Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1438ھ

ہ رسالہ

8 - 18
حقیقی کام یابی

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم ﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُور﴾․ صدق الله مولانا العنظیم

الله تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّار﴾ او رجو کوئی دور کر دیا گیا جہنم سے﴿وَأُدْخِلَ الْجَنَّة﴾ او رجو کوئی داخل کر دیا گیا جنت میں﴿فَقَدْ فَازَ﴾، پس تحقیق وہ کام یاب ہو گیا﴿وَما الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُور﴾ او رنہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔

جو آدمی جہنم سے دو ر کر دیا گیااور جنت میں داخل کر دیا گیا، اس کے بارے میں الله تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ وہ کام یاب ہو گیا۔ ہمارے ہاں کام یابی کا معیار بدقسمتی سے ہم نے خود مقرر کیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر دنیا کے اسباب دنیا کا سامان، دنیا کی دولت، دنیا کے مکان، دنیا کی چیزیں جتنی زیادہ ہمارے پاس ہوں گی تو ہم کام یاب ہیں۔ او راگر دنیا او راسباب دنیا ہمارے پاس نہیں ہیں تو ہم ناکام ہیں۔ آج لوگوں کو جو ناپا جاتا ہے اور وزن کیا اور تولا جاتا ہے، وہ انھی پیمانوں میں کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ پیمانے ہیں کہ فلاں آدمی بڑا کام یاب ہے، کیوں؟ اس لیے کہ وہ بہت بڑا مال دار اور رئیس ہے۔

اگر ہم غور کریں تو آپ بتائیے کہ یہ تمام کی تمام چیزیں جنہیں ہم نے پیمانہ بنایا ہوا ہے، کیا نمرود کے پاس نہیں تھیں؟ کیا یہ چیزیں فرعون کے پاس نہیں تھیں؟ کیا یہ شدّاد کے پاس نہیں تھیں؟ کیا یہ ہامان کے پاس نہیں تھیں؟ کیا آج دنیا میں جو بڑے بڑے کافر اور مشرک ہیں اُن کے پاس یہ ساری چیزیں نہیں ہیں؟

کیا وہ کام یاب تھے؟ کوئی مسلمان کہہ سکتا ہے کہ نمرود کا م یاب تھا، یا فرعون کا م یاب تھایا شدّاد کام یاب تھا، یا ہامان کام یاب تھا؟ یا آج کے بڑ ے بڑے کافر اور مشرک کا م یاب ہیں؟

سب کے سب ناکام ہیں۔ یہ تمام لوگ جن کا نام میں نے ابھی لیا، کامل درجے کے نا کام ہوئے۔ اس کے برخلاف، و ہ انبیائے کرام علیہم السلام جو اُن کی مخالف سمت میں ہیں، اُن کے پاس بہ ظاہر کچھ بھی نہیں تھا۔

امام الانبیاء، سید الرسل، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم، جن کے بارے میں کہا گیا”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر․“ کہ الله تعالیٰ کے بعد اگر کسی کا مقام او رمرتبہ ہے، تو وہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ہے۔لا إلہ إلا الله کے بعد کیا ہے؟ محمد رسول الله․ کوئی آدمی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، جب تک وہ محمد رسول الله کا اقرار نہ کرے۔ امام الانبیاء،سید الرسل، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے۔

ایک بار صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا، اے الله کے رسول! بھوک ہے او ر اتنی بھوک ہے، اتنی بھوک ہے کہ ہم نے پیٹوں پر پتھر باندھے ہوئے ہیں۔

پیٹ پر پتھر باندھنے سے پیٹ نہیں بھرتا۔ یہ ایک نفسیاتی طریقہ ہے کہ وہ پیٹ جس میں کچھ ہوتا ہے تو پیٹ بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے، اپنے آپ کو سمجھانے کے لیے اس پر پتھر باندھ لیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے پیٹ نہیں بھرتا، لیکن ایک نفسیاتی سہارا ضرور ہوجاتا ہے۔ جب صحابہ کرام رضی الله عنہم نے بھوک کی شدت میں پتھر باندھے اور اپنے کپڑے یا چادر پیٹ سے ہٹا کر وہ پتھر دکھائے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا کپڑا ہٹا کردکھا یا تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیٹ مبارک پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔

