Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1438ھ

ہ رسالہ

6 - 18
تعمیر شخصیت اورفلاحِ انسانیت
تعلیمات نبوی صلی الله علیہ وسلم کے تناظر میں

محترم محمد صادق خان

اجتماعیت
ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اجتماعیت ہر معاشرے کی ضرورت ہے، ہر فرد کسی نہ کسی درجے میں دوسرے کا محتاج نظر آتا ہے، جب کہ خود پسندی اور خود غرضی اجتماعیت کی دشمن ہے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اجتماعیت پر خاص طور سے زور دیا ہے۔ اسلام نے اپنی اجتماعیت کی شان کو مختلف مواقع پر نمایاں کیا ہے، ایمان کے بعد ارکانِ اسلام میں پہلا درجہ نماز کا ہے، اسلام کے فلسفہٴ اجتماعیت کو سمجھنے کے لیے نماز ایک مثال، آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کوجماعت کے ساتھ ادا کرنے کی نہایت تاکید فرمائی ہے او رجماعت کے ساتھ ادا کی گئی نماز کو تنہا پڑھی جانے والی نماز کے مقابلے میں اجر وثواب کے اعتبار سے ستائیس گنا زیادہ فرمایا ہے۔

المختصر، یہ کہ نماز پنج گانہ کی جماعت کے ساتھ ادائیگی مسلمانوں میں اجتماعیت کو تقویت پہنچاتی ہے، پھر اس میں مزید وسعت پیدا کرنے کے لیے پورے علاقے کے لوگوں کے لیے ہفتہ میں ایک بار جمعہ کی ادائیگی ضروری قرار دی گئی اور اس کو مسجد کے ساتھ مشروط کیا گیا، جب کہ نمازِ جمعہ کے دانستہ ترک پر سخت وعید سنائی گئی ، پھر سال میں دوبار عید کے نام سے جمع ہونے کی تاکید فرمائی گئی، تاکہ ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے والوں کے ساتھ جمع ہو کر اسلام کی اجتماعی شان کو دو بالا کر سکیں۔

ایک اور روایت میں اجتماعیت کی اہمیت کو صراحةً آپ صلی الله علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا: تین صفات ایسی ہیں، جن کے خلاف کسی مسلمان کے دل میں کینہ نہیں ہونا چاہیے۔
1..اخلاص2.. مسلمانوں کی خیر خواہی3.. اجتماعیت پسندی

جس میں یہ تین صفات ہوں گی، اس کی دعا تمام افراد کی خیر خواہی پر مشتمل ہو گی، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام کی اجتماعیت پسندی نماز تک محدود نہیں، بلکہ اس میں امت کو اکٹھا رکھنے اور انتشار وافتراق سے بچانے کے لیے مختلف انداز سے ترغیب دی ہے، چناں چہ ایک روایت میں ہے تم پر جماعت کی پیروی لازم ہے اور شیطان ہر تنہا شخص کے ساتھ ہوتا ہے او ردو افراد سے دور بھاگتا ہے۔ (شعب الایمان:7/488)

نظام زکوٰة
فلاح انسانیت کے لیے دوسرا عنصر نظام زکوٰة ہے۔ نظامِ زکوٰة اسلام کی ان گنت خصوصیات میں سے ایک ہے، اس کی افادیت کئی جہت سے ہے، اس کا ایک پہلو جو سب سے اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اس سے دولت پرستی اور حبِ مال کے موذی مرض کی جڑ کٹ جاتی ہے، جو معاشرے میں اتفاق واتحاد کے لیے سدِّ راہ ہے، اس سے ضرورت مند اور پریشان حال افراد کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ پورا ہوتا ہے، اس سے غربا کے دلوں میں بھی معاشرے کی اہمیت او راجتماعی فوائد کا احساس پیدا ہوتا ہے، فلاح انسانیت کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ ایک بڑا کارنامہ ہے، کیوں کہ اس کے سب سے پہلے داعی آپ صلی الله علیہ وسلم ہی تھے، آپ سے پہلے اس کا کوئی تصور نہ تھا، چناں چہ محسنِ انسانیت صلی الله علیہ وسلم نے مال ودولت کو صحیح مصرف، کامل دیانت داری اور مکمل ذوق وشوق کے ساتھ خرچ کرنے کی نہ صرف مسلمانوں کو ہدایت فرمائی بلکہ اس کے لیے مختلف ترغیبات بھی دیں۔

