Deobandi Books

الفاروق رمضان المبارک 1438ھ

ہ رسالہ

5 - 18
حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان نوّر الله مرقدہ کا سانحہٴ ارتحال

حضرت مولانا نورحسن دامت برکاتہم
امام وخطیب، جامع مسجد منورہ
الحمدلله رب العالمین، والصلوة والسلام علی سید المرسلین، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم ﴿سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار﴾، صدق الله العظیم
        گلے خوش بوئے در حمام روزے
        رسید از دست محبوبے بدستم
        بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
        کہ از بوئے دلآویز تو مستم
        بگفتا من گلے ناچیز بودم
        ولیکن مدتے با گل نشستم
        جمال ہمنشیں در من اثر کرد
        وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

اس وقت کون کس کی تعزیت کرے؟ ہر شخص ہی تعزیت کا مستحق ہے، احقر کا چوں کر حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ سے 54 سال کا تعلق رہا ہے، بندہ حضرت رحمہ الله تعالیٰ کے اہل خانہ اور روحانی اولاد کے بچے بچے کے لیے دعا گو بھی ہے اور دعا جو بھی۔ دکھ اور غم کے ان لمحات میں ہم آپ کے ساتھ برابر کے شریک ہیں﴿یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ، ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً ، فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ، وَادْخُلِیْ جَنَّتِی﴾․(سورہ فجر، آیت:30-27)

حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے ہی ”المدرسة المنورہ“ کی بنیاد رکھی تھی اور بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ ہماری سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے لیے بیس سے زائد مرتبہ ہمارے ہاں جامع مسجد منورہ بلاک ایل نارتھ ناظم آباد کراچی میں تشریف لاچکے ہیں۔

حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے دیوبند سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ جلال آباد میں تدریس فرمائی، متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد آپ پاکستان تشریف لائے اور ابتدا میں کچھ عرصہ دارالعلوم ٹنڈوالہ یار میں تدریس فرمائی، پھر استاد محترم مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ الله کی دعوت پر دالعلوم کراچی تشریف لے آئے اور دس سال تک شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے … تلک عشرة کاملة… پھر استاد محترم نے حضرت بنوری رحمہ الله تعالیٰ کی درخواست پر جامع مسجد خداداد کالونی تشریف لانے کے زمانے میں کچھ عرصہ جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں بھی تدریس فرمائی، اس کے بعد جامعہ رشیدیہ اور جامعہ فاروقیہ قائم ہوئے۔ الله تعالیٰ ان سمیت تمام دینی اداروں کو روز قیامت تک آبادوشاداب رکھے۔ اللھم زد فزد․