سیدہ عائشہ أم المؤمنین رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ دو دو چاند گزر جاتے، یعنی دو دو مہینے گزر جاتے، ہمارے گھر میں کھانے میں کھجور اور پانی ہوتا تھا، اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا۔

عن عائشة أنھا کانت تقول: والله یا ابن اختی إن کنا لننظر إلی الھلال، ثم الھلال، ثم الھلال، ثلاثة أھلة فی شھرین وما أوقد فی ابیات رسول الله صلی الله علیہ وسلم نارٌ، قال: قلت: یا خالة! فما کان یعیشکم؟ قالت: الأسودان التمرو الماء… إلخ․(الجامع الصحیح للمسلم، کتاب الزھد، رقم:7452)

کیا ہم میں سے کوئی آدمی ایسا ہے جس کے گھر میں ایک دن بھی چولھا نہ جلے؟ اور یہ امام الانبیا، سارے انبیا کے امام، سارے رسولوں کے سردار کے گھر کا کیا حال ہے؟ دو دو مہینے چولھا نہیں جلتا تھا۔

یہ طے ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ کام یاب انسان نہ کوئی آیا ہے او رنہ آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کے سب سے کام یاب ہیں․․․ سب سے کامیاب انسان۔

اگر پیسہ نہیں ہے، زمین جائیداد نہیں ہے، مال، دولت نہیں ہے اور نہ صرف یہ کہ نہیں ہے، بلکہ اس کی طلب بھی نہیں ہے۔ یہ قیمتی اصول یاد رکھیے کہ جو انسان دنیا کی طلب میں دوڑے گا، بھاگے گا، دنیا اس سے آگے آگے جائے گی اور یہ اس کے پیچھے پیچھے ہوگا۔ اور جو انسان دنیا سے منھ موڑے گا، الله تعالیٰ اس کو غنائے قلب ، دل کی مال داری اور استغنا عطا فرماتے ہیں۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ایک طرف تو یہ حال ہے جو آپ نے سنا اور دوسری طرف کیا حال ہے؟ دوسری طرف حال یہ ہے کہ مغرب کی اذان ہو گئی، آپ صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ عموماً مغرب کی اذان کے فوری بعد اقامت ہوتی ہے اور نماز ادا کی جاتی ہے۔ لیکن، آپ صلی الله علیہ وسلم جو امام الانبیاء و سیدالرسل ہیں، امامت کے لیے اپنے مصلیٰ پر ہیں اور اقامت کے بعد بجائے نماز شروع کرنے کے آپ صلی الله علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے۔ اقامت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہیں پڑھی۔ سب حیران ہو گئے۔ ہمارے ہاں مغرب کی اذان کے بعد اگر امام صاحب محراب کے دروازے سے نکل جائیں تو سب مقتدی پریشان ہوجائیں گے۔

کچھ دیر بعد آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد صحابہ کرام رضی الله عنہم نے پوچھا، اے الله کے رسول! آج تو ایک نئی بات ہم نے دیکھی۔ ایسے تو پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نماز کی بجائے گھر تشریف لے گئے، حال آنکہ اقامت کے بعد تو نماز ہوتی ہے، آپ ہمیشہ پڑھاتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس وقت یہ خیال آگیا کہ گھر میں ایک دینار ہے اور وہ میری ملکیت میں ہے۔ مجھے یہ خیال آیا کہ میں الله کی بارگاہ میں نماز میں حاضر ہوں او رمیری ملکیت میں دنیا ہو، مجھے یہ گوارا نہیں، میں گھر گیا او رجاکر میں نے اس کو صدقہ کیا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے یہ گوارا نہیں کہ میں الله کی بارگاہ میں حاضر ہوں، الله کے دربار میں حاضر ہوں اور میری ملکیت میں ایک دینار بھی ہو۔ یہ بھی گوارا نہیں ہے۔ اُدھر یہ حال ہے کہ پیٹ پر پتھر ہیں اوراِدھر یہ حال ہے کہ دو مہینے صرف کھجور او رپانی پر گزر رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ کہ ایک دینار بھی اپنی ملکیت میں گوارا نہیں۔

