Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1438ھ

ہ رسالہ

13 - 18
ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کون تھا؟کیا تھا؟

مولانا محمد اعجاز مصطفی
	
ڈاکٹر عبدالسلام سکہ بند قادیانی تھا اور ہر قادیانی اپنے آپ کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر کہتا ہے۔ اور یہ بات بھی آپ کے علم میں ہوگی کہ قادیانیوں کی پشت پر ہمیشہ یہودیوں اور سامراج کا ہاتھ رہا ہے، جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ:” میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں۔“ جس طرح ہر یہودی پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن ہے، اسی طرح ہر قادیانی پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن ہے۔ اسی لیے یہودیوں اور قادیانیوں کی نظریاتی مماثلت اور اشتراک کا تجزیہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے 1936ء میں کہا تھا کہ: ”مرزائیت اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہے کہ گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے۔ “ (حرف اقبال، لطیف احمد شیروانی ایم اے،ص:115)

آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر قادیانی مرزا غلام احمد کی جھوٹی نبوت پر ایمان رکھتا ہے اور ان کو خاتم النبیین کہتا ہے، جب کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، جو آدمی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا وہ قرآن وسنت کی رو سے کافر ہے اور وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا، لیکن ڈاکٹر عبدالسلام سمیت تمام قادیانی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، تو کیا ان کو مسلمان سمجھ لیا جائے؟ جب کہ اس عقیدہٴ ختم نبوت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے پنڈت جواہر لال نہرو کے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا:”آپ یہ بات سمجھ ہی نہیں سکتے کہ عقیدہٴ ختم نبوت کی کیا اہمیت ہے اور کسی مدعی نبوت یا اس کے پیروکاروں کو مسلمان تصور کرنے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے“۔اور یہ بھی کہا تھا کہ: ”قادیانی اسلام اور وطن دونوں کے غدار ہیں۔“

محترم! قادیانیوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ فوج، عدلیہ، ایٹمی توانائی کمیشن، میڈیا اور تعلیمی اداروں میں کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کو براجمان کرائیں اور پھر ان حساس اداروں کے ذریعہ اپنے مقاصد کو بروئے کار لائیں،اور وہ اپنی ان کوششوں اور کاوشوں میں ہمیشہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان قادیانی کی عنایتوں سے ترقی کی منازل طے کرتا رہا، پھر ڈاکٹر عبدالسلام نے ایٹمی توانائی کمیشن میں اپنے شاگردوں کی فوج ظفر موج بھرتی کرائی اور وہ جب تک اس ادارے میں رہے، اس ادارہ میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی، بلکہ ہمیشہ وہ حکم رانوں سے جھوٹ بولتے رہے اور پاکستان کے ایٹم بم بنانے میں رکاوٹ بنے رہے۔

قومی اسمبلی نے قادیانیوں کے پیشواؤں کو سننے کے بعد اتفاق رائے سے جب ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو ڈاکٹر عبدالسلام نے اس تاریخی فیصلہ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا:

”جو سلوک مسٹربھٹو نے قادیانیوں سے کیا ہے، اس پر میں یہی دعا کروں گا کہ نہ صرف مسٹربھٹو، بلکہ ان تمام کا بھی بیڑا غرق ہو جو اس فیصلے کے ذمہ دار ہیں۔“(ہفت روزہ بادیان لاہور، ج:7، شمارہ:5،18/مئی1979ء)

1960ء کے لگ بھگ وہ صدر ایوب خان کے سائنسی مشیر بنے اور پھر محترم ذوالفقار علی بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں بھی ان کے مشیر رہے اور جب 7/ ستمبر1974ء کو پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو 10/ستمبر1974ء کو ڈاکٹر عبدالسلام نے وزیر اعظم کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ اس کی وجہ انہوں نے اس طرح بیان کی:

”آپ جانتے ہیں کہ میں اسلام کے احمدیہ (قادیانی) فرقے کا ایک رکن ہوں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کے متعلق جو آئینی ترمیم منظور کی ہے، مجھے اس سے زبردست اختلاف ہے۔ کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ کوئی شخص خالق اور مخلوق کے تعلق میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ میں قومی اسمبلی کے فیصلہ کو ہرگزتسلیم نہیں کرتا، لیکن اب جبکہ یہ فیصلہ ہوچکا ہے اور اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہوچکا ہے تو میرے لیے بہتر یہی ہے کہ اس حکومت سے قطع تعلق کرلوں جس نے ایسا قانون منظور کیا ہے۔ اب میرا ایسے ملک کے ساتھ تعلق واجبی سا ہوگا جہاں میرے فرقہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو۔“