حضرت مرثد بن عبدالله تابعی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے بعض صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے کہ قیامت کے روز مومن پر اس کے صدقے کا سایہ ہو گا، نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”صدقہ الله کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے۔“ (مسند احمد، ص:233 /ترمذی:2/ص:146)

مساوات واعتدال
فلاحِ انسانیت کا تیسرا عنصر مساوات ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے معاشر ے میں اونچ نیچ ختم کرنے پر بھی زور دیا ہے او رہر معاملے میں مساوات واعتدال کا در س دیا ہے، چناں چہ عبادت وریاضت، کھانے پینے ، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے اور رہنے سہنے سے لے کر لباس ومکان تک آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات اعتدال کا درس دیتے نظر آتے ہیں اوراگر ہر معاملے میں اعتدال ومیانہ روی کو اختیار کر لیا جائے، تو مساوات خود بخود قائم ہو سکتی ہے۔

خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے عملی طور پر اسلامی حکومت کے قیام کے بعد مساوات کا وہ عظیم الشان نمونہ پیش فرمایا کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے آج بھی قاصر ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے مابین لباس کے اعتبار سے بھی کوئی فرق موجود نہ تھا، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی نشست بھی ایسی عام اور کسی امتیاز کے بغیر ہوتی تھی کہ باہر سے آنے والے شخص کو آپ کے بارے میں پوچھنا پڑتا تھا۔ صحابہ کرام نے آپ کے بیٹھنے کے لیے ایک چبوترا بنانا چاہا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو بھی پسند نہ فرمایا۔ یہ ہیں تعلیماتِ نبوی کے تناظر میں تعمیر شخصیت کے وہ ان مول اقدامات، جن کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے قول اور فعل دونوں کے ذریعے دنیا والوں کے سامنے پیش فرمایا۔

فلاحِ عالم
سابق مذکور عنوان فلاحِ انسانیت کے تحت چند ذیلی عناوین مذکور تھے، جن میں ایک فلاحِ عالم بھی ہے، جس کا مختصر خلاصہ یوں ہے۔

اسلام کے پیش نظر پورے عالم کی فلاح ہے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے جو ہدایات جاری فرمائی ہیں، ان کا تعلق اس زمین پر بسنے والے ہر طبقے، ہر مخلوق اور ہر قوم سے ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ صرف زندہ انسانوں کی مختلف حیثیتوں کے مطابق ان کے حقوق کا تعین فرمایا، بلکہ مُردوں او رجانوروں تک کے حقوق کو صراحت ووضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے او ران کو پورا کرنے کی تاکید فرمائی ہے، یہاں ان حقوق کو علیحدہ علیحدہ عنوانات کے تحت مختصراً ذکر کیا جاتا ہے۔

مسلمانوں کے حقوق
ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے پانچ حقوق بیان فرمائے ہیں:
1..سلام کا جواب دینا۔2.. بیمار کی عیادت کرنا۔3.. جنازے کے ساتھ چلنا ۔4.. دعوت قبول کرنا۔5.. چھینک آنے پر یرحمک الله کہہ کر اس کے لیے دعائے رحمت کرنا۔ (بخاری فی الجنائز باب2)

ایک روایت میں مسلمان کے حقوق تفصیلاً بیان فرمائے۔ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے کا بھائی ہے، پس وہ اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے اور جو ثخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے گا، الله تعالیٰ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ (بخاری/ص:2550)

والدین کے حقوق
والدین کے حقوق بیان کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی اولاد اپنے باپ کا بدلہ نہیں چکا سکتی، سوائے اس کے کہ وہ باپ کو کسی شخص کا غلام دیکھے اور اسے آزاد کروائے۔ (ترمذی،ج3/ص:263)

آپ نے والدین کی خدمت کو جہاد فرماکر بھی ان کی خدمت کی ترغیب دی (مسلم شریف،ج2ص:163)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے، ایک بار صحابہٴ کرام سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے سوال کیا کہ کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دوں؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم، آپ نے فرمایا: الله کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ (بخاری،ج5،ص:2229)

