Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1438ھ

ہ رسالہ

5 - 18
احادیث احکام پر تالیف کردہ اہم کتب کا تعارف

اور علوم سنت کی حفاظت ونقل کی ذمہ داری اٹھانے میں مختلف خطوں وعلاقوں کو ملنے والے مواقع

عربی تالیف: علامہ زاہد کوثری مصریؒ
اردو ترجمہ: محمد بلال بربری

علامہ کوثری نے اپنے مضمون : ”أحادیث الأحکام وأہم الکتب الموٴلفة فیہا وتناوب الأقطار فی الاضطلاع بأعباء علوم السنة“ میں علمائے ہندوستان، خصوصا علمائے دیوبند کی حدیث کے باب میں خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے،صاحب فن ہونے کی حیثیت سے علامہ کوثری کی شہادت اس باب میں بہت قدر و قیمت رکھتی ہے، ہندوستان کے اہل علم کی خدمات کے اعتراف میں خود پاک و ہند کے علما غفلت برتتے یا بخل کرتے ہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ علامہ کوثری کی اس قابل فخر شہادت کو اردو خوان واردو دان طبقے کی خدمت میں پیش کیا جائے۔زیر نظر ترجمے کے اسلوب میں لفظی ترجمے سے زیادہ مفہوم اور مقصد کو ملحوظ رکھا گیا ہے، اگر کسی کلام میں پائے جانے والے زور وقوت کی ترجمانی اس کلام کے محض الفاظ کے ترجمے سے حاصل نہ ہوتی ہو تو اس کی کمی ترجمے میں کلمات کی زیادتی وکمی کر کے پوری کی گئی ہے۔ترجمے کی ان ضروریات سے وہ حضرات بخوبی واقف ہیں، جنہوں نے از خود کبھی اس کوچے میں قدم رکھا ہو،کسی زبان کا ترجمہ اگر لفظی اور تعبیری پاپندیوں کے ساتھ کیا جائے تو بسا اوقات وہ ترجمہ اتنا بوجھل اور طبیعت پر اتنا گراں گزرتا ہے کہ بسا اوقات قاری استفادے ہی سے محروم رہتا ہے اور ترجمہ کی جانے والی عبارت کے خالق و مصنف کا مقصد ترجمے کی صورت میں ایک پہیلی بن کر رہ جاتا ہے، انگریزی وعربی کتب کے کئی ایک تراجم (اور خاص طور پر کتب فلسفہ کے تراجم)اس کی مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔اس لیے مترجم نے الفاظ وتعبیرات کے تانے بانے سلجھانے کی فکر کرنے کے بجائے عبارت کے مقصود ومفہوم کے نشیب وفراز پر نظر مرکوز رکھی ہے، اس لیے اس تحریر کو ترجمہ نہیں، بلکہ ترجمانی کہنا زیادہ مناسب ہے، مزید یہ کہ مضمون کے متن میں موجود تمام عناوین اور حواشی مترجم کا اضافہ ہیں۔

علم فقہ اوراحادیث وآثار احکام کا باہمی تعلق
جو شخص علم فقہ سے کسی قسم کا شغف و تعلق رکھتا ہو اس کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ احکام ومسائل کے اصول وفروع میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین سے منقول احادیث و آثار کے بارے میں بھی جان کاری رکھتا ہو، تاکہ فقہی مسائل میں اس کا موقف مضبوط شواہد سے موٴید ہو اور منصوص مسائل کے بارے میں قیاس کے اجرا کی غلط کوشش سے بچ سکے، نیز اجماعی طور پر متفقہ مسلک کی بھی مخالفت سے احتراز ممکن ہو سکے۔ کن مسائل میں قیاس کرنا درست ہے اور کن مسائل میں قیاس کرنے کی گنجائش نہیں؟ اسی طرح کون سے موقف سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور کون سا موقف اپنے پس منظر میں موجود اجماع کی قوت کی وجہ سے قابل اختلاف نہیں ہے اور اس میں محض اتباع و تقلید ہی کی جاسکتی ہے؟