اب آپ ہی بتائیں کہ انہیں پاکستان سے محبت تھی یا اپنے قادیانی گروہ سے؟ اور یہ کہ وہ پاکستان کے لیے کام کررہے تھے یا اپنے عقیدہ کی پرورش اور آقاؤں کی فرماں برداری کے لیے؟ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی واقعی پاکستانی ہے، لیکن اس کی نظر میں خود پاکستان کی کیا عزت و حرمت ہے؟ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے ۔

”مسٹر بھٹو کے دور میں ایک سائنسی کانفرنس ہو رہی تھی، کانفرنس میں شرکت کے لیے ڈاکٹر سلام کو دعوت نامہ بھیجا گیا۔ یہ دعوت نامہ جب ڈاکٹر سلام کے پاس پہنچا توانہوں نے مندرجہ ذیل ریمارکس کے ساتھ اسے وزیراعظم سیکریٹریٹ کو بھیج دیا:

”ترجمہ: میں اس لعنتی ملک پر قدم رکھنا نہیں چاہتا، جب تک آئین میں کی گئی ترمیم واپس نہ لی جائے۔“

مسٹر بھٹو نے جب یہ ریمارکس پڑھے تو غصّے سے ان کا چہرہ سرخ ہوگیا، انہوں نے اشتعال میں آکر اسی وقت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری وقار احمد کو لکھا کہ ڈاکٹر سلام کو فی الفور برطرف کردیا جائے اور بلاتاخیر نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے۔ وقار احمد نے یہ دستاویز ریکارڈ میں فائل کرنے کے بجائے اپنی ذاتی تحویل میں لے لی، تاکہ اس کے آثار مٹ جائیں۔ وقار احمد بھی قادیانی تھے، یہ کس طرح ممکن تھا کہ اتنی اہم دستاویز فائلوں میں محفوظ رہتی؟! (ہفت روزہ ”چٹان“ لاہور شمارہ22 /جون1986ء)کیا ایسا شخص جو پاکستان کے بارے میں ایسے توہین آمیز اور ملعون الفاظ بکتا ہو، اس کا اِعزاز پاکستان اور اہلِ پاکستان کے لیے موجبِ مسرّت اور لائقِ مسرّت ہوسکتا ہے؟

مزید سنیے:ڈاکٹر عبدالقدیر خاں اپنے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر منیر کی سازشوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں:

”․․․․․․․حکومت کے سربراہ سے جھوٹ بولنا بہت غلط کام ہے، مگر ایٹمی توانائی کمیشن کے سابقچیئرمین منیراحمد خان اور اس کے چیلوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ انتہائی ڈھٹائی سے جھوٹ بولا۔ انہوں نے پروگرام بنایا کہ تھوڑا سا دھماکہ خیز مواد لے کرزمین میں دبادیتے ہیں، اس میں کوبالٹ اور زنگ بھی ملادیں گے، پھر اس سے دھماکہ کرکے بھٹو کو بے وقوف بنالیں گے کہ ہم نے ایٹمی دھماکہ کرلیا ہے۔ مجھے پتہ چلا تو میں نے ذوالفقار علی بھٹو کو صاف صاف بتادیا کہ ان سب لوگوں کا یہ پروگرام ہے․․․․․․․ ۔“ (روزنامہ خبریں، لاہور،31/ مئی1998ء ، بحوالہ غدارِ پاکستان،ص:165)

اور یہ منیر احمد خان وہی ہیں جن کو ڈاکٹر عبدالسلام کی سفارش پر رکھا گیااور یہ سترہ سال تک اس عہدہ پر رہے، لیکن کوئی قابل ذکر کارکردگی اپنے شعبہ میں نہیں دکھائی۔ پاکستان کے مشہور صحافی جناب حامد میر صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

”․․․․․․․آج منیر احمد خان ٹیلیویژن پر آکر ایٹم بم کی کام یابی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتا ہے۔اس شخص نے ہمیشہ ایٹمی قوت بننے کے خلاف سازشیں کیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام ایک ثقہ قادیانی تھے اور جنہیں صرف اس لیے نوبل انعام سے نوازا گیا کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ناکام بنانے والے لوگوں کو اٹامک انرجی کمیشن میں بھرتی کیا۔ یہ منیر احمد خان انہیں کے لائے ہوئے سائنس دان تھے جن کی پوری کوشش یہ رہی کہ پاکستان کبھی ایٹمی قوت نہ بن سکے۔“ (ہفت روزہ زندگی لاہور، 28/جون تا 14 جولائی1998ء)

اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ ملتان کانفرنس میں جب بھٹو نے ایٹم بم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا، ان کے سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام نے نہ صرف مخالفت کی، بلکہ اس بات پر بگڑ کر اور ناراض ہوکر لندن چلے گئے اور جناب بھٹو نے اس ڈر سے کہ کہیں وہ سارے راز دشمن کے سامنے اگل ہی نہ دے، ان کے دوستوں کے ذریعہ انہیں راضی کیا اور کہا کہ ملتان کانفرنس ایک سیاسی ڈرامہ تھا، اسی طرح ان کی سفارش پر بھرتی کیے گئے لوگوں نے بھی مخالفت کی، ان میں سے ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عشرت عثمانی اور اس قماش کے دوسرے لوگ تھے۔معروف دانش ور ڈاکٹر وحید عشرت لکھتے ہیں:

”مشہور قادیانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام نے بھی پاکستان دشمنی میں پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کے راز حکومت امریکہ کو پہنچائے، جس پر جنرل ضیاء نے کہا کہ ”اس کتیا کے بچے کو کبھی میرے سامنے نہ لانا، یہ امریکہ ، برطانیہ اور یہودیوں کا گماشتہ ہے اور اسی لیے اسے نوبل انعام دیاگیا۔“ (روزنامہ امت، کراچی، 8/جنوری 1998ء)

کچھ لوگوں نے ان کو نوبل انعام ملنے پر بڑا ہی خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اور اس کو پاکستان کے لیے ایک اعزاز بتلایا ہے، کیا یہ لوگ بتلاسکتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے اس کو پاکستان کا اعزاز کہا ہے؟ اگر ان کا کوئی بیان اس طرح کا ہے تو آپ اسے ریکارڈ پر لائیں، حالاں کہ یہ انعام ڈاکٹر عبدالسلام کو کوئی انقلابی تھیوری پیش کرنے پر نہیں دیا گیا، بلکہ اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی خدمات انجام دینے کے صلہ میں ملا ہے، کیوں کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک ریڈیو انٹرویو میں خود اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ انہوں نے طبعیات میں میکسول اور اس کے ساتھیوں کے انکشافات کو آگے بڑھایا ہے اور اس شعبہ میں کوئی بڑا معرکہ انجام نہیں دیا۔( نوبل پرائز اور ڈاکٹر عبدالسلام ، شفیق مرزا)

باخبر حلقے بتاتے ہیں چوں کہ پاکستان میں قادیانی امت کے غیر مسلم اقلیت قرار پانے سے ملت اسلامیہ میں ان کی نقب لگانے کی پوزیشن بری طرح متاثر ہوچکی تھی اور وہ کسی بھی اسلامی ملک میں امریکی مفادات کے لیے مؤثر طریقے سے کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے تھے، کیوں کہ انہیں ہر جگہ سام راجی گماشتہ اور جاسوس کے طور پر دیکھا جاتا تھا، مگر امریکہ ‘تاجِ برطانیہ کے پرانے وفاداروں کو اس طرح چھوڑنا پسند نہیں کرتا تھا، اس لیے اس نے پہلے یہودی اثرورسوخ سے چلنے والے ممتاز سائنسی اخبارات وجرائد میں ڈاکٹر عبدالسلام کے حق میں مہم چلائی اور بالآخر نوبل پرائز کا تمغہ ان کے سینے پر سجادیا۔ڈاکٹر اسٹیون وائنبرگ نے ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز ملنے پر شدید احتجاج کیا تھا اور اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ:”ڈاکٹر عبدالسلام نے کوئی اہم سائنسی پیش رفت نہیں کی کہ انہیں اس اہم انعام کا مستحق ٹھہرایا جائے، بلکہ انہیں ایک خاص اور اَن دیکھے منصوبے کے تحت ہمارے ساتھ نتھی کیا گیا ہے، جو سخت بددیانتی کے زمرہ میں آتا ہے۔“ (غدار پاکستان، ص:100)

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی ایک انٹرویو میں کہا:”ڈاکٹر عبدالسلام کو ملنے والا نوبل انعام نظریات کی بنیاد پر دیا گیا ہے، وہ 1957ء سے اس کوشش میں تھے کہ انہیں نوبل انعام ملے اور آخر آئن اسٹائن کی صد سالہ وفات پر اس کا مطلوبہ انعام دے دیا گیا۔ دراصل قادیانیوں کا اسرائیل میں باقاعدہ مشن ہے، جو ایک عرصہ سے کام کررہا ہے، یہودی چاہتے تھے کہ آئن اسٹائن کی برسی پر اپنے ہم خیال لوگوں کو خوش کردیا جائے، سو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو بھی اس انعام سے نوازا گیا۔ “ (انٹرویو ڈاکٹر عبدالقدیر، ہفت روزہ چٹان، لاہور 6/ فروری 1984ء)