الله تعالیٰ فرمارہے ہیں ﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ ﴾ جوآدمی جہنم سے دور کر دیا گیا﴿وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ﴾ او رجنت میں داخل کر دیا گیا﴿فَقَدْ فَازَ﴾ بے شک، وہ کام یاب ہو گیا۔ آگے بہت اہم آیت ہے، بہت اہم جملہ ہے، ﴿وَما الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُور﴾ او ر نہیں ہے دنیا کا سامان اور دنیا کی زندگی، مگر دھوکے کا سامان۔

آپ اپنے آگے دیکھ لیجیے، اپنے پیچھے دیکھ لیجیے کہ بہت بڑے بڑے، ہمارے آپ کے خاندان والے، مال والے گزرے ہوں گے، لیکن کیا کوئی اپنا مال اپنے ساتھ لے جاسکا؟

چناں چہ سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی آخرت کی تیاری کرے۔ جہنم میں لے جانے والے اسباب سے بچا جائے؛ جہنم سے دور کرنے والے اعمال کو اختیار کیا جائے؛ جنت میں داخل کرنے والے اسباب کو اختیار کیا جائے۔

جہنم سے بچانے والا سب سے بنیادی عمل ”توبہ“ او ر ”استغفار“ ہے۔ ہم سب الحمدلله مسلمان ہیں، الله تعالیٰ نے ایمان اور اسلام کی دولت سے مالا مال فرمایا، لیکن نفس اور شیطان ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے اور وہ نفس ہمیں دنیا اور اسباب دنیا کی طرف کھینچتا ہے۔ اتنی دنیا جس سے انسان گزر بسرکر سکے، اپنی اولاد کے ساتھ راحت سکون کی زندگی گزارے، شریعت نے اس سے منع نہیں فرمایا، لیکن اسی کو اپنا ہدف ،اسی کو اپنا مطمح نظر بنالینا اور اس میں اس طرح سے مشغولیت اختیا رکرنا کہ آدمی الله کے احکامات کو الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو بھلا دے، الله تعالیٰ کے احکامات کو بھی نظر انداز کر دے، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھی نظر انداز کردے، یہ کسی صورت کام یابی کا راستہ نہیں ہے۔ اس لیے میں عرض کررہاہوں کہ توبہ اور استغفار اختیار کی جائے۔

میں یہ بات کئی بار کہہ چکا ہوں کہ دنیا بہت گندی جگہ ہے۔ یہاں صبح شام کے معاملات ہیں کہ کوئی نہ کوئی ناراض ہو جاتا ہے۔ باپ ناراض ہو جاتا ہے،ماں ناراض ہو جاتی ہے، بھائی ناراض ہو جاتا ہے، خاندان کا کوئی فرد ناراض ہو جاتا ہے، قوم یا قبیلے کا آدمی ناراض ہو جاتا ہے، خان اور وڈیرا ناراض ہو جاتا ہے۔ اور ہم اس سے معافی مانگنے کے لیے جاتے ہیں تو وہ کیا کرتا ہے؟وہ جھڑک دیتا ہے کہ دفعہ ہو جاؤ! میری نظروں سے دور ہو جاؤ!

یہ صبح شام کے واقعات ہیں کہ ہم خوشامدیں کرتے ہیں، لیکن سامنے والا معاف نہیں کرتا، ہم جرگے لے کر جاتے ہیں، وفد لے کر جاتے ہیں کہ معاف کر دو، لیکن وہ معاف نہیں کرتا۔ کیا ایسا نہیں ہوتا؟

لیکن اس پوری کائنات کا اکیلا مالک․․․ مالک الملک، مالک ارض وسماء، پوری کائنات کا مالک، جو قادر ہے، جو حئی ہے، جو قیوم ہے، جو جبار ہے، جو قہار ہے، اس کا معاملہ کیا ہے؟ ایک آنسو ندامت کا نکل گیا تو سب گناہ․․․ خواہ سمندر کے جھاگ کے برابر بھی اگر گناہ ہوں، وہ سب معاف کر دیتا ہے۔ حدثنا أنس بن مالک قال: سمعت رسول الله علیہ وسلم یقول: قال الله تبارک وتعالیٰ: یا ابن آدم انک مادعوتنی ورجوتنی غفرت لک علی ماکان فیک ولا أبالی، یا ابن آدم لوبلغت ذنوبک عنان السماء، ثم استغفرتنی غفرت لک ولا أبالی… إلخ․(جامع الترمذی، کتاب الدعوات، رقم الحدیث:3540)

