تھی، اس کے تین دروازے تھے، ان کے والد نے تینوں دروازوں پر جوتے رکھوائے تھے، تاکہ اگر ضرورت کے لیے باہر جانا پڑے تو جوتے کے لیے ایک منٹ، آدھا منٹ ضائع نہ ہو۔
حضرت علامہ صدیق احمد صاحب کشمیری اپنی طالب علمی کے زمانے میں صرف روٹی لیتے تھے، سالن نہ لیتے تھے، روٹی جیب میں رکھ لیتے تھے، جب موقع ہوتا کھا لیتے اور فرماتے روٹی سالن کے ساتھ کھانے میں مطالعہ کا نقصان ہوتا ہے۔
شیخ جمال الدین قاسمی رحمہ الله کے بارے میں لکھا ہے کہ شیخ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر فرماتے تھے۔ سفر میں ہو ں یا حضر میں ، گھر میں ہوں یا مسجد میں، مسلسل مطالعہ اور تالیف کا کام جاری رکھتے تھے، سوانح نگاروں نے لکھا:”مضی رحمہ الله یکتب دون انقطاع فی اللیل وفی النہار، وفی القطار وفی النزھة فی العربة فی المسجد فی سدتہ فی بیتہ، واظن ان الطریق وحدہ ھو الذی خلا من قلمہ وقد کان فی جیبہ دفتر صغیر وقلم، یقید الفکرة الشاردة․
”یعنی الله ان پر رحم فرمائے، ہر وقت لکھتے رہتے تھے، کیا دن، کیا رات، کیا سفر کیا حضر، کیا مسجد، کیا گھر، میرا خیال تو یہ ہے کہ سوائے دوران رفتار کے کسی اور وقت ان کے قلم کو قرار نہیں تھا۔ ان کے جیب میں ایک نوٹ بک اور قلم پڑا رہتا تھا، جس کے ذریعہ وہ اپنے منتشر افکار کو محفوظ کر لیتے تھے۔
جو لوگ بازاروں میں، چائے خانوں میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہتے تھے ،ان کودیکھ کر حسرت فرماتے اور عجیب بات فرماتے، تذکرہ نگار لکھتے ہیں:
”وقد تحسر مرة وھو واقف امام مقھی قد امتلا باناس فارغین یضیعون الوقت فی اللھو والتسلیة، فقال لبعض محبیہ: آہ! کم اتمنی ان یکون الوقت مما یباع لاشتری من ھولاء جمیعاً اوقاتھم․“
”ایک دفہ وہ قہوہ خانے کے سامنے کھڑے ہوئے تھے، جو لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور وہ لوگ لایعنی اور ٹھٹھے میں مشغول تھے، نہایت حسرت کے ساتھ اپنے ایک ساتھی سے فرمایا آہ! جی یوں چاہتا ہے کہ وقت کوئی ایسی شے ہوتی جو بیچی خریدی جاسکتی تو میں ان سب لوگوں کے اوقات کو خرید لیتا۔“ (اقوال سلف)
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب رحمہ الله کے یہاں بھی حفاظت اوقات کا بڑا اہتمام تھا، حتی کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی کتابیں پڑھایا کرتے تھے، چوبیس گھنٹے کی زندگی مشین کی طرح متحرک رہتی تھی، کوئی وقت بھی بے کار نہیں جاتا تھا۔
ایک مرتبہ مغرب کے بعد ایک طالب علم حاضر خدمت ہوئے، حضرت اس وقت کھانا تناول فرمارہے تھے، وہ خاموش گردن جھکا کر بیٹھ گئے، حضرت نے فرمایا نور الله! کیوں خاموش بیٹھے ہو؟ عرض کیا جی نہیں حضرت! قرآن شریف پڑھ رہا ہوں تو فرمایا ہاں ! وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت مولانا قاری صدیق احمدباندوی رحمة الله علیہ کے یہاں بھی احقر نے اوقات کا بڑا اہتمام دیکھا ، ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مشغولی ہے۔ماہ مبارک کا آخری عشرہ تھا، علالت وآپریشن کے سبب ضعف بہت تھا اس لیے ایک دو آدمی کے سہارے چلتے پھرتے تھے، چناں چہ افطار کے وقت اپنے معتکف سے مسجد کے صحن میں عام دسترخوان پر ایک صاحب کے سہارے تشریف لائے، غروب قریب تھا، حضرت نے فرمایا کتنا وقت باقی ہے؟ کہا گیا دو منٹ ، تو فرمایا بھائی پہلے بتا دیتے۔ اگر ایک منٹ بھی ہوتا تو کچھ کام کر لیتے، الله اکبر !یہ ہے اکابر کے یہاں اوقات کی قدردانی۔
امام رازی رحمة الله علیہ او رحفظ اوقات
امام رازی رحمہ الله کے نزدیک اوقات کی اہمیت اس درجہ تھی کہ ان کو یہ افسوس ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت کیوں علمی مشاغل سے خالی جاتا ہے؟!