یہ واقفیت صرف اس شخص کو حاصل ہوسکتی ہے جو موارد نصوص (یعنی جن احکام ومسائل میں نصوص وارد ہوئی ہیں) اوران کے بارے میں فقہی نکات وتاویلات سمجھتا ہو، اور احکام سے متعلق سلف فقہا سے منقول آثار کی خوب جانچ پڑتال کر رکھی ہو ایسا شخص ہی اپنے آپ کو موارد نصوص میں قیاس کرنے سے بچا سکتا ہے، ایسا ہی شخص اپنے آپ کو امت کی منقول اجماعی آرا سے اختلاف کرنے سے بچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اس امت کے اہل علم وفہم اور راہ نمایان ملت کی یہ عام روش پائیں گے کہ وہ ہر زمانے میں خوب محنت وکوشش کر کے فقہی احکام کے دلائل کو جمع کرتے اور احادیث وآثار کے قبول و رد میں اپنے اذواق ومواقف اور نصوص وآثار کے فہم میں اپنی سطح کے مطابق ان دلائل کے متن و سند ودلالت پر کلام کرتے چلے آرہے ہیں۔

علوم سنت کی حفاظت کے باب میں مختلف خطوں خصوصاملک مصر کے اہل علم کی زریں خدمات
صدیوں سے مسلمانوں کے مختلف علاقے اور خطے علوم سنت کی اس عظیم خدمت کے بیڑے کو باری باری اٹھاتے رہے ہیں،اگر کسی ایک جانب اس خدمت کے بارے میں کوتاہی ہوتی تو دوسری جانب اس موقع پر اپنی ذمہ داری نبھا لیتے اور یوں سلسلہ چلا آرہا ہے۔علوم شرعیہ،عقلیہ اور ادبیہ تینوں شعبہ ہائے علوم اور خصوصا علوم سنت وفقہ کی خدمت کا جن علاقوں کو سب سے بڑھ کر موقع ملا وہ بجا طور پر ملک عراق کے مختلف خطے ہیں، یہ خطے سلطنت عباسیہ کے ابتدائے زمانہ عروج سے زوال تک ان علوم کے خدمت گاروں سے بھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور جو کچھ ان خطوں کے اہل علم نے اپنے پیچھے علم کے ذخائر چھوڑے ہیں وہ اس دعوے کے سچے گواہ ہیں۔

سلطنت عباسیہ کے بعد ان علوم کی خدمت کی قسمت ملک مصر کے وسیع اطراف واکناف کے باسیوں میں آئی، جنہوں نے سلطنت بحریہ اور سلطنت برجیہکے زمانے میں اس عظیم خدمت کا بیڑہ اٹھایا، البتہ مغربی ممالک کے اہل علم کی ہرزمانے میں پیش کی گئی خدمات کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سلطنت بحریہ اور سلطنت برجیہ کے زمانے کے اب تک باقی رہنے والے آثار اور وہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے جنہیں ان سلطنتوں کے بادشاہوں اور امرا نے قائم کیا تھا ہمارے سامنے اس قابل تعریف ماضی کا اعلان کر رہے ہیں اور علم کی راہ میں جو کچھ قیمتی خدمات اور بھلائیاں ان سلطنتوں کے اہل علم کی رہین منت ہیں، ان خدمات اور بھلائیوں کا مشاہدہ ہم تاریخ میں مستقل دیکھ رہے ہیں، نیز ان علاقوں کے بادشاہ اور امرا بھی اہل علم وفن کے ساتھ ان علوم کی خدمات میں شریک رہے ہیں اور اس باب میں ان کا بھی خوب حصہ رہا ہے۔