الله تعالیٰ کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی الله تعالیٰ کی طرف ایک قدم چلتا ہے تو الله تعالیٰ اس کی طرف دو قدم چلتے ہیں۔ آدمی الله تعالیٰ کی طرف چل کر جاتا ہے، الله تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتے ہیں۔ قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: یقول الله عزوجل: أنا عند ظن عبدی بی، وأنا معہ حین یذکرنی إن ذکرنی فی نفسہ ذکرتہ، فی نفسی، وإن ذکرنی فی ملاء ذکرتہ فی ملاء خیرٌ منھم، وإن تقرب منی شبرا تقربت إلیہ ذراعا، وإن تقرب إلی ذراعا تقربت منہ باعا، وإن أتانی یمشی أتیتہ ھرولة․“ ( الجامع الصحیح للمسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب الحث علی ذکر الله، رقم الحدیث:6805)

نہ صرف یہ، بلکہ جو آدمی توبہ کرتا ہے، جو آدمی معافی مانگتا ہے ، الله تعالیٰ اس سے بہت زیادہ محبت فرماتے ہیں․․․ بہت زیادہ محبت۔ عن أبی ھریرة قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لله أفرح بتوبة أحدکم من أحدکم بضالتہ إذا وجدھا․( جامع الترمذی، کتاب الدعوات، رقم الحدیث:3538)

جہنم سے بچنے کا راستہ یہ ہے کہ آدمی توبہ کرے، الله تعالیٰ کی طرف رجوع ہو، الله تعالیٰ کی طرف انابت اختیار کرے اور ہروقت الله تعالیٰ سے اپناتار جوڑے۔ جہاں کہیں شیطان پاس آئے تو فوراً اعوذ بالله من الشیطن الرجیم پڑھے، لا حول ولا قوة إلا بالله العظیم ، استغفر الله ربی من کل ذنب وأتوب إلیہ․“

تو یہ ساری تباہی، سارے گند، سارے گناہ، ساری آفات ختم ہو جائیں گی۔ اس لیے ایک اہم کام تو یہ ہے کہ آدمی توبہ اور استغفار کرے۔

دوسرا کام یہ ہے کہ اعمال صالحہ یعنی نیک اعمال اختیار کیے جائیں۔ ہم سب سنتے ہیں، بار بار سنتے ہیں، لیکن ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ استحضار نہیں ہے۔ الله تعالیٰ اپنے بندے کے اعمال صالحہ، ان کی نیکیوں کو پالتے ہیں۔ پھر وہ ایک نیکی کو ایک نہیں رکھتے، بڑھاتے رہتے ہیں۔ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: لا یتصدق أحد بتمرة من کسب طیب إلا أخذھا الله بیمینہ، فیربیھا کما یربی احدکم فلوہ أو قلوصہ، حتی تکون مثل الجبل أو أعظم․(الجامع الصحیح للمسلم، کتاب الزکاة، رقم الحدیث:2343)

آپ حیران ہوں گے کہ ایک دفعہ سبحان الله کہنا اتنا عظیم عمل ہے کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں، جب مسلمان ایک دفعہ سبحان الله کہتا ہے توالله تعالیٰ جنت میں اس کے لیے اتنا بڑا درخت لگاتے ہیں کہ اگر عربی نسل کا گھوڑا سو سال تک دوڑتا رہے تو اس درخت کا سایہ ختم نہیں ہو گا۔

صرف ”سبحان الله“کہنے پر یہ اجر ہے۔ یہی صورت الحمدلله اور الله اکبر میں ہے۔

آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کھیت اور درخت لگاتے ہیں۔ کوئی آم کے درخت لگاتا ہے، کوئی چیکو کے درخت لگاتا ہے، کوئی کیلے کے درخت لگاتا ہے، کوئی سیب کے درخت لگاتا ہے۔ پھر انتظار کرتا ہے کہ چیکو کا درخت ہے، سال بعد وہ پھل دے گا، سیب کا درخت ہے، پانچ سال بعد پھل دے گا۔ اس دنیا میں تو ہم درخت لگاتے ہیں۔ اور وہاں ( آخرت میں) کون درخت لگارہا ہے؟ الله درخت لگا رہا ہے اور وہ بھی جنت میں لگارہے ہیں۔ او راتنا بڑا درخت لگارہے ہیں کہ سو سال عربی نسل کا گھوڑا اس کے سائے میں دوڑتا رہے۔