چناں چہ فرمایا کرتے تھے:”والله انی اتاسف فی الفوات عن الاشتغال بالعلم فی وقت الأکل، فان الوقت والزمان عزیز․“ یعنی خدا کی قسم! مجھ کو کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے۔ کیوں کہ وقت متاع عزیز ہے #
در بزم وصال تو بہنگام تماشا
نظارہ زجنبیدن مژگاں گلہ دارد
وقت کی قدردانی نے ان کو منطق وفلسفہ کاایسا زبردست امام بنایا کہ دنیا ان کی امامت کو تسلیم کرتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ الله اور حفظ اوقات
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله کے حالات میں آتا ہے کہ وہ وقت کے بڑے قدر دان تھے۔ ان کے اوقات معمور رہتے تھے۔ کسی وقت خالی نہ بیٹھتے تھے۔ تین مشغلوں میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مصروف رہتے تھے، مطالعہٴ کتب یا تصنیف وتالیف، یا عبادت۔ ( بستان المحدثین)
حتی کہ جب تصنیف وتالیف کے کام میں مشغول ہوتے اور درمیان میں قلم کی نوک خراب ہو جاتی تو اس کو درست کرنے کے لیے ایک دو منٹ کا جو وقفہ رہتا، اس کو بھی ضائع نہ کرتے، ذکر الہی زبان پر جاری رہتا اورنوک درست فرماتے اور فرماتے وقت کا اتنا حصہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله اور حفظ اوقات
حضرت اقدس تھانوی نوّر الله مرقدہ نہایت منتظم المزاج اور اصول وضوابط کے پابند تھے۔ وقت کے لمحات ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ کھانے، پینے، سونے، جاگنے اور اٹھنے بیٹھنے کے تمام واقات مقرر تھے، جن پر سختی سے عمل فرماتے تھے۔ الله تعالیٰ نے وقت میں برکت بھی بڑی عطا فرمائی تھی۔ خود فرماتے ہیں کہ مجھے انضباط اوقات کا بچپن ہی سے بہت اہتمام ہے۔ جو اس وقت سے لے کر اب تک بدستور موجود ہے، میں ایک لمحہ بھی بے کار رہنا برداشت نہیں کرتا۔
ایک مرتبہ میرے استاذ حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی تھانہ بھون تشریف لائے، میں نے ان کے قیام اور راحت رسانی کے تمام انتظامات کیے ، جب تصنیف کا وقت آیا تو باادب عرض کیا کہ حضرت! میں اس وقت کچھ لکھا کرتا ہوں۔اگر حضرت اجازت دیں تو کچھ دیر لکھ کر پھر حاضر ہو جاؤں، گو میرا دل اس روز کچھ لکھنے میں لگا نہیں۔ لیکن ناغہ نہیں ہونے دیا کہ بے برکتی نہ ہو۔ تھوڑا سا لکھ کر جلد حاضر خدمت ہو گیا۔ حضرت کو تعجب بھی ہوا کہ اس قدر جلد آگئے، عرض کیا حضرت! چند سطریں لکھ لیں، معمول پورا ہو گیا۔ (ملفوظات حکیم الامت)
شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ الله اور حفظ اوقات
شیخ الحدیث حضرت مولانازکریا صاحب رحمہ الله کے متعلق صاحب آداب المتعلمین تحریر فرماتے ہیں کہ ایک عرصہ سے صرف ایک وقت دوپہر کو کھانا کھاتے، شام کو کھانا تناول نہیں فرماتے، کہتے ہیں کہ میں نے متعد د بار حضرت سے سنا کہ میری ایک مشفق ہمشیرہ تھی۔ میں شام کو مطالعہ میں مصروف ہوتا تھاتو وہ لقمہ میرے منھ میں دیا کرتی تھی۔ اس طرح مطالعہ کا حرج نہ ہوتا تھا۔ لیکن جب سے ان کا انتقال ہو گیا۔ اب کوئی میری اتنی ناز برداری کرنے والا نہیں رہا او رمجھے اپنی کتابوں کا نقصان گوارہ نہیں، اس لیے شام کا کھانا ہی ترک کر دیا۔
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب رحمہ الله اور حفظ اوقات
