Deobandi Books

الفاروق رمضان المبارک 1438ھ

ہ رسالہ

13 - 18
میخائل سرویطیس کیوں آگ میں جلایا گیا؟

خالد محمود، سابق یوئیل کندن
	
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی نے اپنی کتاب ”عیسائیت کیا ہے؟“ میں ایک عنوان: ” وہ جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا ماننے سے انکا رکردیا“ کے تحت قائم کیا ہے، جس میں آپ لکھتے ہیں کہ:
”ان میں سے ایک گروہ تو وہ تھا جس نے اس سوال کے جواب سے مایوس ہو کر یہ کہہ دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا ماننا ہی غلط ہے وہ صرف انسان تھے، اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“

”مسٹر جیمس میک کنن(James Makinon) نے اپنی فاضلانہ کتاب (From Chirst to Constantine) میں ان مفکرین کا تذکرہ کافی تفصیل کے ساتھ کیا ہے، ان کے بیان کے مطابق اس نظیریے کے ابتدائی لیڈر پال آف سموسٹا(Paul of Samosta) اور لوسین(Lucian) تھے، مسٹر میک کنن لکھتے ہیں:
” دونوں کا نظریہ یہ تھا کہ یسوع مسیح ایک مخلوق تھے، البتہ دونوں کے نظیریات میں فرق یہ ہے کہ پال کے نزدیک وہ محض ایک انسان تھے، جن میں خدا کی غیر شخصی عقل نے اپنا مظاہرہ کیا تھا اور لوسین اور اس کے مکتب فکر کے نزدیک وہ ایک آسمانی وجود تھے، جس کو خدا عدم سے وجود میں لایا تھا اور جن میں خدائی عقل اپنی شخصی کیفیت میں آگئی تھی، لہٰذا وہ حلول کے وقت ایک انسانی جسم کا مظاہرہ کرتے تھے، مگر ان کی روح انسانی نہیں تھی، ان کا مشن یہ تھا کہ وہ ”باپ“ کا پیغام پہنچائیں، لیکن نہ تو وہ علی الاطلاق خدا تھے او رنہ قدیم اور جادوانی۔“

گویا پال نے تو سرے سے حلول کے عقیدے ہی کا انکار کر دیا اور یہ کہا کہ حضرت مسیح کے وجود میں خدا کے حلول کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کو خدا کی طرف سے ایک خاص عقل عطا ہوئی تھی اور لوسین نے حلول کے عقیدے کا تو انکار نہیں کیا،اس نے یہ تسلیم کیا کہ خدا کی صفت علم ان میں حلول کر گئی تھی، لیکن یہ حلول ایسا نہ تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا خالق، قدیم اور جادوانی بنا دے، بلکہ اس حلول کے باوجود خدا بدستور خالق رہا اور حضرت مسیح علیہ السلام بدستور مخلوق۔

پال اور لوسین ہی کے نظریات سے متاثرہو کر چوتھی صدی عیسوی میں مشہور مفکر آریوس(Arius) نے اپنے وقت کے کلیسا کے خلاف بڑی زبردست جنگ لڑی اور پوری عیسائی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا، اس کے نظریات کا خلاصہ جیمس میک کنن کے الفاظ میں یہ تھا:
”آریوس اس بات پر زور دیتا تھا کہ صرف خدا ہی قدیم اور جاودانی ہے او را س کا کوئی ساجھی نہیں، اسی نے بیٹے کو پیدا کیا، جب کہ وہ پہلے معدوم تھا، لہٰذا نہ بیٹا جاودانی ہے اور نہ خدا ہمیشہ سے باپ ہے، کیوں کہ ایک ایسا وقت تھا جس میں بیٹا موجود نہیں تھا، بیٹا باپ سے بالکل الگ ایک حقیقت رکھتا ہے او راس پر تغیرات واقع ہو سکتے ہیں، وہ صحیح معنی میں خدا نہیں ہے، البتہ اس میں ” مکمل“ ہونے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ ایک مکمل مخلوق ہے۔ ایک عقل مجسم ،جو ایک حقیقی انسانی جسم میں پائی جاتی ہے، اس طرح اس کے نزدیک مسیح ایک ثانوی خدائی کا حامل ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ نیم دیوتا (Demi-god) جو خدائی او رانسانیت دونوں کی صفات سے کسی قدر حصہ رکھتا ہے، لیکن بلند ترین معنی میں خدا نہیں ہے۔“