آپ مجھے بتائیے کہ ایک دفعہ سبحان الله کہنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ ایک دفعہ الحمدلله کہنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ ایک دفعہ الله اکبر کہنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟

اسی طرح، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ”الٓم“ ایک حرف نہیں ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام دوسرا حرف ہے، میم تیسرا حرف ہے۔ ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں، تو ”الٓم“ پرتیس نیکیاں ملیں۔

آپ مجھے بتائیے کہ وہ لوگ کتنے خوش قسمت ہیں جنہوں نے آج فجر کے بعد سورہ یس کی تلاوت کی۔ کیلکولیٹر لے کر بیٹھ جائیں اور اس پیمانے پر کہ ایک حرف پر دس نیکیاں ہیں، سورہ یس کے ایک ایک حرف کو گن کر اسے دس سے ضرب کردیجیے۔ آپ کو پتا چل جائے گا کہ سورہ یس کی تلاوت سے کتنی نیکیاں مل گئیں۔یا جس نے آج سورہ کہف کی تلاوت کی، اسے بھی گن لیجیے تو پتا چل جائے گا کہ اسے کتنی نیکیاں ملیں گی؟

بہت خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے تلاوت قرآن کو اپنا معمول بنایا ہوا ہے کہ،کچھ بھی ہو جائے، ہم اتنی تلاوت ضرور کریں گے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: أحب الأعمال إلی الله ما دیم علیہ․ (کنز العمال، الکتاب الثالث فی الأخلاق، رقم الحدیث:5312)
ترجمہ: الله تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو، ہمیشگی ہو۔

یہ کوئی کمال نہیں کہ آج آپ نے دو سپارے تلاوت کر لیے اور پھر دو مہینے قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا۔ آپ اپنی زندگی کے معمولات کا جائزہ لیں کہ میں طالب علم ہوں، میں دکان دار ہوں، میں تاجر ہوں، میں فلاں ہوں، ہم طے کرلیں کہ میں روزانہ ایک پاؤ تلاوت کروں گا، اس سے زیادہ نہیں، ورنہ میری دکان کا حرج ہو جائے گا، ورنہ میری نوکری کا حرج ہو جائے گا، ورنہ میرے سبق کا حرج ہو جائے گا۔ میں کتنی تلاوت کر سکتا ہوں، ایک پاؤ تو اس کو مضبوطی سے پکڑ لے، پھر اس میں ناغہ نہ ہو۔

ایک سپارہ اگر کوئی درمیانی رفتار سے پڑھے تو بیس منٹ لگتے ہیں۔ آپ مجھے بتائیے کہ ایک پاؤ میں کتنے منٹ لگیں گے؟ صرف، پانچ منٹ!

پانچ منٹ کوئی مشکل کام نہیں۔ آدمی قرآن شریف اٹھائے، اسے چومے، اس کو کھولے، اس کی زیارت کرے، الله تعالیٰ کا کلام ہے، اس کی زیارت پر بھی اجر ہے۔ او رپھر جس نے ایک پاؤ تلاوت کی او رایک حرف پر دس نیکیاں ہیں، تو ایک پاؤ پر کتنی نیکیاں ملیں گی؟الله تعالیٰ فرمارہے ہیں﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ﴾ جو آدمی جہنم سے دور کر دیا گیا﴿وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ﴾ اور جنت میں داخل کر دیا گیا﴿فَقَدْ فَازَ﴾ پس تحقیق وہ کام یاب ہو گیا﴿وَما الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُور﴾ اور نہیں ہے دنیا کی زندگی، مگر دھوکے کا سامان ۔یہ الله کا فرمان ہے اور الله کا فرمان بالکل حق اور سچ ہے۔

لہٰذا، ہم دو کام شروع کردیں۔ اول، توبہ اور استغفار کے ذریعے جہنم سے اپنے آپ کو دور کرسکتے ہیں۔ دوم، اعمال صالحہ کے ذریعے جنت میں داخل ہوسکتے ہیں۔
الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾

Flag Counter