ظاہر برقوق کو لے لیجیے،امام اکمل الدین بابرتی سے علم فقہ حاصل کرتے ہیں، صحیحین کی روایت میں محدثین کے ساتھ شریک رہتے ہیں، ابن ابی المجد ایسے کبار ارباب سند کو دور دراز علاقے سے بلواتے ہیں، تاکہ مصر میں موجود علم حدیث کے طلبا ان عالی اسناد کے حامل بزرگوں سے سماع حدیث کریں، فرمانرواسلطان موٴید بھی ایسا ہی کرتے ہیں، خود سراج بلقینی کی سند سے صحیح کی روایت کرتے ہیں، بلکہ امام ابن حجرتک انہی موٴید سے سماع کرتے ہیں اور اپنی کتاب”المعجم المفہرس“ میں موٴید کو اپنے شیوخ میں شمار کرتے ہیں۔سلطان موٴید، علامہ شمس الدین دیری کو، جنہوں نے ”المسائل الشریفة فی أدلة مذہب الامام أبی حنیفة“ لکھی ہے، مصر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔اسی طرح ظاہر جقمق کو آپ دیکھیں، ابن الجزری سے صحیح کا سماع کرتے ہیں اور دو دراز خطوں سے عالی سند کے حامل بزرگوں کو مصر لاتے ہیں، تاکہ مصر میں علم حدیث کے طلبا صحاح اور مسانید سے سنت کی روایت میں ان عالی اسناد سے استفادہ کریں،قلعہ مصریہ کو ان علما کی اجتماع گاہ بنادیتے ہیں اور وہاں طلبا کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ان عالی اسناد کے حامل محدثین سے ان کتب کا سماع اور ان سے استفادہ کریں ،جس سے ان علما کی عزت افزائی اور پذیرائی بھی ہوتی ہے اور علم کی شان وشوکت بھی بلند ہوتی ہے۔

ملک مصر سے روحِ علم کی منتقلی اور برصغیر ہندوستان کی علمی عظمت : چند تاریخی نقوش
بادشاہوں اور امراے سلطنت کی ان توجہات اور کاوشوں کی وجہ سے مصر ساتویں، آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں حدیث، فقہ اور ادب کا مرکز بنا رہا، ان روشن صدیوں کی روئیداد بیان کرتے ہوئے کتب تاریخ ان اکابر اہل علم کے تذکرے سے بھرپور ہیں جنہیں مصر نے پیدا کیا، جن کی تالیفی کاوشیں کئی ایک فن وعلم کے ذخائر میں محفوظ ہیں اور جو صرف مصر ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے لیے قابل فخر شخصیات شمار کی جانے کی مستحق ہیں،مزید یہ کہ ان مصری علما کے علمی آثار، جو علمی خزانے کا قیمتی حصہ ہیں، ملک مصر کے لیے ایک دائمی عزت و عظمت کا سامان مہیا کرتے ہیں، علم حدیث، علم فقہ اور علم تاریخ میں ان علما کی تحریر کردہ کتب کا شمار بھی بس سے باہر ہے۔

مصر میں بیان کردہ علمی ترقی کا دور دسویں صدی عیسوی کے ابتدائی زمانے تک برقرار رہا ، اسی صدی کی ابتدا میں مصر کی سلطنت برجیہ کے خاتمے کے ساتھ مصر میں پائی جانے والی علمی روح کمزوری وناتوانی کا شکار ہوگئی، بلکہ مصر میں علم کے مضبوط ستون ہل کر رہ گئے، چناں چہ اس علمی روح نے مصری علاقے سے دنیا کے دوسرے علاقوں کی طرف رخت سفر باندھ لیا، جیسا کہ اللہ تعالی کی اپنی مخلوقات کے بارے میں یہ سنت رہی ہے، آپ مصر کے دسویں صدی کے اوائل کے اہل علم کا موازنہ پچھلی تین صدیوں کے اہل علم سے کریں گے تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اس دور میں مصر کس قدر علمی انحطاط کا شکار ہوگیا تھا۔