اس لیے ڈاکٹر عبدالسلام نے ہمیشہ اپنے مذہب قادیانیت کا دفاع کرتے ہوئے اسلام اور پاکستان کی مخالفت کی۔1979ء میں اسٹاک ہوم میں نوبل انعام وصول کرتے وقت اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ:”میں سب سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کا غلام ہوں، پھر مسلمان ہوں اور پھر پاکستانی۔“ (ہفت روزہ زندگی لاہور، 14/ جون 1990ء)

محترم ! یہ وہ سب حقائق ، حالات اور واقعات ہیں جن کی بنا پر آج ہر پاکستانی قادیانیوں کو ملت اور ملک کا غدار، یہودیوں اور امریکیوں کا جاسوس کہتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قادیانی ملک پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے؟ ہر قادیانی ملک کا بیڑہ غرق دیکھنا چاہتا ہے، ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے، پھر بھی ہمارے کچھ ”دانش ور“ انہیں کی ترجمانی اور وکیل صفائی کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، آخر کیوں؟ ڈاکٹر عبدالسلام کی ملک دشمنی کا ایک اور حوالہ پیش کرتا ہوں، ڈاکٹر زاہد ملک لکھتے ہیں:”یہ واقعہ نیاز اے نائک سیکرٹری وزارت خارجہ نے مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کا ذاتی دوست سمجھتے ہوئے سنایا تھا، انہوں نے بتلایا کہ وزیر خارجہ صاحب زادہ یعقوب علی خان نے انہیں یہ واقعہ ان الفاظ میں سنایا:”اپنے ایک امریکی دورے کے دوران اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں، میں بعض اعلیٰ امریکی افسران سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کررہا تھا کہ دوران گفتگو امریکیوں نے حسب معمول پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ذکر شروع کردیا اور دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے اس حوالے سے اپنی پیش رفت فوراً بند نہ کی تو امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستان کی امداد جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ ایک سینئر یہودی افسر نے کہا : ”نہ صرف یہ، بلکہ پاکستان کو اس کے سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ “ جب ان کی گرم سرد باتیں اور دھمکیاں سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ کا یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان ایٹمی توانائی کے حصول کے علاوہ کسی اور قسم کے ایٹمی پروگرام میں دلچسپی رکھتا ہے تو سی آئی اے کے ایک افسر نے، جو اسی اجلاس میں موجود تھا ، کہا کہ آپ ہمارے دعوے کو نہیں جھٹلاسکتے۔ ہمارے پاس آپ کے ایٹمی پروگرام کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں، بلکہ آپ کے اسلامی بم کا ماڈل بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا، دوسرے امریکی افسر بھی اٹھ بیٹھے، میں بھی اٹھ بیٹھا، ہم سب اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ سی آئی اے کا یہ افسر ہمیں دوسرے کمرے میں کیوں لے کر جارہا ہے اور وہاں جاکر یہ کیا کرنے والا ہے؟ اتنے میں ہم سب ایک ملحقہ کمرے میں داخل ہوگئے۔ سی آئی اے کا افسر تیزی سے قدم اٹھارہا تھا۔

ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، کمرے کے آخر میں جاکر اس نے بڑے غصے کے عالم میں اپنے ہاتھ سے ایک پردہ کو سرکایا تو سامنے میز پر کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کا ماڈل رکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف ایک سٹینڈ پر فٹ بال نما کوئی گول سی چیز رکھی ہوئی تھی۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا: ”یہ ہے تمہارا اسلامی بم، اب بولو تم کیا کہتے ہو؟ کیا تم اب بھی اسلامی بم کی موجودگی سے انکار کرتے ہو؟“ میں نے کہا: میں فنی اور تیکنیکی امور سے نابلد ہوں، میں یہ بتانے یا پہچان کرنے سے قاصر ہوں کہ یہ فٹ بال قسم کا گولہ کیا چیز ہے اور کس چیز کا ماڈل ہے؟ لیکن اگر آپ لوگ بضد ہیں کہ یہ اسلامی بم ہے توہوگا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا کہ آپ لوگ تردید نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ آج کی میٹنگ ختم کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر کی طرف نکل گیا اور ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میرا سر چکرا رہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟

جب ہم کاریڈور سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو میں نے غیر ارادی طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا، میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک دوسرے کمرے سے نکل کر اس کمرے میں داخل ہورہے تھے، جس میں بقول سی آئی اے کے، اس کے اسلامی بم کا ماڈل پڑا ہوا تھا، میں نے اپنے دل میں کہا: اچھا تو یہ بات ہے۔“ (ڈاکٹر عبدالقدیر اور اسلامی ایٹم بم، ص:20،21،22)

اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا یہ شعبہ محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام نامی سے منسوب کیا جائے۔

Flag Counter