الله تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے بہت خوش ہوتے ہیں
مولانا محمد نجیب قاسمی
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشا فرمایا: الله تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے ( جب کہ وہ اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے) اُس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں، جتنی خوشی تم میں سے کسی مسافر کو اپنے اُس (سواری کے) اونٹ کے مل جانے سے ہوتی ہے جس پر وہ چٹیل بیابان میں سفر کر رہاہو، اسی پر اس کے کھانے پینے کا سامان بندھا ہو اور (اتفاق سے) وہ اونٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر بھاگ جائے اور وہ ( اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے) مایوس ہو جائے اور اسی مایوسی کے عالم میں ( تھکا ہارا، بھوکا پیاسا) کسی درخت کے سایہ کے نیچے لیٹ جائے اور اسی حالت میں ( اس کی آنکھ لگ جائے او رجب آنکھ کھلے تو ) اچانک اس اونٹ کو اپنے پاس کھڑا ہوا پائے اور ( جلدی سے ) اس کی نکیل پکڑ لے اور خوشی کے جوش میں ( زبان اس کے قابو میں نہ رہے او رالله تعالیٰ کا شکرادا کرنے کی غرض سے) کہنے لگے! اے الله! تو میرا بندہ او رمیں تیرا رب ہوں۔ ( خوشی کے مارے اسے پتہ بھی نہ چلے کہ میں کیا کہہ گیا)۔ ( صحیح مسلم ، کتاب التوبة، باب فی الحض علی التوبة والفرح بہا)
بندہ کی توبہ سے الله تعالیٰ کی خوشی بھی اُس کی شان ربوبیت اور رحمت کا تقاضا ہے کہ اس کا ایک بھٹکا ہوا بندہ ، اپنی نادانی سے شیطان کے فریب میں آکر اس کی عبادت کی راہ سے بھٹک گیا تھا، راہ راست پر آگیا۔ لیکن بندہ کی توبہ واستغفار سے الله تعالیٰ کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے ۔ وہ بڑا ہے او ربڑا ہی رہے گا۔ وہ بے نیاز ہے، اسے ہماری ضرورت نہیں ہے، لیکن ہم اس کے محتاج ہیں۔ اس کی کوئی نظیر نہیں ہے، وہ پوری کائنات کا خالق ومالک ورازق ہے، الله تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنے کا فائدہ ہمیں ہی پہنچتا ہے، جس طرح الله تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر اس کا نقصان بھی ہمیں ہی پہنچتا ہے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنا ضروری ہے ۔ اگر گناہ کا تعلق الله کے حقوق سے ہے،مثلاً نماز وروزہ کی ادائیگی میں کوتاہی یا ان اعمال کو کرنا جن سے الله اور اس کے رسول نے منع کیا ہے، مثلاً شراب پینا اور زنا کرنا، تو توبہ کے لیے تین شرطیں ہیں: 1.گناہ کو چھوڑنا۔2. کیے گئے گناہ پر شرمندہ ہونا۔3. آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرنا۔ لیکن اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو ان تین شرطوں کے علاوہ مزید ایک اہم شرط ضروری ہے کہ پہلے بندہ سے معاملہ صاف کیا جائے، یعنی اگر اس کا حق ہے تو وہ ادا کیا جائے یا اس سے معافی طلب کی جائے ۔ غرضیکہ بندوں کے حقوق کے متعلق کل قیامت تک کے لیے الله تعالیٰ نے اپنا اصول وضابطہ بیان کر دیا کہ پہلے بندہ کا حق ادا کیا جائے یا اس سے معافی طلب کی جائے، پھر الله تعالیٰ کی طرف توجہ کے لیے رجوع کیا جائے۔
توبہ کے معنی لوٹنے کے ہیں۔ الله تعالیٰ کی نافرمانی سے فرماں برداری کی طرف لوٹنا شریعت اسلامیہ میں توبہ کہلاتا ہے۔ حقوق الله میں کوتاہی کی صورت میں توبہ کے صحیح ہونے کے لیے تین شرطیں اور بندے کے حقوق میں کوتاہی کرنے پر توبہ کے لیے چار شرطیں ضروری ہیں۔ لہٰذا ہمیں جس طرح الله کے حقوق کو مکمل طور پر ادا کرنا چاہیے، اسی طرح بندوں کے حقوق کی دائیگی میں ادنیٰ سی کوتاہی سے بھی بچنا چاہیے۔ بندوں کے حقوق میں کوتاہی کرنے پر کل قیامت کے دن محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اعمال کے ذریعہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی جائے گی، جیسا کہ فرمان رسول صلی الله علیہ وسلم ہے : میری امت کا مفلس شخص وہ ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰة ( اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا، مگر حال یہ ہو گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی ، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا یا کسی کو مارا پیٹا ہو گا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو ( اس کے حق کے بقدر ) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے ( اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی ۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ( ان حقوق کے بقدر) حق داروں او رمظلوموں کے گناہ( جو انہوں نے کیے ہوں گے ) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے او رپھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ ( مسلم)