حضرت رحمہ الله تعالیٰ سے تعلق کی ابتدا1963ء بمطابق 1383ھ کو مادرِ علمی (جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی) سے ہوئی، جہاں حضرت رحمہ الله تعالیٰ سے ہدایہ ثالث اور تفسیر بیضاوی پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر1965ء بمطابق1385ھ درجہ تخصص فی الفقہ الاسلامی ( جامعہ دارالعلوم کراچی) میں سراجی پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت رحمہ الله تعالیٰ1963ء میں جامعہ دارالعلوم کراچی میں نظامت کے ساتھ ساتھ دورہ حدیث کے اسباق پڑھاتے تھے، جامع مسجد خداداد کالونی کی انتظامیہ نے مسجد کے تحفظ کے لیے آپ کو دعوت دی، مسجد کے تحفظ کی خاطر آپ نے ان کی دعوت قبول فرمالی، چناں چہ دن کے بارہ بجے تک دارالعلوم کراچی میں اسباق پڑھا کر جامع مسجد خدادا کالونی میں ظہر کی نماز میں تشریف لے آتے، شدید خطرات کے باوجود مسجد ہی میں رہتے تھے … حسبنا الله ونعم الوکیل نعم المولی ونعم النصیر… حضرت بنوری رحمہ الله تعالیٰ نے حضرت رحمہ الله تعالیٰ سے فرمایا: آپ دارالعلوم سے خداداد کالونی تو تشریف لاتے ہیں، بعد نماز ظہر دو تین اسباق ہمارے ہاں پڑھا لیا کریں، حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے اپنے آرام کا خیال نہیں کیا اور حضرت بنوری رحمہ الله تعالیٰ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں بعد نماز ظہر اسباق شروع فرما دیے او راسباق سے فارغ ہو کر عصر کی نماز میں حضرت رحمہ الله تعالیٰ خدادا کالونی تشریف لے جاتے۔ طلبہ تو کھانے کے بھوکے ہوتے ہیں نہ مال ودولت کے، بلکہ مہمانانِ رسول صلی الله علیہ وسلم ہونے کے ناتے صرف علم کے پیاسے ہوتے ہیں، بنوری ٹاؤن میں تعلیم کے دوران ہم میں سے بعض طلبہ نے حضرت رحمہ الله تعالیٰ سے گزارش کی کہ عصر تا مغرب ہمیں متنبی او رکچھ دیگر کتب کے اسباق پڑھا دیں، باوجودیکہ عصر تا مغرب ہر شخص کو ذہنی آرام کی اشد ضرورت ہوتی ہے، لیکن وارثین انبیائے کرام علیہم السلام نہیں جانتے کہ آرام کیا ہوتا ہے ؟ حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے طلبہ کی یہ خواہش بھی پوری کر دی او رعصر تا مغرب خداداد کالونی کی مسجد ہی میں ہمیں دو تین اسباق پڑھا لیا کرتے۔

عوام الناس کو کیا معلوم کہ حضرت رحمہ الله تعالیٰ کی مصروفیات کس قدر ہیں؟ عوام الناس نے حضرت رحمہ الله تعالیٰ سے التماس کی کہ ہم سارا دن دفتر اوردیگر کام کاج میں مصروف رہتے ہیں لہٰذا بعد نماز عشاء ہمیں درسِ قرآن سے مستفید فرمائیں، حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے عوام الناس کی یہ درخواست بھی قبول فرمائی او رنمازِ عشاء کے بعد رسِ قرآن دیا کرتے اور درس قرآن کے بعد صدر تشریف لے جاتے اور وہاں سے ناگفتہ بہ صورت حال والی بسوں کے ذریعے ( کے ایریا) دارالعلوم کراچی پہنچتے او ررات میں ہی دورہ کے اسباق شروع فرما دیتے۔

بعض ناعاقبت اندیش لوگوں نے جامع مسجد خدادا کالونی پر کیس داخل کروادیا، تقریباً ہر ہفتے کئی کئی گھنٹے کورٹ کچہری کی نذر ہو جاتے، تیسری منزل پر چڑھنا، جہاں بیٹھنے کا کوئی ایسا معقول انتظام نہ تھا جس پر سارا دن کا تھکا ہارا انسان دو منٹ استراحت کر لے، تقریباً دو بجے عدالت ختم ہوتی، حضرت رحمہ الله تعالیٰ وہاں سے سیدھا بنوری ٹاؤن تشریف لے جاتے اور بغیر کچھ کھائے پیے اسباق شروع فرمادیتے …ذلک فضل الله یوتیہ من یشاء والله ذوالفضل العظیم… #
        ایں سعادت بزور بازو نیست
        تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