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب رحمہ الله کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ کو بہت ہی کم عمری میں تعلیم کا بہت شوق تھا۔ عام لڑکوں کی طرح وہ اپنے فرائض سے غافل نہیں رہتے تھے او رنہ کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کرنا پسند کرتے تھے۔ جب تک فقہ اور حدیث کی کتابیں شروع نہیں کیں، تو صحابہٴ کرام کے تذکرے اور خدا کی راہ میں ان کی جاں بازی اور قربانی کے واقعات سے بڑ ی گہری دلچسپی تھی، اس سلسلہ کی جو کتابیں ملتیں بڑے ہی ذوق وشوق اورجذبہ وکیف سے پڑھتے، کتاب محاربات اسلام، جس میں صحابہ کرام کے جہاد اور فتوحات کا تذکرہ ہے، بچپن ہی سے بڑے اشتیاق سے پڑھا کرتے تھے۔ جب فقہ او رحد یث کی تعلیم شروع کی تو اس مبارک علم میں پوری طرح مشغول ہو گئے، دن کا کوئی حصہ ایسا نہ ہوتا جس میں خالی بیٹھتے او رکوئی کتاب ہاتھ میں نہ ہوتی ہو، وہ کسی ایسے کام کوپسند نہ کرتے تھے جو تعلیم میں کسی طر ح مخل ہو۔ (سوانح مولانا یوسف صاحب)
وقت میں عجیب برکت اور اس کے مثالی واقعات
انضباط اوقات سے وقت میں عجیب برکت ہوتی ہے۔ چناں چہ ہمارے اسلاف واکابر کی زندگی میں برکت کی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ تھوڑے سے عرصہ میں انہوں نے محیر العقول کارنامے انجام دیے ہیں۔
علامہ ابن الجوزی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میری پہلی تصنیف اس وقت ہوئی ہے جب میری عمر تقریباً تیرہ برس کی تھی۔ آپ کے پوتے ابو المظفر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا سے آخری عمر میں برسرمنبر یہ کہتے سنا ہے کہ میری ان انگلیوں نے دو ہزار جلدیں لکھی ہیں۔ میرے ہاتھ پر ایک لاکھ آدمیوں نے توبہ کی ہے او ربیس ہزاریہود ونصاریٰ مسلمان ہوئے ہیں علامہ موصوف کی تصنیف کو دیکھ کر علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی عالم نے ایسی تصنیفات کیں جیسی آپ نے کیں، جن قلموں سے شیخ نے حدیث شریف کی کتابیں لکھی تھی، ان کا تراشہ جمع کرتے گئے تھے۔ جب وہ وفات پانے لگے تو وصیت کی کہ میرے غسل کاپانی اسی تراشے سے گرم کیا جائے۔ چناں چہ جس پانی سے ان کو غسل دیا گیا اس کے نیچے وہی پاک ایندھن جلایا گیا تھا #
عام حالت میں بسر کی زندگی تونے تو کیا
کچھ تو ایسا کر کہ عالم بھر میں افسانہ رہے
ابن جریر طبری کے حالات میں صاحب البدایہ والنہایہ نے لکھا ہے:”روی عنہ انہ مکث اربعین سنة یکتب، وکل یوم یکتب اربعین ورقة“ کہ وہ مسلسل چالیس سال تک لکھتے رہے اور روزانہ چالیس ورق لکھتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ)
درس نظامی کی مشہور او رمعروف کتاب تفسیر جلالین شریف کو اس کے مصنف علامہ سیوطی نے بیس بائیس سال کی عمرمیں، بہت قلیل مدت میں، یعنی صرف چالیس روز میں لکھا ہے اور آج پورے سال میں بڑی مشکل سے پڑھائی جاتی ہے۔
علامہ نووی نے بستان میں ایک معتمد شخص سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام غزالی کی تصانیف اور ان کی عمر کا حساب لگایا تو روزانہ اوسط چار کراسہ پڑا، کراسہ چار صفحوں کا ہوتا ہے یعنی سولہ صفحے روزانہ ہوئے اور علامہ طبری ، ابن جوزی اور علامہ سیوطی کی تصنیفات کا روزانہ اوسط اس سے بھی زیادہ ہے۔(ظفر المحصلین)
حضرت مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی کے حالات میں ہے کہ عنفوان شباب کی سترہ سالہ عمر ہی میں تحصیل علوم سے فراغت پاکر مسند درس پر فائز ہو گئے تھے اور ہر فن میں کامل دست رس رکھتے تھے، علم حدیث ہو کہ علم اسنادورجال، علم تفسیر ہو کہ علم فقہ وفتاوی، فلسفہ ہو کر ریاضی وہیئت ،ان تمام علوم میں آپ کی بیش بہا تصانیف کا ذخیرہ موجود ہے، جن کی تعداد بقول شیخ عبدالفتاح ابو غدہ کے ایک سو بیس ہے اور آپ کی عمر صرف انتالیس سال ہے، اتنی قلیل عمر میں دوسرے مشاغل کے ساتھ اس قدر تصانیف عطیہٴ خداوندی ہے، آپ کے سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر آپ کی تصانیف کے صفحات کو آپ کے ایام زندگی پر تقسیم کیا جاوے تو صفحات کتب ایام زندگی پر فوقیت لے جائیں گے۔ ( ملخص از نفع المفتی والسائل)