یہ علمی روح دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیل گئی،بر صغیر ہند وستان کے علاقوں کودسویں صدی کے وسط سے اس علمی میراث میں سے جو حصہ ملاوہ علوم حدیث تھا، علوم عقلیہ اور ٹھیٹھ علم فقہ کے ساتھ ایک عرصے تک اشتغال کے بعد اب ہندوستان کے علما علوم حدیث کی طرف مکمل طور پر متوجہ ہوئے، جس زمانے میں عالم اسلام کے دیگر علاقوں میں علم حدیث کے متعلق جمود کی کیفیت طاری تھی، اگر عین اس زمانے میں ہم علماے ہندوستان کی طرف سے علوم حدیث کے لیے ان کی پیش کردہ خدمات کا جائزہ لیں تو بجا طور پر واضح ہو گا کہ یہ کوششیں شکریے اور ان علما کی خوب خوب قدر دانی کی مستحق ہیں، ان علما کی کتب اصول ستہ اور دیگر کتب حدیث پر کئی ایک مفید شروح اور نفع بخش حواشی موجود ہیں! احادیث احکام کے بارے میں کتنی تفصیلی کتب ان علما کی تحریر کردہ ہیں! فن نقد رجال، فن علل الحدیث، آثار وروایات کی شرح اورمختلف موضوعات پر لکھی تحریرات کے بارے میں ان کے کتنے پاکیزہ احسانات ہیں!! اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اہل حق کے مسالک کی خدمت میں ان کی کاوشوں کو دوام بخشے، جن عمدہ خدمات کی توفیق ان علمائے ہندوستان کو ملی ہے، اللہ تعالی انہیں ایسی ہی مزید خدمات کی توفیق دیتا رہے، اور اللہ تعالی اس علمی خدمت کا جذبہ عالم اسلام کے تمام گوشوں میں دوبارہ جگادے۔

احادیث احکام کے موضوع پر چند اہم کتب: مختصر تعارف
احادیث احکام کے موضوع پر کتب صحاح ، سنن اور مسانید کے علاوہ بھی متقدمین اہل علم کی تحریر کردہ عمدہ کتب میں سے چند یہ ہیں:

٭ … مصنف ابن أبی شیبة
٭… امام طحاوی کی جملہ کتب، خصوصا ”شرح معانی الآثار“
٭… ابن المنذر کی جملہ کتب خصوصا ”الاشراف“
٭… مختصر طحاوی پر امام جصاص کی شروح
٭… مختصر الکرخی
٭… الجامع الکبیر
٭… ابن عبد البر کی جملہ کتب، جیسے ”التمہید“ ، ”الاستذکار“
٭… عبد الحق کی کتب احکام
٭… ابو الحسن بن قطان کی ”الوہم والایہام“
٭… امام بیہقی کی کتب
٭… امام نووی کی کتب
٭… امام ابن دقیق العید کی کتب: ”الامام“، ”الالمام“،”شرح العمدة“
٭… ابو محمد منبجی کی ”اللباب فی الجمع بین السنة والکتاب“
٭… قطب الدین حلبی کی ”الاہتمام بتلخیص الالمام“، قطب الدین حلبی نے اس کتاب میں ابن دقیق العید سے جو ”الالمام “میں تخریج احادیث کے باب میں تسامحات ہوئے ہیں، ان کی تصحیح کی ہے۔
٭… امام ابن جوزی کی ”تحقیق“
٭… مجد بن تیمیہ کی ”المنتقی“
٭… ابن عبد الہادی کی ”تنقیح “
٭… اسی طرح تخریج کی جملہ کتب، جن میں سب سے زیادہ مفید اور تفصیلی کتاب جمال زیلعی کی ”نصب الرایة“ ہے۔
٭… جمال الملطی کی ”المعتصر“
٭… امام ابن حجر کی کتب خصوصا ”فتح الباری“، ”التلخیص الحبیر“
٭… امام بدر الدین عینی کی کتب خصوصا ”عمدة القاری“، ”شرح معانی الآثار“، ”شرح الہدایة“
٭… علامہ قاسم کی کتب خصوصا ”تخریج أحادیث الاختیار“

اس کے علاوہ بھی کئی ایک کتب ہیں جو دسویں صدی کے اوائل تک لکھی گئی ہیں۔

علم حدیث سے متعلق ہندوستان کے اہل علم کی قابل قدر تالیفی کاوشیں
اس کے بعد ہمارے اہل سنت ہندوستانی بھائیوں کی باری آتی ہے، پچھلی صدی میں ان علماے ہندوستان کی علم حدیث سے متعلق خدمات شکریے وتعریف سے بالاتر ہے کتب اصول ستہ پر ان علما کی تالیف کردہ شروحات احادیث احکام کے ذخیرے سے بھرپور ہیں، ذرا دیکھیے:
٭… ”فتح الملہم فی شرح صحیح مسلم “
٭… ”بذل المجہود فی شرح سنن أبی داوٴد“
٭… ”العرف الشذی فی شرح سنن الترمذی“