گویا اس کی نظر میں حضرت مسیح کی حیثیت یہ تھی کہ:
” بعد از خدا بزرگ توئی قصہٴ مختصر۔“

جس زمانے میں آریوس نے یہ نظریات پیش کیے تھے، اس زمانہ میں خاص طور سے مشرق کے کلیساؤں میں اسے غیر معمولی مقبولیت حاصل ہو گئی تھی، یہاں تک کہ خود اس کا دعویٰ تو یہ تھا کہ تمام مشرقی کلیسا میرے ہم نوا ہیں۔

لیکن اسکندریہ اورانطاکیہ کے مرکزی کلیساؤں پر الیگز ینڈر اوراتہانی شیس وغیرہ کی حکم رانی تھی، جو مسئلے کے کسی ایسے حل کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے، جس سے حضرت مسیح علیہ السلام کی خدائی کو ٹھیس لگتی ہو اور عقیدہ حلول کے ٹھیٹھ مفہوم پر کوئی حرف آتا ہو، چناں چہ جب شاہ قسطنطین نے325ء میں نیقبہ کے مقام پر ایک کونسل منعقد کی تو اس میں آریوسی عقائد کی نہ صرف پر زور تردید کی گئی، بلکہ آریوس کو جلا وطن کر دیا گیا۔

پولسی فرقہ
اس کے بعد پانچویں صدی عیسوی میں پولسی فرقہ (Paulicians) نمو دار ہوا، اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں ایک بین بین رائے ظاہر کی، اس نے کہا کہ حضرت مسح علیہ السلام خدا نہیں تھے، بلکہ فرشتے تھے، انہیں خدا نے دنیا میں بھیجا تھا، تاکہ وہ دنیا کی اصلاح کریں، چناں چہ وہ مریم علیہا السلام کے پیٹ سے ایک انسان کی شکل اختیارکرکے پیدا ہوئے اور چوں کہ خدا نے انہیں اپنا مخصوص جلال عطا کیا تھا ، اس لیے وہ ”خدا کے بیٹے“ کہلائے اس فرقے کے اثرات زیادہ تر ایشائے کو چک اور آرمینیا کے علاقوں میں رہے ہیں، لیکن اس کو قبولِ عام حاصل نہ ہو سکا، کیوں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے فرشتہ ہونے پر کوئی نقلی دلیل موجود نہیں تھی۔

نسطوری فرقہ
پھر پانچویں صدی ہی کے وسط میں نسطوری فرقہ کھڑا ہوا، جس کا لیڈر نسطور یوس (م:451ء) تھا، اس نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک نیا فلسفہ پیش کیا اور وہ یہ کہ عقیدہٴ حلول کی تمام تر مشکلات اس مفروضے کی بنا پر ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ایک شخصیت قرار دے کر ان کے لیے دو حقیقتیں ثابت کی گئی ہیں، ایک انسانی او رایک خدائی۔ نسطوریوس نے کہا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا خدا ہونا بھی بجا او رانسان ہونا بھی برحق، لیکن یہ تسلیم نہیں کہ وہ ”ایک شخصیت“ تھے ، جن میں یہ دنوں حقیقتیں جمع ہو گئی تھیں، حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ذات دو شخصیتوں کی حامل تھی، ایک بیٹا اور ایک مسیح، ایک ابن الله اور ایک ابن آدم علیہ السلام، ”بیٹا“ خالص خدا ہے اور ”مسیح“ خالص انسان۔