ماں کی خدمت کو جنت کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (عجلونی اسماعیل بن محمد)

حضرت عبدالله بن عمرو رضی الله تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص آپ( صلی الله علیہ وسلم)! کے پاس ہجرت پر بیعت کرنے کی غرض سے حاضر ہوا، وہ والدین کو روتا چھو ڑکر آیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا ان کے پاس جاؤ ،ان کو اسی طرح ہنساؤ جیسے ان کو رُلا کر آئے ہو۔ (الادب المفرد)

حقوقِ والدین پربہت ساری روایات اور بھی ہیں۔

اولاد کے حقوق
آپ صلی الله علیہ وسلم نے والدین کے ساتھ اولاد کے حقوق بھی بیان فرمائے، چناں چہ اولاد کے اچھے نام رکھنے کی تاکید کی اور فرمایا: تم لوگوں کو قیامت کے دن تمہارے او رتمہارے آباء کے نام سے بلایا جائے گا، اس لیے اپنے نام اچھے رکھو۔ (ابوداود،ج 4ص:375)

ایک او رحدیث میں فرمایا: جو بندہ دو لڑکیوں کا بار اٹھائے او ران کی پرورش کرے، یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں تو قیامت کے روز وہ شخص اور میں اس طرح ہوں گے۔ حضرت انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو بالکل ملا کر دکھایا۔ (مسلم، ج4ص:199)

عورتوں کے حقوق
اسلام نے عورتوں کے حقوق پر بھی دوسرے تمام نظاموں اور مذاہب سے بڑھ کر زور دیا ہے او راس کی ہر حیثیت کو عزت عطا کی، اہل وعیال پرمہربانی کی ہدایت یوں کی: جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں اور جو اپنے اہل وعیال پر سب سے زیادہ مہربان ہو وہی ایمان میں بھی سب سے زیادہ کامل ہے۔ (ترمذی،ج2،ص:387)

اگر کسی کی دو بیویاں ہوں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان میں عدل وانصاف فرمانے کی سختی کے ساتھ تاکید کی اور اس کی خلاف ورزی پر سخت وعید سنائی ، فرمایا: جس شخص کی دو بیویاں ہوں او ران میں عدل نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا اوپر کا دھڑ جھڑا ہواہو گا۔ اس طرح کی اور بھی روایات حقوق نسواں پر کتبِ حدیث میں موجود ہیں۔

پڑوسیوں کے حقوق
پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله کے نزدیک اچھا دوست وہ ہے ، جو اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا ہو اور اچھا پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا ہو ۔(ترمذی)

پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم نے یوں بھی بیان فرمائی، فرمایا: حضرت جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے ساتھ سلوک کرنے کی ہمیشہ یوں تاکید کرتے رہے، کہ گمان ہوتا تھا پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (مسلم)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کو ایمان کا جز قرار دیا ۔ حضرت ابو شریح رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ( ایک مرتبہ ) آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ والله وہ مومن نہیں! والله وہ مومن نہیں! عرض کیا یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم )!کون مومن نہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔ (بخاری،ج5، ص:2240)

مہمان کے حقوق
میزبان ومہمان کے حقوق بیان کرتے ہوئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے او رجو کوئی الله اور آخرت کے دن پرایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے او رجو کوئی الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ زبان سے اچھی بات نکالے، ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری)

مزدوروں کے حقوق
آپ صلی الله علیہ وسلم نے مزدوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا اوراس بارے میں لوگوں کو احتیاط کی تاکید کی، ان کی مزدوری ادا کرنے کی تلقین یوں فرمائی: مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دیا کرو۔ (بیہقی/کبری:9)

دوسری روایت میں یوں فرمایا: الله تعالیٰ فرماتے ہیں، تین اشخاص سے میں قیامت کے دن جھگڑا کروں گا۔
1…جس نے میرا نام لے کر وعدہ کیا، پھر اس کے خلاف کیا۔2… جس نے آزاد آدمی کو ناجائز طور پر پکڑا اور غلام ظاہر کرکے بیچ دیا اور قیمت کھا گیا۔3 … جس نے کسی کو مزدوری پر لگایا اور کام پورا لیا، مگر مزدوری ادا نہ کی۔ (بخاری،ج2ص:776)