آخر کار حضرت رحمہ الله تعالیٰ کی دن رات کی محنت ثمر آور ہوئی اور بفضل الله تعالیٰ جامع مسجد خداداد کالونی کے مقدمہ میں عظیم کام یابی نصیب ہوئی۔ کورٹ کچہری کی مصروفیات کی و جہ سے ”شمائل ترمذی“ کا کافی حصہ رہ گیا تھا، حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے دورہ حدیث کے طلبہ سے فرمایا کہ آج بعد نمار عشاء کتاب ختم کروانی ہے او رپھر عشاء کی نماز کے بعد جب حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے شمائل ترمذی پڑھانا شروع کی تو صبح سحری کے وقت کتاب ختم کروادی، ساری رات احادیث نبوی علی صاحبہا الف الف تحیة وسلام کا سبق جاری رہا، حضرت رحمہ الله تعالیٰ کا اندازِ بیان اتنا شگفتہ، آسان، پُرکیف اور وجدوالا تھاکہ کسی بھی طالب علم کو نیند آئی نہ ہی اونگھ، حضرت بنوری رحمہ الله تعالیٰ کو جب فجر کی نماز کے بعد پتہ چلا تو بہت زیادہ خوش ہوئے او رحضرت رحمہ الله تعالیٰ سے فرمایا: ابھی چائے میرے ساتھ نوش فرمائیں، حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا بہت اچھا۔ چائے نوش فرما کر حضرت رحمہ الله تعالی دارالعلوم کراچی روانہ ہو گئے اور ساری رات کا جا گا ہوا مسافر طلبہ کو بخاری شریف پڑھانے میں مصروف ہو گیا…

اولئک آبائی فجئنی بمثلھم… إذا جمعتنا یا جریر المجامع

ایک مرتبہ حضرت بنوری رحمہ الله تعالیٰ نے حضرت رحمہ الله تعالیٰ سے فرمایا: آپ خداداد کالونی سے جامعہ تک رکشہ میں آتے جاتے ہیں، یہ ایکلفافہ کرائے کی مد میں قبول فرمائیں، حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا: یہ مکمل ثواب میرے کھاتے میں ہی رہنے دیجیے اور فرمایا: میں نے آپ کا ہدیہ قبول کر لیا ہے۔ جزاک الله خیراً… حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے نہایت سمجھ بوجھ اور حکمت عملی سے حضرت بنوری رحمہ الله تعالیٰ کے ادب واحترام کو ملحوظ خاطرکھتے ہوئے فرمایا: یہ ہدیہ میری طرف سے مدرسہ کے لیے قبول فرما لیں، ہدیہ بھی ہو گیا اور حضرت بنوری رحمہ الله تعالیٰ خوش بھی ہو گئے۔

ملیر ٹنکی کراچی پر حضرت  نے مدرسہ کی بنیاد رکھی اورپھر وہاں سے یہ مدرسہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں منتقل ہوا اور 23/جنوری1967ء بمطابق1387ھ جامعہ فاروقیہ کی بنیاد رکھی اورپورے پچاس سال الله تعالیٰ نے حضرت رحمہ الله تعالیٰ کو بخاری شریف پڑھانے کی سعات دنصیب فرمائی، ایسا شاذ ونادر ہی ہوا ہو گا کہ کسی ادارے کی بانی شخصیت اتنے طویل عرصہ ”شیخ الحدیث“ کے منصب پر فائز رہی ہو۔

احقر کو حضرت رحمہ الله تعالیٰ کے ساتھ بعض مرتبہ بس میں، بعض مرتبہ رکشہ وغیرہ میں سفر کی سعادت حاصل ہوئی ہے، حضرت رحمہ الله تعالیٰ کا موضوعِ گفت گو سفر وحضر میں صرف مدرسہ او راسباقِ مدرسہ ہوا کرتے تھے، کتابیں کہاں تک پہنچیں؟ کب تک اسباق ختم ہونے کی امید ہے؟ کون کون سے طلبہ محنت اور توجہ سے پڑھتے ہیں؟ حضرت رحمہ الله تعالیٰ کا ایک جملہ تھا”جس استاد کا طلبہ سے جوڑ نہیں میرا بھی اس سے کوئی جوڑ نہیں، جس استاد کا طلبہ سے تعلیمی جوڑ ہے میرا اس سے مکمل جوڑ ہے۔“ بعض مرتبہ دورانِ سفر مدرسہ کے کسی طالب علم سے ملاقات ہوتی تو طلبہ سے بھی اسی قسم کے تعلیمی سوالات ہی ہوتے۔