رومن کیتھولک چرچ کا فارمولا یہ تھا کہ : ” ایک شخصیت او ردو حقیقتیں“ اس کے برعکس نسطوریوس کا فارمولا یہ تھا کہ” دو شخصتیں اور دو حقیقتیں“ چناں چہ 431ء میں افس کے مقام پر تمام کلیساؤں کی ایک کونسل میں اس کے نظریات کو پر زور طریقے سے مسترد کر دیا گیا او راسی کے نتیجے میں اسے جلا وطنی اور قید کی سزائیں دی گئیں اور اس کے پیروؤں کو بدعتی قرار دیا گیا، تاہم یہ فرق اب تک باقی ہے، اس کے خلاف جو جرم عائد کیا گیا تھا، اس کا خلاصہ ڈاکٹر بیدون بیکر(Baker Bethune) ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
” اس نے ہمارے خدا وند کی خدائی اور انسانی حقیقتوں میں اس قدرامتیاز برتا کہ وہ دو مستقل وجود بن گئے … اس نے کلمة الله کو یسوع سے اورابن الله کو ابن آدم سے الگ شخصیت قرار دے دیا۔“

یعقوبی فرقہ
اس کے بعد چھٹی صدی عیسوی میں یعقوبی فرقہ (Yacobite Church) پیدا ہوا، جس کے اثرات اب تک شام، عراق میں باقی ہیں، ان کا لیڈر یعقوب برذعانی (Jacabus Baradeus) تھا، اس کا نظریہ آریوس اور نسطوریوس دونوں کے بالکل برعکس تھا، نسطوریوس نے حضرت مسیح علیہ السلام نہ صرف یہ کہ ایک شخصیت ہے، بلکہ ان میں ” حقیقت“ بھی صرف ایک پائی جاتی تھی اور وہ تھی خدائی! وہ صرف خدا تھے، گو ہمیں انسان کی شکل میں نظر آتے ہوں، دی ورلڈ فیملی انسائیکلو پیڈیا میں اس فرقے کا نظریہ اس طرح بیان کیا گیا ہے :
”وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسیح میں خدائی او رانسانی حقیقتیں کچھ اس طرح متحد ہو گئی تھیں کہ وہ صرف ایک حقیقت بن گئی تھی۔“

یہ نظریہ یعقوب برذعانی کے علاوہ بعض دوسرے فرقوں نے بھی اپنایا تھا، اس قسم کے فرقوں کو ”مونوفیسی فرقے“ (Monophysites) کہا جاتا ہے او رساتویں صدی عیسوی تک ان فرقوں کا بے حد زور رہا ہے۔

آخری تاویل
مندرجہ بالا بحث سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عقیدہ حلول کی تشریح اوراسے عقل سے قریب لانے کے لیے مختلف عیسائی مفکرین کی طرف سے کیا کوششیں کی گئیں؟ لیکن آپ نے دیکھا کہ ان میں سے ہر کوشش مرکزی رومن کیتھولک چرچ کے عقائد سے انحراف کرکے کی گئی ہے، اس لیے مرکزی کلیسا کے ذمے داروں نے اسے ”بدعت“ قرار دیا، رہا اصل سوا ل کا جواب تو اس کے بارے میں رجعت پسندوں کی طرف سے تو صرف یہ کہا جاتارہا کہ درحقیقت عقیدہٴ حلول بھی ایک سر بستہ راز ہے، جسے ماننا ضروری ہے، مگر سمجھنا ممکن نہیں۔ (دیکھییبرٹانیکا)