یتیموں کے حقوق
اسی طرح یتیموں کے حقوق کو بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہایت زور دے کر بیان فرمایا: ایک روایت میں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے الله! میں دو کم زوروں کے حقوق کو واجب الاحترام قرار دیتا ہوں، ایک یتیم بچے، دوسرے عورت کے حق کو۔ (ابن ماجہ،ج4،ص:521)

ایک دوسری روایت میں فرمایا میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ نے شہادت اور درمیانی انگلی ملا کر(قرب) بتایا۔ (بخاری،ص:2237)

حاجت مندوں کے حقوق
حاجت مند طبقہ بھی معاشرے کا جز اور حصہ ہوتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے معاشرے کے صاحبِ حیثیت واستطاعت لوگوں پر ان کے حقوق بیان فرمائے ہیں، بے کسوں اور حاجت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کی تاکید کرتے ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے دشمن کے سپرد کرتا ہے، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے، الله اس کی حاجت پوری کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان سے اس کی مصیبت دور کرے گا، الله اس سے قیامت کے مصائب دور فرمائے گا او رجو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، الله اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (مسلم،ج4ص:178)

ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کچھ نہ ہو سکے تو بے کس حاجت مند کی مدد ہی کر دیا کرو۔ (بخاری)

اور فرمایا: بھولے بھٹکے ہوئے او رنابینا کو راستہ بتا دینا بھی صدقہ ہے۔ (بزار،ج9 ص:458)

حیوانوں کے حقوق
آپ صلی الله علیہ وسلم نے حیوانات پر بھی رحم کرنے اور ان کے حقوق کی رعایت رکھنے کا حکم دیا ہے، ایک روایت میں فرمایا: ایک عورت اس لیے جہنم میں ڈال دی گئی کہ اس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی، جسے نہ کھلاتی تھی، نہ آزاد چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالے۔ (مسلم،ج4،ص:196)

ایک مقام پر جانوروں کے آرام کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: جب تم لوگ سرسبزی اور شادابی کے زمانے میں سفر کرو، تو اونٹوں کو زمین کی سر سبزی سے فائدہ پہنچاؤ۔ او رجب قحط کے زمانے میں سفر کرو تو اس کو تیزی کے ساتھ چلاؤ۔ (مسلم)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک با رایسا اونٹ دیکھا، جس کا پیٹ بھوک کی وجہ سے پیٹھ سے لگ گیا تھا تو فرمایا: ان بے زبان جانوروں کے بارے میں خدا سے ڈرو، ان پر سوار ہو تو ان کو اچھی حالت میں رکھ کر سوار ہو اور ان کو کھاؤ ، تو اچھی حالت میں رکھ کر کھاؤ۔ (ابوداؤد)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے جانوروں کے منھ پر مارنے اور ان کو داغ دینے سے بھی ممانعت فرمائی اور ایسا کرنے والے کو ملعون قرار دیا۔ (مسلم،ج3ص:291)

بے جان (مُردوں) کے حقوق
آپ صلی الله علیہ وسلم نے زندہ لوگوں کے ساتھ مُردوں کے بھی حقوق بیان فرمائے ہیں۔ ایک روایت میں حضرت ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ مُردوں کا نیکیوں کے ساتھ ذکر کرو او ران کی برائیوں کے ذکر سے پرہیز کرو۔ (ترمذی)

خلاصہٴ کلام
اوپرذکر کی گئی تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں جامع ترین ہدایت موجود ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے نہ صرف مکمل تعلیمات ارشاد فرمائی ہیں، بلکہ عملی طور پر انہیں رائج کرکے اور ان تعلیمات کی بنیاد پر ایک خالص فلاحی ومثالی معاشرے کی تشکیل کرکے، ان کو قابلِ عمل بھی ثابت کر دیا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہو گیا کہ تعمیرِ شخصیت کا مرحلہ ہو یا فلاح انسانیت کا، ہر معاملے میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں مکمل راہ نمائی موجود ہے اوراگر آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنا لیا جائے، تو دنیا وآخرت دونوں میں کام یابی حاصل ہو جائے گی۔ الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق ارزانی فرمائیں اور سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اپنی زندگیاں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
وصلی الله علی النبی الکریم، آمین!

Flag Counter