حضرت رحمہ الله تعالیٰ صرف مشفق استاد ہی نہیں ،بلکہ شفیق باپ کی طرح تھے، حضرت نے جامعہ فاروقیہ کے تاسیس کے دن ہی سے احقر کا تقرر جامعہ فاروقیہ میں فرمایا، چوں کہ مجھے معلوم تھا کہ جس استاد کا اپنے شاگردوں سے تعلیمی جوڑ نہیں اس استاد کا حضرت رحمہ الله تعالیٰ سے بھی کوئی جوڑ نہیں تو میں نے حضرت رحمہ الله تعالیٰ سے کہا: حضرت مجھے پڑھانا نہیں آتا، حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا: مجھ سے پڑھ لیا کر واور پھر جا کر پڑھا لیا کرو، حضرت کا یہ جملہ دس سالہ تدریس میں میرا قوی سہارا رہا۔

دنیا میں بعض شخصیات کسی نہ کسی ایک فن میں بہت ممتاز ہوتی ہیں ، کوئی تفسیر میں، کوئی حدیث میں ،کوئی فقہ میں، کوئی افتاء میں ،کوئی لغت عربی میں … حضرت رحمہ الله تعالیٰ بحمد الله ہر فن مولا تھے۔

جس زمانے میں جامعہ فاروقیہ میں صرف بارہ کمرے تھے، سیمنٹ کی چادروں کے یہی کمرے درس گاہیں بھی تھیں او رمہمانانِ نبوی کی رہائش گاہیں بھی، بندہ چند طلبہ کے ساتھ حضرت رحمہ الله تعالیٰ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ساتھ والے کمرے میں حضرت مولانا عنایت الله شہید رحمہ الله تعالیٰ شرح جامی پڑھا رہے تھے، دھیمی دھیمی آواز ہم سب سن رہے تھے، اسی اثناء میں حضرت شہید رحمہ الله تعالیٰ کسی عبارت میں اٹک گئے او رکتاب اٹھائے حضرت رحمہ الله تعالیٰ کے پاس تشریف لے آئے، حضرت نے نہ ہی کوئی کتاب دیکھی، نہ ہی کوئی حاشیہ اور فرمایا ذرا عبارت پڑھیں، مولانا شہید رحمہ الله تعالیٰ نے عبارت کے چند الفاظ پڑھے، حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے برجستہ پورا اشکال او رمکمل عبارت حل فرما دی، اسی طرح مولوی سعید الرحمن درجہ رابعہ کے متعلم تھے، قطبی اٹھالائے، حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا: عبارت پڑھو اور فوراً حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے مشکل ترین عبارت آسان الفاظ میں حل کر دی۔

درسِ نظامی کی تمام کتابیں حضرت رحمہ الله تعالیٰ کو اس طرح رٹی ہوئی تھیں گویا کہ درسِ نظامی کی کتابیں نہ آپ نے پڑھیں اور پڑھائیں بلکہ خود تالیف وتصنیف فرمائی ہیں، بحمدالله ہر فن کی کتاب حضرت رحمہ الله تعالیٰ کو سورة فاتحہ کی طر ح یاد تھی، حدیث شریف تو حضرت رحمہ الله تعالیٰ کا اوڑھنا بچھونا اورمقصدِ حیات تھی، جس کی روشن دلیل کشف الباری کی 24 ضخیم جلدیں ہیں۔