لیکن یہ بات کسی سنجیدہ ذہن کو اپیل کرنے والی نہیں تھی، اس لیے آخر دور میں عقیدہٴ حلول کو عقل کے مطابق ثابت کرنے کے لیے ایک اور تاویل کی گئی ،اس تاویل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ٹھیک ٹھیک رومن کیتھولک عقیدے کی پشت پناہی کی گئی ہے او راسے جوں کا توں بر قرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ تاویل اگرچہ بعض قدیم مفکرین نے بھی پیش کی تھی، مگر اسے پروفیسر مارس ریلٹن نے وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
” اس قسم کا حلول( جس کا رومن کیتھولک چرچ قائل ہے) اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ اگر یہ بات یاد رکھی جائے کہ اس کے لیے راہ اسی وقت ہم وار ہو گئی تھی جب پہلے انسان (آدم) کو خدا کے مشابہ بنا کر پیدا کیا گیا تھا اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا کے اندر ہمیشہ سے انسانیت کا ایک عنصر موجو دتھا اور اسی انسانی عنصر کو بنی آدم کے مخلوق ڈھانچے میں نامکمل طور سے منعکس کر دیا گیا تھا، لہٰذا سچی انسانیت خداہی کی انسانیت ہے، یہ اور بات ہے کہ خالص او رمحض انسانیت آدمی میں پائی جاتی ہے، کیوں کہ وہ ایک مخلوق اور نامکمل انسانیت رکھتا ہے، جو کبھی خدائی کا روپ نہیں دھارسکتی، خواہ اس میں کتنے عرصے تک خدائی کیوں نہ مقیم رہی ہو، لہٰذا جب خدا انسان بنا تو اس نے جس انسانیت کامظاہرہ کیا وہ مخلوق انسانیت نہیں تھی، جو ہم میں موجودہے،بلکہ یہ حقیقی انسانیت تھی، جو صرف خدا ہی کے پاس ہے او رجس کے مشابہ بنا کر ہم کو پیدا کیا گیا ہے … آخرکار مطلب یہ نکلتا ہے کہ یسوع مسیح کی انسانیت وہ انسانیت نہیں ہے جسے ہم اپنے وجود میں محسو س کرتے ہیں، بلکہ یہ خدا کی انسانیت تھی جو ہمار ی انسانیت سے اتنی ہی مختلف ہے جتنا خالق مخلوق سے مختلف ہوتا ہے۔“

خلاصہ یہ ہے کہ اس تاویل کی رُو سے اگرچہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ایک شخصیت میں ”خدائی“ اور”انسانیت“ دونوں حقیقتیں جمع تھیں، لیکن انسانیت بھی خدائی انسانیت تھی، آدمی انسانیت نہ تھی، لہٰذا دونوں کے بیک وقت پائے جانے میں کوئی اشکال نہیں ، یہ ہے وہ تاویل جو پروفیسر مارس ریلٹن کے نزدیک سب سے زیادہ معقول، نتیجہ خیز اور اعتراضات سے محفوظ ہے اوراس سے کیتھولک عقیدے پر بھی کوئی حرف نہیں آتا۔ لیکن یہ تاویل بھی کتنا وزن رکھتی ہے ؟ اہل نظر سمجھ سکتے ہیں ۔ ( عیسائیت کیا ہے؟ ص: 34 تا40)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نہ ماننے والوں کی فہرست میں ماضی قریب کے کچھ لوگوں کا نام بھی آتا ہے، جو تھے تو مسیح مذہب کے پیروکار، مگر ان لوگوں نے حقیقت پسندی کے ساتھ نام نہاد عقیدہ تثلیث کی تطہیر کرنی چاہی، مگر مسیحی دنیا کے دانش ور طرطلیان کی کوکھ سے جنم لینے والے عقیدہ تثلیث فی التوحید کے ماننے والوں نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ وہ بھی ملاحظہ کیجیے:
”اٹھارہویں اورانیسویں صدی میں تحریک اصلاح کلیسا کے انتہائی اثر کے طور پر عقلیت (Rationalism )اور تجدید (Modernism) کی تحریکیں بھی شروع ہوئیں، جن کے علم برداروں نے یا تو حضرت عیسی علیہ السلام، بائبل اور عیسائی نظریات کا سرے سے انکار ہی کر دیا اور یا بائبل کے بعض مندرجہ کی جدید تقاضوں کے مطابق تشریح و تعبیر کی کوشش کی، مگر جہاں تک عیسائی عقائد کو پولیست اور اس کے مشابہ نظریات سے پاک کرنے کا سوال ہے، انہوں نے اس سلسلہ میں کوئی خدمت سر انجام نہیں دی۔ البتہ ان ساری تحریکات کے نتیجہ میں او رکچھ آزادانہ سوچ کے طفیل سولہویں صدی سے ایک قلیل گروہ ایسے عیسائی علماء اور عوام کا بھی پیدا ہوا، جنہیں موحدین (Unitarians) کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے مسیح کی خدائی کا انکا رکرکے ان کی انسانی حیثیت پر زور دیا، روح القدس کو بھی خدائی کے تخت سے اتارا اور تثلیث کی بجائے توحید کاپرچار کیا۔ یہی وہ گروہ ہے جس نے عیسائیت کی اصلی بنیادوں کو پہچاننے کی بڑی حد تک کوشش کی ہے اور اس کے لیے قربانیاں دی ہیں۔