الله تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی بار بار ہمیں توبہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اختصار کے پیش نظر صرف دوآیات پیش ہیں: اے مؤمنو! تم سب الله کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تم کام یاب ہو جاؤ۔ (سورة النور: 31) اے ایمان والو! الله کے سامنے سچی توبہ کرو۔ بہت ممکن ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہ معاف کرکے تمہیں جنت میں داخل کر دے ۔ ( سورة التحریم:8) پہلی آیت میں الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ توبہ کرنے والے کا م یاب ہیں، دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ سچی توبہ کرنے والوں کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں او ران کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔
قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! الله کی بارگاہ میں تم توبہ واستغفار کرو۔ میں دن میں سو سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ (مسلم) اسی طرح فرمان نبی علیہ السلام ہے: الله کی قسم! میں الله تعالیٰ سے ایک ایک دن میں ستر ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ واستغفار کرتا ہوں ۔ (بخاری) ہمارے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم گناہوں سے پاک وصاف او رمعصوم ہونے کے باوجود روزانہ سو سو مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے، اس میں امت مسلمہ کو تعلیم ہے کہ ہم روزانہ اہتمام کے ساتھ الله تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں، اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے، جیسا کہ ہمارے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص پابندی سے استغفار کرتا رہے ( یعنی اپنے گناہوں سے معافی طلب کرتا رہے) الله تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتے ہیں۔ ہر غم سے اسے نجات عطا فرماتے ہیں اور ایسی جگہ سے روزی عطا فرماتے ہیں کہ جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ (ابوداؤد، باب فی الاستغفار)
کوئی شخص کب تک توبہ کرسکتا ہے ؟
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک وہ نزاع کی حالت کو نہ پہنچ جائے۔ (ترمذی) یعنی جب انسان کا آخری وقت آجاتا ہے تو پھر اس کی توبہ الله تعالیٰ قبول نہیں کرتے ہیں۔ موت کا وقت او رجگہ سوائے الله تعالیٰ کی ذات کے کسی کو معلوم نہیں۔ چناں چہ بعض بچپن میں، تو بعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں ، جب کہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لیبک کہہ جاتے ہیں۔ بض صحت مند تن درست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں، لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہو چکے ہیں، یہی دنیاوی فانی وقتی زندگی، اخروی ابدی زندگی کی تیاری کے لیے پہلا اور آخری موقع ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم افسوس کرنے یا خون کے آنسو بہانے سے قبل، اس دنیاوی فانی زندگی میں ہی اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اپنے مولا کو راضی کرنے کی کوشش کریں، تاکہ ہماری روح ہمارے بدن سے اس حال میں جُدا ہو کہ ہمارا خالق ومالک ورازق ہم سے راضی ہو۔
سچے دل سے توبہ کرنے پر بڑے سے بڑے گناہوں کی بھی معافی
حدیث کی مشہور ومعروف کتابوں میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنایا ہوا ایک واقعہ مذکور ہے : تم سے پہلی اُمت میں ایک آدمی تھا ،جو99 آدمیوں کو قتل چکا تھا۔ اس نے کسی بڑے عالم دین کا پتہ دریافت کیا تو لوگوں نے اسے ایک ( عیسائی) راہب کا پتہ بتایا۔ یہ شخص اس راہب کے پاس گیا او رکہا کہ میں 99آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں، کیا اب بھی میرے لیے توبہ کا امکان ہے ؟ راہب نے کہا: نہیں۔ تو اس شخص نے راہب کو بھی قتل کر ڈالا اور اس طرح100 قتل پورے کر دیے۔ ( لیکن وہ اپنے کیے ہوئے گناہ پر بہت زیادہ شرمندہ تھا اور الله تعالیٰ سے سچی توبہ کرنا چاہتا تھا۔) پھر لوگوں سے بڑے عالم دین کا پتہ دریافت کیا تو لوگوں نے اس کو ایک اور عالم کا پتہ بتایا۔ یہ شخص ان کے پاس گیا او رکہا میں سو آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں، کیا اب بھی میرے لیے توبہ کا امکان ہے ؟ اس نے کہا: ہاں! ضرور ہے او ربھلا الله کے بندہ اور توبہ کے درمیان کوئی چیز رکاوٹ ہو سکتی ہے ؟ تم فلاں بستی میں چلے جاؤ۔ وہاں الله کے کچھ نیک بندے اپنے رب کی عبادت میں مصروف ہیں۔ تم ان کے ساتھ رہ کر الله کی عبادت میں مصروف ہو جاؤ۔ یہ شخص ( توبہ کرکے) اس بستی کی جانب چل دیا۔ آدھا راستہ طے کیا تھا کہ موت آگئی۔ اس کی روح کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہونے لگا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ شخص اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرکے الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوچکا ہے، لہٰذا ہم اس کی روح لے کر جائیں گے۔ عذاب کے فرشتوں نے کہا کہ اس نے ابھی تک کوئی نیک عمل نہیں کیا ہے ،لہٰذا یہ شخص رحمت کا مستحق نہیں ہے۔الله کے حکم سے ایک فرشتہ انسانی شکل میں ان کے سامنے آیا۔ دونوں فریق نے اس کو اپنا حکم بنالیا۔ اس انسان نما فرشتہ نے کہا کہ دونوں سرزمینوں ( گناہ کی بستی اورعبادت کی بستی ) کی پیمائش کر لو، جس علاقہ سے یہ قریب ہو اسی علاقہ کے لوگوں میں شامل کر دو۔ چناں چہ انہوں نے زمین کی پیمائش کی، اُس علاقہ سے قریب تر پایا جس میں عبادت الہٰی کے ارادہ سے وہ جارہا تھا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ خود الله تعالیٰ نے بد کاری کی سر زمین کو حکم دیا کہ تو دور ہو جا او رنیکو کاری کی سر زمین کو حکم دیا کہ تو قریب ہو جا او راس طرح نیکی کی سر زمین ایک بالشت قریب نکلی، چناں چہ اس کی مغفرت کر دی گئی۔
اس واقعہ کی تائید قرآن وحدیث سے بھی ہوتی ہے، چناں چہ الله تعالیٰ (سورة الزمر، آیت:53) میں ارشاد فرماتا ہے، کہہ دو کہ :” اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، الله کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو الله سارے کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے ۔ یقینا وہ بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔“ فرمان رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہے : الله تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ دن میں گناہ کرنے والا رات کو توبہ کرے اور دن کو اپنا دست قدرت پھیلاتے ہیں، تاکہ رات کو گنا ہ کرنے والا دن کو توبہ کرے ۔ (مسلم) الله تعالیٰ دنیا میں شرک جیسے بڑے گناہ کو بھی سچی توبہ کرنے پر معاف کر دیتا ہے ۔ لہٰذا ہمیں گناہوں کی کثرت کے باوجود الله تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، لیکن فرمان رسول صلی الله علیہ وسلم ( عقل مند شخص وہ ہے جو اپنا محاسبہ کرتا رہے اور مرنے کے بعد کے لیے عمل کرتا رہے اور بے وقوف شخص وہ ہے جو اپنی خواہش پر عمل کرے اور الله تعالیٰ سے بڑی بڑی اُمیدیں باندھے) ( ترمذی وابن ماجہ) کے مطابق ہمیں گناہ کرنے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ ایسانہ ہو کہ توبہ کی توفیق ملنے سے قبل ہی ہماری روح جسم سے پرواز کر جائے۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ الله تعالیٰ ہمیں اس وقت بھی معاف کرنے کے لیے تیار ہے، لہٰذا فوراً گناہوں سے معافی مانگ کر اچھائیوں کی طرف سبقت کریں۔ کل ، جمعہ یا رمضان پر اپنی توبہ کو معلق نہ کریں۔ بلکہ ابھی گناہوں سے بچ کر اپنے کیے ہوئے گناہوں پر شرمندہ ہوں اور الله تعالیٰ سے توبہ کریں۔ ان شاء الله ہمارے بڑے بڑے گناہوں کو بھی الله تعالیٰ معاف کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگر توبہ سے قبل ہماری روح ہمارے جسم سے دور ہونے لگے تو پھر خون کے آنسو بہانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اگر ہم نے بندوں کے حقوق میں کوتاہی کی ہے تو پہلی فرصت میں حقوق کی ادائیگی کرکے یا معافی طلب کرکے بندے سے اپنا معاملہ صاف کر لیں ورنہ قیامت کے دن اعمال کے حقوق کی ادائیگی کی جائے گی، جیسا کہ ہمارے نبی نے بیان کیا ہے، جہا ں تک دنیاوی زندگی میں مشغولیت کا تعلق ہے تو ہمارے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر انسان کو ایک وادی سونے کی مل جائے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس دووادیاں ہوں۔ اس کے منھ کو قبر کی مٹی ہی بھرے گی اور توبہ کرنے والے کی توبہ الله تعالیٰ قبول فرمائیں گے۔ ( بخاری ومسلم)
بڑے بڑے گناہوں سے مستقل توبہ کرنا ضروری ہے، اگرچہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مغفرت کے لیے استغفار پڑھنا بھی کافی ہے۔ اسی لیے علمائے کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ ہمیں ہر نماز کے بعد اور صبح وشام استغفار پڑھنا چاہیے۔ انسان کے ساتھ شیطان، اپنا نفس اور معاشرہ لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے انسان گناہ سے سچی توبہ کرنے کے باوجود اس گناہ کو دوبارہ کر بیٹھتا ہے، لیکن انسان کو ہمیشہ اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ توبہ کرتے رہنا چاہیے اور اس بات کی دن رات فکر کرنی چا ہیے کہ فلاں گناہ سے کیسے نجات حاصل کی جائے، جیسا کہ مذکور بالا واقعہ میں 99قتل کرنے کے بعد وہ شخص سچے دل سے توبہ کرنا چاہتا تھا۔ اگر گناہ سے بچنے کا پختہ ارادہ ہے تو الله تعالیٰ ضرور اس شخص کو گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