درالعلوم دیوبند میں تعلیم کے دوران موقوف علیہ کے سال سالانہ تعطیلات کے ایام میں حضرت رحمہ الله تعالیٰ اپنے گھر تشریف لائے، محلے کی مسجد میں حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے روزانہ ایک پارہ یاد کرکے رات تراویح میں سنایا،27 دن میں قرآن حفظ بھی ہو گیا او رتراویح میں بھی مکمل ہو گیا، حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مضمون یعلمون، تعلمون کا جلالین کی تفسیر سے اندازہ لگا لیتا ہوں، یہ سب قرآن کا معجزہ بھی ہے اور حضرت رحمة الله علیہ کی کرامت بھی… ﴿ما انزلنا علیک القرآن لتشقی، الا تذکرة لمن یخشی﴾ … ﴿ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر﴾․

حضرت رحمہ الله تعالیٰ آداب کا بھی نہایت خیال رکھتے تھے، ایک دفعہ ایک صاحب مسجد میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، حضرت نے فرمایا اخبار میں تصاویر ہوتی ہیں، مسجد میں اخبار لانا ناجائز ہے۔

طلبہ کرا م گھر سے، ماں باپ سے دور ہوتے ہیں، ان کا سب کچھ صرف مدرسہ ہوتا ہے، مدرسہ ہی ان کی سیر گاہ، تفریح گاہ او رکھیل کا میدان ہوتا ہے، عصر تا مغرب طلبہ کھیل میں مصروف ہوتے ہیں، کچھ لوگوں نے ان کے کھیل کود پر اعتراض کر دیا، حضرت نے جمعہ کے بیان میں فرمایا کیا آپ کے بچے گھروں میں کھیل کود نہیں کرتے؟ بعض دفعہ گھروں کے قیمتی سامان شیشے وغیرہ بھی توڑ دیتے ہیں تو کیا آپ اس نقصان کے باوجود بچوں سے پیار نہیں کرتے؟ طلبہ کا تو سب کچھ مدرسہ ہی ہوتا ہے، آپ حضرات طلبہ سے محبت کیوں نہیں کرتے؟ طلبہ ضیوف الرحمن ہیں ،وارثینِ انبیاءِ کرام ہیں ،ختم نبوت کے محافظ ہیں، آپ ان سے قلبی محبت رکھیں او ران کے سروں پر دستِ شفقت پھیریں، روزِ محشر آپ کی سگی اولاد آپ کے لیے شفاعت کرے یا نہ کرے، لیکن یہ طلبہ ضرور شفاعت کریں گے۔ آپ کی اولاد ہر وقت آپ کی آنکھوں کے سامنے گھروں میں موجودر ہتی ہے، لیکن یہ طلبہ کرام اپنے گھروں ، شہروں، گاؤں اور رشتے داروں سے دور آپ کی شفقت کے زیادہ حق دار ہیں۔

حضرت رحمہ الله تعالیٰ پر درسِ نظامی کے نصاب ونظام میں تبدیلی کا بہت زیادہ دباؤ تھا، لیکن حضرت رحمہ الله تعالیٰ ایک مضبوط چٹان کی مانند ڈٹے رہے اور کوئی بھی آپ کو اپنے موقف سے نہ ہٹا سکا، حضرت رحمہ الله تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی تھا: جب تک سیلم الله زندہ ہے کوئی مائی کا لعل ہمارے نصاب تعلیم کو بدل سکتا ہے نہ میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ حضرت رحمہ الله تعالیٰ کی وجہ سے ہی تمام علماء، طلبہ اور دین کا درد رکھنے والے بڑے آرام کی نیند سوتے تھے، حضرت رحمہ الله تعالیٰ خود تو قیلولہ کے لیے تشریف لے گئے، اب ہماری میٹھی نیندوں کا الله ہی حافظ وناصر ہے۔

حضرت رحمہ الله تعالیٰ ساری زندگی نہ کسی کی دھونس ودھمکی میں آئے اور نہ ہی کبھی کسی کی ملامت کی کوئی پروا کی…﴿یجاھدون فی سبیل الله ولا یخافون لومة لائم ذلک فضل الله یوتیہ من یشاء والله ذوالفضل العظیم … ﴿لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ﴾ … ﴿یریدون ان یطفئوا نور الله بافواھم ویابی الله الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکفرون﴾․

امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ رحمہما الله تعالیٰ نے فرمایا تھا: ہماری صداقت اور حقانیت کی گواہی ہمارے جنازے دیں گے، حضرت رحمہ الله تعالیٰ کے جنازے میں بھی کچھ ایسا ہی عظیم الشان منظر دیکھنے میں آیا، راستے خالی تھے نہ پہاڑ، ہر طرف سفید لباس، سنت کے مطابق ٹوپی یا عمامہ زیب تن کیے ہوئے وارثین انبیائے کرام علیہم السلام اور ان سے عقیدت رکھنے والے ہی نظر آرہے ہیں، ایسا نظارہ فیز ٹو کے پہاڑوں نے نہ کبھی پہلے دیکھا ہو گا اور شاید قیامت تک بھی نظر نہ آئے۔

جس وقت فیز ٹو کا وہم وگمان تک نہ تھا، کچھ بزرگوں کی مجلس میں آخری آرام گاہ کا ذکر آیا تو حضرت رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا: میری مٹی کی جگہ تو دارالعلوم کراچی والے خوشی سے دیں گیمگر وصال سے کافی عرصہ قبل فیزII کے قبرستان میں تدفین کی وصیت فرما دی تھی، چناں چہ حضرت رحمہ الله تعالیٰ خود، مسکراتے ہوئے لاکھوں کو روتا چھوڑ کر، فیز ٹو کے پہاڑوں میں خالق حقیقی کے دربار میں تشریف لے گئے…﴿وما تدری نفس بای ارض تموت ان الله علیم خیبر﴾… وہ آنکھیں جنہوں نے شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد مدنی رحمہ الله تعالیٰ کی زیارت کی، جنہوں نے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ الله تعالی کو دیکھا، جوکئی سال حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله تعالیٰ کی مجالس میں حاضری دیتے رہے، جو مسیح الامت حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب رحمہ الله تعالیٰ سے قوی تعلق استوار کیے رہے، وہ وجودالله تعالیٰ کے سایہٴ رحمت میں روپوش ہو گیا… کروڑہارحمتیں نازل ہوں حضرت رحمہ الله تعالیٰ کی لحد پر …﴿یا ایتھا النفس المطمئنة ارجعی الی ربک راضیة مرضیة․ فادخلی فی عبادی․ وادخلی جنتی﴾… #
        آسماں تیری لحد پر شبنم فشانی کرے

لحد مبارک پر دونوں صاحب زادوں ( مولانا عادل خان صاحب، مولانا عبیدالله خالد صاحب ) نے سنتِ نبوی کے مطابق تلقین کی، اس کے بعد حضرت رحمہ الله تعالیٰ کی روحانی اولاد مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا: اگر چہ اہلِ حق کی وجہ سے یہاں بدعت کا شائبہ بھی نہیں، پھر بھی … ﴿فول وجھک شطر المسجد الحرام…﴾ او رپھر سورة الملک کی تلاوت کریں یا جس کو جو یاد ہو پڑھ کر ایصالِ ثواب کریں، اس کے بعد جونہی دعا شروع ہوئی تو برستی آنکھوں سے لوگوں نے آمین کہی۔

حضرت رحمہ الله تعالیٰ ایک نہایت مضبوط، تناور اور سایہ دار درخت تھے او راب یہ سایہ دار درخت خود رحمتِ خداوندی کے سائے میں چھپ گیا ہے، اب کڑی دھوپ ہی دھوپ ہے… اللھم اغفرلہ، وارحمہ، واکرم نزلہ، ووسع مدخلہ، وادخلہ الجنة برحمتک․
        آتی ہی رہے گی(حضرت شیخ) تیرے انفاس کی خوش بو
        گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا
        وانا بفراقک یا استاذی لمحزونون
        فصبر جمیل والله المستعان علی ما تصفون

Flag Counter