توحیدی عیسائیت(Unitarianism) کے ایک اولین داعی میخائل سرویطیس(Michael Servitus) (م:1533) نے اپنے ہم عصر، مارٹن لوتھر کی تحریک اصلاح سے عقائد کی اصلاح کی امیدیں باندھی تھیں، مگر جب وہ پوری نہ ہوئیں تو اس نے اپنے طور پر کوشش شروع کی اور تثلیث کی غلطیاں (The Errors of the Trinity) کے نام سے ایک کتاب لکھ کر عقیدہ تثلیث کا تاروپود بکھیر دیا۔ اس نے مسیح کو واضح طور پر خدا کی بجائے نبی (Prophet) قرار دیا۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ راہ نماؤں نے مل کر اس کا”جواب “ یہ دیا کہ اس کتاب کا ایک نسخہ اس کی کمر کے گرد باندھ کر اسے جلتی ہوئی آگ کے اوپر اونچا کرکے ایک ٹکٹکی سے اس طرح باندھ دیا کہ وہ گھنٹوں جلنے کی اذیت برداشت کرنے کے بعد مر جائے۔

سرویطیس کے نظریات سے متاثر بعض عیسائی علماء، اسلام کے کافی قریب ہو گئے تھے، ان میں سے ایک آدم نیوسر(Adam Neuser) نے اپنے مخالف عیسائی پادریوں کے ہاتھوں موت اور اذیتوں سے بچنے کے لیے سلطان سلیم ثانی سے مذہبی وسیاسی پناہ حاصل کی۔

سولہویں صدی کے آخر میں فرانسیس ڈیوڈ (Francis David) نے بائبل کے ”صاف اور سیدھے سادے دلائل“(Plain and Straingt-forward Scriptural arguments) سے توحید کا پرچار کیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دعا مانگنے او رانہیں پکارنے کی ترید کرتے ہوئے قرآنی حوالے بھی دیے۔

سولہویں صدی کے عیسائی موحدین میں دیگر نمایاں نام میریا سوزینی (Maria Sozini) (م:1526) اور اس کا بھتیجا پاؤلوسزینی یا سوشینس ہیں۔ موخرالذکر کا فکر، توحیدی کہلانے کے علاوہ اس کے نام سے منسوب ہو کر سوشنیت بھی کہلایا۔ اس کے بہت سے حامی اور پیروکار آگ میں جلائے گئے اور دوسری اذیتوں کا شکار ہوئے۔