ان کے علاوہ بھی بے شمار کتب ہیں، جن میں اختلافی مسائل کے بارے میں شفا بخش گفتگو کی گئی ہے، کچھ ہندوستانی علما نے خاص احادیث احکام پر ایک نئے اور دل کش اسلوب بیان کے ساتھ کتب تالیف کی ہیں، جس میں انہوں نے احادیث احکام کو ان کے جملہ مآخذ ومصادر سے خوب چھان بین کے بعد اکھٹا کیا ہے اور ان تمام احادیث کو ایک جگہ مختلف ابواب بنا کر ہر باب کے تحت متعلقہ موضوع کی تمام احادیث ذکر کی ہیں، پھر ہر ہر حدیث پر جرح وتعدیل اور تائید و تضعیف کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔

علامہ محدث مولانا ظہیر حسن نیموی کو لے لیجیے، انہوں نے اپنی کتاب”آثار السنن“ دو حصوں میں تالیف کی، اس تالیف میں انہوں نے فقہا کے فقہی اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے طہارت اورنماز سے متعلق احادیث جمع کیں، ہر ہر حدیث پر محدثین کے طرز و انداز کے مطابق جرح وتعدیل سے متعلق کلام کیا اور واقعی بہت ہی عمدہ کام کیا! ان کا ارادہ تھا کہ وہ اسی انداز پر تمام فقہی ابواب کو مرتب کردیں، تاہم موت ان کی تمنا کے آڑے آگئی، اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔یہ کتاب ہندوستان میں حجری طباعت کے ساتھ چھپی اور اہل علم چھپتے ہی اس کتاب پر ایسے گرے کہ اس کا ایک نسخہ بھی حاصل کرنا اب مشکل ہے، ہاں! اگر دوبارہ یہ کتاب طبع ہو جائے تو مل سکتی ہے۔

اسی طرح اسی ڈھب کے کام کی طرف یکتائے زمان علامہ اور اپنی نظیر آپ، صاحب علم و فضل، ہندوستان کے شیخ المشائخ، محدث کبیر اور ماہر نقاد، مولانا حکیم الامت محمد اشرف علی تھانوی نے بھی توجہ فرمائی، آپ کثیر التالیف شخصیت تھے، چھوٹی بڑی تقریبا پانچ سو کے لگ بھگ کتب تالیف کیں، اللہ آپ کو لمبی عمر عطا فرمائے ، آپ نے اس موضوع پر ”احیاء السنن“ اور ”جامع الآثار “ تالیف فرمائی ہیں، ان دونوں کتابوں کے عظیم موٴلف کے نام کے بعد ان کتابوں کی مزید توصیف وتعریف کی ضرورت ہی نہیں، یہ دونوں کتابیں بھی ہندوستان ہی میں چھپی ہیں، لیکن چوں کہ اس عالم ربانی کی موٴلفات کو حاصل کرنے کے خواہش مند اتنے زیادہ ہیں کہ موٴلف کی دیگر کتب کی طرح ان مذکورہ کتب کے نسخے بھی چھپتے ہی ختم ہوگئے۔اس وقت موٴلف محترم کی عمر تقریبا نوے برس ہے، آپ ہندوستان کے لیے باعث برکت شخصیت ہیں اور ہندوستان کے علما کے ہاں آپ کی بڑی قدر ومرتبت ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کو ہندوستان کے علما نے ”حکیم الامت“ کا لقب دے رکھا ہے۔