بلوغ کے بعد سے آپ کی زندگی پر تصانیف کو تقسیم کا اندازہ لگایا گیا تو ہر دو ماہ اور بارہ تیرہ روز پر ایک تصنیف ہوتی ہے،جب کہ ہر تصنیف کا اوسط ایک سو اٹھارہ صفحات سے زیادہ نکلتا ہے۔
ایک جگہ شیخ جمال الدین رحمہ الله اپنا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”وقد اتفق لی بحمدہ تعالی قراء ة صحیح مسلم بتمامہ روایة ودرایة فی اربعین یوما وقراة سنن ابن ماجہ کذلک فی واحد وعشرین یوم وقراء ة المؤطاکذلک فی تسعة عشریوماً، وتقریب التھذیب مع تصحیح سھو القلم فیہ وتحشیتہ فی نحو عشرة ایام، فدع عنک الکسل، واحرص علی عزیز وقتک بدرس العلم واحسان العمل․“
”یعنی الله کے فضل سے مجھے یہ توفیق ملی کہ میں نے پوری صحیح مسلم روایة اور درایة صرف چالیس دن میں پڑھ لی، اسی طرح سنن ابن ماجہ اکیس دن میں، امام مالک کی مؤطا انیس دن میں پڑھ لی، اسی طرح تقریب التہذیب دس روز میں پڑھ ڈالی ہے، جب کہ دوران مطالعہ اس کی قلمی غلطیوں کو درست بھی کیا او رحاشیہ بھی ساتھ ساتھ لکھتا گیا، پس اے طالب علم! میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ سستی او رکاہلی ترک کر دو اور اپنے اوقات عزیز کو حصول علم او رحسن عمل کی محنتوں میں کھپاؤ۔ ( اقوال سلف)
حضرت تھانوی نوّر الله مرقدہ کی شخصیت سے کون ناواقف ہے؟ آپ کی ذات کو الله تعالیٰ نے اس اخیر دور میں نابغہٴ روز گار بنایا تھا، آپ سے جتنا کام لیا گیا بہت کم لوگوں سے لیا گیا ہو گا، ایک ہزار کے قریب آپ کی تصانیف ہیں، آپ کے زبردست کارناموں کو دیکھ کر بسا اوقات یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ایسے کارنامے کسی ایک فرد کے نہیں، بلکہ کسی بڑے ادارے یا اکیڈمی کے ہیں #
بڑی مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا فرزانہ
بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستور میخانہ
حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں کہ ماضی قریب میں الله تعالیٰ نے حکیم الامت حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کے کاموں میں جو برکت عطا فرمائی ہے ، اس کی مثال قرون اولیٰ میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے، فقہ وفتاویٰ ہوں یا علوم تفسیر، اسرار وحکم ہوں یا آداب معاشرت، شرح حدیث ہو یا سلوک وتصوف، علم کا کون سا گوشہ ایسا ہے جس میں آں حضرت نے کتابوں کے انبار نہیں لگا دیے! مواعظ وملفوظات کا تو اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے کہ عمر نوح چاہیے، اس کی سر سری سیر ہی کے لیے ۔ وقت میں عجیب برکت تھی، ایک رسالہ ہے ”الابتلاء“،سولہ صفحوں کا تین گھنٹے میں ایک جلسہ میں لکھا ہے، جس کی جامعیت حیرت انگیز ہے۔
ایک تقریر بحیثیت صدر مدرس میرٹھ کے ایک جلسہ میں کی تھی، بتیس صفحات پر ہے، جو دعاء الامت بداة الملت کے نام سے شائع ہوئی ہے، وہ صرف پانچ گھنٹے میں لکھی گئی ہے۔
فرمایا کہ مکہ معظمہ میں حضرت مرشدی حاجی امداد الله صاحب کے حکم سے کتاب تنویر کا ترجمہ لکھا کرتا تھا، وہ حضرت کو سنا بھی دیتا تھا، ایک بار حسب معمول سنایا تو حضرت نے دریافت فرمایا کتنی دیر میں لکھا ہے؟ میں نے عرض کیا اتنے وقت میں لکھا ہے تو فرمایا کہ اتنے سے وقت میں کوئی بھی اتنا مضمون نہیں لکھ سکتا او ربہت دعائیں دیں۔