سترہویں صدی میں جان بڈل(م:1662ء) نے روح القدس کی”خدائی“ کی تردید میں اپنی مشہور کتاب بارہ دلائل لکھی۔ اٹھارویں صدی میں لنڈسے(Indsay) او راس کے حامی اور انیسویں صدی میں چیننگ (Channing) کے پیروکار، عقیدہ تثلیث کے خلاف سر گرم عمل رہے۔ موخرالذ کرنے عقیدہٴ کفارہ کی بھی شدت سے مخالف کی۔ اس نے امریکا میں توحیدی کلیسا قائم کیے، جواب تک موجود ہیں۔ اس کا اعلان تھا کہ:”The Scriptures, when reasonably interpreted, teach the doctrine held by the Unitarians.“

”بائبل کو درست طریقہ سے سمجھااور سمجھایا جائے تو وہ موحدین ہی کی تائید کرے گی ۔“ ( عیسائیت تجزیہ ومطالعہ،ص:114 تا11)

اوپر مذکورہ بالا باتوں کی تائید خود عیسائی دنیا کی مستند کتاب قاموس الکتاب سے بھی ہوتی ہے، جس میں اس بات کا اقرار موجود ہے کہ:
”لفظ تثلیث کتاب مقدس میں موجود نہیں، اصطلاح تثلیث فی التوحید پہلی مرتبہ دوسری صدی عیسوی کے آخری عشرہ میں بزرگ طرطلیان نے استعمال کی اور یہ مسئلہ مسیحی علم الہٰی میں اس شکل میں چوتھی صدی عیسوی میں بیان کیا گیا ۔“ (قاموس الکتاب،ص:233)

قاموس الکتاب کے مذکورہ بالا اقتباس پر اگر ہم کچھ تبصرہ کریں، تو یہ بات یقینی حد تک ممکن ہے کہ مسیحی دنیا اسے قبول نہ کرے، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی مسیحی مصنف آرنلڈمیئر کی کتاب ”یسوع یا پولس“ کے الفاظ نقل کر دیے جائیں، جو حضرت عیسی علیہ السلام سے منسوب عقیدہ تثلیث وکفارہ کا رد کرتے ہیں، آرنلڈ میئر لکھتا ہے:
”اگر ہم عیسائیت کا مطلب مسیح پر ( اس طرح) ایمان سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کا آسمانی بیٹا ہے، جو زمینی انسانوں میں سے نہ تھا، بلکہ خدائی صورت اور شان میں رہتا تھا ( پھر) وہ آسمان سے زمین پر اتر آیا او رانسانی شکل اختیارکی، تاکہ وہ صلیب پر اپنے خون کے ذریعہ لوگوں کے گناہ کا کفارہ ادا کرے، جسے پھر موت سے جگا کر اوپر اٹھایا گیا او رماننے والوں کے خدا وند کے طور پر خدا کے دائیں ہاتھ بٹھایا گیا۔ جواب خود پر ایمان رکھنے والوں کی شفاعت کرتا ہے، ان کی دعائیں سنتا ہے، ان کی حفاظت او رراہ نمائی کرتا ہے ۔ علاوہ بریں اپنے آپ پر یقین کرنے والوں میں سے ہر ایک کے اندر ذائی طور پر رہتا اورکام کرتا ہے، جو دنیا کا انصاف کرنے کے لیے آسمان کے بادلوں کے ساتھ دوبارہ آئے گا، جو خدا کے سب دشمنوں کو گرائے گا، مگر اپنے لوگوں کو اپنے ساتھ آسمانی نور کے گھر لے جائے گا، تاکہ وہ اس کے معظم بدن کی طرح بن جائیں ۔ اگریہ عیسائیت ہے تو ایسی عیسائیت کی بنیاد زیادہ تر مقدس پولس نے رکھی تھی ،نہ کہ ہمارے خدا وند (مسیح) نے ۔“ (Arnold Meyr: jesus of paul?122,123) (عیسائیت تجزیہ ومطالعہ، ص:72)

دعا ہے الله تعالیٰ حق شناسی کے ساتھ مسیحی دنیا کو توحید باری تعالیٰ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ وما توفیقی الا بالله․

Flag Counter