کتاب ”اعلاء السنن “کی قدروقیمت اور اہمیت
اس جلیل القدر عالم نے علوم حدیث کی تحصیل کرنے والے اپنے شاگرد اور بھانجے محدث نقاد اور فقیہ مولانا ظفر احمد تھانوی ، اللہ ان کے کارناموں کو اور زیادہ کرے، کو حکم دیا کہ وہ فقہی ابواب کی ترتیب پر فقہی مسائل کے دلائل سے متعلق احادیث ِاحکام ان مآخذ سے اچھی طرح جمع کریں جن مآخذ تک عموما رسائی مشکل ہوتی ہے، ساتھ ہی ہر حدیث پر صفحے کے حواشی میں صناعت حدیث (یعنی احادیث کی تقویت وتضعیف، فقہا کے اختلاف کی روشنی میں احادیث کا قبول و ردکے تقاضوں کے موافق کلام کریں، چناں چہ اس غیور عالم نے اس اہم اور مشکل کام کو انجام دینے کا بیڑا اٹھا لیا، بیس برس تک مسلسل اس خدمت میں پوری تن دہی سے مشغول رہے،یہاں تک کہ نہایت ہی عمدگی سے اس کام کو عمدہ انداز کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور اللہ سبحانہ وتعالی کی توفیق سے یہ علمی کام”آثار السنن “کی تقطیع کے مطابق بیس جلدوں میں مکمل ہوا، اس کتاب کا نام انہوں نے ”اعلاء السنن “ رکھا اور ایک جلد میں صرف اصول حدیث کے موضوع سے متعلق مسائل کو ”اعلاء السنن“ کے ایک بہترین مقدمے کی صورت میں مرتب کیا، یہ مقدمہ اپنے موضوع پرانتہائی مفید ہے۔

حق بات کہہ ڈالنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے، چناں چہ میں تو اس کتاب کے انداز و اسلوب سے دہشت زدہ رہ گیا، جس انداز سے اس کتاب میں احادیث کو اچھی طرح جمع کیا گیاہے اور پھر ہر حدیث پر صناعت حدیث کے مطابق سند اورمتن کے حوالے سے خوب تفصیلی گفتگو کی گئی ہے اور اس گفتگو میں کسی قسم کے تکلف وتصنع کے اثرات بھی ظاہر نہیں ہیں، بلکہ ہر موقع پر مصنف نے انصاف کو اپنا راہ نما بنا رکھا ہے، اس اسلوب سے مجھے بے حد خوشی اور خوب رشک ہوا۔رجال کار کی ہمت وعزیمت اور مردان میدان کا صبر واستقلال ایسا ہی ہوتا ہے، اللہ تعالی خیر وعافیت کے ساتھ ان کی عمر لمبی کرے، اور انہیں مزید ایسی نفع بخش تالیفات لکھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔مصنف اس کتاب کی دس جلدیں حجری طباعت کے ساتھ چھپوا چکے ہیں اور ان پہلی جلدوں کے نسخے ختم بھی ہو چکے ہیں، بقیہ جلدوں کی طباعت بہت آہستہ رفتار سے چھپ رہی ہیں، کاش کہ مصر کے بڑے چھاپ خانوں کے کچھ لوگ مذکورہ کتاب کو موٴلف سے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور خوب صورت مصری خط وکتابت کے ساتھ اس کتاب کو اول سے آخر تک چھاپ ڈالیں!! جو بھی یہ کام کرے گاوہ علم دین کی قابل قدر خدمت انجام دے گا اور اس موضوع سے متعلق پائے جانے والا علمی خلا بھرنے کا سبب بنے گا۔

ہندوستان ہی کے ان مشہور علما میں سے، جنہوں نے احادیث احکام کو خصوصیت سے اپنی توجہ کا مرکز بنایا، علامہ محدث شیخ مفتی حسن شاہ جہاں پوری بھی ہیں، اللہ ان کی حفاظت فرمائے، آپ نے امام محمد بن حسن شیبانی کی کتاب ”الآثار “ کی دو جلدوں میں شرح تحریر کی، اللہ تعالی ان جیسے مزید اصحاب علم اور رجال کار پیدا فرمائے۔

یہ ان بھائیوں کی علمی یادگاروں کی ایک مختصر سرگزشت ہے، آگے بڑھنے اور او روں پر سبقت لے جانے کی خواہش رکھنے والوں کو ایسے ہی علمی میدانوں میں آگے بڑھنے اور سبقت حاصل کرنے کی کوشش اور فکر کرنی چاہیے !!

Flag Counter