Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1438ھ

ہ رسالہ

1 - 18
کل نفس ذائقة الموت

عبید اللہ خالد
	
میرے ابّا میرے استاد میرے مربیّ اور میرے شیخ بھی رخصت ہوئے۔﴿ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعون﴾

17/ربیع الثانی1438ھ پیرکی رات یہ سانحہ پیش آیا۔ تقریباً چھیانوے برس کی بھرپور علمی، دینی اور روحانی زندگی گزارنے کے بعد حضرت نے فانی دنیا چھوڑ کر لافانی دنیا کی طرف رخت سفر باندھ لیا ۔

حضرت اگرچہ ایک عرصہ سے ضعف و نقاہت میں مبتلاتھے، مگر اپنے عظیم ترین مقصد حیات کے ساتھ وہ آخری دَم تک نہ صرف دارالحدیث میں درس حدیث دیتے رہے بلکہ جامعہ فاروقیہ کے مرکزی دفتر میں تشریف آوری اور وفود سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

وفات سے آخری دو روز قبل پہلے مثانے اور گردے کی شکایت ہوئی اور انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا تو قلب کی شکایت بھی شروع ہو گئی۔ معا لجین کے مشورے سے سی سی یو منتقل کردیا گیا جہاں مستقلاً ماہر معا لجین کی نگرانی میں علاج جاری تھا۔

حضرت کو بہ ظاہر، کوئی بڑا عارضہ نہیں تھا، لیکن سب سے بڑی بیماری تو خود طولِ عمر ہی ہے جو انسان کے اعضا و جوارح کو ضعیف کردیتی ہے۔ جوانی اور کم عمری میں چونکہ انسانی قویٰ کہیں مضبوط اور تواناہوتے ہیں، بہت سے آلام کو جسم سہنے کی سکت رکھتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے عمر میں اضافہ ہوتا ہے․․․ اللہ تعالی کے بنائے ہوئے نظام کے تحت․․․ انسانی جسم کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یوں، اس کی تبدیلیوں کو جھیلنے اور امراض کو سہنے کی سکت کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ تھا۔

یوں تو آج انسان کی اوسط عمر ساٹھ پینسٹھ برس کے قریب ہے، لیکن حضرت چھیانوے برس کی عمر میں بھی جس تن دہی اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتے تھے، وہ کم ہی لوگوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمر کے اس حصے میں اگرچہ ظاہری جسمانی اعتبار سے وہ انتہائی ضعیف تھے، لیکن اپنی روحانی قوت کی بنا پر وہ اس درجہ کے اہم امور سے نمٹ رہے تھے کہ آج کے نوجوان بھی اس کی تاب نہ لاسکیں۔

اپنی روزانہ کی مصروفیات میں نمازاور ذکر اذکار کے علاوہ دارالحدیث میں باقاعدہ حاضری، طلبہ کرام کو درس حدیث، دوپہر بارہ بجے جامعہ فاروقیہ کے مرکزی دفتر میں آمد، زیر تالیف و طبع کتب پر مشاورت، وفاق المدارس کے امور کے مشورے، اہم مواقع پر طویل اور پُرمشقت سفر کرکے جامعہ فاروقیہ مقر ثانی کا دورہ شامل ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر،کبھی صدر وفاق المدارس العربیہ کی حیثیت سے ملک بھر کی جامعات سے آنے والی گزارشات پر اُن کے پروگراموں میں شرکت بھی کرتے تھے۔اور کبھی بطور صدر ،اتحاد تنظیمات مدارس کی مشاورت میں شریک ہوتے۔ جامعہ فاروقیہ کے امور کی مشاورت ہو یا وفاق المدارس اوراتحاد تنظیمات کے امور،کسی بھی موقع پر یہ شرکت رسمی نہ ہوتی بلکہ پوری ذمہ داری کے ساتھ فیصلہ کن درجہ کی ہوتی ۔ اس کے علاوہ گاہے گاہے بیرونِ ملک تبلیغی اور علمی اسفار کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔یوں تو اللہ کی طرف سے ہر شے لکھی ہوئی ہے، تاہم ایسی زندگی ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں بہ مشکل پائی جاتی ہے۔ اللہ کو جو منظور تھا، وہ تو ہونا تھا۔ سوائے اللہ کے، کوئی ایسا نہیں جسے جانا نہ ہو۔ یہی سوچ کر دل کو قرار آتا ہے۔

ایک طویل رفاقت ہے جس کی یادیں دل ودماغ میں گردش کررہی ہیں۔ اُن کی باتیں کانوں میں سرگوشیاں کررہی ہیں۔ ان یادوں اور باتوں کو جمع کرنے کیلیے وقت درکار ہے اور مشقت و توجہ بھی۔ اس لیے محض ضرورت کے تحت یہ چند سطورقلمبند کر دی ہیں، جو خانہ پری ہی کہلائیں گی، کیوں کہ اس عظیم سانحہ پر امت کا جو نقصان ہوا ہے اسکا احاطہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے جس کے لیے چند سطورنہیں،چند صفحے نہیں ، ضخیم جلدیں درکار ہیں۔ ادارہ الفاروق نے فیصلہ کیا کہ جمادی الاولیٰ کا شمارہ فی الوقت حسب معمول حوالہٴ پریس کیا جائے اور پیش بندی کرتے ہوئے اگلے کسی شمارے کو حضرت کی حیات و خدمات کے لیے وقف کیا جائے۔

اس حوالے سے جلد ماہ نامہ ”الفاروق“ میں اعلان کردیا جائے گا۔

Flag Counter